وزیر اعظم نواز شریف کا دورۂ واشنگٹن

تنویر قیصر شاہد  پير 19 اکتوبر 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

وزیر ِاعظم محمد نواز شریف صاحب فتح مندی کے جذبوں سے سرشار امریکی صدر سے ملنے واشنگٹن جا رہے ہیں۔ میاں صاحب این اے 122 کا انتخابی معرکہ جیت چکے ہیں۔ اصغر خان کیس میں عائد کردہ الزام کے حوالے سے ایف آئی اے کو تردیدی بیان ریکارڈ کر کے وہ اپنے ضمیر اور قوم کے سامنے سرخرو بھی ہو گئے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیر اعظم کا (روکا گیا) کسان پیکیج بحال کر کے میاں صاحب کے اطمینان اور خوشیوں میں اضافہ کیا ہے۔ این اے 122 کی انتخابی فتح اور کسان پیکیج کی بحالی سے میاں نواز شریف کو زیادہ خوشی ہوئی ہو گی کہ یہ دونوں فیصلے دراصل ان کے حریف عمران خان کی شکست اور ناکامی کا دوسرا نام ہے۔

اس ذہنی سرشاری اور قلبی اطمینان کے ساتھ میاں محمد نواز شریف سرکاری دَورے پر واشنگٹن جا رہے ہیں جہاں وہ 22 اکتوبر 2015ء کو بارک حسین اوباما سے ملیں گے۔ یہ میاں صاحب کی اوباما سے دوسری باقاعدہ ملاقات ہو گی۔ حکومت اور پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان جناب قاضی خلیل اللہ نے کھل کر تو نہیں بتایا لیکن اگر حکومتی ذمے داران کے بیانات کے اجزا یکجا کیے جائیں تو ایک مبہم سی تصویر بنتی ہے کہ واشنگٹن میں جناب نواز شریف اپنے میزبان سے کیا کیا باتیں کریں گے؟ میاں صاحب امریکی صدر کو بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی پاکستان کے خلاف مسلسل درازدستیوں اور دراندازیوں سے آگاہ کریں گے اور انھیں یہ بھی بتائیں گے کہ بھارتی فسادی عناصر نے پاکستان کے خلاف افغانستان میں کیا اودھم مچا رکھا ہے۔ شنید ہے کہ وہ ’’عالمی تھانیدار‘‘ کو یہ بھی بتائیں گے کہ پاکستان کس قدر اخلاص اور محبت سے افغانستان کے ساتھ بہت سے محاذوں پر تعاون کر رہا ہے لیکن ناشکرے افغان حکمران اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیاں مطمئن ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ وہ بھارت کے شیطانی گھوڑے پر مسلسل سوار ہیں۔

میاں صاحب ’’چین پاکستان اکنامک کوریڈور(CPEC)‘‘ اور نیوکلیئر سپلائر گروپ (NSG) کے حساس موضوع پر بھی کھل کر گفتگو کریں گے کہ اس حوالے سے بھارت نے امریکا کے بہت کان بھر رکھے ہیں۔ خود امریکا کو بھی چین کی طرف سے پاکستان کے لیے یہ شاندار، بے مثل اور تاریخی تعاون ہضم نہیں ہو رہا۔ یوں بھارت اور امریکا کے نام نہاد تحفظات یکجا ہو گئے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ امریکا بہادر کی طرف سے ہمارے وزیر اعظم محمد نوازشریف سے کیا کہا جائے گا؟ امریکی صدر کی زبان سے جو الفاظ ادا ہوئے ہیں، وہ صرف افغانستان کے ضمن میں ہیں۔ اوباما نے کہا ہے: ’’نواز شریف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات آگے بڑھانے پر بات ہو گی۔‘‘ گویا وزیر اعظم نواز شریف کے دورۂ واشنگٹن میں امریکی انتظامیہ صرف افغانستان کے مسائل کو ترجیح دے گی؟ افغان طالبان کے نئے امیر، محاصرۂِ قندوز اور کابل میں آئے روز افغان طالبان کے حملوں نے یقینا امریکی انتظامیہ کو پریشان اور ان کے حواس مختل کر رکھے ہیں۔ افغانستان کی دگرگوں صورتحال کے پس منظر میں نواز شریف کے دورۂ واشنگٹن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ فرید ذکریا نے بھی کھڑی کر دی ہے۔

فرید ذکریا امریکا کے ممتاز اخبار نویس، مصنف اور تجزیہ کار ہیں۔ سی این این کے اینکر پرسن۔ ’’نیوزویک انٹرنیشنل‘‘ میگزین کے سابق مدیر۔ ’’فارن افیئرز‘‘ ایسے مؤثر ترین امریکی جریدے کے مدیرِ منتظم بھی رہے۔ امریکی شہری ہیں لیکن ہیں بھارتی النسل۔ بھارتی شہری رفیق ذکریا کے فرزندِ ارجمند۔ جب بھی موقع ملے، نسلی بھارتی ہونے کے ناتے پاکستان کو ڈنک مارتے ہیں۔ نواز شریف کے دورۂ واشنگٹن کے موقع پر بھی ایسا ہی کیا ہے۔ آنجناب نے مشہور امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ میں ایک تفصیلی ’’لوڈڈ‘‘ آرٹیکل لکھا ہے جس کے لفظ لفظ سے پاکستان سے نفرت اور پاکستان کے خلاف الزامات کا زہر ٹپک رہا ہے۔ فرید ذکریا نے لکھا ہے کہ افغانستان کے دگرگوں حالات کو سنوارنے اور کابل حکومت کے خلاف آئے روز جارحیت کرنے والے افغان طالبان کے منہ میں ’’مستقل لگام‘‘ ڈالنے کی کنجی پاکستان کے پاس ہے: ’’اس لیے افغانستان کے معاشی، سیاسی اور سماجی معاملات درست کرنے ہیں تو صدر بارک اوباما پر لازم ہے کہ وہ پہلے پاکستان کو ’’درست‘‘ کرنے کے فوری اقدام کریں۔‘‘

فرید ذکریا نے مزید دریدہ دہنی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان ایک ٹائم بم ہے جو کسی بھی وقت پھٹ کر امنِ عالم کو تباہ کر سکتا ہے۔ وہ زہر افشانی کرتے ہوئے یہ بھی رقمطراز ہے کہ پاکستان اقتصادی اعتبار سے تو دنیا میں 43 ویں نمبر پر آتا ہے جب کہ اس کی طاقتور فوج دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے اور پاکستان تیزی سے ایٹمی ہتھیار بنانے میں بھی بہت آگے جا رہا ہے۔ اس بے بنیاد الزامی آرٹیکل نے واشنگٹن کا دورہ کرنے والے نواز شریف کے لیے یقینا مسائل پیدا کیے ہیں۔ چنانچہ افغانستان کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ دورہ Tense Diplomacy کے سایوں میں ہو رہا ہے۔

عالمی خبررساں ادارے ’’ایسوسی ایٹڈ پریس‘‘ نے بھی یہ الزام لگایا ہے کہ سقوطِ قندوز میں پاکستان کے خفیہ ادارے کے افسروں نے بنیادی کردار ادا کیا۔ اگرچہ پاکستان نے سختی سے اس کی تردید کی ہے۔ سترہ اکتوبر 2015ء کو ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغان طالبان کے ہاتھوں سقوطِ قندوز کے حوالے سے افغانستان نے پاکستان پر جو الزامات عائد کیے ہیں، اس اساس پر پاک امریکا تعلقات میں کشیدگی آ سکتی ہے۔ ’’سی آئی اے‘‘ کے سابق رکن اور معروف امریکی مصنف بروس رائیڈل نے بھی اپنی تازہ ترین کتاب JFK,s Forgotten Crisis میں بہتان لگایا ہے کہ ’’پاکستان انتہائی خطرناک اور غیر مستحکم ملک ہے، اس لیے امریکا کو پاکستان سے احتیاط کے ساتھ مصافحہ کرنا چاہیے۔‘‘ یہ رپورٹیں بتاتی ہیں کہ نواز شریف کا دورۂ واشنگٹن اور امریکی صدر سے ان کا مکالمہ اتنا آسان نہیں ہو گا اور یہ کہ دونوں لیڈروں کے درمیان ڈائیلاگ کا محور زیادہ تر افغانستان ہو گا۔

امریکی حکومت کے نئے فیصلوں اور تازہ اقدامات سے بھی یہی عیاں اور مترشح ہوتا ہے کہ اوباما انتظامیہ سنجیدگی سے الجھے افغانستان کو سلجھانا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں اس نے بعض نئے فیصلے بھی کیے ہیں۔ مثلاً: اگلے دو برسوں کے لیے افغانستان میں تقریباً دس ہزار امریکی فوجیوں کا قیام جو بگرام، قندھار اور جلال آباد کے فوجی اڈوں میں تعینات رہیں گی۔ اس فیصلے سے افغان حکومت، افغان نیشنل آرمی اور افغان عوام کو حوصلہ ملا ہے لیکن افغان طالبان اس امریکی فیصلے کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں۔ امریکی صدر نے مگر ان کے تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے اپنا وزن صدر اشرف غنی کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ افغانستان کی حکومت کو حوصلہ بھی دیا جائے اور یہ پیغام بھی کہ اس بار امریکا الجھے اور مسائل زدہ افغانستان کو یکتا و تنہا نہیں چھوڑے گا۔

افغانستان کے دگرگوں مسائل کو ممکنہ طور پر حل کرنے کے لیے بارک اوباما نے رچرڈ اولسن کو پاکستان اور افغانستان کے لیے اپنا خصوصی نمایندہ (SRAP) مقرر کر دیا ہے۔ رچرڈ اولسن صاحب گذشتہ تین برس سے پاکستان میں امریکا کے سفیر تھے۔ اٹھارہ ستمبر 2015ء کو ان کی مدتِ سفارت کاری ختم ہو گئی اور اب وہ پاکستان اور افغانستان کے لیے نامزد خصوصی نمایندہ کی حیثیت میں اپنی نئی ذمے داریاں سترہ نومبر 2015ء کو سنبھالیں گے۔ وہ پاک افغان جھگڑوں، شکوے شکایات اور مسائل سے بھی گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ پاکستان میں متعین ہونے سے قبل وہ کابل میں بروئے کار امریکی سفارت خانے میں بھی دو سال تک حساس معاشی معاملات کے انچارج رہے ہیں۔ افغانستان کے سیاستدانوں کی نفسیات سے بھی گہری آشنائی رکھتے ہیں۔ رچرڈ اولسن کے پاکستان اور افغانستان کے معاشی، سیاسی اور سماجی حالات کا گہرا ادراک رکھنے کے پس منظر ہی میں امریکی صدر نے انھیں پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصی نمایندہ مقرر کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ ان کی تجربہ کار اور کارآمد شخصیت سے ممکنہ استفادہ کرنے کی متمنی ہے اور اس امر کی بھی خواہش مند کہ وہ ڈیورنڈ لائن کے آرپار دونوں مقتدر فریقین سے مل کر افغانستان کے الجھے معاملات کو سلجھا سکیں گے۔

اندازہ ہے کہ 22 اکتوبر کو واشنگٹن میں بروئے کار وہائٹ ہاؤس کے اووَل آفس میں جب امریکی صدر بارک حسین اوباما اور پاکستانی وزیر اعظم محمد نواز شریف آمنے سامنے بیٹھیں گے تو رچرڈ اولسن کی تعیناتی کا معاملہ بھی زیرِ بحث آئے گا۔ یقینا امریکی صدر وزیر اعظم نواز شریف سے تعاون کرنے کا کہیں گے تا کہ رچرڈ اولسن پاکستان کی مدد سے افغانستان کے الجھاؤ کو سلجھاؤ میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ مسئلہ مگر پھر وہی ہے کہ اگر افغان حکومت بدستور بھارتی کندھوں پر سوار ہو کر پاکستان پر بہتان طرازی کرتی رہی تو پاکستان و افغانستان کے لیے نئے امریکی نمایندہ خصوصی کی کوششیں بھی اکارت ہی جائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔