برطانوی وزیراعظم کا اعتراف ؛ معذور بیٹے نے مجھے جینا سکھا دیا

ع محمود  اتوار 18 اکتوبر 2015
کھلنڈرے اور بے پروا انسان سے ایک ذمے دار اور سنجیدہ باپ بننے کا سبق آموز قصّہ ۔  فوٹو : فائل

کھلنڈرے اور بے پروا انسان سے ایک ذمے دار اور سنجیدہ باپ بننے کا سبق آموز قصّہ ۔ فوٹو : فائل

برطانیہ کے موجودہ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون جب پیدا ہوئے تو انھیں سونے کے چمچ سے نوالے کھلائے گئے ۔ والد حصص کا کاروبار کرتے اور خوب کماتے تھے۔

والدہ نواب زادی تھیں۔ سب سے چھوٹی اولاد ہونے کے ناتے وہ گھر بھر کے لاڈلے تھے اور ان کی کوئی فرمائش رد نہ کی جاتی۔آرام و آسائش کی زندگی نے ڈیوڈ کو من موجی اور بے پروا انسان بنا دیا۔ لہٰذا اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم پاتے ہوئے دوست احباب کے ساتھ رنگ رلیاں بھی منائیں۔ یوں مخصوص مغربی نقطہ نظر کے مطابق ایک بار ملی زندگی سے خوب لطف اٹھایا۔ کلبوں کی مخلوط محفلوں میں شرکت معمول تھا۔

اس طرح کھیلتے کھلاتے ڈیوڈ نے 1988ء میں ایم اے سیاسیات کرلیا۔ وہ پھر برطانوی سیاسی جماعت، کنزرویٹو پارٹی سے وابستہ ہوگئے۔ ذہین اور محنتی تھے، اس لیے ترقی کی منازل طے کرنے لگے۔ مادہ پرستی کی طرف مائل تھے لہٰذا پیسے کو زندگی سمجھ بیٹھے اور اسے زیادہ سے زیادہ پانے کی جدوجہد میں لگ گئے۔

سیاست میں اپنا قدوقامت بلند کرنے کی خاطر ڈیوڈ نے جون 1996ء میں ایک خوبصورت نواب زادی، سمنتھا گیون ڈولین سے شادی کرلی۔یوں زندگی نے نیا مگر حسین رخ اختیار کرلیا۔ نوبیاہتا جوڑا آسائشوں سے پُر زندگی ہنستے کھیلتے گزارنے لگا۔ دکھ، مصیبت، ڈپریشن اور غم… وہ ان انسانی جذبات سے تقریباً ناواقف تھے۔

پھر ان کی مسّرت بھری زندگیوں میں ایک المناک انقلاب آگیا۔2001ء میں سمنتھا حاملہ ہوئی، تو جوڑے کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ وہ ماں باپ بننے کی مسّرتیں اور خوشیاں پانے کے لیے بے تاب تھے۔

آخر اپریل 2002ء میں ان کے ہاں پہلے بیٹے، آئیون ریچینالڈ نے جنم لیا۔ وہ گول مٹول اور سرخ و سفید بچہ پہلی نظر میں سب کو بھا جاتا اور بے اختیار جی چاہتا کہ اس کے گال چوم لیں۔مادرانہ و پدرانہ جذبات سے آشنا ہوکر ڈیوڈ اور سمنتھا کو نیا تجربہ، نیا احساس ملا۔ وہ ان لافانی جذبوں کی نرم و ملائم پھوار میں بھیگ کر مست الست ہوگئے۔ مگر خوشیوں کا یہ موسم زیادہ عرصہ سایہ فگن نہ رہا اور اچانک ان کے چاروں طرف تاریکی چھاگئی۔

دو ماہ بعد سمنتھا نے دیکھا کہ آئیون دن میں چند بار دفعۃً لرزنے لگتا ۔ پھر دودھ پینے میں بھی مشکل محسوس کرنے لگا۔ تب متوحش ماں باپ لاڈلے بیٹے کو ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ٹیسٹ ہوئے تو پتا چلا کہ آئیون ایک انتہائی نایاب مرض، اوتھارا  (Ohtahara Syndrome) میں مبتلا ہے۔ یہ مرض دو ناقابل علاج بیماریوں … دماغی فالج (Cerebral Palsy) اور مرگی کا مجموعہ ہے۔

یہ جان کر ڈیوڈ اور سمنتھا پر بجلی گر پڑی کہ ان کا بیٹا معذور ہے۔ اوتھارا کا شکار بچہ بیٹھنے، بولنے، دیکھنے، نگلنے اور محسوس کرنے میں دشواری محسوس کرتا ہے۔

نیز اس پر روزانہ چند بار مرگی کے دورے پڑتے ہیں۔ ایسے معذور بچے کو چوبیس گھنٹے نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ کوئی اس کی تمام ضروریات پوری کرکے اسے زندہ رکھے۔غرض عام بچے جو کام آسانی سے کر لیتے ہیں،اوتھارا اجتماع علامات میں مبتلا بچہ انھیں انجام نہیں دے پاتا۔

جیسا کہ بتایا گیا، تب تک ڈیوڈ کیمرون نے غم و دکھ کم ہی پایا تھا۔ درحقیقت بہترین ملازمت، اچھی صحت، خوبصورت بیوی، اور تمام آسائشوں کی موجودگی میں ان کی زندگی میں کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ مگر آئیون کی آمد نے سب کچھ تہہ و بالا کر ڈالا۔معذور بیٹے کی پیدائش نے ماں باپ کو جذباتی، جسمانی، پیشہ ورانہ اور مالی لحاظ سے ہلا ڈالا۔ ڈیوڈ کیمرون کے الفاظ میں ’’مجھے اتنا شدید صدمہ پہنچا کہ لگا، کوئی مال بردار ٹرین مجھ سے ٹکراگئی۔‘‘

اتفاق کی بات اسی زمانے میں ڈیوڈ اور سمنتھا کے دوستوں کے ہاں بھی بچے تولد ہوئے تھے۔ وہ تو بچوں کی پرورش کرتے ہوئے محبت و شفقت کے میٹھے میٹھے جذبوں سے لطف اٹھانے لگے، ادھر ڈیوڈ اور سمنتھا کا بیشتر وقت ڈاکٹروں کے پاس ہسپتالوں میں گزرنے لگا۔ انہیں پہلی بار احساس ہوا کہ دکھ اور غم کسے کہتے ہیں اور ہمدردی، قربانی، ایثار جیسے اعلیٰ و ارفع انسانی جذبات کے کیا معنی ہیں۔

آئیون کی دیکھ بھال کرنا نہایت کٹھن کام تھا۔ چونکہ برطانیہ میں ملازم صرف نہایت امیر خاندان ہی رکھ سکتے ہیں، اس لیے معذور بیٹے کی غیر معمولی پرورش کا سارا بوجھ ماں باپ کے کاندھوں پر آن پڑا۔ تب تک ڈیوڈ رکن پارلیمنٹ بھی بن چکے تھے اور ان پر سیاسی و عوامی ذمے داریوں کا بار لدا تھا۔برطانوی وزیراعظم بتاتے ہیں ’’شروع میں ہم میاں بیوی شدید ڈپریشن کا شکار رہے۔ ہمیں ایک صحت مند اور خوبصورت بچے کی تمنا تھی۔

مگر بیٹا تولد ہوا، تو ہماری ساری آرزوئیں آئینے کے مانند کرچی کرچی ہو گئیں۔ ‘‘مگر آئیون کی معصومیت اور کشش نے جلد ہی والدین کے منفی خیالات ختم کر ڈالے اور انہوں نے تن من دھن سے اس کی پرورش کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ان پہ یہ دھن سوار ہو گئی کہ اپنے پہلے بیٹے کو عام بچوں کی طرح پروان چڑھایا جائے۔

لیکن دو خطرناک بیماریوں میں مبتلا آئیون کی دکھ بھال آسان کام نہ تھا۔ اسے دن میں بیس مختلف گولیاں کھلانا پڑتیں۔ یہ دھیان رکھنا پڑتا کہ وہ کب سوتا اور جاگتا ہے اور کب اسے کھانا کھلانا ہے۔ نیز متعدد بار اس کے اعضا کی مالش بھی کرنا ہوتی۔ غرض آئیون کو سنبھالنا دراصل چوبیس گھنٹے کی بھاری ذمے داری تھی۔آئیون اکثر اوقات چھوٹی موٹی بیماری کا نشانہ بھی بنتا رہتا۔ جب وہ بیمار ہوتا، تو اس کی مزید دیکھ بھال کرنا پڑتی۔

یہ کام تنہا انسان کے بس میں نہیں تھا، اسی واسطے ڈیوڈ اور سمنتھا نے بیٹے کے مختلف کام آپس میں بانٹ لیے۔معذور بیٹے کی پرورش کرتے ہوئے نوجوان والدین مثبت اور منفی، دونوں قسم کے جذبات سے آشنا ہوئے۔ سمنتھا بتاتی ہے ’’پہلے ہم میاں بیوی چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر دھیان نہیں دیتے تھے۔

آئیون ہی نے ہمیں بتایا کہ ان سے بھی لطف اندوز ہونا ممکن ہے۔ جس دن ہم ہسپتال نہ جاتے یا آئیون مسکراتا یا نہ روتا، تو وہ ہمارے لیے خوشی کا موقع بن جاتا۔ آئیون نے ہمیں سکھایا کہ ننھی منی خوشیوں سے کیونکر مسّرت حاصل کی جاتی ہے۔‘‘

آئیون کی پرورش کے آغازمیں مغموم و پریشان حال میاں بیوی قریب آئے اور ایک دوسرے کا سہارا بن گئے۔ اس موقع پر ڈیوڈ کیمرون کی امید پرستی نے گھرانے کو بہت سہارا دیا۔ دراصل ڈیوڈ کے والد بھی معذور پیدا ہوئے تھے۔ ان کی ٹانگیں مڑی ہوئی تھیں۔ مگر انہوں نے جدوجہد کی اور کامیاب و مطمئن زندگی گزاری۔ باپ کی وجہ سے ہی ڈیوڈ میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ ’’آدھا گلاس تو بھرا ہوا ہے۔‘‘

لیکن ایک سال تک رات دن آئیون کی دیکھ بھال کرنے نے ڈیوڈ اور سمنتھا کو تھکا دیا۔ نیند کی کمی نے انہیں چڑچڑا بنا ڈالا۔ وہ معمولی باتوں پر ایک دوسرے سے الجھنے لگے۔ تبھی میاں بیوی کو احساس ہوا کہ کاموں کے دباؤ اور ڈپریشن کی وجہ سے ان کی شادی ٹوٹ رہی ہے۔ پچھلے ایک برس سے ان کی مسکراہٹ کافور ہوچکی تھی۔ وہ اسی وقت مسکراتے جب آئیون خوش باش ہوتا۔

ڈاکٹروں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ایک نرس رکھ لیں جو رات کو معذور بچے کا خیال رکھے۔ ڈیوڈ اور سمنتھا بیٹے کی دیکھ بھال کسی دوسرے کے سپرد نہیں کرنا چاہتے تھے۔ مگر نازک صورت حال دیکھ کر انہیں یہ تجویز قبول کرنا پڑی۔ یہ تبدیلی خوش آئند ثابت ہوئی۔

میاں بیوی کو رات کے وقت سونے کا موقع ملنے لگا اور وہ صبح تازہ دم بیدار ہوتے۔ یوں ان میں کام کرنے کی توانائی پھر عود کر آتی۔برطانوی وزیراعظم کہتے ہیں ’’معذور بچوں کے والدین کو یہ سعی نہیں کرنی چاہیے کہ وہ ’سپرمین‘‘ یا ’’فرشتہ‘‘ بن جائیں۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ تن تنہا معذور بچے کی دیکھ بھال نہیں کرسکتے۔ اگر 24 گھنٹے اسی پر دھیان دیا جائے، تو نہ صرف دوسرے بچوں پر توجہ دینا مشکل ہوجاتا ہے بلکہ نوبت طلاق تک جاپہنچتی ہے ۔لہٰذا والدین کو چاہیے، وہ معذور بچے پہ بھر پور توجہ دیں مگر دوسروں سے بھی مدد لیں اور آرام ضرور کیجیے۔‘‘

نرس کی آمد سے ڈیوڈ اور سمنتھا کو سہارا مل گیا۔مگر انہوں نے آئیون کی دیکھ بھال ہرگز دوسروں کو ’’کنٹریکٹ‘‘ پر نہیں دی۔ دن کو وہی اس کی نگہداشت کرتے حتیٰ کے بیٹے کی طبیعت خراب ہوتی، تو راتوں کو بھی جاگتے۔ایک بار تین ماہ کے عرصے میں بچہ سولہ دفعہ ہسپتال گیا۔ والدین ہی آیون کو ہسپتال لے جاتے اور دوران علاج وہاں موجود رہتے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ ڈیوڈ کی رات ہسپتال میں گزری اور صبح وہ سیدھا پارلیمنٹ جا پہنچا۔

ماں باپ کے لیے وہ وقت سب سے زیادہ تکلیف دہ اور جاں گسل تھا جب آئیون کو مرگی کا دورہ پڑتا۔ وہ کراہتے ہوئے لوٹ پوٹ ہوجاتا اور ماں باپ کچھ نہ کرپاتے۔ تب انہیں اپنے بے وقعت اور معمولی ہونے کا احساس شدت سے ہوتا اور وہ سر پکڑ لیتے۔2002ء اور 2003ء کے برس ڈیوڈ کیمرون پر خصوصاً بہت بھاری گزر ے۔ وہ دونوں برسوں میں کنزرویٹو پارٹی کے سالانہ اجلاس میں شریک نہ ہوسکے کیونکہ ہسپتال میں تھے۔ تب ڈیوڈ اور سمنتھا پر یہی جذبہ سوار تھا کہ آئیون کسی طرح تندرست اور نارمل بچہ بن جائے۔ ان کی ساری امنگوں کا مرکز اپنا معذور بیٹا تھا۔ وہ ہر ممکن کوشش کرتے کہ آئیون خوش رہے۔

غیر معمولی بیٹے کا باپ بن کر ہی ڈیوڈ کیمرون کو ان تکالیف اور مشکلات کا اندازہ ہوا جو معذور اولاد کے والدین برداشت کرتے ہیں۔ چناں چہ انہوں نے پارلیمنٹ میں ان والدین کے لیے آواز اٹھائی اور ایک نیا قانون (کیمرون لا) منظور کرانے میں کامیاب رہے۔ اس قانون کی رو سے اب معذور بچوں کے والدین کو حکومت زیادہ امداد ی رقم دیتی ہے۔

سب سے بڑھ کر ڈیوڈ کے رویّے و سوچ میں تبدیلی آگئی۔ اب وہ بڑھ چڑھ کر مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنے لگے۔ انہوں نے فلاحی تنظیموں سے رابطہ کیا اور ان کا ہاتھ بٹایا۔ خود ڈیوڈ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آئیون کی پیدائش کے بعد وہ زیادہ رفیق القلب، ہمدرد، سنجیدہ اور مشفق ہوگئے۔

ورنہ پہلے ان کے مزاج میں کھلنڈرانہ پن اور بے پروائی کا دور دورہ تھا۔فلاحی سرگرمیوں میں بڑھ چرھ کر حصّہ لینے کی وجہ سے ہی ڈیوڈ برطانیہ میں مقبول ہوئے اور عوام انہیں پسند کرنے لگے۔ انہیں بہ حیثیت باپ اور شوہر ایک رول ماڈل دیکھا جانے لگا جو اپنی بھاری بھرکم پدرانہ و ازدواجی ذمے داریاں بڑی خوبی سے نبھا رہے تھے۔ اسی مقبولیت سے متاثر ہوکر کنزرویٹو پارٹی نے 2006ء میں انہیں اپنا سربراہ چن لیا۔

وقت کے ساتھ ساتھ ڈیوڈ کے ہاں دو اور بچے (بیٹا بیٹی) تولد ہوگئے ، مگر ان کی آنکھوں کا تارا آئیون ہی رہا۔ 24 اگست 2010ء کو اچانک آئیون کی طبیعت خراب ہوئی اور وہ اگلے دن اپنے رب کے پاس پہنچ گیا۔ پہلے بیٹے کی جدائی کا غم والدین نے حوصلے سے سہا۔ ان کے دکھ درد کو پوری برطانوی قوم نے محسوس کیا اور جوڑے کو پسند کرنے لگی۔عوام نے ہمدردی کی بنا پر بھی 2010ء میں انھیں وزیراعظم کا عہدہ پانے میں مدد دی۔

آج بھی ڈاؤننگ سٹریٹ پر واقع ڈیوڈ کیمرون کی رہائش گاہ میں ہر کمرے میں آئیون کی تصویر لگی ہے۔ جب بھی اس کی سالگرہ یا برسی کا دن آئے، تو معذور بیٹے کی یادیں والدین کو غمگین کردیتی ہیں… وہ بیٹا جس نے ڈیوڈ کو تلخ حقیقتوں سے آگاہ کرایا،انھیں بہتر انسان بننے میں مدد دی اور بتایا کہ زندگی محض کھانے پینے ،سونے جاگنے اور عیش کرنے کا نام نہیں بلکہ اصل مقصد بنی نوع انسانیت کی فلاح وبہبود میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔