شام، فلسطین، یمن، عراق، ہند (دوسری قسط)

اوریا مقبول جان  پير 19 اکتوبر 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

وہ طاقتیں جنہوں نے یہ آخری عظیم جنگ مسلم امہ کے خلاف لڑنی ہے‘ ان کا ہیڈ کوارٹر اور مرکز تو یروشلم میں ہو گا اور دنیا بھر کا یہودی اس جنگ میں حصہ لینے کے لیے ایک جذبہ ایمانی کے ساتھ گزشتہ ایک سو سال سے وہاں جا کرآباد ہو رہا ہے۔ اس ملک کو ایک بڑی فوجی اور ایٹمی قوت کے طور پر مستحکم کیا جا رہا ہے۔ چودہ سو سال قبل جب سید الانبیاء ﷺ اس دجالی ہیڈ کوارٹر کے بارے میں خبردار کر رہے تھے تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ ایسا کب اور کس طرح ہوگا۔

اگر یروشلم دجال یا پھر یہودی مسیحا کا ہیڈ کوارٹر اور مرکز ہو گا تو پھر اس سے لڑنے والی مسلمان افواج کا مرکز کونسا مقام ہوگا۔ سیدالانبیاءﷺ نے اس کی بھی وضاحت فرما دی۔ ’’حضرت ابو لدردا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنگ عظیم کے وقت مسلمانوں کا خیمہ (ہیڈ کوارٹر) شام کے شہروں میں سب سے اچھے شہر دمشق کے قریب ’’الغوطہ‘‘ کے مقام پر ہو گا‘‘ (سنن ابو داؤد‘ مستدرک‘ الغنی لا بن قدامہ)۔ الغوطہ شام کے دارالحکومت دمشق سے ساڑھے آٹھ کلو میٹر پر ہے۔ موجودہ شام اس بڑے شام کا حصہ ہے جو رسول اکرمﷺ کے زمانے میں اردن‘ فلسطین اور لبنان پر مشتمل تھا۔

آج کا شام جنگ و جدل اور قتل و غارت کا شام ہے۔ عرب دنیا میں 2011 میں اٹھنے والی آزادی اور انقلاب کی تحریکوں میں شام کی تحریک جس طرح خانہ جنگی اور قتل و غارت میں تبدیل ہوئی ہے اس کی مثال عرب دنیا کی گزشتہ ایک ہزار سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ ایسے لگتا ہے پوری مسلم امہ کا انتشار شام میں آ کر جمع ہو گیا ہے اور عالمی طاقتوں کی رسہ کشی کا مرکز بھی شام ہی ہے۔ گزشتہ بیس سالوں سے دنیا کے بارے میں یہ تصور عام ہو چکا تھا کہ اب یہ صرف ایک ہی عالمی طاقت امریکا کے زیراثر ہے اور روس ایک قصہ پارینہ بن چکا ہے لیکن شام کی خانہ جنگی نے بیس سال پہلے کے میدان جنگ کو پھر تازہ کر دیا۔ یہ دونوں عالمی طاقتیں روس اور امریکا میدان میں بعد میں کودے ہیں جب کہ مسلم دنیا کے دو ممالک ایران اور سعودی عرب‘ خالصتاً علاقائی بالادستی کے لیے پہلے دن سے میدان میں اتر چکے تھے۔

بشار الاسد کی حکومت کو بچانے یا اسے گرانے کی کوشش ایسے لگتا ہے شیعہ سنی جنگ میں تبدیل کر دی گئی ہے حالانکہ اس کے پس پردہ محرکات میں ایران‘ ترکی‘ سعودی عرب اور قطر کی شام کے علاقے میں بالادستی کی جنگ ہے۔ ورنہ بشار الاسد علوی عقیدہ رکھنے والے افراد میں سے ہے جن کے بارے میں شیعہ سنی گزشتہ ایک ہزار سال سے متفق ہیں کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ کس قدر چالاکی اور ہوشیاری سے ایران اور دیگر مسلم ممالک نے اسے ایک شیعہ سنی لڑائی میں تبدیل کر کے پوری ملت اسلامیہ کو فتنہ و فساد میں مبتلا کر دیا ہے۔ آئیے دیکھیں وہاں کون کون سے گروہ ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور ان کو کس طاقت کی حمایت حاصل ہے۔

پہلا گروہ جس نے بشار الاسد کی حکومت کے خلاف اٹھنے والی عوامی تحریک کا رخ ہتھیار اٹھانے کی طرف موڑا، وہ جبۃ النصرہ تھا۔ 2012 میں عوامی تحریک کو کچلنے کے لیے بشار الاسد نے طاقت کا استعمال شروع کیا‘ چار لاکھ کے قریب لوگ ہجرت کر کے لبنان اور اردن میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ ہجوم پر براہ راست فائرنگ کر کے انھیں قتل کیا جا رہا تھا۔ ایسے میں عراق میں القاعدہ نے 12 لڑکوں کو ابو ماریہ القحطانی کی سربراہی میں شام بھیجا تاکہ وہاں بشار الاسد کے خلاف جدوجہد کا آغاز کرے۔ یہ تمام لڑکے شام سے عراق لڑنے کے لیے گئے ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے اپنے ساتھ شام کے افراد کو ملایا اور کچھ علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لینا شروع کیا۔ ان کے ساتھ اردن کے بہت بڑے عالم ڈاکٹر سامی العریبی بھی آکر مل گئے۔

یہ وہی ڈاکٹر سامی ہیں جنہوں نے موجودہ دور میں حدیث کے سب سے بڑے شارح علامہ ناصر البانی سے 23 سال کی عمر میں مناظرہ کیا تھا کہ مسلمان دنیا کے تمام حکمران کافر ہیں۔ اس وقت جبۃ النصرہ کی قیادت ابو محمد الجولانی کے پاس ہے جو شافعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور جبۃ النصرہ کے پاس شمال میں ادلب اور جنوب میں دران اور کونیترہ کا علاقہ ہے۔ الدولۃ الاسلامیہ یعنی داعش نے جب عراق اور شام میں اپنی حکومت کا اعلان کیا تو ان کی لڑائی ان کے ساتھ بھی شروع ہوئی۔ 3 جنوری 2013ء کی لڑائی بہت خونریز تھی۔ اس وقت النصرہ کے کافی افراد داعش کے ساتھ جا ملے ہیں۔ جس طرح القاعدہ کے اپنے مالی امداد کے ذرایع تھے جو خفیہ طور پر ان کی مدد کرتے تھے اسی طرح یہاں پر ان گروہوں کے پس پردہ لوگ بھی واضح نہیں ہیں۔

دوسرا گروہ جیش الاسلام ہے۔ اس کی سربراہی شیخ زاہران اللوش کے پاس ہے۔ ان کے والد سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی گزارتے رہے‘ مدینہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ اصل وطن دوحہ ہے لیکن یہاں اس لڑائی میں اپنے گروہ کی سربراہی کر رہے ہیں۔ جیش الاسلام کے پاس ’’الغوطہ‘‘ کا مشرقی علاقہ ہے۔ اس گروہ کی مدد اور اعانت سعودی حکومت سے کی جاتی ہے۔ شام میں بشار الاسد کے خلاف لڑنے والوں کی سب سے بڑی قوت حرکت و احرار الشام الاسلامیہ ہے۔ جسے حسان عبود نے قائم کیا۔ یہ انگریزی کے استاد تھے اس کی سربراہی حمہ کے سبیل القاب کے پاس ہے۔ حرکت احرار کے پاس دو مکمل صوبے طرطوس اور سویدا کا کنٹرول ہے۔ اس تنظیم کو ترکی کی مکمل مدد حاصل ہے۔ ترکی اس وقت شام کے معاملات میں دلچسپی لینے والا سب سے بڑا ملک ہے جہاں 18 لاکھ شامی مہاجرین پناہ گزین ہیں جن پر ترکی کا تقریباً 6 ارب ڈالر خرچہ اٹھ رہا ہے۔ حرکت و احرار کو بھی شام میں معتدل قوت سمجھا جاتا ہے۔ مصر کے اخوان المسلمون کی ایک تنظیم لواء التوحید عبدالقادر الصالح کی سربراہی میں شام میں قائم ہوئی لیکن 2013 میں ان کے ایک معرکے میں جاں بحق ہونے کے بعد تقریباً دم توڑ چکی ہے۔

امریکا اور اس کے اتحادی دو تنظیموں کی مدد کر رہے ہیں۔ ایک الجیش السوری الحر ہے جسے عرف عام میں فری سیرین آرمی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بشار الاسد کی فوج سے باغی ہوئے اور انھوں نے اپنا ایک گروہ بنا لیا۔ اس گروہ کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی حمایت اور فوجی معاونت حاصل ہے۔ دوسرا گروہ کردستان ورکرز پارٹی ہے۔ یہ لوگ کرد علاقوں میں لڑ رہے ہیں۔ ان کا مقصد وہاں کا کنٹرول حاصل کرکے ترکی میں کرد آزادی کی تحریک کو آگے بڑھانا ہے۔ مغرب اور امریکا کی مدد ان کو بھی حاصل ہے۔ دوسری جانب بشار الاسد کی حمایت میں پہلے ایران کے پاسداران آ کر لڑتے رہے اور اب ایران نے جنرل قاسم سلیمانی کی سربراہی میں اپنی افواج بھی اتار دی ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ پوری دنیا سے اپنے ہم مسلک افراد کو وہاں لڑنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ان کے دو گروہ وہاں دیگر سنی گروہ سے لڑ رہے ہیں۔ ایک لواء الفضل العباس ہے جس میں عراقی شیعہ شامل ہیں جب کہ دوسرا گروہ زینبیہ ہے جس میں پاکستان اور بھارت سے گئے ہوئے اہل تشیع کے افراد ہیں۔

حسن نصر اللہ نے اسرائیل سے اپنی جنگ گزشتہ کئی سالوں سے ترک کی ہوئی ہے اور اب حزب اللہ صرف شام میں لڑ رہی ہے۔ شام میں اکثریت سنی العقیدہ عوام کی ہے جس پر دس فیصد سے بھی کم علویوں کی حکومت بشار الاسد کی آمریت کے ذریعے قائم ہے۔ شام میں اثنا عشریہ شیعوں کی آبادی صرف فواء کے شہر میں ہے۔ حرکت الاحرار کی ایک ہزار توپیں اس شہر کے ارد گرد نصب ہیں جس کی وجہ سے حزب اللہ حرکت کے ساتھ لڑائی نہیں کرتی۔ پوری دنیا میں الدولۃ اسلامیہ یعنی داعش کا تذکرہ ہے حالانکہ وہ صرف صحرائی علاقوں پر قابض ہے جس میں رقہ‘ دیرالزور اور حمص شامل ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بشار الاسد کی افواج اور داعش میں شمال اور مشرق کے محاذ پر ایک سمجھوتہ ہے۔

اس پورے محاذ کا 45 کلو میٹر بشار کی افواج کے پاس ہے اور باقی پوری سرحد پر داعش تمام دیگر سنی تنظیموں کے حملوں کا مقابلہ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی عالمی طاقت نے حملہ کرنا ہو تو نام داعش کا استعمال کیا جاتا ہے اور حملہ باقی تنظیموں پر کیا جاتا ہے۔ پہلے امریکا اور اس کے اتحادی حرکت الاحرار اور جبۃ النصرہ پر فضائی حملے کرتے تھے جس سے داعش مضبوط ہوتی تھی اور بشار الاسد کی حکومت ڈگمگاتی تھی‘ ان حملوں میں الجیش السوری الحر کو مدد فراہم کی جاتی تاکہ وہ مضبوط ہو۔ اب روس‘ ایران اور عراق مل کر الجیش السوری پر حملہ کرتی ہے تاکہ امریکا وہاں مضبوط نہ ہو۔

(باقی آیندہ)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔