پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی آزمائش

ایم جے گوہر  جمعـء 23 اکتوبر 2015

دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک صحافی نے برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل سے ہٹلرکی شاندار فتوحات کا تذکرہ کرتے ہوئے برطانیہ کی عسکری خامیوں اورکمزوریوں کے پس منظر میں، پوچھا کہ مسٹر چرچل تم جنگ کیسے جیتوگے؟ چرچل نے ایک سوال کی شکل میں جواب دیتے ہوئے صحافی سے پوچھا کہ کیا برطانیہ میں ہماری عدلیہ آزاد اورغیر جانبدار ہے؟ اور وہ اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دے رہی ہے؟ پھرکچھ توقف کے بعد کہا کہ اگر انصاف ہو رہا ہے تو ہم جنگ یقینا جیتیں گے۔

یعنی جس ملک میں عدلیہ آزاد، خودمختار اورغیر جانبدارانہ انداز سے لوگوں کو آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے انصاف فراہم کر رہی ہو، ملک میں قانون کی حکمرانی،آئین کی پاسداری اور عدل وانصاف کا چلن ہو تو وہ ملک ومعاشرے نہ صرف ترقی،کامیابی،خوشحالی اور استحکام کی منزل حاصل کرلیتے ہیں بلکہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ میں بھی سرخرو رہتے ہیں اور دشمن ان سے خوفزدہ۔بدقسمتی سے وطن عزیز دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے، جہاں ہمارے اکابرین وصاحب اختیار حلقوں کے ذمے داروں کے قول وعمل کے تضادات اور حاکمیت و برتری کی خواہشوں نے ریاستی اداروں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کردیا نتیجتاً ریاست کے اہم ترین اداروں کے درمیان آئین و قانون کی متعین کردہ حدود کی پاسداری کے حوالے سے افہام و تفہیم کا فقدان رہا۔

اسی پس منظر میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے گزشتہ ہفتے ایک فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بجا طور پرکہا کہ ملکی ترقی، خوشحالی اور جمہوریت کے لیے امن اور قانون کی حکمرانی ناگزیر ہے۔ عدلیہ انتظامیہ اور مقننہ کا فرض ہے کہ وہ آئین کی بالادستی کو یقینی بنائیں،کسی بھی ادارے کا مقررہ حدود سے تجاوز کرنا نہ صرف جمہوریت کے لیے نقصان دہ اور زہر قاتل ہے بلکہ اس کے عوامی فلاح وبہبود پر بھی منفی اثرات پڑتے ہیں۔

چیف جسٹس نے جو کچھ فرمایا حرف بہ حرف درست ہے لیکن افسوس کہ اس حوالے سے ہمارا ماضی تلخ و المناک یادوں سے بھرا پڑا ہے۔ریاست کے اہم اداروں نے اپنی بالادستی وحاکمیت قائم کرنے کی خاطرآئینی حدود سے تجاوزکرنے میں کبھی پس وپیش سے کام نہ لیا جس کے باعث ملک میں جمہوریت کو’’نظریہ ضرورت‘‘کی ایجاد نے کبھی مستحکم نہ ہونے دیا۔عوام کو چار مرتبہ آمرانہ حکومتوں کے عذاب جھیلنے پڑے ایک آمرکے دور میں ملک دولخت ہوگیا۔

دوسرے آمر نے ملک کے سب سے مقبول عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار تک پہنچادیا جب کہ تیسرے آمرکے دور حکومت میں ایشیا اور ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم اور بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو سرعام گولیوں کا نشانہ بنا کر ابدی نیند سلا دیا گیا۔ کاش ہمارے ملک میں ’’نظریہ ضرورت‘‘ نے جنم نہ لیا ہوتا تو نہ ہمارا مشرقی بازوکٹ کر الگ ملک بنتا نہ ایشیا کا مدبر سیاستدان پھانسی پر جھولتا اور نہ دختر مشرق کو ٹارگٹڈ کیا جاتا اور نہ ہی میاں نواز شریف کو جلاوطن ہوکر جدہ میں قیام کرنا پڑتا۔ ملک میں عدلیہ آزاد ہے۔

جمہوریت مستحکم ہے کیونکہ قومی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ پانچ سالہ حکومتی مدت پوری کرنے کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت نے 2013 کے انتخابات کے بعد اقتدار مسلم لیگ(ن) کو منتقل کرکے جمہوری تسلسل کو یقینی بنایا۔ آئین وقانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہے تمام ریاستی ادارے آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کر رہے ہیں۔ ان تمام مثبت علامات کے باوجود پس پردہ ’’کچھ کہانیاں‘‘ بھی ہیں۔کہیں ’’چہ میگوئیاں‘‘ بھی ہیں۔ کبھی کوئی ’’بازگشت‘‘ بھی سنائی دیتی ہے۔

ریاستی اداروں کے سربراہان کے بیانات کے پس منظر میں مبصرین و تجزیہ نگاروں کے تبصرے مستقبل کے ’’نئے زاویے‘‘ دکھاتے ہیں۔بنیادی سوال یہی اٹھایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت جس انداز سے حکومت کر رہی ہے اور اندرونی و بیرونی سطح پر اسے جن حالات اور چیلنجزکا سامنا ہے کیا وہ اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کر سکے گی؟ کیا اپوزیشن بالخصوص تحریک انصاف انھیں جو ’’ٹف ٹائم‘‘ دے رہی ہے کیا وہ کامیابی سے اپنی مدت میں اس کا مقابلہ کرسکے گی، کیا آیندہ الیکشن میں وہ ماضی کی طرح ’’تخت لاہور‘‘ کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے گی؟ کیا وہ طاقتور حلقوں کو ان کی خواہش کے مطابق پانچ سال تک مطمئن رکھ سکے گی؟ کیا مسلم لیگ (ن) کے اہم ترین رہنماؤں کے درمیان ابھرنے والے اختلافات اور میڈیا میں اس کی بازگشت سے (ن) لیگ کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ ممکن ہوسکے گا! اصغر خان کیس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟

مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق ایسے بہت سے سوالات نے مسلم لیگ ن کی قیادت کو پریشان کر رکھا ہے، بالخصوص NA-122 کے نتیجے نے (ن) لیگ کے اکابرین کو ششدر کردیا ہے۔

بلاشبہ ایاز صادق جیت گئے اور علیم خان ہار گئے اور PP-147 سے پی ٹی آئی جیت گئی اور مسلم لیگ (ن) ہار گئی، لیکن دونوں جماعتوں کے لیے فتح وشکست سے ملنے والے سبق سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ (ن) لیگ کے لیے تو زیادہ فکرمندی کا مقام ہے کہ ایازصادق محض دو ڈھائی ہزار ووٹوں کی برتری سے بڑی مشکل سے جیتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ لاہور میں نواز لیگ کا گراف نیچے جا رہا ہے جب کہ تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا ثبوت اسی حلقے کی صوبائی نشست پر پی ٹی آئی امیدوار شعیب صدیقی کی واضح فتح ہے ۔

مسلم لیگ (ن) لاہور کو اپنا گڑھ کہتی ہے اور تخت لاہور پر قابض رہنا اپنا موروثی حق سمجھتی ہے لیکن اب منظرنامہ بدلتا نظر آرہا ہے۔میٹروبس، میٹرو ٹرین، انڈر پاسز ودیگر منصوبوں کا سحر اب ٹوٹ رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ڈھائی سالوں میں وہ اقدامات و اصلاحات کرنے میں ناکام رہی جن کے عام آدمی کی انفرادی و اجتماعی زندگی پر براہ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے قلعے لاہور میں (ن) لیگ زوال جب کہ تحریک انصاف عروج کی سمت گامزن ہیں اور اس کی ایک جھلک پنجاب کے مجوزہ بلدیاتی انتخابات کے موقعے پر نظر آجائے گی یہی لاہور کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اسی شہر میں اپنی پارٹی کی بنیاد رکھی تھی اور پھر پیچھے مڑکر نہیں دیکھا پورا پنجاب بھٹو کی ہر دلعزیز عوامی سیاست اور خدمت کا گرویدہ بن گیا اور بھٹو کی قیادت میں پی پی پی نے پنجاب میں بے مثال سیاسی کامیابی حاصل کی۔

ان کے بعد بے نظیر بھٹو کو بھی پنجاب میں بڑی محبت، عزت اور احترام دیا ، آمر مطلق کے دور میں لاہور میں بی بی شہید کا فقید المثال تاریخی استقبال ہوا۔ اپنے دونوں مقبول رہنماؤں کی جدائی کے صدمے برداشت کرنے والی پیپلز پارٹی آج شہر لاہور میں ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے۔NA-122 میں پی پی پی کے امیدوار بیرسٹر عامر حسن 819 ووٹ لے کر اپنی ضمانت ضبط کروا بیٹھے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اکابرین کے لیے NA-122 کا نتیجہ لمحہ فکریہ ہے۔ بلدیاتی انتخابات کی آزمائش سے دونوں جماعتیں کیسے سرخرو ہوں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔