2016ء تک پولیو کے خاتمے کے اہداف حاصل کرلیں گے !!

احسن کامرے  پير 26 اکتوبر 2015
ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام ’’پولیو سے پاک پاکستان‘‘ سیمینار کی رپورٹ۔ فوٹو: مدثر راجہ/ایکسپریس

ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام ’’پولیو سے پاک پاکستان‘‘ سیمینار کی رپورٹ۔ فوٹو: مدثر راجہ/ایکسپریس

ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ’’پولیو سے پاک پاکستان‘‘ کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری، وزیرمملکت برائے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن اینڈ کوآرڈی نیشن سائرہ افضل تارڑ، وزیراعظم کے انسداد پولیو سیل کی فوکل پرسن سینیٹر عائشہ رضا فاروق، پمز کے سربراہ ڈاکٹر جاوید اکرم، نمائندہ عالمی ادارہ صحت ڈاکٹر زبیر مفتی، جے یو آئی (س) کے رہنما و سابق رکن قومی اسمبلی مولانا حامد الحق حقانی اور ینگ فارماسسٹ ایسو سی ایشن کے نمائندے ڈاکٹر محمد ہارون نے شرکت کی۔اس موقع پر تمام مقررین نے ایکسپریس میڈیا کی اس کاوش کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایکسپریس میڈیا گروپ نے جس طرح پولیو جیسے اہم مسئلے پر آواز اٹھائی ہے باقی میڈیا کو بھی ملکی مسائل پر اس طرح آواز اٹھانی چاہیے اور سب کو مل کر مسائل کا خاتمہ کرنا چاہیے۔سیمینار میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

مولاناعبد الغفور حیدری (ڈپٹی چیر مین سینٹ)

اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت پولیو کے خاتمے کیلئے سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پولیو کے کیسز میں کمی آئی ہے۔ ہمارے ملک میں بعض ایسے علاقے ہیں جہاں تک رسائی مشکل ہے جن میں خیبرپختونخوا کے کچھ علاقے، قبائلی علاقے اور بلوچستان کے بہت سارے علاقے شامل ہیں۔ ایک سروے کے مطابق بلوچستان میں اب تک دو لاکھ 45 ہزار بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے گئے۔ اسی طرح سندھ میں75 ہزار، خیبرپختونخوا میں51 ہزار جبکہ فاٹا میں60 ہزار بچوں کوپولیو کی ویکسین نہیں دی گئی لیکن پنجاب میں ایک بھی بچہ ایسا نہیں ہے جسے پولیو کے قطرے نہیں پلائے گئے۔ یہ بات درست ہے کہ بلوچستان اور فاٹا کے حالات خراب ہیں، وہاں پولیو ورکرز کو قتل بھی کیا گیا لیکن سوال یہ ہے سندھ میں اتنی تعداد میں پولیو کیسز کیسے سامنے آئے ہیں۔ میرے نزدیک سندھ میں ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جس طرح گزشتہ سال کی نسبت رواں سال پولیو کیسز میں80 فیصد سے زائد کمی آئی ہے، میرے نزدیک اس پر حکومت، وزارت صحت، پولیو کے لیے کام کرنے والے تمام حکومتی و سماجی لوگ، علماء اور میڈیا سب خراج تحسین کے مستحق ہیں۔پولیو وائرس ابھی تک ملک میں موجود ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ جن علاقوں میں ابھی تک ہمارے رضاکار نہیں پہنچے ان کے لیے بھی کوئی سٹریٹجی بنائی جائے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیو ایک موزی مرض ہے لہٰذا جنگی بنیادوں پر پوری قوم کو یکجا ہوکر اس کے خاتمے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ پولیو کے قطرے پلانے کے حوالے سے علماء حضرات پوری طرح حکومت کے ساتھ ہیں۔کسی عالم نے ایسا فتویٰ نہیں دیا کہ یہ ویکسین حرام ہے۔میں نے خود بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے دس سال پہلے اپنے ہاتھوں سے بچوں کو قطرے پلائے جو ریکارڈ پر ہے اور اس کے علاوہ پولیو کے حوالے سے اشتہارات بھی دیے گئے۔میرے نزدیک اس طرح کی بات نہیں کرنی چاہیے کہ علماء اس کے خلاف ہیں کیونکہ جو طبقہ سب سے بڑھ کر حکومت کا ساتھ دے رہا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی دل شکنی ہوجائے۔ یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ موجودہ حکومت پولیو کے خاتمے میں سنجیدگی سے کام نہیں کررہی بلکہ حکومت پولیو کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے اور جہاں بھی اسے ہماری ضرورت پڑی ہم ضرور ساتھ دیں گے۔

سائرہ افضل تارڑ (وزیر مملکت برائے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن اینڈ کوآرڈی نیشن)

حکومت پوری سنجیدگی کے ساتھ پولیو کے تدارک کیلئے دن رات کام کر رہی ہے اور اس حوالے سے وزیراعظم نواز شریف سے لے کر عام پولیو ورکرز تک سب کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ ہمارے پولیو ورکرز نے بہت قربانیاں بھی دی ہیں۔ پولیو کے خاتمے کا پروگرام ہمارا اپنا ہے۔ اس کیلئے اسلامک ڈویلپمنٹ بینک نے300 ملین ڈالر کا قرضہ دیا ہے جو ہم نے واپس کرنا ہے۔ یہ پروگرام ہم خود چلا رہے ہیں، اس میں امریکہ یا اور کسی ملک کا کوئی ہاتھ نہیں۔ پولیو کے قطروں کے حوالے سے بہت سے مسائل ہیں، ہمارا دوہرا معیار اس بیماری کے خاتمے میں رکاوٹ ہے کیونکہ جب ہم حج پر جاتے ہیں تو یہی قطرے پی کر جاتے ہیں لیکن جب یہ قطرے ہمارے اپنے ملک میں پلائے جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ قطرے ٹھیک نہیں ہیں۔ شکیل آفریدی کیس کی وجہ سے ملک میں جاری پولیو مہم متاثر ہوئی۔ میں نے امریکی حکام پر واضح کیا کہ پولیو جیسے پروگرام کو جاسوسی کا عمل نہ بنایا جائے کیونکہ اس طرز عمل سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔

نائیجیریا کے بارے میں یہاں بات کی گئی لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا نائیجیریا میں پولیو ورکرز کو قتل کیا جاتا ہے، کیا وہاں اس طرح کا پراپیگنڈہ ہوتا ہے اور کیا وہاں پولیو ویکسین کو حرام قرار دیا جاتا ہے؟ ہم نے تو امام کعبہ کی موجودگی میں پولیو کے قطروں کو حرام قرار دینے والوں کی بات کی تو انہوں نے خود بچوں کوقطرے پلائے۔ پولیو ویکسین کو ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے، ہم خود اسے ٹیسٹ کرتے ہیں اور اس میںکوئی حرام چیز شامل نہیں ہے۔ ہم ان تمام لوگوں کو دعوت دیتے ہیں جنہیں پولیو ویکسین پر شک ہے کہ وہ کسی بھی علاقے سے ویکسین لے آئیں ہم اسے ٹیسٹ کریں گے۔ پولیو ویکسین موثر ہے، ہم تمام بچوں تک اسے پہنچانے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں۔ گزشتہ سال ملک میں پولیو کے تین سو کیسز سامنے آئے جبکہ رواں سال ہم یہ فگر38 پر لے آئیں ہیںاور ہمیں امید ہے کہ ہم2016 ء کے آ خر تک پولیو کے مرض پر قابو پا لیں گے۔ عالمی ادارے پولیو کے حوالے سے حکومت پاکستان کی کوششوں کے معترف ہیں۔ حکومت پولیو کے خاتمے کیلئے جتنی رقم خرچ کر رہی ہے اتنا کسی اور بیماری پر نہیں لگ رہا۔

اس کے باوجود ہم نے 43ملین ڈالر بچائے ہیں جبکہ پولیو پروگرام کے حوالے سے نئے پی سی ون میں بھی کئی ملین ڈالر بچائیں گے۔ ہماری وزارت میں کرپشن یا بدعنوانی کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا اور میری وزارت دن رات پولیو کے خاتمے کیلئے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہم نے ملکی تاریخ میں پہلی بار ادویات کی قیمتوں کی جامع پالیسی دی اور جعلی ادویات کے خاتمے کیلئے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو مکمل اختیارات بھی دیئے ہیں۔کہا جارہا ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی مہنگے ترین دفاتر میںکام کررہی ہے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں ادویات کی چھ سو کمپنیوں کو صرف پچاس لوگ دیکھ رہے ہیں جبکہ اردن میں پچاس کمپنیوں کیلئے چھ سو کا عملہ کام کر رہا ہے لہٰذا جب چیزوں کو بین الاقوامی معیار پر لانا ہے تو ہمارے اخراجات بھی زیادہ ہوں گے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا یہ آفس غیر قانونی طور پر قائم ہیں؟

نہیں بلکہ یہ پیپرا کے قوانین کے مطابق قائم کیے گئے ہیں۔یہ بات قابل غور ہے کہ دنیا میں جہاںبھی لاء ایند آرڈر خراب ہو یا دہشت گردی ہو وہاں صحت کے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ ہم توکئی سالوں سے حالت جنگ میں ہیں لیکن اس سب کے باجود ہمارے ہاں بہتری آرہی ہے۔ ہم اللہ کی بخشی ہوئی توفیق سے بیماریوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ تمام مسائل پر قابو پالیں گے۔ ہم نے پولیو کے خاتمے کا ٹارگٹ نہیں دیا تھا بلکہ ہم نے عالمی ادارہ صحت سے کہا کہ ہمیں حقیقت پسندانہ ٹارگٹ دیا جائے۔ پولیو کے حوالے سے صورتحال میں جس طرح بہتری آرہی ہے ہمیں امید ہے کہ 2016ء تک ہم اس پر قابو پالیں گے۔

 سینیٹرعائشہ رضا فاروق (فوکل پرسن ٹو پرائم منسٹر فار پولیو اریڈیکیشن پروگرام)

پولیو پروگرام نے پاکستان میں بہت اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ پاکستان سے پولیو کا تقریبا خاتمہ ہوچکا تھا اور ہم پولیو سے پاک پاکستان کے بہت قریب پہنچ گئے تھے لیکن بدقسمتی سے 2011ء کے دوران پولیو وائرس ایک بار پھر بے قابو ہوگیا اور تقریباََ ایک سواٹھانوے کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔گزشتہ سال پاکستان میں پولیو کیسز کی رجسٹرڈ تعداد تین سو سے زائد تھی تاہم موجودہ حکومت کی کوششوں سے یہ تعداد کم ہوکر صرف 38 رہ گئی ہے اوراس طرح پولیو کیسز کی شرح میں 80 فیصد کمی آئی ہے۔پولیو کیسز کی بنیادی وجہ پولیو کے قطروں کے حوالے سے افواہیں اور شکوک و شبہات تھے جن کی بنیاد پر شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پولیو کے قطرے پلانے پر پابندی لگادی گئی تھی جس کے باعث تقریبا اڑھائی لاکھ سے زیادہ بچے پولیوکے قطروں سے محروم رہ گئے تھے۔ پھر ضرب عضب نے ہماری مدد کی اور وہ اڑھائی لاکھ بچے جو اپنے بنیادی حق سے محروم رہ گئے تھے ہمیں ان تک رسائی ملی۔پولیو کا شکار ہونے والے بچوں میں سے 80فیصد بچے ایسے ہیں جنہیںپولیو کے قطرے نہیں پلائے گئے۔موجودہ حکومت پولیو کے خاتمے کیلئے پرعزم ہے۔ ہم نے سٹریٹیجک بنیادوں پر پولیو پروگرام کو ازسر نو تشکیل دیا ہے۔

ہماری حکومت نے پاک فوج،سول سوسائٹی ، علماء اور میڈیا کی بھی مدد حاصل کی ہے اور وزیراعظم پاکستان خود اس پروگرام کی قیادت کررہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے پولیو کے خاتمے کیلئے شدید خطرات والے علاقوں میں خصوصی ہیلتھ کیمپس بنائے ہیں جبکہ پولیو وائرس کے ایک جگہ سے دوسری جگہ پھیلاؤ کو روکنے کیلئے ان اضلاع کے داخلی اور خارجی راستوں پر ویکسینیشن پوسٹیں بھی قائم کی ہیں۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کی ویکسینیشن کیلئے بھی خصوصی مہم شروع کی ہے تاکہ ان کو بھی بنیادی صحت کے حقوق فراہم کئے جاسکیں۔ موجودہ حکومت نے پولیو مہم کی کوالٹی کو بہتر بنانے کیلئے احتساب کے نظام کو بھی بہتر بنایا ہے اور ایک آزاد فرم ہمارے پروگرام کو مانیٹر کرتی ہے۔ہمارے علماء اور نیشنل اسلامک ایڈوائزری گروپ کے ممبران نے پولیو پروگرام کے لیے ان تھک محنت کی ہے جس کی وجہ سے پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کرنے والوں کی تعداد میں 54فیصد کمی آئی ہے۔

ہمیں امید ہے کہ اگر علماء کا تعاون اسی طرح جاری رہا تو ہم مزید خاندانوں تک ویکسین پہنچانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔2015ء – 2016ء کے لیے نیشنل ایمرجنسی ایکشن پلان تیار کیا گیاجسے وزیراعظم کی منظوری کے بعد نافذ کردیا گیا ہے ۔ اس کے مطابق ہم ہر مہم میں رہ جانے والے بچوں کو ٹریک کررہے ہیں کیونکہ ہم اس وقت تک پولیو کے خاتمے میں کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک ہم ہر بچے تک نہ پہنچیں۔اس کے علاوہ ہم نے حفاظتی ٹیکہ جات کا طریقہ بھی متعارف کروایا ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک حفاظتی ٹیکہ جات کے نظام کو بہتر نہیں بنائیں گے تب تک پولیو سے پاک پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔اسی سلسلے میں میں نے سینٹ میں مینڈیٹری ویکسینیشن کے نام سے بل بھی پیش کیا ہے جس کے ذریعے ہماری کوشش ہے کہ حفاظتی ٹیکوں کو بچوں کے بنیادی حق کی طرح دیکھا جائے اور والدین کو اپنے بچوں کی صحت کے حوالے سے شعور دیا جائے۔ پاکستان پر پولیو ویکسینیشن کے بغیر سفری پابندیاں عارضی ہے، پاکستان میں پولیو کے حالات میں کافی بہتری آئی ہے لہٰذا بہت جلد یہ پابندی ہٹ جائے گی۔

ڈاکٹر جاوید اکرام (سربراہ پمز)

پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے حکومتی سطح پر بہترین کام ہورہا ہے اور میرے نزدیک موجودہ ملکی حالات میں اس سے زیادہ ممکن نہیں تھا۔ جہاں فوج نہیں جاسکتی تھی وہاں پولیو ورکرز کیسے جاتے اور پھر جب پولیو ورکرز کو قتل کیا جارہا ہو تو ہم میں سے کون ہے جو اپنے بچوں کو قتل ہونے کے لیے بھیجے گا۔ دنیا کے کسی ملک میں ایسا نہیں ہوتا کہ پولیو ورکرز کو قتل کیا جائے۔ اس لیے ہمیں پولیو پر بات کرتے ہوئے اپنے ملکی حالات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔پولیو کوئی نیا مرض نہیں۔ یہ بیسویں صدی میں پھیلا اور اس نے ترقی یافتہ ممالک کا رخ کیا لیکن اب یہ ترقی پزیر ممالک کو گھیرے ہوئے ہیںا ور بدقسمتی سے ان ممالک میں پاکستان اور افغانستان شامل ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں دہشت گردی کی تاریخ بہت پرانی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ابھی تک اس مرض پر مکمل قابو نہیں پایا جاسکاہے۔ پولیو پر قابو پانے میں ناکامی کی بنیادی وجہ لوگوں کے ذہنوں میں پولیو کے قطروں سے متعلق مختلف شکوک شبہات ہیں جن کی بنیاد پر مختلف پسماندہ علاقوں میں پولیو کے قطرے پلانے پر پابندی عائد کردی گئی۔ پولیو کے قطروں سے متعلق کہا گیا کہ اس میں سور کی چربی استعمال ہوتی ہے، اس کے استعمال سے مردانہ کمزوری پیدا ہوتی ہے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ٹریس بھی کیا جاتا ہے جیسے اسامہ بن لادن کو ڈاکٹر شکیل آفریدی نے ویکسین کے ذریعے ٹریس کیا۔

میرے نزدیک یہ غلط طریقہ تھا، ویکسین انسانی صحت کیلئے ضروری ہے لہٰذا اسے اس طرح ناجائز استعمال کرکے متنازعہ نہیں بنانا چاہیے۔ان افواہوں اور شکوک و شبہات کے نتیجے میں کئی علاقوں میں پولیو کے قطرے پلانے پر پابندی عائد کردی گئی۔اس کے علاوہ پولیو ورکز پر جان لیوا حملے ہوئے اور متعدد پولیو ورکرز کی جانیں بھی ضائع ہوئی۔ان تمام مسائل کے باوجود گزشتہ سال کی نسبت پولیو کیسز کی تعداد میں 84فیصد کمی آئی ہے اور ایک سال میں ا تنی زیادہ کمی آنا بہت بڑی کامیابی ہے۔ پولیو ویکسین کے حوالے سے ابھی بھی شکوک و شبہات موجود ہیں میرے نزدیک علماء کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور لوگوں کو بتانا چاہیے کہ یہ عین اسلام کے مطابق ہے لہٰذا بچوں کو پولیو کے قطرے ضرور پلوائیں۔یہ بیماری موسم گرما میں زیادہ ہوتی ہے جبکہ اس کی ویکسین سردیوں میں زیادہ موثر ہوتی ہے لہٰذا اب ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم اپنی تمام تر توانائی صرف کرکے اور لوگوں میں شعور پیدا کرکے اس مرض کا خاتمہ کریں۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی نے ملکی تاریخ میں پہلی بار پولیو وائرس سے متعلق ریسرچ کرنے سمیت دیگر ویکسین کی تیاری کے بارے میں پی ایچ ڈی کروانے کا سلسلہ شروع کیا ہے جس میں پولیو کیسز کی میپنگ کرکے فیملی جینیٹک پروفائل تیارکیا جائے گا اور اس طرح بہت سے حقائق سامنے آئیں گے اور پولیو کے خاتمے میں مزید مدد ملے گی۔پولیو کے حوالے سے ویکسین کے علاوہ اب ہمیں ٹیکوں کے استعمال پر بھی غور کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں اسلام آباد میں ویکسین کی تیاری اور ریسرچ کیلئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن ، ایسوسی ایشن آف پاکستانی فزیشنز جو امریکہ میں مقیم ہیں اورجائیکا کے تعاون سے پمزکے ساتھ ایک انسٹی ٹیوٹ بنانے کا معاہدہ طے ہوا ہے۔ بہت جلد اس پر کام شروع ہوجائے گا اور ہم اپنی ویکسین خود تیار کرلیں گے ۔

ڈاکٹرزبیر مفتی (نمائندہ عالمی ادارہ صحت)

دنیا بھر میں پولیو کا مسئلہ آج بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا پولیو کے خاتمے کے اتنے قریب کبھی نہیں تھی جتنی آج ہے۔ پولیو سے متاثرہ ایک سو پچیس ممالک میں سے اب چند ممالک باقی ہیں جہاں ا بھی تک پولیو پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ ایک خوش آئند بات ہے کہ رواں سال نائیجیریا نے بھی اس مرض پر قابو پالیا ہے جبکہ بدقسمتی سے پاکستان اور افغانستان پولیو متاثرہ ممالک کی فہرست میں شامل ہیں اور دنیا بھر کی نظریں ان دونوں ممالک پر لگی ہوئی ہیں۔ پاکستان میں پولیو کے حوالے سے صورتحال کافی حوصلہ افزا ہے۔ گزشتہ سال اس وقت تک پاکستان میں پولیو کیسز کی تعداد 230سے زائد تھی جبکہ رواں سال یہ تعداد کم ہوکر اڑتیس ر ہ گئی ہے۔یہ خوش آئند بات ہے کہ اس سال پولیو کیسز کی شرح میں 75فیصد سے زائد کمی واقع ہوئی ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے دیکھیں تو 29اضلاع کے مقابلے میں اس سال صرف 17 اضلاع ایسے ہیں جہاں پولیو کے کیسز سامنے آئے ہیں۔

پولیو کے خاتمے کے لیے جاری پروگرام کا اصل مقصد یہ ہے کہ پولیو وائرس کا جڑ سے خاتمہ کیا جائے۔ اس کے لیے ملک بھر کے37 علاقوں سے گندے پانی کے نمونے لیے جاتے ہیں، اس مرتبہ ان نمونوں کی رپورٹ کے مطابق پولیو کی شرح اٹھارہ سے انیس فیصد رہی جبکہ گزشتہ سال یہ شرح چونتیس سے پینتیس فیصد تھی۔گو کہ پاکستان میں پولیو کیسز کی تعداد میں واضح کمی آئی ہے لیکن دنیا ہمیں ابھی بھی اسی نظر سے دیکھ رہی ہے کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں پولیو کے کل56کیسز رجسٹرڈ ہیں اور بدقسمتی سے ان میں سے 38 کیس پاکستان میں رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ پولیو کے خاتمے کے پروگرام میں گزشتہ چھ سے آٹھ ماہ کے اندر بہت مثبت تبدیلیاں آئی ہیں اور اس پروگرام کی بیس سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہورہا ہے کہ وزیراعظم سے لیکر ڈپٹی کمشنر کی سطح تک سب پولیو کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں۔ قومی و صوبائی سطح پر اور فاٹا کے اندر جو ایمرجنسی سینٹر قائم کیے گئے ہیں ان کی وجہ سے مثبت تبدیلیاں آئی ہیں ۔ پولیو کے خاتمے کیلئے ملک کی لیڈرشپ، پاک فوج، میڈیا اور سول سوسائٹی سب اہم کردار ادا کررہے ہیں۔

ڈیڑھ سال قبل پاکستان میں تقریباََ پانچ سے چھ لاکھ بچے پولیو کے قطروں سے محروم تھے لیکن اب پولیو سے محروم بچوں کی تعدادصرف سولہ ہزار رہ گئی ہے جو بہت بڑی کامیابی ہے۔ نارتھ اور ساؤتھ وزیرستان میں تین لاکھ کے قریب ایسے بچے تھے جو دو تین سال تک پولیو کے قطروںسے محروم رہے جبکہ پولیو وائرس وہاں پنپتا رہا۔ اب وزیرستان کے تمام علاقوں تک، مجموعی جدوجہد کے بعد رسائی ممکن ہوگئی ہے، اس کے علاوہ خیبر ا یجنسی میں باڑہ کے بیشتر علاقوں میں ویکسینیشن ہورہی ہے جس کی وجہ سے پولیو کی صوتحال میں واضح بہتری آئی ہے۔ پاکستان کے انسدادِپولیو پروگرام کاجائزہ لیں تو پانچ چیزیں سامنے آتی ہیں۔ اس پروگرام میں بہترین لیڈرشپ ہے اور عالمی اداروں کے ساتھ ملکر ایک ٹیم کے طور پر پولیو کے خاتمے کے لیے کام کیا جارہا ہے۔سائنٹیفک بیسڈ سٹریٹیجی کا تعین کر لیا گیا ہے، جس کے تحت ستمبر 2015ء سے مئی 2016ء تک کل نو مہم چلائی جائیں گی جن میں سے دو مہم کامیابی سے چل رہی ہیں۔پاکستان میں 12 اضلاع ایسے ہیں جہاں پولیو وائرس کا خاتمہ کامیابی کی منازل طے کررہا ہے،اب ان علاقوں پر فوکس کیا جارہا ہے اور وہاں ٹیمیں ہر سطح پر کام رہی ہیں۔

پاکستان کے پولیو اریڈیکیشن پروگرام کے حوالے سے آخری اور اہم چیز یہ ہے کہ اس منصوبے پر عملدرآمد کیلئے وسائل بھی موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے اس پروگرام کی جو 7مہم باقی ہیں ان میںتمام بچوں تک رسائی ممکن بنائی جائے اور اس مرض کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ آئندہ مہم سب سے زیادہ اہم ہوگی کیونکہ نومبر سے فروری کے دوران موسم سرد ہوتا ہے اورسردیوں کے دوران یہ ویکسین زیادہ موثر ہوتی ہے لہٰذا اگر یہ مہم اچھے طریقے سے چلائی گئی تو امید ہے کہ مئی2016ء تک ہم بھی پولیو کا خاتمہ کرنے والے ممالک کی فہرست میںشامل ہونے کے قریب ترین ہوں گے۔

ڈاکٹر محمد ہارون (نمائندہ ینگ فارماسسٹ ایسوسی ایشن)

کہا جارہا ہے کہ حکومت پولیو کے خاتمے کے لیے دن رات ایک کررہی ہے اور اس کے لیے بہت محنت کی جارہی ہے۔ پولیو کے حوالے سے حکومتی عہدیدار سب اچھا کی رپورٹ دے رہے ہیں جو درست بات نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر حکومت واقعی پولیو کے خاتمے میں اتنی سنجیدہ ہوتی تو آج ہمارے ملک میں پولیو کیسز کی تعداد افغانستان سے کم ہوتی۔ مگر حکومت کی جانب سے تو اس قسم کے بہانوں کا سہارا لیا جارہا ہے کہ قبائلی علاقوں میں بچوں تک رسائی مشکل ہے جبکہ پولیو ویکسین کے حوالے سے لوگوں کے ردعمل کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ تمام مسائل تو افغانستان میں بھی ہیں مگر تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان جہاں حالات اور وسائل پاکستان سے بدتر ہیں، وہاں پولیو کیسز کی تعداد کم ہے لہٰذا یہ حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ قبائلی علاقوں کے حوالے سے اگر حکومت کی بات درست مان لی جائے تو کیا چکوال فاٹا میں ہے؟ یہ تو پنجاب کا علاقہ ہے تو پھر وہاں پولیو کا کیس سامنے کیوں آیا۔ اس کے علاوہ روالپنڈی میں سیوریج کے پانی سے پولیو وائرس کے نمونے بھی ملے ہیں۔میرے نزدیک پولیو ویکسین غیر معیاری ہے کیونکہ اگریہ ویکسین موثر ہوتی تو اس کے سو فیصد نتائج سامنے آتے لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے۔

ڈاکٹر زبیر مفتی نے کہا کہ پولیو کے خاتمے کے حوالے سے گزشتہ دو مہم کامیاب رہی ہیں ، میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ پولیو کا حالیہ کیس گزشتہ دوماہ کے دوران ہی سامنے آیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور ہماری لیڈرشپ جو پولیو کے خاتمے کے لیے کام کررہی ہے مجھے اس میں لگاؤ نظر نہیں آیا۔نائجیریا جیسے ملک نے پولیو ختم کر دیا گیا ہے مگر پاکستان میں ہر سال وزارت صحت کے دعووں کے باوجود پولیو کا خاتمہ نہیں ہورہا جبکہ حکومت اپنے اللوں تللوں میں مصروف ہے۔پولیو کے خاتمے کے حوالے سے حکومت کی وِل پاور صفر ہے کیونکہ جن باتوں کے دعوے کئے جاتے ہیں وہ عملی طور پر کہیں نظر نہیں آتیں۔ اس میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی بھی شامل ہے،جس کے دفاتر کا کرایہ 55لاکھ روپے سے زائد ہے لیکن کارکردگی صفر ہے اور کام میںکمیشن فکس ہوتی ہے۔

مولانا حامد الحق حقانی (رہنما جے یو آئی (س))

پولیو کے خاتمہ کیلئے قومی اسلامی مشاورتی گروپ فعال کردار ادا کررہا ہے۔اس کے علاوہ ہرصوبے اورڈسٹرکٹ کی سطح پربھی علماء کرام نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔علماء نے لوگوں کے ذہنوں سے پولیو ویکسین کے حوالے سے غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے کافی کوشش کی ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے پولیو کے خاتمہ سے متعلق علماء سے تعاون حاصل کرکے اچھی حکمت عملی اپنائی۔ عالمی اداروں کو چاہیے کہ وہ صحت کے پروگرام محض صحت کیلئے استعمال کریں کیونکہ شکیل آفریدی کیس نے نہ صرف صحت کے پروگرام بلکہ ملک کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔