شناختی کارڈ… ( حصہ دوم)

شیریں حیدر  پير 19 اکتوبر 2015
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

قطار کے آخری سرے پر اب کچھ اور عورتیں شامل ہو گئی تھیں اور مجبوراً مجھے مزید پیچھے جا کر کھڑا ہونا پڑا تھا، زمین پر بیٹھ کر، پکوڑے کھانے والا گروپ اب قطار میں تازہ دم ہو کرشامل ہو گیا تھا۔ میں نے عینک جمائی اور کھڑکیوں کے شیشوں کے پار چاروں کاؤنٹرز پر مجھے لوگ کام کرتے نظر آئے جن میں سے ایک انچارج صاحب کے کمرے میں ان کے ساتھ بھی تھا۔

برآمدے کے دروازے کے پار کھڑے گارڈ نے اندر سے ہدایات ملنے پر باہر دو قطاریں مردوں کی اور دو عورتوں کی بنوا دیں، اس وقت دو کاؤنٹرز عورتوں کے لیے اور دو مردوں کے لیے کام کرنے لگے۔اس طرح ہماری قطار قدرے مختصر ہو گئی تھی، عورتوں کی قطاریں بنواتے وقت موصوف نے پورے انصاف سے ایک ایک عورت کو ترتیب سے دونوں قطاروں میں کھڑا کیا تھا۔ اندر ’’ کام ‘‘ ہونے لگا تھا تو ایک گھنٹے کے بعد ایک بجے میں کاؤنٹر تک پہنچ گئی تھی،اس سے پہلے کی تمام عورتیں اب عمارت کے اندر تھیں،مختلف بنچوں پر بیٹھی تھیں، دھوپ سے محفوظ تھیں اور اندر پنکھے بھی چل رہے تھے، میں اسی تصور سے خوش ہو گئی کہ چند منٹ کے بعد میں بھی کسی پنکھے کی ہوا کے نیچے سکھ کا سانس لے رہی ہوں گی۔

’’ بیٹا یہ حکومت نے آج کل اخبارات میں کافی غوغا مچایا ہوا ہے کہ اب شناختی کارڈ کا حصول آن لائن ممکن ہو جائے گا، میں نے تو کافی کوشش کی ہے مگر مذکورہ ’’ پیج‘‘ کھلتا ہی نہیں ہے‘‘ میں نے کاؤنٹر پر موجود صاحب سے پوچھا۔’’ ابھی تو جی حکومت نے صرف اعلان کیا ہے، اس کا اطلاق ہونے میں کچھ وقت لگے گا، اور اس ملک میں جہاں جعلی شناختی کارڈ اس قدر زیادہ بن چکے ہیں وہاں اس طرح کی اسکیم سے جعل سازی کو اور بھی فروغ ملے گا!!‘‘ اس نے نکتہ اٹھایا، ’’ فی الحال تو اس کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا!! ‘‘ وہ تو میں بھی چیک کر چکی تھی کہ حکومت کی طرف سے دی گئی ویب سائیٹ کا ابھی صرف ’’ کور پیج‘‘ ہی بنا تھا، اس سے آگے وہ نہیں کھلتا تھا۔ بنیادی فارم کمپیوٹر پر پر کر کے، میرا پرانا شناختی کارڈ مجھ سے وصول کر کے اس نے مجھے ایک رسید دی اور اندر جانے کا کہا۔

اندر کا وہ ہال جسے میں باہر سے حسرت سے دیکھ رہی تھی، اس میں داخل ہوئی تو’’ چراغوںمیں روشنی نہ رہی…‘‘ شاعر نے جب یہ مصرعہ کہا تھا تواس وقت نہ بجلی تھی نہ ہی بجلی کی لوڈ شیڈنگ، ورنہ ان کا مصرعہ حسب حال کچھ یوں ہوتا، اس کے بعد چراغوں میں روشنی رہی نہ پنکھوں کی ہوا… یعنی عین ایک بجے اور بجلی غائب، جس سہانے تصور کے ساتھ میں اندر آئی تھی وہ ہوا ہو گیا تھا، لگ بھگ پچیس × ستر فٹ کا وہ ہال، اسی میں چار کھڑکیوں والے کاؤنٹر تھے، اسی میں تین مختلف جگہوں پر دو اصحاب اور ایک صاحبہ، اپنی کرسیاں اور میز لگائے بیٹھے تھے،اسی میں ایک طرف لکڑی کی پارٹیشن کر کے فوٹو گرافر بیٹھا تھا اور اسی میں چالیس پچاس لوگ جو اندر آ چکے تھے، انتظار کر رہے تھے۔ساون کا مہینہ ہو، فضا میں بھی حبس ہو، اندر آنے والے اندر آنے سے پہلے گھنٹوں دھوپ میں گزار کر پسینہ پسینہ ہوئے ہوں، اور ان میں سے بیشتر ایسے بھی ہوں جو اس روز تو کیا، کئی دن سے نہائے بھی نہ ہوں ، ’ اس سے بہتر تھا کہ باہر ہی انتظار کر لیا جاتا‘ میں نے دل ہی دل میں سوچا، ’ ہاں ! ہم کسی حال میں بھی خوش نہ ہونے والے لوگ ہیں‘ سانس روکتے اور پھر اسے رہا کرتے ہوئے ایک گھنٹہ گزار لیا، لوگ باہر سے اندر آ رہے تھے اور اندر سے فارغ ہونے والے باہر جا رہے تھے، اندر آنے والوں کی تعداد نسبتاً باہر جانے والوں سے زیادہ تھی۔

بجلی آ گئی تو روشنی سے ماحول نظر آنے لگا، میں نے خود کو بہلانے کے لیے کتاب کھول لی، کافی دیر کے بعد میرے نام کی پکار پڑی جو اس شور میں بمشکل سنائی دی تھی، کیونکہ کوئی مائیک کا نظام تھا نہ ٹوکن نمبر، فوٹو گرافر کے پاس پہنچی۔ اس نے آئینہ دیا، جسے دیکھتے ہوئے بھی خوف محسوس ہو رہا تھا کہ اگلے کئی سال تک اسی چہرے نے میری شناخت بننا تھا، میں نے اسے شکریہ کہا اور بیگ سے ٹشو پیپر نکال کر چہرے سے پسینہ صاف کیا، اپنے بالوں کو بہتر کرنے کی ناکام کوشش کی اور تصویر کھینچوا لی، اس نے اسکرین پر آ کر تصویر دیکھنے کو کہا، اس تصویر کو اپنی تصویر کے طور پر پہچاننا زندگی کا ایک کڑوا سچ تھا جسے بمشکل نگلا اور دوبارہ باہر آ گئی، فوٹو گرافر نے ہی بتایا تھا کہ مجھے باہر جا کر دوبارہ اپنے نام کے پکارے جانے کا انتظار کرنا تھا ۔ اب باہر کوئی کرسی خالی نہ تھی اس لیے میں دیوار کا سہارا لے کر کھڑی ہو گئی اور عقابی نظروں سے جائزہ لینے لگی کہ کون سی نشست خالی ہو تو میں لپک کر پہنچوں ، اس تاک میں بھی میں تنہا نہیں تھی، کئی اور لوگ انتظار میں اسی طرح کھڑے تھے۔

پچیس تیس منٹ کے بعد میرا نام پھر پکارا گیا اور اس بار میں پہلے کاؤنٹر پر پہنچی جہاں بیٹھے صاحب نے میری تمام انگلیوں کے عکس کمپیوٹر پر منتقل کیے اور مجھے ایک پرچی نکال کر دی، ’’ اب میں جا سکتی ہوں ؟ ‘‘۔’’ نہیں ، ابھی آپ کو دوبارہ بلایا جائے گا!! ‘‘ انھوں نے کہہ کر اگلے آدمی کا نام پکارا اور میں اس انتظار گاہ میں ایک خالی کرسی پر بیٹھ گئی، پھر اتنے ہی وقفے کے بعد میرے نام کی پکار ہوئی تو میں اگلے کاؤنٹر پر چلی گئی جہاں مجھ سے پوچھ کر فارم دوبارہ چیک ہوا اور اگر اس میں کوئی تبدیلی کروانا ہو تو… ’’ کیا اب میں جا سکتی ہوں ؟ ‘‘

’’ نہیں انتظار کریں ، آپ کو پھر بلایا جائے گا !! ‘‘ میں پھر اتنے ہی وقت کے لیے بیٹھ گئی، جی چاہ رہا تھا کہ بھاگ جاؤں مگر پھر سوچا کہ جو داستان اس وقت تک ذہن میں ترتیب پا چکی ہے اس کا بھاگ جانے والا انجام پڑھنے والوں کو پسند نہیں آئے گا اور حکومت کو علم کیسے ہو گا کہ عوام کتنی مشکل سے شناختی کارڈ حاصل کرتے ہیں۔کسی نے غصے سے میرا نام پکارا تھا، ’’ جی!! ‘‘ میں جیسے خواب سے چونکی تھی۔’’ کتنی دیر سے آپ کو بلایا جا رہا ہے بی بی!! ‘‘ ان صاحب نے غصے سے کہا۔’’ سوری مجھے آواز نہیں آئی ‘‘ میں اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’ آخری کاؤنٹر پر جائیں… ‘‘ کہہ کر وہ چلے گئے، میں وہاں پہنچی جہاں ایک باریک سی، چوبیس پچیس سالہ لڑکی حجاب اور نقاب کے ساتھ بیٹھی تھی ’’ میں نے آپ کو کتنی بار پکارا میڈم‘‘

’’ بیٹا…آپ یہاں میرے ساتھ بات کر رہی ہیں تو مجھے آواز نہیں آ رہی ، اس نقار خانے میں آپ کی طوطی کون سن سکتا ہے؟ کوئی مائیک وغیرہ کا نظام کیوں نہیں رکھ لیتے آپ، جس طرح بنکوں میں یا کئی اور دفاتر میں ہوتا ہے ‘‘ اس کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ ’’ یہ ہمارے شناختی کارڈ ہماری زندگیوں میں ہی expire کیوں ہو جاتے ہیں، ان کو ایک مخصوص مدت کے لیے بنانے کا کیا جواز ہے؟ ‘‘ میں نے اس سے سوال کیا، جواب ندارد۔’’ ہر روز اس سینٹر میں کتنے لوگ شناختی کارڈ بنوانے آتے ہوں گے؟ ‘‘ میں نے سوال داغا۔’’ معلوم نہیں جی، شاید ہزاروں !! ‘‘ اس نے اپنی باریک اور مدہم آواز میں کہا ، ساتھ ساتھ وہ میرے ساتھ ان معلومات کو دہرا رہی تھی جو اس کے کمپیوٹر میںمیرے نام سے تھیں اور ان کی تصدیق مجھ سے کر رہی تھی۔’’ اب میںجا سکتی ہوں کیا؟ ‘‘ میں نے اپنا سوال تیسری بار دہرایا۔’’ نہیں ‘‘ ہولے سے اس نے کہا، ’’ شیشے کے اس پار چلی جائیں ، وہاں پر تصدیق کر کے آپ کو رسید دی جائے گی، میں نے اس کی ہدایات کی تقلید کی۔ چار بجے گھر پہنچی تو سب کو اشارے سے منع کر دیا کہ کوئی کچھ نہ پوچھے ورنہ دو چار سر تو پھٹ ہی جاتے۔ کمرے میں جا کرتنہائی میں سوچنے لگی ان سوالوں کے جوابات جو کوئی بھی نہیں دے سکتا۔

شناختی کارڈ کے expire کیے جانے کی کیا وجوہات ہیں، کیا ہر شہری کو عمر بھر کے لیے شناختی کارڈ جاری نہیں کیا جا سکتا جیساکہ پہلے ہوتا تھا؟ جو طریقہ ہمارے ملک میں نافذ العمل نہیں یا جس میں loop holes ہیں اسے اشتہارات کی حد تک متعارف کروانے میں حکومت کا کیا فائدہ ہے؟ شناختی کارڈ ملک کے ہر شخص کی ضرورت ہے اس کے حصول کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے مشکلات کیوں پیدا کر دی گئی ہیں؟ کیا ان سینٹرز میں سایہ، پانی، بیٹھنے کے لیے بنچ، اندر بیٹھنے والوں کے لیے ائیر کنڈیشنرز یا بجلی بند ہونے کی صورت میں جنریٹرز مہیا نہیں کیے جا سکتے، جیسا کہ بعد میں عورتوں کے لیے دو قطاریں بنوائی گئیں، پہلے سے ہی نہیں سوچا جا سکتا تھا کہ عورتیں ہماری آبادی کا زیادہ حصہ ہیں اور ان کے لیے زیادہ قطاروں اور عملے کی ضرورت ہوتی ہے؟ جہا ں ہزاروںلوگ ہر روز شناختی کارڈ بنوانے کے لیے آتے ہیں وہاں چار چھ لوگوں کا عملہ اور اس میں سے بھی آدھا غائب، کوئی جواب طلب کرنے والا ہے؟ کون سا دفتر ہے جو اس طرح چل سکتا ہے کہ کام کرنے والے انچارج کی نظروں سے اوجھل ہوں اور انچارج کو علم ہی نہ ہو کہ اس کا آدھے سے زائد اسٹاف کام پر موجود ہی نہیں؟ کسی بھی دفتر کے عملے کو اپنے کام سے متعلق بنیادی معلومات ہی حاصل نہ ہوں اور وہ اپنے کلائنٹ کے سوالوں کے جوابات ہی نہ دے سکیں؟

کیا ایسا ممکن نہیں کہ شناختی کارڈ کے لیے apply کرنے والے کو ایک ہی کاؤنٹر پر serve کیا جائے، یعنی ایک ہی جگہ اس کا فارم پر کر کے،اس کی تصدیق کی جائے، کوئی تبدیلی کرنا ہو تو وہ کی جائے، اس کے دستخط اور انگلیوں کے نشانات لیے جائیں اور اسے ایک رسید نکال کر دی جائے، جب کہ سارا نظام بنیادی طور پر آپس میں منسلک و مربوط بھی ہو یعنی اس سینٹر میں موجود سارے کمپیوٹرز پر تمام لوگوں کا data دیکھا جا سکتا تھا اور دیکھا جا رہا تھا؟ کیا حکومت کی طرف سے کبھی کسی نے جاننے کی کوشش کی ہے ان کے قائم کیے گئے مراکز خواہ وہ شناختی کارڈ ہو یا ڈرائیونگ لائسنس، پاسپورٹ ہو یا گاڑی کی رجسٹریشن یا پنشن کا حصول… لوگ کن مشکلات کا شکار ہوتے ہیں اور کس کس طرح سے حکومت کو کوستے ہیں، کیونکہ بالآخر حکومت عوام کو جواب دہ ہے، عوام حکومت کو نہیں!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔