صندل سے مانگ، بچوں سے گودی بھری رہے

انتظار حسین  جمعـء 23 اکتوبر 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

پچھلے کالم میں ذکر یہ تھا کہ غم حسین سے ہمارے نثر نگار بالعموم انصاف نہیں کر سکے۔ آخر کیوں۔ اور ایسا کیوں ہوا کہ اس بڑے غم سے کم از کم ہمارے پاک ہند برصغیر میں جتنے گل پھول کھلے وہ شاعری میں کھلے۔ اردو‘ پنجابی‘ سرائیکی‘ سندھی پشتو، ادھر جنوبی ہند کی زبانوں میں دکھنی میں۔ اور ہاں مشرقی یو پی کی ایک بولی میں تو دوہے سے ملتی جلتی ایک شعری صنف دہا اس غم کے واسطے سے کچھ سے کچھ بن گئی۔ دکھنی میں اور ابتدائی اردو میں بھی نوحہ کیسا کیسا لکھا گیا۔ اردو کے ترقی یافتہ اظہار میں بھی نوحہ کتنی موثر صنف کے طور پر ابھرا ؎

رو کے چلائی بانو یہ بن میں
گھر چلو شام ہوتی ہے اصغر
کیوں لگایا ہے یاں تم نے بستر
گھر چلو‘ شام ہوتی ہے اصغر
کیسا ہُو کا یہ بن ہے یاں مسافر کو رنج و محن ہے
نیند آئے گی اس بن میں کیونکر
گھر چلو‘ شام ہوتی ہے اصغر

یہ ماں کی مامتا بول رہی ہے۔ کھرا دکھ۔ اس میں سرے سے کوئی تبلیغی رنگ نہیں ہے۔ تبلیغی رنگ کا ایک چھینٹا پڑ جاتا تو پھر یہ نوحہ نہیں رہتا۔ پھر یہ نوحہ تبلیغی نظم بن جاتا اور وہ تاثیر گم ہو جاتی جسے مامتا کے دکھ نے جنم دیا ہے۔

رفتہ رفتہ جب کربلا کی عظیم واردات نوحہ کے مرحلہ سے گزر کر اس نظم کے سانچہ میں اپنا اظہار پاتی ہے جس نے مرزا سوداؔ کے آتے آتے مسدس کی شکل اختیار کر لی۔ اب یہاں دکھ بھری نسائی آواز کے سوا بھی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور انیسؔ و دبیرؔ کے مرثیوں میں انسانی دکھ درد کی کتنی جہتیں اپنا اظہار پاتی نظر آتی ہیں۔ اور وہ جو انیسؔ نے کہا تھا کہ ؎

لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار
خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو

تو ان مرثیوں میں فطرت کے کتنے جلوے نظر آتے ہیں اور غم حیات کے کتنے دھیمے اور اونچے سر سنائی دیتے ہیں۔ اور اس طرح اردو مرثیہ میں سچے تخلیقی اظہار کی کیا کیا جہتیں راہ پاتی نظر آتی ہیں۔ کہیں ایسی جہتیں تفصیل کے راستے سے ہم تک پہنچتی ہیں اور کہیں اختصار و ایجاز کا ایسا معجزہ کہ جب شیفتہؔ نے انیسؔ کے مرثیے کا یہ مطلع سنا کہ ع

آج شبیر پہ کیا عالم تنہائی ہے

تو کہا کہ یہ ایک مصرعہ ہی پورا مرثیہ ہے۔ اور جب مرثیوں میں بالخصوص انیسؔ کے مرثیوں میں رزم و بزم کے رنگا رنگ جلوے نظر آئے تو نقادوں نے یہ سوال اٹھایا کہ مرثئے کی راہ اردو بھی رزمیہ شاعری سے مالا مال نظر آ رہی ہے پھر انیسؔ کا موازنہ دبیرؔ سے بڑھ کر ہومر‘ فردوسی اور تلسی داس سے کیا جانے لگا۔ گویا اردو شاعری تنگنائے غزل سے نکل کر رزمیہ کی وسعتوں میں پھیلتی نظر آنے لگی۔ یعنی غالبؔ نے جس خواہش کا اظہار کیا تھا وہ کہ انیسؔ کے یہاں جلوۂ صد رنگ کے ساتھ پروان چڑھی۔ مگر اختلاف کرنے والے نقادوں نے بال کی کھال نکالی اور جتانا شروع کیا کہ رزمیہ میں کتنی ایسی جہتیں ہیں کہ مرثیہ سے غائب ہیں اور اردو کی یہ صنف رزمیہ مشکل ہی سے رزمیہ کے ذیل میں شمار کی جا سکتی ہے۔

مگر ہو سکتا ہے کہ انیسؔ کے مرثیے میں کچھ ایسی جہتیں نظر آئیں جن سے یہ مرثیہ مالا مال ہے مگر یونانی‘ رومی‘ اور فارسی رزمیاؤں میں سے بعض میں یہ یکسر ندارد ہیں۔ بعض میں کم بہت ہی کم نظر آتی ہیں۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو یونانی‘ رومی‘ اور فارسی رزمیاؤں کو سامنے رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ رزمیہ کی صنف مردانہ صنف ہے۔ نسوانی جہت کہیں سرے سے غائب ہے کہیں وہ اس حد تک ثانوی ہے کہ ان کا غالب وصف ان کا مردانہ رنگ ہے۔

ہومر کی ایلیئڈ میں مردانہ گھن گرج بہت ہے۔ نسوانی آواز مشکل سے، بہت مشکل سے سنائی دیتی ہے۔ سو اسی حساب سے کتنے انسانی رشتے سرے سے غائب ہیں۔ یہی حال اوڈیسی کا اور رامائن کا ہے۔

رامائن اور مہا بھارت میں بھائی بہت ہیں۔ بہنیں کتنی اور کہاں ہیں۔ مہا بھارت میں کوروؤں کا گھرانا مردوں سے پٹا پڑا ہے ایک ماں نے بیٹے تو سو کی تعداد میں جن ڈالے۔ مگر ان سو بھائیوں کی بہن کوئی نہیں ہے۔ رامائن میں جس گھرانے کے وسیلہ سے یہ داستان چلی ہے وہ چار بھائی ہیں۔ ان کی بہن کوئی نہیں ہے۔ اس اعتبار سے کتنے خاندانی رشتے جن کے دم سے کوئی سماج رنگا رنگ نظر آتا ہے یہاں سے غائب ہیں۔ بہنیں نہیں ہیں۔

بھانجیاں بھانجے کیسے نظر آئیں گے اور چچیریاں‘ بھتیجیاں‘ پھوپھیاں‘ خالائیں‘ کیسے دکھائی دیں گی۔ یہ کیسے سماج ہیں کہ ایک پہئے کے زور پر ان کی گاڑی چل رہی ہے۔ دوسرا پہیہ کہاں ہے‘ کس طرف ہے اور کدھر ہے۔ کو رو نام کے سو بھائی میدان جنگ میں کھیت ہوئے۔ نسوانی کھیتی پھلی ہی نہیں۔ سو یہ یکرنگ معاشرے ہیں۔ اس زاویے سے نظر دوڑائے تو ان رزمیاؤں سے کتنی جہتیں گم ہیں۔ پوری انسانی مخلوق کی نمایندگی کرنے سے یہ رزمائیں قاصر ہیں۔ مرد‘ مرد‘ مرد۔ عورت بیچاری کو مردانہ مخلوق نے اس طرح روندا ہے کہ وہ نظر ہی نہیں آتی۔

میدان کربلا پر نظر دوڑائیے تو ایک طرف مردوں کی یلغار ہے۔ یزیدی فوج میں مردوں کی ریل پیل ہے۔ عورت کے نام بس حر کی زوجہ‘ اللہ اللہ خیر صلا۔

ادھر پورا ایک خاندان ہے۔ خاندان رسالت۔ کیا پُر بہار خاندان ہے۔ بھائی‘ بہن‘ خالائیں‘ پھوپھیاں‘ بھتیجیاں‘ پھر مرثیے میں ایسے شعر تو نظر آئیں گے اور ان کی رنگا رنگی ؎

یا رب رسول پاک کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے

خالاؤں اور پھوپیوں‘ تائیوں اور چچیوں کی دعائیں‘ خاندان کی رنگا رنگ بچیوں کے لیے جو مختلف انسانی رشتوں کی نمایندگی کر رہی ہیں۔ باقی رزمیاء میں کچھ بھی نہیں کچھ بھی نہیں۔ محبت کے کتنے رنگ سرے سے غائب۔ عباس ایسا چچا اور سکینہ ایی بھتیجی‘ بی بی زینب ایسی پھوپھی اور اکبر ایسا بھتیجا۔ کتنے چاؤ اور ارمان ان رشتوں کے دم سے اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔

سو یہاں شمشیروں کی جھنکار اور گھوڑوں کی ٹایوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں مگر مقابلہ میں دور کے خیموں سے کتنی نسوانی آوازیں‘ بچیوں کا شور و غل بھی سنائی دے رہا ہے۔ کیسے سنائی نہ دے۔ بچیاں ہیں اور پیاسی ہیں۔ گویا نسوانی رنگا رنگی کے واسطے سے بھی انسانی غیر انسانی طاقتوں کے خلاف اپنا اعلان کر رہی ہیں۔ گویا انسانی صداقت تہہ در تہہ اور رنگ برنگے انسانی رشتوں ناطوں کے ساتھ لنگڑے لولے یا کہہ لیجیے کہ بانجھ غیر انسانی طاقتوں کے خلاف صف آرا ہے۔

اور اب اس شعر کو پڑھئے اور باقی نامی گرامی رزمیاؤں کے مقابلے میں اس کی معنویت کو سمجھنے کی کوشش کیجیے ؎

یا رب رسول پاک کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ، بچوں سے گودی بھری رہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔