بس زندہ ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 24 اکتوبر 2015

’’معزز اراکین مجلس ! ہم اب مختلف راستوں کے مسافر ہیں، میں موت کی تنگ و تاریک گھاٹی کی جانب رواں اور تم شارع زندگی کی طرف گامزن ۔کون سا راستہ ٹھیک ہے یہ نہ تم جانتے ہو نہ میں جانتا ہوں مگرخیر تم سے مجھے کوئی شکوہ نہیں، تم تو یہ بھی نہیں جانتے ہوکہ تم کچھ نہیں جانتے ہاں مگر کچھ دنوں بعد تم جان لوگے کہ تم نے ایک ایسے فطین آدمی کوکھودیا ہے، جو یہ جانتا تھاکہ وہ کچھ نہیں جانتا۔یہ سقراط کا آخری بیان تھا۔

یونان کی قدیم تاریخ کے حوالے سے’’گاڈ آف ڈیلفی ‘‘سچ کا خدا تھا۔ ڈیلفی میں اپالو کے معبد پر یہ معروف فقرہ تحریر تھا کہ ’’اپنے آپ کو پہچانو ‘‘ ایک دفعہ سقراط نے ایک نوجوان کو اصلاح نفس کی طرف راغب کرتے ہوئے اس سے پوچھا کیا تم کبھی ڈیلفی گئے ہو۔ نوجوان یوتھائیڈیمس نے جواب میں کہا جی میں تو دوبارجاچکاہوں۔ سقراط ، اچھا توکیا وہاں یہ الفاظ لکھے ہوئے دیکھے تھے کہ ’’اپنے آپ کو پہچانو‘‘یوتھائیڈیمس: بالکل میں نے پڑھے تھے۔

سقراط :صرف پڑھنا ہی توکافی نہیں ہے کیا اس پر غور بھی کیا تھا کیا تمہیں اس کی فکر بھی ہوئی کہ اپنے بارے میں یہ جاننے کی کوشش کرو کہ تم ہوکیا۔ یوتھائیڈیمس: یہ تو میں پہلے ہی سے جانتاہوں ،اس لیے کچھ زیادہ توجہ نہیں دی ۔ سقراط: اپنے آپ کو جاننے کے لیے اپنا نام جاننا توکافی نہیں ہے ایک شخص جوگھوڑا خریدنا چاہتا ہو جب تک اس پر سواری کرکے یہ نہ دیکھ لے کہ وہ سدھایا ہوا ہے یا سر کش ، مضبوط ہے کمزور، تیزرفتار ہے یا سست اورایسی ہراچھی بر ی چیز کا اس میں جائزہ نہ لے تب تک وہ یہ نہیں کہتا ہے کہ میں نے اس گھوڑے کو اچھی طرح جان لیا ہے۔

اسی طرح ہمارے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ اپنے آپ کو جاننے کا دعو یٰ کریں جب کہ ہم اپنے اندر موجود صلاحیتوں سے بے خبر ہوں اور ان فرائض سے ناآشنا ہوں جو بحیثیت انسان ہم پر عائد ہوتے ہیں۔‘‘ آئیں ہم اپنی بات کرتے ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم کچھ نہیں جانتے اور اپنے آپ پر ظلم یہ ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں اورتیسری یہ کہ ہم کچھ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے ہیں۔

ٹیگور نے کہا تھا فکر فکرکو دورکرتی ہے جب انسان یہ سمجھ جاتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا تو وہ جاننے کے لیے تگ و دوکرتا ہے۔ یاد رہے نہ جاننے سے جاننے تک کا سفر بہت دشوار اورتکلیف دہ ہوتا ہے جب تک آپ کچھ نہیں جانتے تو آپ خوش رہتے ہیں مست رہتے ہیں لیکن جیسے ہی آپ جاننے لگتے ہیں تو آپ پر بھیانک اور اذیت ناک سچائیاں ایک ایک کرکے کھلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ ایسی ایسی ڈراؤنی سچائیاں جسے دیکھ کر انسان خوف سے کانپنا شروع کردے آج ہم سب خوش اور مست ہیں اس لیے کہ ہم سچائیوں سے آگاہ نہیں ہیں۔

آئیں خوفزدہ اور ڈرنے کے لیے تیار ہوجائیں کیونکہ ایک ایک کرکے آپ پر سچائیاں کھلنے والی ہیں، لیکن پہلے میرے چند سوالوں کا جواب دے دیں ۔پہلا سوال: یہ ہے کہ یہ ملک اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ اس میں عام لوگ خوشحال ہوں با اختیار ہوں آزاد ہوں ملک کے ہر فیصلے کا اختیار ان کے پاس ہو ملک میں مساوات ہو طبقاتی کشمکش نہ ہو۔ ملک میں عوام کی حاکمیت ہو آپ کے بزرگوں نے صرف اسی لیے جانی ومالی قربانیاں دیں تھیں کہ ان کے یہ سارے خواب حقیقت کا روپ دھار لیں کیا ہمارے بزرگوں کی قربانیاں رنگ لائیں یا ساری کی ساری ضایع ہوگئیں۔ دوسرا سوال: کیاہم دنیا بھرکے ساتھ چل رہے ہیں یا الگ تھلگ ایک کونے میں کھڑے اپنے آپ پر ماتم کررہے ہیں۔ تیسرا سوال: کیا ہمارا اور ہماری اولاد کا حال اور مستقبل محفوظ ہے ۔

چوتھا سوال :کیا ہم سب ذہنی اور جسمانی طور پر تندرست ہیں یا خوفناک بیماریوں کے جراثیم ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں ۔ پانچواں سوال :کیا ہمارا ہرجائزکام بغیر رشوت اور سفارش کے باآسانی ہورہاہے یاہم سب روز اس کے لیے دھکے کھاتے پھرتے ہیں چھٹا سوال :کیاہم اپنی اور اپنے پیاروں کی ساری خواہشوں،آرزؤں، تمناؤں اور چھوٹے چھوٹے خوابوں کوپوراکررہے ہیں یا روزذلیل وخوارہوتے ہی پھررہے ہیں اور روز جیتے ہیں اور روز مرتے ہیں ۔

ساتوں سوال :کیا ہماری معاشرے میں کوئی عزت ہے یا ہر بڑا امیروکبیر اورطاقتور آدمی ہمیں ذلیل کرکے تسکین حاصل کرتا رہتا ہے ۔ آٹھواں سوال: کیا وہ لوگ جو ہمارے ووٹوں کے ذریعے اقتدار میں آتے ہیں جیتنے کے بعد کیا ہمیں گھاس ڈالتے ہیں ۔کیا ہمیں ذرا برابر اہمیت دیتے ہیں کیا ہمارے چھوٹے چھوٹے کام کرتے ہیں ۔کیا ہم سے باآسانی ملاقات کرتے ہیں ۔ نواں سوال: کیا ہمیں اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی حاصل ہے یاہم ہروقت خوفزدہ رہتے ہیں۔

دسواں سوال :کیا خواتین اور اقلیتوں کو مکمل مساوی حقوق حاصل ہیں یا انھیں کوئی انسان ہی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ گیارہواں سوال :گنتی کے جو چند لوگ ملک میں لوٹ مار اورکرپشن کر رہے ہیں کیا ہم کبھی متحد ہوکر ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جب آپ ان سوالوں کے جواب دے رہے ہونگے تو آپ پر یہ ڈراؤنی سچائی کھل چکی ہوگی کہ آپ دراصل ایک دوزخ میں رہ رہے ہیں ایسی دوزخ جو پہلے پہل جنت تھی لیکن ہم نے اسے مل کر دوزخ میں تبدیل کردیا اور جب کبھی کوئی گھبرا کر خوفزدہ ہو کر اس دوزخ سے بھاگنے کی کو شش کرتا ہے تو ہم سب مل کر اسے دبوچ لیتے ہیں وہ پھرکوشش کرتا ہے ہم پھر اسے دبوچ لیتے ہیں ،اصل میں ہم سب اس دوزخ کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ نہ تو ہمارا دل اسے تبدیل کرنے کو چاہتا ہے اور نہ ہی کسی کو اسے تبدیل کرنے دیتے ہیں۔ ہم سب ان فرائض سے ناآشنا ہوچکے ہیں جو بحیثیت انسان ہم پر عائد ہوتے ہیں۔

اصل میں ہم سب اپنی اپنی یادداشت کھوچکے ہیں ،کیونکہ ہم الزائمر مرض کا شکار ہوچکے ہیں الزائمر ایک ایسی دماغی بیماری ہے جس میں نہ صرف یادداشت ختم ہوجاتی ہے بلکہ سماجی سرگرمیوںمیں خلل پیدا ہوجاتا ہے۔ اس مرض سے متاثرہ مریضوں میں دماغ کے ایسے حصے متاثر ہوتے ہیں جو فکر،یادداشت اور زبان کے استعمال کو قابوکرتے ہیں ۔ اسی مرض کی وجہ سے نہ ہم اپنے آپ کو پہچان رہے ہیں نہ اپنے آپ کو جاننے کی کوشش کررہے ہیں اور نہ ہی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لارہے ہیں بس سب کچھ بھول بھال کر صرف زندہ ہیں نہ ہمیں اپنی کوئی فکر ہے نہ اپنے پیاروں کی اور خو شحالی ، ترقی، کامیابی، آزادی اورخوشیاں کیا ہوتی ہیں نہ ہمیں یاد ہے اور نہ ہمیں ان کی کوئی فکر ہے بس صرف زندہ ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔