بھارت میں مذہبی انتہا پسندی عروج پر

توقیر چغتائی  اتوار 25 اکتوبر 2015
 حکومت کے خلاف، ادیبوں شاعروں، فن کاروں اور دانش وروں کا احتجاج، اعزازات واپس کرنے کی مہم ۔  فوٹو : فائل

حکومت کے خلاف، ادیبوں شاعروں، فن کاروں اور دانش وروں کا احتجاج، اعزازات واپس کرنے کی مہم ۔ فوٹو : فائل

 اس سال جنوری کے مہینے میں باراک اوباما نے کہا تھا کہ ہندوستان میں مذہبی عدم برداشت نے مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے خیالات کو متاثر کیا ہے اور اس بیان کے کچھ عرصے بعد ایک اخبار نے نریندر مودی سے خاموشی توڑنے کی اپیل بھی کی تھی۔ نریندر مودی کو اس کے بعد کئی دفعہ اس بات کا موقع ملا کہ وہ شدت پسند ہندوؤں کی کارروائی کے خلاف کوئی بیان جاری کریں، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

اس صورت حال کے پیش نظر ایک غیرملکی اخبار کا یہ لکھنا بالکل بجا تھا کہ،’’مودی کی مسلسل خاموشی لوگوں کو یہ اشارہ دے رہی ہے کہ نہ تو وہ شدت پسند عناصر کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور نہ ہی کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ بھارت کے غیرجانب دار تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ ایسی صورت میں جب بھارت بین الاقوامی سطح پر اپنے کردار کو مضبوط کرنا چاہتا ہے، ملک کے اندر سے شدت پسندی اور مذہبی انتہاپسندی کی خبروں کا سامنے آنا اُس کے لیے اچھاشگون نہیں ہے۔

بھارت میں مودی کی حکومت بننے سے پہلے ہی وہاں کے روشن خیال دھڑوں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاسی راہ نماؤں نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر مودی برسراقتدار آئے تو سیکولر بھارت کی پہچان کو شدید دھچکا پہنچے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ بات سچ ثابت ہوئی اور آج مودی سرکار اپنے داخلی بحران سے آنکھ چرا کر بھارتی عوام کو جنگی جنون کی طرف دھکیلنے میں مصروف ہے۔

صرف یہی نہیں۔ خود کو سیکولر بھارت کا باسی کہنے والی اقلیتوں کا جینا بھی حرام ہوا اور ملک میں پائی جانے والی سیاسی بے چینی میں بھی اضافہ ہوا۔ اب سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والے توہم پرست ہندوؤں نے نہ صرف عام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کا جینا دو بھر کر رکھا ہے بل کہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے روشن خیال، مگر عمررسیدہ افراد بھی ان کے عتاب سے نہیں بچ پا رہے۔ اس کی سب سے اہم مثال وہاں کے ایک دانش ور ایم ایم کل برگی کا اگست میں ہونے والا قتل اور اس سے قبل دو مزید اہم شخصیات کا قتل ہے، جس نے عام بھارتیوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ سیکولر بھارت کا مستقبل کیا ہوگا؟

دو نوجوان لڑکے ایم ایم کل برگی کے گھر پر آئے تھے ۔ اُن میں سے ایک نے گھر کی کال بیل بجائی اور دوسرا موٹر سائیکل پر بیٹھا ان کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگا۔ جب اُن کی بیوی نے دروازہ کھولا تو نوجوان لڑکوں نے اپنے آپ کو طالب علم کے طور پر متعارف کرانے کے بعد ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ خاتون خانہ انہیں گھر کے اندر بنے ہال نما کمرے میں لے گئیں جہاں کال برگی پہلے سے موجود تھے۔ وہ باورچی خانے کی طرف گئیں اور چند لمحوں کے بعد انہیں گولی چلنے کی آواز سنائی دی، جس پر وہ گھبرا کر واپس پہنچیں توکال برگی کو قتل کرنے کے بعد دونوں لڑکے فرار ہو چکے تھے۔

ایم ایم کال برگی مدراس کے ہمپی شہر میں واقع کنڑ یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر تھے۔ انہیں ان کے تحقیقی مضامین کی کتاب ’’مارگ ‘‘ پر ساہتیہ اکیڈمی نے ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔ وہ بتوں کی پوجا اور اُن کی حیثیت پر کھل کر تنقید کرتے تھے، جس پر کٹر ہندوؤں کے کئی دھڑے ان کے خلاف تھے اور آئے دن انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی رہتی تھیں، جسے دیکھتے ہوئے حکومت نے ان کو گھر پر سیکیورٹی مہیا کر رکھی تھی، مگر ایک ماہ قبل انہوں نے یہ سیکیورٹی واپس کردی تھی۔

2014 میں ہونے والے ایک سیمینار کے دوران انہوں نے اپنے ہم عصر ادیب یو آر اننتمورتی کی کتاب سے ایک حوالہ دیا تھا جو کچھ یوں تھا،’’میں نے بچپن میں ایک بُت پر پیشاب کردیا تھا۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ اس کے بدلے میں مجھ پر عذاب نازل ہوتا ہے کہ نہیں۔‘‘ بس پھر کیا تھا۔ صوبے بھر میں اننتمورتی اور ان کے خلاف مظاہرے کیے گئے، یہاں تک کہ ’’بجرنگ دل‘‘ کے مظاہرین نے ان کے گھر کے سامنے بھی مظاہرہ کیا اور ان کے گھر پر پتھر اور بوتلیں پھینکی گئیں۔ اننتمورتی بھارت کے ان ادیبوں اور دانش وروں میں سے ایک تھے جو دائیں بازو کی ہندو پارٹیوں پر کھل کر تنقید کرتے تھے۔

حالیہ انتخابات سے قبل انہوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد بھارت میں آزادیٔ اظہار خطرے میں پڑ جائے گی۔ انہوں نے ہندی کے معروف ادیب اشوک واجپائی اور کمیشن کی رکن سیدہ حمیدہ کے ساتھ مل کر نئی دہلی میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران مودی کی شخصیت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس پر بھارتیہ جنتا پارٹی نے الیکشن کمیشن سے شکایت کی تھی کہ انہیں گلبرگہ یونی ورسٹی میں وائس چانسلر کے عہدے سے برطرف کردیا جائے۔ اس سے قبل وہ ’’ مہاتما گاندھی یونی ورسٹی ‘‘ کیرالا کے بھی وائس چانسلر کے طور پر کام کر چکے تھے۔ وہ ان چھ کنڑ ادیبوں میں شامل تھے جنہیں بھارت کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ دیا گیا تھا۔ 1998میں حکومت نے انہیں ’’گیان پٹھ ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازا تھا۔

اس سال کے شروع میں مہاراشٹر میں سی پی آئی کے 82 سالہ راہ نما گووند پانسرے کو بھی اُس وقت گولی کا نشانہ بنایا گیا جب وہ بیوی کے ساتھ چہل قدمی کر رہے تھے۔ گووند پانسرے نہ صرف مذہبی توہم پرستی کے خلاف تھے بل کہ انہوں نے ہندو معاشرے میں کچلے ہوئے طبقوں کی آزادی کے لیے بھر پور جدوجہد کی تھی۔ اُن کے قتل پر مہاراشٹر کی اسمبلی میں حزب اختلاف کے ایک لیڈر کا کہنا تھا کہ مہاراشٹر جیسی ترقی پسند ریاست کے لیے ایسے واقعات انتہائی افسوس ناک ہیں۔ مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ حملہ کسی شخص پر نہیں بل کہ ایک نظریے پر کیا گیا ہے۔

دو سال قبل ہندو مذہب کو توہم پرستی اور جادو ٹونے سے پاک کرنے اور سماج کی بہتری کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر نریندر دابھولکر کو بھی دو حملہ آوروں نے گولی مار دی تھی۔ نریندر دابھولکر پیشے کے لحاظ سے ایک ڈاکٹر تھے مگر انہوں نے اس کے بجائے سماجی کاموں کی طرف زیادہ توجہ دی اور معاشرے میں پھیلی توہم پرستی کے خلاف ایک تنظیم کو فعال کیا جو جعلی پنڈتوں اور سنتوں کو بے نقاب کرتی تھی۔

وہ مذہب کے خلاف نہیں تھے بلکہ مذہب کے نام پر کچلے ہوئے طبقوں کے استحصال کے خلاف تھے ۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’مجھے مذہب سے جڑے مجبور انسانوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے، مگر ان لوگوں پر اعتراض ضرور ہے جو دوسروں کی مجبوریوں کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘‘ ان کی کوشش سے سات جولائی 1995کو بی جے پی کی حکومت کے دور میں اسمبلی میں جادو ٹونے کے خلاف ایک قانون بنانے کی تجویز کو منظور کیا گیا تھا، لیکن سیاسی مفادات کی وجہ سے یہ قانون نہ بن سکا۔ ڈاکٹرنریندر دا بھولکر کا ایک جرم یہ بھی تھا کہ انہوں نے دیوالی کے موقع پر پھوڑے جانے والے پٹاخوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی اور ان پٹاخوں پر آنے والے اخراجات کی بھی مخالفت کی تھی۔ وہ اسکولوں میں جا کر طلبا سے یہ عہد لیتے تھے کہ پٹاخوں پر خرچ ہونے والے پیسوں کو وہ سماجی کاموں کے لیے استعمال کریں گے۔

ایم ایم کالبرگی کے قتل کے سلسلے میں ابتدائی طور پر ہندوؤں کی ایک مذہبی تنظیم ’’رام سینا‘‘ کے مقامی راہ نما کو اس بنا پر گرفتار کیا گیا ہے کہ اُن کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر جو بیانات آئے ان پر اُس کی تصویر لگی ہوئی تھی۔

اس کے علاوہ پولیس ابھی تک ان کے قاتلوں کا کوئی سراغ نہیں لگاسکی، جس سے اس بات کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ انہیں اور ان سے قبل قتل ہونے والی شخصیات تک پہنچنے والے خفیہ ہاتھوں کے پیچھے نہ صرف ہندو بنیاد پرست تنظیمیں موجود ہیں بل کہ انہیں یہ بھی سہولت حاصل ہے کہ اب بھارت پر حکومت کرنے والا شخص بھی ان ہی کا ہم خیال ہے۔ ان واقعات کے خلاف بھارت کی سول سوسائٹی میدان میں اتر چکی ہے اور اس ظلم کے خلاف بہت بڑے بڑے مظاہرے بھی کیے گئے ہیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر معروف ادیب گریش گرناڈ کا کہنا تھا کہ ’’ہر آدمی کو اظہار رائے کا حق ہے۔ اگر اسی طرح ہوتا رہا تو ہمارے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔‘‘

اب معاملہ اس سے بھی آگے نکل چکا ہے۔ ممبئی میں معروف گلوکار جگجیت سنگھ کی یاد میں ہونے والے پروگرام کو محض اس لیے ملتوی کیا گیا کہ شیو سینا نے اس میں شامل پاکستان کے معروف گلوکار غلام علی کو دھمکی دی تھی کہ وہ اس پروگرام میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے سے باز رہیں۔

اس کے ساتھ پاکستان کے سابق وزیرخارجہ خورشید قصوری کی کتاب پر ہونے والی تقریب کی مخالفت کرتے ہوئے پروگرام کے آرگنائزر سدھنداکلرنی کے منہ پر کالک مل دی گئی، مگر اس کے باوجود وہ اس پروگرام کے انعقاد سے پیچھے نہ ہٹے اور ممبئی میں خورشید قصوری کے ساتھ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خورشید قصوری کی کتاب بھارت اور پاکستان کے درمیان امن قائم کرنے کا عظیم کارنامہ ہے اور اس طرح کے حملوں سے دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی امن کی کوششوں کو شدید خطرہ پہنچے گا۔

اس کانفرنس سے خورشید محمود قصوری نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ شدت پسند دونوں ممالک میں موجود ہیں جو یہ نہیں چاہتے کہ امن و امان کی صورت حال بہتر ہو اور دونوں ممالک کے ثقافتی رشتے مضبوط ہوں۔ کلکرنی کا تعلق ماضی میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) سے تھا مگر 1996میں اس پارٹی کو چھوڑ کر وہ بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔

تیرہ سال تک بی جے پی میں رہنے اور واجپائی کے او ایس ڈی کے فرائض ادا کرنے کے بعد انہوں نے اس پارٹی کو بھی چھوڑ دیا تھا اور اب وہ ایک تنظیم Observer Research Foundation کے سربراہ ہیں۔ منہ پر پھینکی جانے والی سیاہی کے واقعے کے بعد اُن کا کہنا تھا کہ میں کسی ملک کا نہیں بل کہ امن کا ایجنٹ ہوں۔ انہوں نے ٹویٹ کیا تھا کہ’’نہ دھمکی سے، نہ بم بندوق سے، نہ گولی سے، بات بنے گی بولی سے۔‘‘ اور اس کے نیچے خورشید محمود قصوری کی کتاب Neither a Howk nor a Dove کا وہ دعوت نامہ چسپاں تھا جس میں تقریب کی تفصیل درج تھی۔

بھارت میں علم و ادب اور روشن خیالی کے علم بردار تین اشخاص کے قتل، گائے کا گوشت کھانے کی پاداش میں ایک غریب مسلمان کے قتل اور ان جیسے دوسرے واقعات کے پیش نظر بھارت میں بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں ہندی، کنڑ، پنجابی، کوکنی، گجراتی، انگریزی، ملیالم اور دوسری زبانوں کے ادیبوں نے ساہتیہ اکیڈمی کی طرف سے دیے جانے والے انعامات واپس کر دیے۔

اس سلسلے میں ہندی کے ادیب، صحافی اور شاعر ادے پرکاش نے سب سے پہلے ساہتیہ اکیڈمی کو اپنا وہ انعام واپس کیا جو انھیں اپنی طویل کہانی ’’موہن داس‘‘ اور دوسری کہانیوں پر دیا گیا تھا ۔ یاد رہے کہ اُن کی یہ کہانی پاکستان کے اردو اور پنجابی حلقوں میں داد پا چکی ہے۔ اس لیے کہ دونوں زبانوں میں اسے ترجمہ کیا گیا تھا۔ جن دوسرے ادیبوں نے ساہتیہ اکیڈمی کو اپنے ایوارڈ واپس کیے اُن میں بزرگ ناول نگار نین تارا سہگل کا نام بھی سرفہرست ہے۔

نین تارا سہگل انگریزی زبان میں لکھتی ہیں اور انہیں 1985میں ان کے ناول Rich like us پر یہ ایوارڈ دیا گیا تھا۔ ہندی کے معروف شاعر اشوک واجپائی نے بھی اپنا ایوارڈ یہ کہتے ہوئے واپس کردیا کہ حکومت عوام اور قلم کاروں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ ان دونوں قلم کاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ بی جی پی کی حکومت ہندو شدت پسندوں کے ذریعے اقلیتوں اور مصنفین کو نشانہ بنانے سے روکنے میں ناکام ہو چکی ہے۔

نین تارا نے جو سابق وزیراعظم نہرو کی بھانجی ہیں، یہ تک کہہ دیا کہ ’’جو بھی ہندو مذہب کی بدصورت اور خطرناک تبدیلیوں کی کسی بھی جہت پر سوال کرتا ہے اُسے الگ تھلگ کردیا جاتا ہے، ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا پھر قتل کردیا جاتا ہے۔‘‘ جن دوسرے ادیبوں اور شاعروں نے ساہتیہ اکیڈمی کے ایوارڈ واپس کیے اُن میں انگریزی ادب کے نقاد گنیش دیوی، گجراتی زبان کے ادیب انل جوشی، ملیالم کی مشہور مصنفہ سارہ جوزف اور ملیالم زبان ہی کے ادیب سچداندن کے ساتھ ششی دیش پانڈے کا نام شامل ہے۔

پنجابی کے جن شاعروں اور ادیبوں نے اپنے ایوارڈ واپس کیے اُن میں مشہور ناٹک کار اجمیر سنگھ اولکھ، اتم جیت سنگھ، مشہور کہانی کار وریام سنگھ سندھو، ناول نگار بلدیو سنگھ سڑک نامہ اور ناول نگار گربچن سنگھ بھلر کا نام سر فہرست ہے۔ یاد رہے کہ گربچن سنگھ بھلر پنجابی کے اہم کہانی کار اور ناول نگار کے علاوہ ایک صحافی کے طور پر بھی اپنی پہچان رکھتے ہیں اور کچھ عرصہ قبل ’’پنجابی ٹربیون‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں۔

اُن کا ناول ’’ایہوجنم تمہارے لیکھے‘‘ پچھلے سال چھپا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے اُس کا دوسرا ایڈیشن بھی بازار میں آگیا تھا۔ یہ ناول امرتا پریتم کی زندگی پر لکھا گیا ہے۔ پنجابی کے اہم ناٹک کار آتم جیت کا کہنا ہے کہ ملک میں ہونے والے ایسے افسوس ناک واقعات پر چپ نہیں رہا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ آج کچھ طاقتیں مذہبی رواداری کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہیں مگر سرکاری حلقے ان واقعات کو خاموشی سے دیکھ رہے ہیں۔

بھارت میں ابھرنے والی حکومت مخالف لہر میں جہاں ادیب اور شاعر شامل ہیں، وہاں فلمی دنیا سے جڑے افراد بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ معروف فلم ساز مہیش بھٹ نے خورشید محمود قصوری کی کتاب کے سلسلے میں ٹویٹر پر لکھا ہے کہ ’’اس حملے نے ہمارے دستور کا مذاق اُڑایا ہے۔ پولیس کو شرم سار کردیا ہے اور جمہوریت سے متعلق ہمارے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔‘‘n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔