امریکا اور ہمارا وزیراعظم

عبدالقادر حسن  منگل 20 اکتوبر 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ہم پاکستانی ایک بار پھر مغرب کے بادشاہ امریکا کی طرف مائل پرواز ہیں بلکہ اب تک اس سرزمین پر پہنچ چکے ہوں گے، بہت ساری شکایتوں اور گلہ گزاری کے ساتھ ویسے امریکا اور پاکستان کا قصہ بہت پرانا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ایک موقع آیا جب ہمیں روس نے مدعو کیا مگر ہم روس سے بڑے طاقت ور ملک امریکا چلے گئے۔

اس کے بعد امریکا اور پاکستان کے تعلقات کی تاریخ ہمارے سامنے ہے اور ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ امریکی حکمرانوں نے ہماری کتنی اور کیسے پذیرائی کی۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم امریکا سے چمٹے اور چپکے رہے کیونکہ ہم نے شروع دن سے ہی روس کو جھٹک دیا تھا۔

ملکوں کے تعلقات کی تاریخیں بہت طویل اور الجھی ہوئی ہوتی ہیں، اتار چڑھاؤ کا تسلسل جاری رہتا ہے لیکن ہمارے پاکستانی سیاستدانوں نے ہمیشہ امریکا کے ساتھ خوشامدانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش اور اس میں اگر کبھی کامیابی دکھائی دی تو اس وقت جب امریکا کو کبھی ہماری ضرورت محسوس ہوئی۔ امریکا ہو یا روس ان بڑی طاقتوں کو ہماری جغرافیائی اہمیت کا ہمیشہ سے احساس رہا کیونکہ ہم دنیا کے ایک ایسے حصے میں موجود ہیں۔

جس سے صرف نظر ممکن نہیں، یہ عالمی طاقتوں کے راستے میں پڑتا ہے۔ حال ہی میں جب افغانستان کے مسئلے پر وسطیٰ ایشیا اور روس اور امریکا کو مداخلت کی ضرورت پڑی تو ان کے راستے میں پاکستان موجود تھا۔ اس کو عبور کیے بغیر دنیا کی بڑی طاقتیں پیش قدمی نہیں کر سکتی تھیں۔ روس نے سرتوڑ کوشش کی کہ اسے افغانستان سے آگے نکل کر پاکستان کے راستے گرم پانیوں تک رسائی مل سکے۔ گرم پانیوں کا قصہ روسی ترجمانوں اور پاکستانی روسی لابی کے لوگوں نے ایک مذاق بنائے رکھا کہ افغانستان سے پاکستان کے راستے آگے بڑھ کر گرم سمندروں تک پہنچنے سے کون روک سکتا ہے۔

روس کی طاقت بلاشبہ بہت بڑی تھی لیکن افغانستان اور پاکستان اس کے سامنے کچھ بھی نہ تھے مگر کوئی بات ایسی ضرور تھی، روسی طاقت آگے بڑھنے سے رک جاتی تھی۔ اس ضمن میں روس کا ایک موقف تھا اوراس موقف کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے مجھ سے قابل اعتبار صحافی اور کوئی نہ تھا چنانچہ روس کے چند پاکستانی ہمنوا صحافیوں نے مجھے یاد کیا۔ ان روسی لابی کے صحافیوں میں مرحوم حامد محمود‘ عبداللہ ملک ایسے چند مستند صحافی تھے۔

جنہوں نے شیخ خالد محمود کے گھر مجھے یاد کیا جہاں روسی سفیر سرور عظیموف ٹھہرے ہوئے تھے۔ روسی سفیر سے اور تو کوئی بات نہ بن سکی کہ وہ طاقت سے یہ راستہ لے سکتے ہیں کیونکہ روسی سفیر گرم پانیوں کے اس قصے کو ہی غلط سمجھتے تھے لیکن پھر بھی سفیر موصوف نے کہا کہ کیا ہم چند پاکستانی جرنیلوں کو خوش کر کے کیا یہ کام ان سے نہیں کرا سکتے۔ اس پر روسی سفیر سے انٹرویو ختم ہوا اور روسی سفیر قدرے برہم ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے، وہ پاکستانی جرنیلوں والی بات کہنا نہیں چاہتے تھے۔

بات پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کی ہو رہی تھی جس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور آج بھی یہی صورت حال موجود ہے، دنیا کا یہ خطہ اپنی زبردست اہمیت رکھتا ہے اور پاکستان کو فتح کر کے یا پاکستان کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کر کے ہی اس خطے پر نظر ڈالی جا سکتی ہے۔

افغانستان اس وقت پھر امریکی طاقت کے لیے ایک الجھن بنا ہوا ہے، پاکستان کی مدد سے یہ کام آسانی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے لیکن پاکستان ایسا کیوں کرے اور اپنی یہ قدرتی طاقت کسی کے حوالے کیوں کرے۔ اسے دنیا کی ایک طاقت قابو کرنے کی کوشش کرے گی تو دوسری سامنے آ جائے گی اور اب تو خود پاکستان اپنے دفاع کے لیے تیار ہے اور اس قابل ہے۔

دنیا کے اس اہم ترین خطے کا مالک وزیراعظم پاکستان اگر امریکا جا رہا ہے تو ایک طاقت کے ساتھ امریکا پہنچ رہا ہے، اب یہ ہمارے وزیراعظم پر منحصر ہے کہ وہ ایک سپر پاور کے ساتھ اپنے معاملات کیسے طے کرتا ہے۔ ایک کمزور ملک کی حیثیت میں ایک خود دار اور باغیرت ملک کی حیثیت میں۔ پاکستان جو ایٹمی ملک بھی ہے اور جس کی فوج دنیا کی نہایت ہی مسلح اور منظم فوج ہے۔

میاں صاحب پاکستان کے وہ وزیراعظم نہیں جو قیام پاکستان کے ابتدائی زمانے میں روس کو پرے کر کے امریکا چلے گئے تھے، اب وہ ایک ایسے خطے اور ایسی قوم کے وزیراعظم ہیں جو کسی سپر پاور سے دب کر نہیں رہتی۔ یہ معلوم کر کے دکھ ہوا کہ مشیر وزارت خارجہ نے میاں صاحب سے کہا ہے کہ وہ امریکا سے کہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ ایسے معاملات طے نہ کرے جن سے خطے میں امن کو نقصان ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔