میڑو بس، اب انسانی جانیں لینے لگی

سہیل اقبال خان  پير 19 اکتوبر 2015
میں منتظمین سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب آپ ٹھیکہ لینے والی کمپنیوں کے کام کا معیار نہیں دیکھ سکتے تو پھر کیوں ایسے منصوبے شروع کیوں کرتے ہیں؟ فوٹوَ: فائل

میں منتظمین سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب آپ ٹھیکہ لینے والی کمپنیوں کے کام کا معیار نہیں دیکھ سکتے تو پھر کیوں ایسے منصوبے شروع کیوں کرتے ہیں؟ فوٹوَ: فائل

سفری سہولیات کو ترجیح کون نہیں دیتا ہے، یا یوں کہیے کہ کون دینا نہیں چاہتا؟ ہر ملک میں اپنی عوام کو سفری سہولیات دینا اولین ترجیحات میں شمار کیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو عوام کو سفری سہولیات دینا اتنا ہی اہم سمجھا جاتا ہے، جتنا خوراک کا فراہم کیا جانا ہو۔ یوں سمجھ لیا جائے کہ اُن ممالک میں عوام کی زندگی کو تیز، بہتر اور پُرسکون بنانے کے لئے ان تمام تر سفری سہولیات کے اقدامات کو بروئے کار لایا جاتا ہے، جن کے ذریعے عوام جب بھی اپنی منزل مقصود کی جانب سفر کرنا چاہیں تو بغیر کسی مشکل کے وہ باآسانی ایسا کرسکیں۔

اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پہلے یہاں سفری سہولیات تو موجود تھیں، لیکن اُنہیں تسلی بخش ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔ بس یہی وجہ ہے کہ بہترین سفری سہولیات کو یقینی بنانے کے لئے ترکی میں چلنے والی میڑو بس کی طرز کے منصوبے کو یہاں بھی شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جس کا آغاز لاہور شہر سے کیا گیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ شہرِ لاہور میں اچھی طرز کی سفری سہولت دینا ایک بڑا چیلنج تھا تو ہرگز غلط نہیں ہوگا لیکن وزیراعلیٰ جناب شہباز شریف صاحب نے اس چیلنج کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اِس کو عملی شکل بھی دی۔ جب یہاں یہ منصوبہ کامیابی سے چل پڑا تو پھر اس منصوبے کو دوسرے شہروں میں بھی پھیلانے کا فیصلہ کیا گیا، اِس فیصلے کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ عوامی خدمت کی جانب ایک بڑا قدم تھا۔

لاہور کے بعد اسلام آباد اور راولپنڈی میں میڑو بس کو شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن لاہور کے برعکس اِس منصوبے پر شروع سے مشکلات کا سامنا رہا، ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہاں حکمت عملی کا کوئی نام و نشان نظر نہ آیا۔ میڑو بس کے افتتاح سے لے کر آج تک کی بات کی جائے تو عموماً اسلام آباد میڑو بس کے حوالے سے کوئی نہ کوئی خبر سامنے آتی رہی۔ اگر اسلام آباد میں کہیں زیادہ بارشوں ہوجائیں تو پانی میڑو بس کے اسٹیشنوں کا رخ کر لیتا ہے اور پھر یہ اسٹیشن میڑو بس نہیں، بلکہ ایک تالاب کا منظر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ ان تالابوں کو دیکھ کر میڑو بس منصوبے کی حکمت عملی کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔

اگر بات یہاں رُک جاتی تو ہمارا اعتراض مسترد کیا جاسکتا تھا مگر اب میڑو بس منصوبے میں استعمال ہونے والے مواد کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات بڑھ گئے ہیں۔ صرف 6 ماہ کی محدود مدت میں میڑو بس کے اسٹیشنوں سے جگہ جگہ پتھر اور پلوں کے حصے ٹوٹتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، لگ تو یوں رہا ہوتا ہے کہ جیسے میڑو بس کے لئے نہیں بلکہ ایک نہر کے عام سے پل کے لئے پلان تیار کیا گیا تھا، جس پر صرف پیدل چلنے والوں کا ہی گذر ممکن ہے۔ لیکن عجب بات تو یہ ہے کہ اِس تمام تر خرابی کے باوجود بھی میڑو بس منصوبے کو بنانے والے ٹھیکداروں سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ یہ خرابی ہوئی تو کیوں اور کیسے ہوئی۔

اِس خراب حالت کو دیکھ کر جس بات کا خدشہ تھا گزشتہ روز وہی ہوا۔ خبر یہ ہے کہ میڑو بس کے پل کے نیچے سے گذرنے والا شہری پل سے ٹوٹ کر گرنے والے پتھر کی وجہ سے اپنی جان سے ہی چلا گیا۔ پتھر اس شہری کے سر پر لگا جس کی وجہ سے وہ اسپتال میں دم توڑ گیا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا شہر کے درمیان سے گذرنے والی میڑو بس کے پل کی یہ مضبوطی ہے کہ کبھی بھی، وہاں سے کوئی حصہ ٹوٹ کر گرسکتا ہے؟ یعنی اب اگر کسی شہری کو پل کے نیچے سے گزرنا ہو تو حفاظتی اقدامات یا ہیلمٹ پہن کر چلے۔ کیا میں اِس منصوبے کے منتظمین سے پوچھنے میں حق بجانب نہیں ہوں کہ جب آپ ٹھیکہ لینے والی کمپنیوں کے کام کا معیار نہیں دیکھ سکتے اور جانچ پڑتال آپ کے بس کا روگ نہیں تو پھر کیوں ایسے منصوبے شروع کیوں کرتے ہیں جو شہریوں کی جانوں کے دشمن بن جائیں۔

اُمید تو یہی کرتے ہیں کہ اِس حادثے کے بعد حکومت نیند سے بیدار ہوجائے اور پورے روٹ پر قائم پل کا تفصیلی معائنہ کرے اور جہاں جہاں خرابی نظر آئے وہاں فوری طور پر مرمت کرے کسی بھی بڑے حادثے سے بچا جاسکے۔ لیکن حکمرانوں کے رویے کو دیکھتے ہوئے ایسا مشکل ہی دکھائی دیتا ہے کہ اِس پراجیکٹ کے ذمہ دار حنیف عباسی نے حادثے کے بعد بیان دیا کہ اگرچہ ایک شخص کی جان چلے گئی ہے لیکن میٹرو چل رہی ہے اور بڑے بڑے شہروں میں چھوٹے چھوٹے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔

اب آپ خود بتائیے کہ جب حکمراں ٹولے میں شامل افراد کی سوچ یہ ہوگی تو کیونکر پل کا معائنہ ہوگا اور کیوں خراب جگہوں کی مرمت ہوگی۔ اِس لیے اُمید رکھیے مگر حکمرانوں سے نہیں بلکہ اِس نظام کو چلانے والے رب سے وہ لوگوں کو کسی بھی بڑے حادثے سے محفوظ رکھے۔

لیکن جاتے جاتے وزیراعلی شہباز شریف کو بھی مشورہ کہ آپ لاہور میں میڑو ٹرین کا آغاز بھی کر رہے ہیں۔ مہربانی فرماکر میڑو ٹرین منصوبے کے وقت مکمل حکمت عملی اور معیار کا خاص خیال رکھئے گا۔ میڑو ٹرین کے ساتھ ساتھ فیصل آباد اور ملتان میڑو بس کے منصوبوں میں بھی معیار کا خاص خیال کیجئے گا کیونکہ اگر یہاں بھی معاملات اسلام آباد و پندی جیسے ہوئے تو پھر عوام کو سفری سہولت کم اور ان منصوبوں سے مشکلات زیادہ ہوں گی۔

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

سہیل اقبال خان

سہیل اقبال خان

بلاگر اردو اور انگریزی میں کالم نگاری کے ساتھ بلاگز بھی لکھتے ہیں۔ سیاسی صورتحال پر خاص نظر ہے۔ بلاگر سے فیس بک آئی ڈی uos.awan اور ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔