پیپلز پارٹی: ایک مشورہ

مقتدا منصور  پير 19 اکتوبر 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ابھی حال ہی میں پنجاب کے دو شہروں کے تین حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد یہ جماعت پنجاب سمیت ملک کے دیگر صوبوں میں تیزی کے ساتھ پسپائی سے دوچار ہے۔ ابھی چند روز قبل ہی کی بات ہے کہ ایک ٹی وی چینل پر بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے گفتگو کے دوران ایک کالر نے بتایا کہ شکارپور میں پیپلز پارٹی کو کونسلروں کی نشستوں کے لیے امیدوار نہیں مل رہے۔ گو کہ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کی مقبولیت کا گراف تیزی کے ساتھ نیچے کی طرف آ رہا ہے، لیکن حالات ابھی اتنے برے نہیں ہوئے کہ اسے کونسلر کی سطح پر بھی امیدوار نہ مل سکیں۔

اس میں شک نہیں کہ اپنی 48 برس کی تاریخ میں پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں اور طویل صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ یہ ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے، جس کے دو سربراہ غیر فطری موت کا شکار ہوئے۔ اس کے علاوہ بھٹو کے دونوں بیٹے بھی یکے بعد دیگرے قتل کیے گئے۔ جنرل ضیاالحق کے گیارہ سالہ دور آمریت میں اس جماعت کے ان گنت کارکنوں نے قید و بند کے علاوہ کوڑوں کی سزائیں بھی بھگتیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر قربانیاں دینے والی جماعت کا اس طرح تیزی کے ساتھ روبہ زوال ہونا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ جن پر غور کرنا پاکستانی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے ہر طالب علم کے لیے ضروری ہے۔ لہٰذا اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ پیپلز پارٹی جو کبھی ’’چاروں صوبوں کی زنجیر‘‘ کہلاتی تھی، آج سکڑ کر سندھ تک کیوں محدود ہو گئی ہے؟ یہ بھی ایک سوال ہے کہ اس صورتحال تک پہنچانے میں اغیار سے زیادہ اپنوں کا کتنا کردار ہے؟

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں ارتقائی عمل سے گزرتی ہیں اور ان میں زمان و مکان کی مناسبت سے تبدیلیاں اور تغیرات بھی آتے ہیں۔ مگر کسی جماعت کا اپنی بنیادی اساس کو چھوڑ کر قائم رہنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1967ء میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر قائم ہونے والی پیپلز پارٹی جن نظریات کے ساتھ منظر عام پر آئی تھی، آج ان سے کوسوں دور جا چکی ہے۔ پارٹی کے قیام کے ابتدائی پانچ برسوں کے دوران اس جماعت کے بانیوں کی اکثریت اور کمیٹڈ کارکنوں کی بڑی تعداد اس سے الگ ہو چکی تھی۔ یہ سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ جب کہ آہستہ آہستہ اس پر فیوڈل اور روایتی سیاستدانوں کا غلبہ بڑھتا جا رہا تھا۔ آج یہ جماعت سندھ کی حد تک جاگیرداروں اور مراعات یافتہ طبقہ کی مضبوط گرفت میں جا چکی ہے۔ لیکن ان کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود آج بھی اس کے بارے میں عوامی تاثر یہی ہے کہ یہ ایک لبرل اور روشن خیال جماعت ہے، جس میں ہر عقیدے، نظریہ اور قومیتی شناخت کے فرد کے لیے گنجائش موجود ہے۔

پنجاب میں پیپلز پارٹی کی فقیدالمثال مقبولیت اور پھر بڑھتی ہوئی غیر مقبولیت بھی اپنے اندر کئی سوالات رکھتی ہے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی بڑھتی ہوئی غیر مقبولیت کے بارے میں ہمارے دوست شاہد علی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اب وہاں اس کے Revival کو بھول جانا چاہیے، کیونکہ پنجاب کو ایک چھوڑ دو طاقتور رہنما مل چکے ہیں۔ میاں صاحب کے ناکام ہونے کی صورت میں عمران خان قیادت کے لیے موجود ہوں گے۔ اس لیے پنجاب کو اب کسی بھٹو کی ضرورت نہیں ہے۔ بھٹو کو انھوں نے اس وقت گلے لگایا تھا، جب پنجاب میں قیادت کا قحط الرجال تھا اور کوئی متحرک اور فعال رہنما ڈھونڈے نہیں ملتا تھا۔ اگر اسی نکتہ کو ایک دوسرے پیرائے میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بھٹو نے 1970ء کے عشرے میں پنجاب کے نوجوانوں کے مسائل کو سمجھتے ہوئے انھیں موبلائز کرنے کی کامیاب کوشش کی تھی۔ ان کے بعد آنے والی قیادت اس سے اگلی نسل کو اس انداز میں موبلائز نہیں کر سکی۔ یوں پنجاب پر پیپلز پارٹی کی گرفت کمزور پڑنے لگی۔ جب کہ میاں نواز شریف 1980ء کی دہائی میں ابھرنے والی نوجوان نسل اور مڈل کلاس کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

آج عمران خان نئے نعروں اور وعدوں کے ساتھ اکیسویں صدی کے نوجوانوں کو اپنی جانب کھینچ رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھٹو مرحوم نے جو نعرے دیے تھے، وہ اس زمانے کے ووٹروں کے لیے پرکشش ضرور تھے، مگر اگلی نسل کی سوچ اور ضروریات سے مختلف ہونے کی وجہ سے ان کے لیے بے معنی ہوتے چلے گئے۔ اس کے علاوہ بھٹو مرحوم کی شہادت بلاشبہ ایک تاریخی المیہ تھا۔ مگر اسے مسلسل انتخابی ایشو نہیں بنایا جا سکتا تھا۔ اس بنیاد پر عوام کی ہمدردیاں پارٹی کے ساتھ ضرور تھیں، لیکن وہ اپنے مسائل کا حل بھی چاہتے تھے۔ پارٹی کی قیادت نے اس مقصد کے لیے کوئی فعال ایجنڈا ترتیب دینے کی اول تو زحمت گوارا نہیں کی۔ دوئم، جو انتخابی منشور ہر عام انتخاب سے پہلے پیش کیے، ان پر اقتدار میں آنے کے بعد عمل نہیں کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام وقت گزرنے کے ساتھ اس جماعت سے بیزار ہوتے چلے گئے۔ حالانکہ پیپلز پارٹی میں اہل دانش اور تجربہ کار کارکنوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود رہی ہے، جو اس حقیقت سے واقف ہے کہ عوامی مسائل کو دی جانے والی ترجیح اور اچھی حکمرانی کی نظیر ہی کسی جماعت کی کامیابی کی کلید ہوا کرتی ہے۔ یوں فرسودہ کلیوں پر تکیہ کرنے کی حکمت عملی نے اس کی مقبولیت کو مزید متاثر کر دیا۔

اب جہاں تک سندھ کا تعلق ہے، تو یہاں پیپلز پارٹی ابھی تک اس لیے مقبول ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے، کیونکہ صوبے میں کوئی دوسری ایسی سیاسی قوت موجود نہیں جو اس کا متبادل بن سکے۔ اس میں شک نہیں کہ مسلم لیگ (ف) چند طاقتور انتخابی حلقے (Pockets) ضرور رکھتی ہے، مگر اس میں پورے سندھ کی قیادت کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ جو چند افراد مسلم لیگ (ن) سے وابستگی کے دعویدار ہیں، ان کی اکثریت پنجابی بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ مقامی سندھی اور اردو بولنے والے اس جماعت میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔ جہاں تک قوم پرست جماعتوں کا تعلق ہے، تو اول، ان کے اندرونی معاملات اور باہمی اختلافات نے انھیں درجنوں دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ دوئم، ان کی سیاست آج بھی سرد جنگ کی بھول بھلیوں میں گھوم رہی ہے۔ معروف امور سماجی کے ماہر ڈاکٹر ریاض احمد شیخ کا کہنا ہے کہ قوم پرست جماعتیں آج بھی سرد جنگ میں جنم لینے والے ان ایشوز پر سیاست کر رہی ہیں، جو اب غیر متعلق ہو چکے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ سندھی نوجوان کے لیے ان کی جھولی میں کوئی واضح ایجنڈا نہیں ہے۔ لہٰذا مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا تعلیم یافتہ سندھی نوجوان اب قوم پرست جماعتوں کی طرف متوجہ نہیں ہو رہا، جس کا فائدہ بہر حال پیپلز پارٹی کو پہنچ رہا ہے، جو اپنی تمامتر کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود سندھی عوام کی نمایندہ جماعت بنی ہوئی ہے۔

پیپلز پارٹی وہی کچھ کاٹ رہی ہے جو اس نے گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران بویا تھا۔ مگر تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اپنی تمامتر خرابیوں اور خامیوں کے باوجود ملک میں موجود مذہبی اقلیتیں اور دیگر مختلف کمیونٹیز اس جماعت کو اپنے لیے سایہ عافیت تصور کرتی ہیں۔ لہٰذا اس جماعت کے سیاسی منظرنامہ سے ہٹ جانے یا محدود ہو جانے سے ان کے سیاسی و سماجی حقوق بری طرح متاثر ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان جہاں دائیں بازو کی سیاسی قوتوں کے اثرات خاصے گہرے ہیں۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہنے کے بجائے دائیں بازو کی سیاسی قوتوں کی سرپرستی کرتی ہے۔ اس لیے خطرہ ہے کہ لبرل اور سیکولر سیاسی قوتوں کے یکے بعد دیگرے کمزور پڑ جانے کے بعد لبرل اور آزاد خیال شہریوں کے لیے یہ ملک مزید اذیت ناک ہو جائے گا۔ جو جماعتیں بائیں بازو کی سیاست کی دعویدار ہیں، ان کی اکثریت یونین کونسل کا کونسلر تک منتخب کرانے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ ڈاکٹر مظہر حیدر کی رپورٹ کے مطابق کمیونسٹ پارٹی پاکستان کے اراکین کی تعداد میں بھی مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ملک میں بائیں بازو کی سیاست ابتری کا شکار ہے۔ جب کہ دائیں بازو کی مذہبی شدت پسند جماعتوں کے علاوہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف جیسی Right to Centre جماعتوں کے قدم ملکی سیاست پر مضبوط ہو رہے ہیں۔

ایک ایسی صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی خامیوں، کمزوریوں اور ناکامیوں کا کھلے دل سے جائزہ لے۔ یہ دیکھنے کی کوشش کرے کہ اس سے کہاں اور کب کیا غلطیاں سرزد ہوئی ہیں اور ان کے ازالے کے لیے اسے کیا کرنا چاہیے۔ اسے یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ جب ملک میں بائیں بازو کی سیاست کے لیے گنجائش ختم ہو رہی ہے، تو اس جیسی Left to Centre نوعیت کی ملک گیر سیاسی جماعتیں ہی لبرل اور روشن خیال شہریوں کا آخری سہارا بنتی ہیں۔ لہٰذا اسے چاہیے کہ وہ تنگ نظری سے باہر نکل کر اربن سندھ کی نمایندہ جماعت ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی کو اپنا حلیف بنائے اور نیک نیتی کے ساتھ Left to Centre سیاست کو مستحکم کرنے کی کوشش کرے تو اس ملک میں آزادی اظہار پر یقین رکھنے والے شہریوں کے لیے کھلی فضا میں سانس لینے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔