ڈینگی کے تدارک کے لیے آئندہ قومی سطح پر پالیسی بنائی جائے گی!!

احسن کامرے  پير 19 اکتوبر 2015
ماحول صاف ہوگا تو ڈینگی سمیت بہت سی بیماریوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ریاض احمد/ایکسپریس

ماحول صاف ہوگا تو ڈینگی سمیت بہت سی بیماریوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ریاض احمد/ایکسپریس

پاکستان میں ایک مرتبہ پھر لوگ ڈینگی وائرس کا شکار ہورہے ہیں اور اب تک ملک بھر سے ہزاروں کیس رپوٹ ہوچکے ہیں جبکہ متعدد اموات بھی ہوئی ہیں۔

ڈینگی سے نمٹنے کے لیے حکومت کے کیا انتظامات ہیں، یہ مرض کتنا مہلک ثابت ہوسکتا ہے اور اس کے لیے کیا احتیاطی تدابیر اپنائی جاسکتی ہیں؟ اس طرح کے بے شمار سوالات عوام کے ذہنوں میں جنم لے رہے ہیں۔ اس مسئلے کی اہمیت سمجھتے ہوئے گزشتہ دنوں ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ’’ڈینگی کی موجودہ صورتحال‘‘ کے حوالے سے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، شعبہ صحت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اس موقع پر محکمہ صحت کے ڈپٹی ڈائریکٹر پبلک ریلیشن اخلاق علی خان بھی موجود تھے ۔فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

خواجہ سلمان رفیق (مشیر برائے صحت وزیراعلیٰ پنجاب)

2011ء میں ڈینگی کے آؤٹ بریک میں ہمیںکافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت 22سو سے زائد مریض تھے اور ہمیں معاملات بے قابو ہوتے دکھائی دے رہے تھے ۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہم اس بیماری سے نمٹنے میں کامیاب ہوئے مگر ہم ابھی تک اس میں ہونے والی اموات کا درد نہیں بھلا سکے۔ اس وقت حکومت کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ میں گزشتہ 5برس سے بطور کارکن ڈینگی کے خاتمے کے لیے کام کررہا ہوں۔ ہم وزیراعلیٰ پنجاب کی قیادت میں ڈینگی کے خاتمے کے لیے دن رات ایک کررہے ہیں اور اس حوالے سے 12مہینے کام کیا جاتا ہے۔ ڈینگی نے پورے پاکستان پر حملہ کیا ہے، اگلے سال مظفر گڑھ،خانیوال، اٹک، ٹیکسلا، فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں خطرہ موجود ہے جبکہ رواں سال اندرون سندھ اور خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع سے ہمارے پاس کیسز آرہے ہیں لہٰذا اس پر ملکی سطح پر کام ہونا چاہیے اور اس حوالے سے تمام صوبوں کی میٹنگ بلانے کے لیے صدر پاکستان کو خط بھی لکھ دیا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے شہر دہلی میں 6ہزار سے زائد کیس رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ 3ہزار اموات بھی ہوئی ہیں۔ ڈینگی کے خاتمے کے حوالے سے اس خطے میں ہمارا سسٹم بہترین ہے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/10/d6.jpg

پنجاب میں ہم نے ایک بھرپور سسٹم بنایا ہے جو آئی ٹی پر منتقل ہوچکا ہے۔ ہمارے ہزاروں کی تعداد میں اینڈرائڈ فون ہیں جو تمام محکموں کو دیے گئے ہیں اور اس طرح ہمیں ہر علاقے کی بروقت رپورٹ ملتی ہے ۔ ہماری کابینہ کمیٹی پاکستان کی وہ واحد کمیٹی ہے جس میں ہائر ایجوکیشن، محکمہ جنگلات، ماحولیات، اوقاف، لوکل باڈی، ڈی سی او، پولیس، سپیشل برانچ ، واسا سمیت تمام ادارے شامل ہیں جو مل کر ڈینگی کے خاتمے کے لیے کام کررہے ہیں جبکہ نجی ہسپتالوں کی مانیٹرنگ کا کام محکمہ آب پاشی کے ذمہ ہے۔ ہم میٹنگ پر نہیں بلکہ زمینی حقائق پر انحصار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم خود احتسابی پر یقین رکھتے ہیں جبکہ آف سیزن میں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو بہتر کرنے پر غور بھی کیا جاتا ہے اور ہم نے ’’ای ڈی او‘‘ راولپنڈی کو ناقص کارکردگی کی بنیاد پر فارغ بھی کیاہے۔ جن علاقوں سے لاروا ملتا ہے یا ڈینگی کا مریض آتا ہے تو آبادی اور رقبے کو مدنظر رکھتے ہوئے متاثرہ گھر کے اطراف کے 25 سے 48 گھروں میں ڈینگی تلف کرنے کی کارروائی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ان گھروں کی ٹیگنگ بھی کی جاتی ہے ا ور اس سے ہمیں یہ علم ہوجاتا ہے کہ ہماری ٹیم کس حد تک موثر کام کررہی ہے۔تمام ڈی سی اوز کے پاس اینڈرائڈ موجود ہیں اور ان کی روزانہ کی کارکردگی کا ہمیں علم ہوتا رہتا ہے اور موثر کارروائی نہ کرنے پر ان کی سرزنش بھی کی جاتی ہے۔

ہمارا ایک مربوط اور منظم نظام ہے، پی آئی ٹی بی کے نظام سے ہمیں لاروا کی مدد سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کون سا علاقہ زیادہ متاثر ہورہا ہے اور پھر علاقوں کو لاروے کے حساب سے ترجیح دی جاتی ہے۔ ملتان میں 140سے زائد مریض رپورٹ ہوئے جبکہ 30مریض نشتر ہسپتال میں داخل ہیں۔ ہم نے ملتان کے تمام ہسپتالوں کو ڈینگی کے مریضوں کا علاج کرنے سے سختی کے ساتھ منع کردیا کیونکہ اموات کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ مریض نازک صوتحال میں ہمارے پاس آتے ہیں۔اسلام آباد اور راولپنڈی کے ہسپتال آپس میں مکمل تعاون کے ساتھ چل رہے ہیں، راولپنڈی میں دوسرے شہروں سے بھی مریض آرہے ہیں اور ڈاکٹر دن رات ان کے علاج میں مصروف ہیں۔ ڈینگی ان بیماریوں میں سے ہے جس کی شرح اموات1سے 2فیصد ہے۔ڈینگی کے حوالے سے اموات کو ہائی لائٹ کیا جاتا ہے یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہم نے ڈینگی کے 25متاثرین کی زندگیاں بھی بچائی ہیں۔ ڈینگی صرف حکومت کا نہیں بلکہ پوری قوم کا مسئلہ ہے، حکومت اس حوالے سے آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ علاج بھی فراہم کررہی ہے لہٰذا شہریوں کو بھی اسے خدا کا پیغام سمجھ کر پھیلانا چاہیے اور حکومت کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔

افسوس ہے کہ ہمارے لوگوں کے رویوں میں تبدیلی نہیں آئی، گھروں میں صفائی کا نظام نہ ہونے اور احتیاطی تدابیر نہ اپنانے کی وجہ سے ڈینگی کی افزائش ہورہی ہے جبکہ جو ٹیمیں گھروں میں ڈینگی تلف کرنے جاتی ہیں ان کے ساتھ تعاون بھی نہیں کیا جاتا۔ ہماری لوگوں سے اپیل ہے کے ڈینگی کے خاتمے کے لیے ہمارا ساتھ دیں۔ ملتان میںڈینگی کے خاتمے کے حوالے سے کام جاری ہے، آئندہ 15سے 20 دن کے اندر اس کا اثر سامنے آئے گا۔ ڈینگی تمام صوبوں کا مسئلہ ہے، اس حوالے سے قومی سطح پر سٹریٹجی بنانا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام صوبوں میں پولیٹیکل اور بیوروکریٹک آنر شپ کی بھی ضرورت ہے۔ہمارا نظام بہترین ہے اور ہم نے کافی حد تک ڈینگی پر قابو پالیا ہے لہٰذا ہم باقی صوبوں کو بھی ڈینگی کے حوالے سے ہر ممکن رہنمائی فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ڈاکٹر زاہد پرویز (ڈی جی ہیلتھ پنجاب)

ڈینگی کے حوالے سے حکومت پنجاب آن بورڈ ہے اور اس حوالے سے پورا سال کام ہوتا ہے۔ ڈینگی کنٹرول کرنے کے لیے سینٹرل ایمرجنسی ریسپانس کمیٹی کے سربراہ وزیراعلیٰ پنجاب ہیں جبکہ کابینہ کمیٹی کے سربراہ خواجہ سلمان رفیق ہیں ۔ کابینہ کمیٹی کی ہفتہ وار میٹنگز جو رواں سال فروری سے ہورہی ہیں، ان میں محکمہ تعلیم، ہائر ایجوکیشن، ماحول، ٹرانسپورٹ، سپیشل برانچ سمیت تمام محکموں کے سیکریٹری شرکت کرتے ہیں اور ڈینگی کے خاتمے کے حوالے سے اپنے اپنے متعلقہ محکمے کی ہفتہ وار رپورٹ پیش کرتے ہیں۔ کابینہ کمیٹی کے نیچے آخری کمیٹی ٹاؤن ایمرجنسی ریسپانس کمیٹی ہوتی ہے جو ہر یونین کونسل کی سطح پر ڈینگی کے حوالے سے سروے کرتی ہے اور ہماری انسدادڈینگی ٹیمیں محلوں اور گھروں میں جاکر ڈینگی کو تلف کررہی ہیں اور اس کی رپورٹ بھی دی جاتی ہے۔ہسپتال میں بخار کے جتنے کیس آتے ہیںان کا ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے اور جب کسی مریض میں ڈینگی کی تشخیص ہوجاتی ہے تو اس مریض کی رہائش گاہ اور کام کرنے کی جگہ پر ڈینگی کے مچھر کے خاتمے اور لاروا کو تلف کرنے کے لیے کارروائی کی جاتی ہے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/10/d11.jpg

ڈینگی کے خاتمے کے حوالے سے حکومت کا مربوط نظام ہے اور ساری حکومتی مشینری اسی کے تحت کام کررہی ہے۔ ڈینگی سے آگاہی کے لیے سکولوں میں ’’زیرو پیریڈ‘‘ ہورہے ہیں اور امتحانات میں بھی ڈینگی کے بارے میں سوالات کیے جاتے ہیں۔ ہم نے تمام اضلاع میں ڈینگی کے علاج کے لیے ڈاکٹروں کی تربیت بھی کی ہے اور اب تمام ہسپتالوں میں تربیت یافتہ ڈاکٹر موجود ہیں۔ جب سے راولپنڈی اور ملتان سے ڈینگی کے کیسز سامنے آنا شروع ہوئے ہیں ہم نے پرائیویٹ ہسپتالوں کو منع کردیا ہے کہ وہ ڈینگی کے مریضوں کا علاج نہ کریں اور مریضوں کو سرکاری ہسپتال میں ریفر کریں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مریض مرض کی آخری سٹیج میں آتے ہیں کیونکہ لوگوں میں یہ عادت عام ہے کہ جب مرض بگڑتا ہے تو ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں۔ بعض مریض تو ایسے آتے ہیں جنہیں ڈینگی کے ساتھ ساتھ اور بھی بیماریاں ہوتی ہیں اور ایسی صورتحال میں ان کا علاج کافی مشکل ہوتا ہے۔ اب بھی ڈینگی سے جو 2اموات ہوئی ہیں ان میں سے ایک مریض ایسا تھا جسے اور بھی بیماریاں تھیں جن کی وجہ سے اس کی قوت مدافعت کمزور ہوئی اور پھر وہ ڈینگی کا شکار ہوگیا۔

حکومت پنجاب نے اس سال بڑے شہروں لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان میں سینٹری پٹرول بھرتی کیے ہیں، یہ اضافی فورس ہے جو گھروں کے اند جاکر ڈینگی کو چیک کرتی ہے اور لوگوں کو آگاہی بھی دیتی ہے کہ کس جگہ ڈینگی کی افزائش ہوسکتی ہے کیونکہ جو بھی پانی دو دن کھڑا رہے اس میں ڈینگی مچھر کے انڈے دینے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور اسی طرح گلدان، جانوروں کے پانی پینے کے برتن وغیرہ بھی ڈینگی کی افزائش کی جگہ ہوسکتی ہے۔ ڈینگی کی فیمیل کی اوسط عمر ایک ہفتہ ہوتی ہے اور اس دوران وہ سینکڑوں انڈے دیتی ہے جن سے ہزاروں مچھر پیدا ہوتے ہیں لہٰذا اگر ان انڈوں کو تلف کرنے کے لیے ٹارگٹ کارروائی کی جائے تو اس مرض کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور یہی ہماری کامیابی کی وجہ ہے۔ ڈینگی ایک کمیونٹی بیماری ہے، ہمیں اس سے ڈرنا نہیں بلکہ مل کر اس کا خاتمہ کرنا ہے۔ اگر ہم اپنے گھروں کی صفائی کریں اور احتیاطی تدابیر اپنائیں تو ہم اسے ختم کرسکتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ساری حکومتی مشینری اس کے خاتمے کے لیے کام کررہی ہے لہٰذا سول سوسائٹی کو بھی آگے بڑھنا چاہیے اور اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

حکومت نے ڈینگی کی تشخیص کے لیے تمام سرکاری ہسپتالوں میں تشخیصی سنٹر قائم کیے ہیں اس کے علاوہ ڈینگی کاؤنٹربنا دیے گئے ہیں جبکہ اضافی سٹاف بھی لگا یا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈینگی ہائی ڈپینڈینسی یونٹس بھی قائم ہیں جن میں ڈینگی ہیمرجک فیور کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ ڈینگی کے علاج کے حوالے سے ہمارے تمام انتظامات مکمل ہیں، ڈرپ کے ساتھ ساتھ پلیٹلیٹس کا انتظام اور پلیٹلیٹس بنانے والی مشینیں بھی موجود ہیں۔ اس وقت پنجاب میں 2048ڈینگی کے کیس رجسٹر ہوئے ہیں، راولپنڈی میں 1668، ملتان میں 148 جبکہ لاہور میں 20 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ 150کیس ایسے ہیں جو صوبے کے باہر سے آئے ہیں جبکہ 2مریضوں کی اموات ہوئی ہیں ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جن علاقوں میں ڈینگی زیادہ ہوا ہے وہاں گھروں میں صفائی کا خیال نہیں رکھا گیا۔ حکومتی سطح پر زبردست کام ہورہا ہے لہٰذا میری لوگوں سے اپیل ہے کہ اس مرض کے خاتمے کے لیے ہمارا ساتھ دیں اور صفائی ستھرائی کا خیال کریں۔

ڈاکٹر جاوید اکرم (جنرل فزیشن)

ڈینگی ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس وقت یہ بیماری دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر 132ممالک میں پائی جاتی ہے جن میں سنگاپور، ملائیشیا اور تھائی لینڈ سر فہرست ہیں۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جسے آج تک کوئی بھی ملک ختم نہیں کر پایا اور نہ ہی اس کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے تاہم اسے کم ضرور کیا جاسکتا ہے جس کے لیے حکومتی سطح پر اچھے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ میرے نزدیک ڈینگی کے کیسز سامنے آنا حکومت کی کمزوری نہیں ہے کیونکہ جس طرح ملیریا، ٹائی فائڈ اور تپ دق عرصہ دراز سے دنیا میں موجود ہیں اسی طرح ڈینگی کا شکار ہماری آنے والی نسلیں بھی ہوتی رہیں گی لہٰذا اس میں کسی کی جیت یا ہارنہیں ہوگی بلکہ یہ ایک ٹیکنیکل معاملہ ہے جسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔ڈینگی کی تاریخ 100سال پرانی ہے جبکہ پاکستان میں یہ مرض 1980ء سے موجود ہے۔ پاکستان میں یہ وائرس تھائی لینڈ سے پرانے ٹائروں کی در آمد کے وقت آیا اور اس مرض کوسب سے پہلے کراچی بندرگاہ پر کام کرنے والے بلوچوں میںپایا گیا۔ اس کے بعد یہ مرض بلوچستان اور سندھ میں پھیلا جبکہ گزشتہ آٹھ سے نو سال قبل اس نے پنجاب کا رخ کیا ہے لیکن پنجاب حکومت نے جس طرح اس مرض سے نمٹا دنیا میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی اور یہی وجہ ہے کہ ڈینگی کے حوالے سے منعقدہ عالمی کانفرنسوں میں پنجاب حکومت کا خصوصی ذکر کیا جاتا ہے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/10/d21.jpg

میں وزیراعلیٰ پنجاب کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اس بیماری کو پولیٹیکل آنرشپ دی اور اس مرض کو کنٹرول کرنے کے لیے وسائل فراہم کیے۔میرے نزدیک پنجاب حکومت اس حوالے سے موثر کام کررہی ہے لہٰذا یہ کہنا کہ حکومت اس مرض کو ختم نہیں کرپائی درست نہیں ہوگا کیونکہ اگر اس مرض کو ختم کرنا ممکن ہوتا تو سنگاپور اور ملائیشیا بہت پہلے ختم کرچکے ہوتے۔ گزشتہ برس تھائی لینڈ میں 48ہزار ڈینگی کے کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ڈینگی کے حوالے سے خوفناک حقیقت تو یہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کی 6ارب آبادی میں سے 4ارب آبادی کو اگلے چند سالوں میں ڈینگی کا خطرہ ہے ۔ڈینگی وائرس چار قسم کے ہوتے ہیں۔ یہ وائرل بیماری ہے اور اس کے پھیلنے کے لیے ویکٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس بیماری کا ویکٹر مچھر ہے جس کی تین اقسام ایڈیز(Aedes)، ایجیپٹائی(Aegypti) اور ایلبوپکٹس (Albopictus)ہیں۔ پاکستان میں ایڈیز، ایلبوپکٹس مچھر کی فیمیل اس وائرس کو پھیلاتی ہے۔ یہ وائرس اس کے انڈوں میں چلا جاتا ہے ، پھر ان سے بننے والے مچھروں میں منتقل ہوجاتا ہے اور اس طرح ہزاروں کی تعداد میں پیدا ہونے والے نئے مچھر ڈینگی پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔

ڈینگی کنٹرول کرنے کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے ویکٹر کو ختم کیا جائے۔ اس کے لیے یہ ہرگز ضروری نہیں ہے کہ سپرے یا فوگنگ کی جائے بلکہ اس کے لیے ہمیں اپنے رویوں میں بھی تبدیلی لانا ہوگی۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور دین اسلام میں صفائی کو نصف ایمان کا درجہ دیا گیا ہے لہٰذا اگر ہم اس نصف ایمان کو صحیح معنوں میں اپنی زندگیوں میں لے آئیں اور اپنے گھر، دفتر، گلی ،محلے ، سکول، کالج، ہسپتال وغیرہ کو اتنا ہی صاف رکھیں جتنا دین میں بتایا گیا ہے تو ایسی بہت سی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔ حکومت ڈینگی کے خاتمے کے لیے اقدامات کرسکتی ہے لیکن گھروں کے اندر ڈینگی کی افزائش روکنا اور صفائی کا خیال رکھنا ہماری ذمہ داری ہے اور اس ضمن میں حکومت کچھ نہیں کرسکتی لہٰذا سول سوسائٹی کو اس میں آگے بڑھنا ہوگا۔یہ غور طلب بات ہے کہ ڈینگی مچھر کی نشونما کے لیے ایک چمچ سے بھی کم پانی کافی ہے۔ اپنے گھر، دفتر، سکول، کالج کہیں بھی پانی کھڑا نہ ہونے دیں اور پانی کو ہمیشہ ڈھانپ کر رکھیں۔ میرے نزدیک حکومت کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اس کی آنر شپ لینی چاہیے اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ لوکل باڈی کے لوگوں کو اسے چیلنج کی طرح لینا چاہیے اور ایسے گھروں جہاں ڈینگی کا ویکٹر یا ڈینگی کی افزائش کا خطرہ موجود ہو ان گھروں پرسرخ جھنڈا لگا دینا چاہیے۔

اس طرح ان پر کمیونٹی کا دباؤ بڑھے گا اور وہ ڈینگی کے خاتمے کے لیے ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے۔ ڈینگی کے خاتمے کے لیے اگر ہم صفائی کی عادت بنالیں تو ہم ڈینگی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بہت سی دوسری بیماریوں کا بھی قلع قمع کرلیں گے۔ موجودہ دور میں ڈینگی کا علاج فعال ہوچکا ہے لہٰذا اگر مریض بروقت ڈاکٹر کے پاس آجائیں تو اموات سے بچا جاسکتا ہے۔ ہمارا دین کہتا ہے کہ جس نے ایک شخص کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔ اس لیے ڈاکٹروں کو بھی اس مرض کو چیلنج کی طرح لینا چاہیے اور مریض کی جان بچانے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے اور اس میں ذرہ برابر بھی کوتاہی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اس وقت راولپنڈی، ملتان اور کراچی میں ڈینگی نے زور پکڑا ہے، اگلے چار، پانچ سالوں میں ان شہروں میں کافی حد تک صورتحال بہتر ہوگی تاہم لاہور کو محتاط رہنا ہوگا کیونکہ خطرہ ہے کہ یہ مرض دوبارہ یہاں آئے گا۔ اس لیے اگر کسی بھی شخص کو لاہور میں کوئی علامت ظاہر ہوتی ہے تو اسے بروقت ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اور اسپرین کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ پرائیویٹ ہسپتالوں میں ڈینگی کے علاج کی تمام سہولیات میسر نہیں ہیں لہٰذا ڈینگی کے مریضوں کو پرائیویٹ کی بجائے سرکاری ہسپتالوں میں جانا چاہیے اس کے علاوہ تجربہ کارڈاکٹروں کو بھی پابند کرنا چاہیے کہ اگر انہیں ڈینگی کے علاج کے لیے کسی دوسرے شہر بھی جانا پڑے تو انہیں ضرورجانا چاہیے۔

اکمل اویسی (نمائندہ سول سوسائٹی)

اس وقت پاکستان میں 5ہزار ڈینگی کے مریض رجسٹر ہوئے ہیں۔ اب یہ وباء ملتان، کراچی اور راولپنڈی میں پھیلی ہے جبکہ صرف ملتان میں تین سو کیس رجسٹر ہوئے ہیں۔ سول سوسائٹی کا کام لوگوں میںشعور و آگاہی پیدا کرنا ہے اور ہم اس حوالے سے کام کررہے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جب ڈینگی کی صورتحال خراب ہوتی ہے تو حکومت اور ساری مشینری متحرک ہوجاتی ہے حالانکہ حکومت کو پورا سال اسی سپرٹ کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔اس وقت حکومت کی ساری توجہ بڑے شہروں کی جانب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور میں ڈینگی کی شرح میں واضح کمی آئی ہے اور یہاں تعلیمی اداروں میں ڈینگی سے آگاہی کے بارے میں ’’زیرو پیریڈ‘‘ بھی ہوتا ہے لہٰذاہماری حکومت سے اپیل ہے کہ چھوٹے شہروں کی جانب توجہ کریں اور وہاں بھی ایسے پروگرام شروع کیے جائیں۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/10/d31.jpg

سول سوسائٹی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے اور اپنی مدد آپ کے تحت اس کی روک تھام کے لیے کام بھی کررہی ہے۔ ڈینگی میں ماحول کا بھی کافی عمل دخل ہے۔ جب ماحول صاف ہوگا تو ڈینگی سمیت بہت سی بیماریوں کا خاتمہ ہوجائے گا لہٰذا اس حوالے سے محکمہ ماحولیات سے بھی بات چیت کرنی چاہیے۔ ڈینگی سے آگاہی کے لیے بلدیاتی انتخابات کی مہم میں حکومت، سیاسی جماعتوں اور چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے امیدواروں کو پابند کیا جائے کے وہ ڈینگی سے آگاہی کے بینرز بھی آویزاں کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔