وفاقیت سے انکار کیوں؟

مقتدا منصور  جمعرات 22 اکتوبر 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

چند روز پہلے کی بات ہے وزیر دفاع اور پانی و بجلی خواجہ آصف نے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کالا باغ ڈیم بنانے کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ غور کررہی ہے۔ انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس ڈیم کی تعمیر کا ٹینڈر بھی دیاجا چکا ہے اور کسی بھی وقت کام شروع ہوسکتا ہے۔ اسی دوران ایک دوسری خبر یہ آئی کہ وفاقی وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے روسی حکومت کے ساتھ کراچی سے لاہور تکLNGگیس پائپ لائن بچھانے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ گیس پنجاب میں بجلی بنانے کے لیے استعمال ہوگی۔

جہاں تک کالا باغ ڈیم کا تعلق ہے، تو خیبر پختونخوا اور بلوچستان اسمبلیاں دو دو بار، جب کہ سندھ اسمبلی تین بار متفقہ طور پر اس منصوبے کو رد کرچکی ہے۔ اس لیے اس کی تعمیر پر مسلسل اصرار کا مطلب سندھ سمیت چھوٹے صوبوں کے عوام کی رائے کو نظر انداز کرنا ہے۔ جہاں تک گیس پائپ لائن کا معاملہ ہے، تو ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ متذکرہ بالا منصوبے پر سندھ اسمبلی یا صوبائی حکومت کو اعتماد میں لیا گیا ہے یا نہیں۔ کیونکہ پائپ لائن کو سندھ سے گذر کر پنجاب میں داخل ہونا ہے۔ اگر اس سلسلے میں سندھ کی حکومت سے باقاعدہ اجازت نہیں لی گئی ہے، تو یہ معاہدہ بھی غیرآئینی اور وفاقیت کے تصور کی خلاف ورزی ہوگا۔

68برس سے اہل دانش اور تجزیہ نگار حکمران اشرافیہ کو یہ سمجھانے کی کوششیں کر رہے ہیں کہ پاکستان ایک وفاقی جمہوریے کے طورپر وجود میں آیا ہے۔ اس لیے یہ انھی بنیادوں پر قائم رہ سکتاہے۔ برصغیر کی آزادی کے بارے میں جتنے تحقیقی مقالے، کتابیں اور اظہاریے شایع ہوئے ہیں، ان میں سے کسی ایک میں بھی یہ بات موجود نہیں ہے کہ بانیان نے پاکستان کو وحدانی ریاست بنانے کا کبھی کوئی عندیہ دیا ہو۔

بلکہ بانیان پاکستان کے ذہن میں یہ تصور واضح تھا کہ نئی ریاست ایک وفاق ہوگی جس میں وفاقی وحدتوں کو مکمل آزادی اور خود مختاری حاصل ہوگی۔ علاوہ ازیں 1916سے1947 کے دوران بابائے قوم محمد علی جناح کی جتنی بھی تقاریر ریکارڈ پر موجود ہیں، ان سے بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی پوری جدوجہد کا محور دو نکات تھے۔ اول، زیادہ سے زیادہ صوبائی خودمختاری۔ دوئم، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ۔ یہ بھی طے ہے کہ اگر انڈین نیشنل کانگریس ان مطالبات کو تسلیم کرلیتی تو ہندوستان تقسیم نہ ہوتا۔

یہی سبب ہے کہ 1940کی قرارداد لاہور میں ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی زون میں آزاد ریاستوں کی بات کی گئی تھی۔ 9اپریل 1946 کو مسلم لیگی اراکین اسمبلی کے دہلی میں ہونے والے اجلاس میں اس قرارداد میں ترمیم کر کے لفظStatesسے’s’کاٹ کر اسے stateکردیا گیا لیکن اس کے باوجود شامل ہونے والی اکائیوں کی آزاد اور خود مختار حیثیت کے بارے میں اس وقت بھی کوئی ابہام نہیں تھا جس کا ثبوت اس اجلاس کے دو روز بعد ہی یعنی11اپریل1946 کو مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میںجو فیصلے کیے ۔

ان میں کہا  گیا تھا کہ ’’ آخر میں یہ کمیٹی اس امرکی نشاندہی کرنا چاہتی ہے کہ مسلم لیگ کی پوزیشن پاکستان اسکیم سے متعلق وہی ہے جو 24مارچ1940 کو قرارداد لاہور میں پیش کی گئی تھی۔ یعنی نئی حد بندیوں کے ساتھ شمال مغربی اور مشرقی زون میں مسلمان اکثریتی صوبوں کا مکمل طور پر آزاد وخود مختار ریاستوں کے طور پر الحاق ۔ اس وفاق میں شامل ریاستیں آزاد اور خود مختار ہوں گی۔‘‘ اس سلسلے میں جتنی بھی کمیٹیاں پاکستان اسکیم کے حوالے سے تشکیل دی گئیں، ان میں کسی نہ کسی طور کمزور مرکز اور آزاد و خود مختار وفاقی اکائیوں کا تذکرہ موجود ہے۔ ان اسکیموں میں ڈاکٹرعبدالطیف اسکیم، ظفرالحسن و افضل قادری اسکیم، عبداللہ ہارون اسکیم اورسکندرحیات اسکیم شامل ہیں۔ ان اسکیموں اور قائد اعظم کے بیانات کے حوالے سے مرکز کی حیثیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اس سے قبل31 مارچ 1940 کو قائد اعظم نے اپنے ایک بیان میں قرارداد لاہور کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھا، ’’پاکستان کی وفاقی حکومت کے آئین کی تشکیل اوراس میں وفاقی یونٹوں کے حتمی تعین کے بعد ہر یونٹ کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اپنے عوام کی خواہشات کے مدنظر یہ فیصلہ کرے کہ اسے اس گروپ میں رہنا ہے یا نہیں۔ البتہ وفاق میں ساتھ رہنے یا الگ ہونے کا فیصلہ عوامی ریفرنڈم کے ذریعے ہوگا۔‘‘

اس سلسلے میں بعض ماہر قانون کا خیال ہے کہ قیام پاکستان کے بعد کسی یونٹ کے علیحدہ ہونا کا تصور اس لیے ختم ہوگیا کہ ہندوستان کی تقسیم میں اس خطے کے مسلمانوں کی مقبول حمایت مضمر تھی، جو انھوں نے1940 کی قرارداد کی بنیاد پر دی تھی لیکن ساتھ ہی اس تاریخی حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ بانیان کی جانب سے شامل ہونے والی وحدتوں کی قیادتوں کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ نیا ملک ایک وفاقی جمہوریہ ہوگا، جس میں شامل ہونے والے یونٹوں کی اپنی حیثیت برقرار رہے گی۔ یہی سبب ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جب ان طے شدہ اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی تو بنگال، سندھ اور بلوچستان سے تحریک پاکستان میں اہم اور فعال کردار ادا کرنے والی شخصیات بددل ہوگئیں۔

جو عناصر وفاقیت کو وحدانیت میں تبدیل کرنے کے خواہشمند ہیں، وہ اس پہلوپر غور کیوں نہیں کرتے کہ بنگال، سندھ اور پنجاب نے اپنی اسمبلیوں کی قرارداد کے ذریعے پاکستان میں شمولیت اختیار کی تھی۔ جب کہ برٹش بلوچستان (ریاست قلات) کے شاہی جرگہ نے11اگست1947کو پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ اس کے علاوہ اگر وفاق میں شامل اکائیوں کے حق خود ارادیت کی ضرورت نہیں تھی تو صوبہ سرحد اور سلہٹ میں ریفرنڈم کیوں کرایا گیا؟

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے وفاق میں شامل ہونے والی اکائیوں نے 1940 کی قرارداد کی روشنی میں اپنی خود مختاری کاکچھ حصہ نئے وفاق کے ساتھ شئیر کرنے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ انھیں اندرونی معاملات میں خود مختاری کی ضمانت فراہم کی گئی تھی۔ مگر قیام پاکستان کے بعد مقتدر اشرافیہ اپنے اس وعدے سے پھر گئی اور ملک کو وحدانی ریاست بنانے کی کوششیں کی جانے لگیں جس کی وجہ سے عدم اعتماد کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو حکمرانوں کی ضد اور ہٹ دھرمی کے سبب آج بھی جاری ہے۔

یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان میں جمہوریت نواز سیاسی قوتوں نے روز اول سے یہ کوشش کی کہ پاکستان ایک وفاقی جمہوریہ کے طور پر اپنے سفر کا آغاز کرے، جس میں تمام وفاقی اکائیوں کو اپنے اندرونی معاملات چلانے کا اختیار حاصل ہو مگر اقتدار واختیار کی مرکزیت قائم کرنے کی خواہش مند مقتدر اشرافیہ نے کبھی ون یونٹ بناکر اور کبھی 8ویں آئین ترمیم کے ذریعہ مرکز کو مضبوط بنانے اور صوبوں کی خود مختاری کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکنہ حربہ استعمال کیا۔

یہ سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ بعض حلقے جن میں صحافی بھی شامل ہیں،18ویں ترمیم کو ختم کرنے کے درپئے ہیں۔ کیونکہ اس آئینی ترمیم کی وجہ سے صوبوں کو کسی حد تک اپنے معاملات ازخود طے کرنے کا اختیار ملا ہے اور وفاق کی مداخلت کم ہوئی ہے۔ حالانکہ مضبوط مرکز کی خواہش میں ملک کا ایک دھڑا قربان ہو چکا ہے اور باقی ماندہ ملک کے چھوٹے صوبوں کے لیے اسلام آباد میں بیٹھی مقتدر اشرافیہ کا حاکمانہ رویہ پریشانی کا باعث ہے۔

لہٰذا یہ طے ہے کہ پاکستان کو آج جن مسائل اور بحرانوںکا سامنا ہے، ان کا سبب 1940 کی قرارداد لاہور سے انحراف ہے۔ جس نے ریاست کے منطقی جواز کے بحران کو شدید سے شدید ترکردیا ہے۔ اس ملک کو ریاست کے منطقی جواز کے بحران سے نکالنے کا واحد ذریعہ یہ کہ پاکستان کو کثیر القومی وفاقی جمہوریہ تسلیم کیا جائے اور تمام صوبوں کو جو قومیتوں کی شناخت کا مظہر ہیں، مکمل خودمختاری دی جائے اور ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے کم از کم18ویں آئینی ترمیم پر اس کی روح کے مطابق عملد رآمد کو یقینی بنایا جائے ۔

اس لیے اب کالا باغ ڈیم جیسے منصوبوں کے باب کو بند کردیا جاناچاہیے۔ پانی کو ذخیرہ کرنے اور آبی توانائی کے لیے دیگر مقامات پر ڈیم تعمیر کرنے پر توجہ دی جائے۔ کیا ضرروری ہے کہ سندھ، پختونخواہ اور بلوچستان کے عوام کی قبروں پر ہی اشرافیہ کے محل تعمیر ہوں۔ ساتھ ہی وفاقی حکومت کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ کراچی سے لاہور تک LNGپائپ لائین بچھانے کے لیے سندھ حکومت سے پیشگی منظوری حاصل کرے کیونکہ یہ سندھ سے گزر کر پنجاب میں داخل ہوگی۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان اسی وقت مضبوط و مستحکم ہوگا، جب وفاقی اکائیاں مضبوط اور پر اعتماد ہوں گی۔ جب کہ وفاقیت کے تصور سے انکار ملک کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔