بھارت نے یہ بلا خود خریدی !

وسعت اللہ خان  منگل 20 اکتوبر 2015

کل میں بھارت کے معروف اردو شاعر منور رانا کو دیکھ رہا تھا۔وہ بھی نین تارہ سہگل اور اشوک واجپائی سمیت دو درجن سے زائد سرکردہ بھارتی ادیبوں میں شامل ہوگئے ہیں جنہوں نے حالیہ مہینوں میں گووند پنسار اور سنسکرت اسکالر ایم ایم گلبرکی سمیت تین دانشوروں کے قتل پر سرکاری و ادبی حلقوں کی خاموشی پر بطور احتجاج اپنے ایوارڈ اور انعامی رقم لوٹا دیے۔منور رانا نے بھارتی چینل اے بی پی کے ایک پروگرام میں ایوارڈ واپس کرتے ہوئے کہا

’’ میرے آس پاس جو صاحبِ قلم بیٹھے ہیں ان میں سے کوئی کیمونسٹ ہے، کوئی بی جے پی کا حامی ہے تو کوئی کانگریسی بتایا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے میں مسلمان ہوں اور آج یہاں میرا تعارف یہ ہے کہ تم پاکستانی ہو پاکستان چلے جاؤ۔اس دیش میں بجلی کے تار تو ٹھیک سے جڑ نہیں پاتے لیکن مسلمانوں کے بارے میں آپ فوراً کہہ دیتے ہیں کہ ان کے تار داؤد ابراہیم سے جڑے ہیں۔جس دن دادری میں گائے کا گوشت کھانے کے شبہے میں اخلاق احمد کا قتل ہوا، اس دن میں دوہا میں مشاعرہ پڑھ رہا تھا۔وہاں پر پاکستانی بھی تھے جو میرا تبصرہ چاہتے تھے۔لیکن میں نے کوئی بات نہیں کی۔کیونکہ داغ دہلوی کا شعر ہے کہ

نظر کی چوٹ جگر میں رہے تو اچھا ہے
یہ بات گھر کی ہے ، گھر میں رہے تو اچھا ہے

یہاں آ کر البتہ میں نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا کہ اخلاق احمد پر آتنکی ( دہشت گرد ) حملہ ہوا۔اس کے بعد مجھے اتنی گالیاں پڑیں کہ فیس بک سے بیان ہٹانا پڑا۔اب سب سوچنے والوں کو قومی سطح پر طے کرنا ہوگا کہ دہشت گردی کی تعریف کیا ہے۔

اگر ایک مسلمان پٹاخہ پھوڑے تو وہ دہشت گرد ہے۔ایسے انصاف نہیں ہوسکتا۔خوف کا یہ عالم ہے کہ دس اکتوبر کو مجھے پاکستان مشاعرہ پڑھنے جانا تھا مگر اس لیے نہیں گیا کہ کل کوئی بھی کہہ دے گا کہ پاکستان سے کیا کیا سیکھ کر آئے ہو۔ان حالات کے ہر بھارتی شہری کی طرح مودی جی بھی ذمے دار ہیں۔

ان حالات میں آپ سب کے سامنے میں یہ ایوارڈ اور ایک لاکھ روپے کا چیک واپس کررہا ہوں۔اس چیک پر کسی کا نام نہیں لکھا لہذا آپ میری طرف سے کسی کو بھی دے دیں۔بھلے کلبرکی ، پنسارے یا اخلاق احمد کے خاندان کو یا پھر کسی ایسے اسپتالی مریض کو جسے حکومت کی طرف سے دیکھ بھال نہیں مل رہی۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آیندہ کسی سرکار سے ایوارڈ نہیں لوں گااور اگر میرے بیٹے میں غیرت ہے تو وہ بھی ایسا ہی کرے گا‘‘……

گذشتہ روز شیو سینا کے جوشیلوں نے ممبئی کے وینکھڈے اسٹیڈیم میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ شہر یار خان اور چیف ایگزیکٹو نجم سیٹھی کی بھارتی کرکٹ بورڈ کے سربراہ ششانکر منوہر سے ملاقات رکوانے کے لیے دھاوا بول دیا حالانکہ دونوں عہدیدار بھارتی کرکٹ بورڈ کی دعوت پر ممبئی گئے تھے تاکہ دسمبر میں مجوزہ بھارت پاکستان ہوم کرکٹ سیریز کو بچایا جاسکے۔شیو سینا نے پاکستانی ٹیسٹ ایمپائر علیم ڈار کو دھمکی دی کہ وہ اگلے اتوار کو جنوبی افریقہ اور بھارت کے ون ڈے میچ کی امپائرنگ نہیں کریں گے۔

پچھلے ہفتے ممبئی میں شیو سینکوں نے سدھیندرا کلکرنی کے منہ پر کالک مل دی جو سابق پاکستانی وزیرِ خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب کی رونمائی کے میزبان تھے۔اس سے پچھلے ہفتے شیوسینا نے منتظمین کو گلوکار غلام علی کا کنسرٹ منسوخ کرنے پر مجبور کردیا۔جولائی میں انڈین پروفیشنل کبڈی لیگ میں دو پاکستانی پہلوان معاہدے کے باوجود شیو سینا کی دھمکیوں کے سبب شریک نہ ہو سکے۔یہ سب اس ریاست (مہاراشٹر ) میں ہوا جہاں بی جے پی حکمران ہے اور شیو سینا حکومت میں جونئیر پارٹنر ہے۔

بہت سے بھارتی اور پاکستانی ان واقعات پر ششدر ہیں۔مگر اب حیرت کرنا سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے جیسا ہے۔یہ حیرت تب ہونی چاہیے تھی جب بھارتیہ جنتا پارٹی کی نظریاتی و سیاسی والدہ محترمہ راشٹریہ سیوک سنگھ ( آر ایس ایس ) ستاسی برس سے جڑیں پھیلا رہی تھی۔اس کی فاشسٹ آئیڈیالوجی اور مسولینی اور ہٹلر کی کھلم کھلا حمائیت اور بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کا وعدہ اظہر من الشمس تھا۔

نئے بھارت میں جواہر لال نہرو اور پٹیل کی کانگریس کے کان اس وقت کھڑے ہونے چاہیے تھے جب آر ایس ایس کے کار سیوک ناتھو رام گوڈسے نے گاندھی جی کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا کیونکہ وہ برٹش انڈیا کے تقسیم شدہ اثاثے ایمان داری سے پاکستان منتقل کرنے کے لیے برت رکھ رہے تھے (گاندھی جی کے اس پہلو کا کسی پاکستانی نصابی کتاب میں ذکر نہیں ملے گا )۔

گاندھی جی  کے قتل کے بعد آر ایس ایس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر پابندی لگائی گئی ( دو بار انگریز دور میں بھی پابندی لگ چکی تھی )۔ مگر سات ماہ بعد یہ پابندی اٹھا لی گئی کیونکہ ثبوت نہیں ملا کہ آر ایس ایس بطور تنظیم گاندھی جی کے قتل میں ملوث تھی۔

آزادی ملنے سے پہلے ہی سے آر ایس ایس کا یہ نظریہ تھا  کہ  ہندو راشٹر کے قیام کے لیے پائیدار کامیابی تب تک نہیں ہوسکتی جب تک دل و دماغ کو تبدیل نہ کیا جائے چنانچہ نہ صرف ملک کے کونے کونے میں آر ایس ایس کی نیم عسکری شاخیں قائم کی گئیں بلکہ سماج کے ہر طبقے اور جنس کی نظریاتی موبلائزیشن کے لیے درجنوں ذیلی تنظیمیں بھی وجود میں آئیں۔’’ سرسوتی ششو مندر اسکیم ’’  کے تحت ملک کے طول و عرض میں پرائمری تعلیم کا جال بچھایا گیا جہاں آر ایس ایس کے رضاکار بچوں کو مروجہ تعلیمی نصاب بھی پڑھاتے تھے اور نظریاتی تربیت بھی کرتے تھے۔

جب ان اسکولوں ، شاخوں اور ذیلی اداروں کی مدد سے پھلنے والی نسل جوان ہوئی تو وہ آر ایس ایس کا نظریاتی بینک بنتی چلی گئی۔جو بھارتی اس بینک کا حصہ نہیں بھی تھے وہ کانگریس کے طویل عرصہِ حکمرانی کے باوجود اپنی زندگیاں تبدیل نہ ہونے کے سبب متبادل تلاش کرنے لگے اور آر ایس ایس اس لمحے کے لیے پوری طرح تیار تھی۔

سن چوراسی کے عام انتخابات میں آر ایس ایس کے سیاسی بازو بھارتیہ جنتا پارٹی کو لوک سبھا کی صرف چار سیٹیں ملیں۔مگر انیس سو نوے میں ایل کے اڈوانی کی قیادت میں رتھ یاترا اور ایودھیا میں رام مندر بنانے کے لیے بابری مسجد کے انہدام کے بعد بی جے پی نے مڑ کر نہیں دیکھا اور ہر انتخاب میں اس کی نشستیں بڑھتی چلی گئیں۔واجپائی سرکار مخلوط حکومت کی مجبوری و مصلحت کے سبب آر ایس ایس کا نظریاتی ایجنڈا نافذ کرنے سے قاصر تھی مگر آر ایس آر ایس نے آگے پر نظر رکھتے ہوئے حکومت میں ہونے کی سہولت کو ہر محاذ پر چابک دستی سے استعمال کیا۔گذشتہ برس مودی کی ملک گیر کامیابی آر ایس ایس کے صبر اور نظریاتی لگن کا شیریں پھل ہے۔

یہ کانگریس سمیت بائیں بازو کی غلط فہمیوں اور خوابِ خرگوش کی تعبیر ہے جنہوں نے انیس سو چوراسی کے بعد سے یقین کرنا شروع کردیا تھا کہ بھارت میں اب یک جماعتی جمہوریت کا زمانہ لد گیا۔آیندہ جو بھی حکومت سازی ہوگی وہ مخلوط اور کچھ لو کچھ دو کی پالیسی پر ہی ہوگی۔ من موہن سنگھ کے دو مخلوط ادوار نے اس نقطہِ نظر کو اور مضبوط کیا اور بایاں بازو پہلے سے زیادہ گہری نیند میں چلا گیا۔

ہو سکتا ہے اگلے عام انتخابات میں بی جے پی اس سے بھی زیادہ اکثریت سے جیتے۔یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اگلی حکومت نہ بنا سکے۔مگر مودی کو جو پانچ برس میسر آئے ہیں وہ آر ایس ایس کے لیے نظریاتی طور پر سب سے قیمتی ہیں۔ مودی کا عوامی ایجنڈا صرف ووٹر کو رجھانے کے لیے ہے اس سے آر ایس ایس متاثر نہیں ہوسکتی۔اس دوران آر ایس ایس  کی پوری کوشش ہے کہ دل و دماغ پر اثر انداز ہونے والے تمام ادارے ہندوتوا کے کیسری رنگ میں رنگ دیے جائیں۔اگر اس میں کامیابی ہو گئی تو انتخابی فتح و شکست کے معنی بدل جائیں گے۔ چنانچہ سائنس کمیشن ، ہسٹری کمیشن ، پونے فلم انسٹی ٹیوٹ اور فلم سنسر بورڈ کے سربراہ آر ایس ایس کے نظریاتی ہیں۔ تعلیمی نصاب ، نوکر شاہی اور میڈیا پر قبضہ تیزی سے جاری ہے۔آج کے بھارت میں مودی کے خلاف بولنا آسان نہیں۔ حزبِ اختلاف کے پاس کوئی ایسا موثر نظریاتی پیغام نہیں جو پرکشش ہندوتوا کا توڑ ثابت ہوسکے۔لڑائی اب گھٹتے گھٹتے چند اہلِ قلم کے علامتی احتجاجوں یا مذمتی بیان بازی تک محدود ہو گئی ہے۔ بھارت کی مذہبی و سماجی تقسیم بھانت بھانت کے نظریاتی مباحث سے سکڑ کے اس نکتے تک مختصر ہوچکی ہے کہ بھارت میں یا تو ہندو بستے ہیں یا پھر غیر ملکی ( یعنی مسلمان ، عیسائی وغیرہ )۔

میرے کئی دوست کہتے ہیں کہ مودی کا بھارت دراصل ’’ ہندو پاکستان’’ بننے کی راہ پر چل نکلا ہے۔اگر یہ بات درست ہے تو بھی ایک بنیادی فرق ہے۔ضیا الحق کو قوم نے منتخب نہیں کیا تھا وہ نازل ہوا تھا۔مگر مودی کو تو بھارتیوں نے خود منتخب کیا ہے۔لہذا نقصان بھی پاکستان کے مقابلے میں چوکھا اور دیرپا ہو گا اور اس کے اثرات صرف بھارت تک محدود نہیں رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔