آمد میں تاخیر فکر والی بات نہیں ہوتی

غلام محی الدین  پير 22 اکتوبر 2012
کسی سے اصلاح نہیں لی، لکھنے میں انبار سے زیادہ معیار کا قائل ہوں، حلیم قریشی   فوٹو : فائل

کسی سے اصلاح نہیں لی، لکھنے میں انبار سے زیادہ معیار کا قائل ہوں، حلیم قریشی فوٹو : فائل

اسلام آ باد: بولنے سے پہلے تولنے والے عبدالحلیم قریشی کا نام شاعری کی دنیا میں حلیم قریشی ہے۔

گندمی رنگت، درمیانے قد اور نیلی آنکھوں والے حلیم قریشی 1940 میں واہ میں پیدا ہوئے، ایسوسی ایٹڈ سیمنٹ فیکٹری واہ پرائمری اسکول سے پانچویں کا امتحان پاس کرنے کے بعد حسن ابدال گورنمنٹ ہائی اسکول میں زیر تعلیم رہے، بعد ازاں سیٹلائیٹ ٹائون کالج راول پنڈی میں تعلیم حاصل کی، اس کے بعد ڈگری کالج اصغر مال راول پنڈی اور پھر پشاور یونی ورسٹی سے ایم اے انگریزی کا امتحان پاس کیا اور بہ حیثیت اسسٹنٹ مینیجر کیمیکل اے سی واہ میں ملازمت شروع کی۔ اس کے بعد 2003 میں آرمی ویلفیئر ٹرسٹ سے جنرل منیجر پراجیکٹ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ زمانۂ طالب علمی میں انہیں ہاکی کھیلنے کا بھی شوق تھا، اسکول کے زمانے میں ڈویژنل سطح پر اور اِس کے بعد کالج کے زمانے میں پنجاب یونی ورسٹی کی ہاکی ٹیم میں بہ طور سنٹر فارورڈ بھی کھیلتے رہے۔

کہتے ہیں ’’مجھے شاعری کی طرح اپنے کام سے بھی بے انتہا محبت تھی اور میں نے اپنے کام میں کئی اہم کام یابیاں بھی حاصل کیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ میں نے پاکستان میں پہلی مرتبہ ’’ہائی ایلومینیا سیمنٹ‘‘ متعارف کرایا جو عمارات میں 16 سو ڈگری سینٹی گریڈ تک کی حدت برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جب کہ عام سیمنٹ 5 سو ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ کارآمد نہیں ہوتا۔ حلیم قریشی نے بتایا کہ ہم چار بھائی اور ہماری ایک بہن تھی جن میں سے ایک بھائی چودہ سال کی عمر میں وفات پا گیا تھا، میں اِن سب میں چھوٹا تھا‘‘۔ بچپن کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’میری یادوں میں سیمنٹ کی تیاری کا ماحول رچا بسا ہوا ہے۔

سیمنٹ فیکٹری کی کالونی انتہائی خوب صورت تھی، وہیں میرا بچپن گزرا، کالونی کے ماحول میں ڈسپلن کا بہت خیال رکھا جاتا تھا، جب میں نے اپنی ہی کالونی میں لگی فیکٹری میں ملازمت شروع کی تو مجھے بہت مزہ آیا، فیکٹری میں دیانت داری کو زریں اصول کے طور پر تسلیم کیا جاتا تھا اور اسی وجہ سے فیکٹری میں بننے والا سیمنٹ کا معیار نہایت اعلیٰ ہوتا تھا‘‘۔ انہوں نے بتایا ’’ہماری کالونی میں ہر طرح کے کھیلوں کے لیے میدان موجود ہوتے تھے، ادبی سرگرمیاں بھی کالونی کے ماحول کا نمایاں حصہ تھیں۔

فیکٹری کے سینیئر آفیسران میں ادبی شغف رکھنے والے لوگ شامل تھے، اُس وقت میں طالب علم تھا جب میں نے کلب کے مشاعروں میں جا کر شعراء کو سننا شروع کیا، اس طرح میں دھیرے دھیرے شاعری کی طرف مائل ہوتا گیا، وہاں ہونے والے مشاعروں میں جگر مراد آبادی، جوش ملیح آبادی اور فیض احمد فیض کو میں نے سامنے بیٹھ کر سنا۔ ملازمت کے بعد میں بھی کلب کا حصہ بن گیا، میری ہی تحریک پر وہاں بزم ادب کا شعبہ قائم ہوا جس کے تحت وہاں بڑے بڑے مشاعرے منعقد ہوئے۔ میں نے اُن مشاعروں میںکئی ایک کی نظامت کے فرائض بھی سرانجام دیے۔ اِن مشاعروں میں احمد ندیم قاسمی، حبیب جالب، احمد فراز، ضمیر جعفری اور منیر نیازی جیسے نمایاں شاعروں نے اپنا کلام پیش کیا۔ ان ہی دنوں فیکٹری کے اندر ادب سے شغف رکھنے والے لوگوں کی کوششوں سے ایک ادبی جریدے کا اجراء ہوا جس کا نام ’’غبارِ سنگ‘‘ رکھا گیا، یہ رسالہ 60 کی دہائی میں شروع کیا گیا تھا، جس کے مدیر نذیر شیروانی ہوا کرتے تھے‘‘۔

’’ملازمت کے دوران سیمنٹ میں ملاوٹ کی وجہ سے میری فیکٹری کی اعلیٰ انتظامیہ کے ساتھ اَن بَن ہو گئی، میری طرف سے مزاحمت پر مجھے واہ سے روہڑی اور پھر کراچی تبدیل کر دیا گیا، اِس واقعہ نے میری زندگی پر اَن مِٹ نقوش چھوڑے تھے‘‘۔

بچپن کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے انہوںنے کہا ’’اسکول ہی کے دور میں، میں نے نقش فریادی، سحر لدھیانوی کی تلخیاں اور عدم کی خرابات زبانی یاد کر لی تھیں، جس سے مجھے مصرع موزوں کرنے کا ڈھنگ آیا‘‘۔
انہوں نے کہا ’’میں اپنے بچپن کے دوستوں حمید شیخ، اختر صوفی مرحوم، سجاد بابر، عبدالعزیز مرحوم اور عنایت الرحمان مرحوم کو آج تک نہیں بھلا پایا۔ زندہ دوستوں میں شامل حمید شیخ اور سجاد بابر سے جب کبھی فون پر بات ہوتی ہے تو بچپن لوٹ آتا ہے‘‘۔

حلیم قریشی نے کہا ’’سقوط ڈھاکا میری زندگی میں ایک ایسا واقعہ ہے جس نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا، میں تین دن تک گھر سے نہیں نکل سکا۔ مشرقی پاکستان الگ ہونے کا دکھ آج بھی تازہ ہے۔ میں اپنے وطن سے کتنی محبت کرتا ہوں، اِس کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ میں ایک ماہ سے زیادہ کسی بھی غیر ملک میں قیام نہیں کر سکتا‘‘۔

اپنی والدہ کا ذکر کرتے ہوئے گویا ہوئے ’’میں آج بھی انہیں بہت یاد کرتا ہوں، میرے والد نظم و ضبط کے قائل اور سخت طبیعت کے مالک تھے مگر اماں جی بہت نرم مزاج تھیں، ہم سب بہن بھائیوں نے جو کچھ کہنا ہوتا یا مانگنا ہوتا وہ والدہ کے ذریعے ہی والد صاحب تک پہنچایا جاتا۔ ابا جی سے براہ راست بات کرنے کی ہم میں جرأت نہیں ہوتی تھی۔ ہم والدہ کو بے بے اور والد صاحب کو بابو جی کہا کرتے تھے۔ والدہ پڑھی لکھی نہیں تھیں مگر اُن کو سینکڑوں اشعار زبانی یاد تھے اور وہ موقع کی مناسب سے جب شعرسناتیں تو لوگ حیران رہ جاتے۔ میں شاعری کی طرف اِس لیے بھی آیا کہ میں نے والدہ کی گود میں ہی شاعری کو سننا شروع کر دیا تھا۔ وہ اونچی آواز میں میاں محمد بخش کی سیف الملوک اور یوسف زلیخا کا قصہ جب پڑھتیں تو سننے والے دم بہ خود رہ جاتے، میرے کانوں میں والدہ کا لحن آج بھی تازہ ہے‘‘۔

حلیم قریشی نے کہا ’’مجھے حسین چہرے، پھول، آرٹ فلمیں ہمیشہ سے اچھے لگتے ہیں، مہدی حسن کی غزلیں، لتا کے المیہ گیت اور راحت فتح علی خان کے چیدہ چیدہ نغمے میں آج بھی فرصت کے اوقات میں ضرور سنتا ہوں‘‘۔ انہوں نے کہا ’’غالب، اقبال اور فیض کو پڑھے بغیر شاعری سے متعلق ابلاغ مکمل نہیں ہوتا، علاوہ ازیں اختر الایمان، مجید امجد، احمد فراز اور احمد ندیم قاسمی کو بھی لازمی طور پر پڑھنا چاہیے۔ یہ لوگ شاعری میں نئی راہیں متعین کرنے والے شعراء ہیں‘‘۔

انہوں نے کہا ’’رنگوں میں مجھے لائٹ بلیو اور گرے رنگ پسند ہیں، زیادہ تر سوٹ پہننا پسند کرتا ہوں مگر شلوار قمیص پہننا بھی اچھا لگتا ہے، جوانی میں جو مل جاتا تھا، کھا لیتا تھا لیکن مجھے چاول اور چھوٹا گوشت بہت پسند ہے، آج کل غذا کے معاملے میں پرہیز چل رہا ہے، نمک، مرچ، گھی کم کھاتا ہوں اور گزشتہ بیس سال سے صبح کی سیر کرنے کی عادت اپنا رکھی ہے‘‘۔

حلیم قریشی کی شادی 70 کی دہائی میں ہوئی، یہ ارینجڈ شادی تھی اُن کے والد صاحب کے جاننے والوں میں اُن کا رشتہ طے ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ چالیس سال کا عرصہ گزر گیا ہے، ہماری ازدواجی زندگی کام یابی سے جاری ہے، اول تو کبھی میاں بیوی میں اختلاف ہوا ہی نہیں اگر ہو بھی جائے تو میری بیوی نہایت مہربانی سے میری بات مان جاتی ہے۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے، سب شادی شدہ ہیں اور اپنی اپنی زندگی میں مگن ہیں۔ مجھے جب اِن کے بچے دادا یا نانا کہ کر بلاتے ہیں تو زندگی کے نئے منصب کا احساس بہت خوشی فراہم کرتا ہے۔ اپنی ادھوری خواہشات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’میں پاکستان کو باعزت مقام پر دیکھنا چاہتا ہوں۔ ہم بہ حیثیت قوم بیرونی اور اندرونی قوتوں کے دبائو سے آزاد ہو کر زندہ قوم کہلائیں گے‘‘۔

اپنے شاعری کے نئے مجموعے ’’جاں سِتاں‘‘ سے متعلق انہوں نے کہا ’’رواں سال دسمبر میں یہ چھپ کر مارکیٹ میں آ جائے گا، اِس میں نظم اور غزل دونوں شامل ہیں‘‘۔ اسی حوالے سے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا ’’غزل ہماری تہذیبی روایت سے جڑی ہوئی ہے، صدیوں پرانی صنف ہے، جب کہ نظم مغرب سے ہمارے ہاں آئی اور ابھی اُن آزمائشوں سے نہیں گزری جس سے غزل گزر چکی ہے مگر مجھے دونوں ہی بہت پسند ہیں۔

میں نظم بھی اُسی سہولت سے لکھتا ہوں جس سہولت سے غزل۔ بحر چھوٹی ہو یا بڑی غزل کہتے ہوئے مجھے کبھی دقت محسوس نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی ردیف، قافیہ نے مجھے تنگ کیا ہے اگر کلاسیکی شاعری پڑھی ہو اور اُس میں آپ پوری طرح رچے بسے ہوں تو شاعری کی منزل آسانی سے طے ہو جاتی ہے‘‘۔ شاعری کی واردات کے حوالے سے انہوں نے کہا ’’یہ ایک ایسا لمحہ ہوتا ہے جس کی آمد کا شاعر کو علم نہیں ہوتا، وہ تمام باتیں جو آپ کے لاشعور میں ہوتی ہیں، اُس لمحے کے انتظار میں رہتی ہیں، جب یہ لمحہ آتا ہے تو آپ کا شعور اُن باتوں کی اُنگلی پکڑ کر آپ کو تخلیقی واردات سے ہم کنار کر دیتا ہے۔ آمد میں تاخیر سے اکثر شعراء گھبراتے ہیں مگر مجھے اس کی کبھی فکر نہیں ہوئی کیوںکہ میں جانتا ہوں کہ شاعر وہ ہی ہوتا ہے جس کے اندر تخلیقی عمل ہر وقت جاری رہتا ہے۔ بہت زیادہ لکھنا بڑے شاعر ہونے کی علامت نہیں، اصل بات تو یہ ہے کہ آپ نے لکھا کیا ہے

بھول جانے کے لیے کون زیادہ لکھے
یاد رہنے کے لیے لکھا ہے، لکھا کم ہے

’’میں کم لکھنے والوں میں سے ہوں کیوں کہ میرے نزدیک شاعری ایک نہایت سنجیدہ کام ہے، اسی لیے میں لکھ کر پھاڑنے کے عمل سے نہیں گزرا۔ اگر میں نے ایک غزل شروع کی تو ہو سکتا ہے وہ چھ ماہ میں مکمل ہو، میں انبار سے زیادہ معیار کا قائل ہوں‘‘۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’’میں شاعر نہ ہوتا مگر میں شاعر کیوں نہ ہوتا، میں سمجھتا ہوں کہ میں شاعر ہی ہوں اور مجھے شاعر ہی ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا ’’میں نے شاعری میں آج تک کسی سے اصلاح نہیں لی کیوںکہ میں نے لکھنا تب شروع کیا تھا جب مجھے احساس ہوا کہ میں مصرعہ موزوں کر سکتا ہوں۔ موسیقی سے بھی مجھے شغف تھا جو مزاج میں رچی بسی تھی اِس نے بھی مصرع موزوں کرنے میں میری بڑی مدد کی پھر کم عمری میں اہم شاعروں کو پڑھنے سے بھی خوب مدد ملی۔ میں نئے لکھنے والوں سے ضرور کہوں گا کہ وہ اپنی کلاسیکی شاعری کو بہت توجہ سے پڑھیں، اِس سے مصرع لکھنے کا ڈھنگ آ جائے گا‘‘۔

غیر ممالک میں ادبی تنظیموں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’ڈنمارک، ناروے، آسٹریلیا، کینیڈا، برطانیہ اور سعودی عرب میں بہت اچھا لکھنے والے لوگ موجود ہیں اور ان ہی کی وجہ سے وہاں ادبی محفلوں کا اجراء ہو رہا ہے۔ ان ہی محفلوں نے شاعروں اور ادیبوں کو ایک دوسرے کے قریب رکھا ہوا ہے۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ شاعری کا فائدہ کیا ہوتا ہے؟ تو کہا ’’شاعری ہماری زندگیوں کو زرخیز بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ حسین مستقبل کے حصول میں مدد گار ثابت ہوتی ہے اور ہمارے تہذیبی ارتقاء کے عمل کو احسن طریقے سے جاری رکھنے میں بھی ایک نمایاں کردار ادا کرتی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’اچھا ادب وہی ہوتا ہے جو سماج اور معاشرے کے عدم توازن کی نشان دہی کرے‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔