درس عبرت ہے ہر واقعہ

مقتدا منصور  پير 26 اکتوبر 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

کوئی 30 برس پہلے کی بات ہے کہ بالی وڈ کے سپر ہیرو امیتابھ بچن فلم ’ قلی‘ کی شوٹنگ کے دوران اس قدر شدید زخمی ہوئے کہ زندگی کے لالے پڑ گئے۔ پاکستان سمیت دنیا کے ہر حصے میں جہاں ہندی (اردو)  فلمیں دیکھی جاتی ہیں، چاہنے والوں کے ہاتھ بے اختیار ان کی صحت یابی کے لیے اٹھ گئے۔ آج بھی فنکاروں اور کھلاڑیوں سے چاہت کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ دلیپ کمار، راج کپور، دیو آنند، راجیش کھنہ، مدھو بالا، مینا کماری، ریکھا، مادھوری اور سنیل گواسکر سمیت ان گنت بھارتی فنکار اور کھلاڑی پاکستانیوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ اسی طرح پاکستانیوں کی اکثریت محمد رفیع، طلعت محمود، مکیش، منا ڈے، کشور کمار، لتا منگیشکر، آشا بھونسلے اور شمشاد بیگم کی آوازوں کی دیوانی ہے۔

ادھر بھی نورجہاں، مہدی حسن، نصرت فتح علی، عابدہ پروین، غلام فرید صابری اور عزیز میاں قوال عوامی مقبولیت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ یا ہاکی کا میچ ہو، تو یہ معرکہ حق و باطل بن جاتا ہے۔ اِدھر ٹیم کی کامیابی کے لیے اگر مصلے بچھتے ہیں، تو اُدھر بھی مندروں پر چڑھا وے چڑھائے جاتے ہیں۔ گویا چاہت اور نفرت (Love & Hate) کا یہ کھیل دونوں طرف کسی نہ کسی شکل میں جاری رہتا ہے۔

جہاں تک برصغیر ہند میں ہندو مسلم تفاوت کا تعلق ہے، تو اس میں اکبر کے دور سے شدت آنا شروع ہوئی، جب علماء کے ایک حلقے نے اکبر کے بعض فیصلوں کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے شد و مد کے ساتھ ان کی مخالفت کی۔ ساتھ ہی انھوں نے مسلمانوں کو ہندؤں اور ہندو رسومات سے دور رہنے کی بھی تلقین کی۔ اورنگ زیب کے بعض اقدامات کی وجہ سے ہندو مسلم دوری میں مزید اضافہ ہوا۔ اورنگ زیب کے انتقال کے بعد جب دہلی کی سلطنت ضعف کا شکار ہوئی، تو دہلی پر مرہٹوں  کے حملوں میں شدت آنے لگی۔ دلی کی مسلم اشرافیہ کے ایک طاقتور گروپ  نے ہندوستانیوں کو اپنے جھگڑے ملک کے اندر حل کرنے کا مشورہ دینے کے بجائے احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملے کی دعو ت دیدی۔ سوچ کے اس انداز اور پھر ابدالی کے حملے نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کر دیا۔

انگریز نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پائی جانے والی دوری کو بھانپ لیا اور ایسے اقدامات کیے، جن کے نتیجے میں یہ دونوں کمیونٹیاں ایک دوسرے سے مزید دور ہوتی چلی گئیں۔ ان دونوں کمیونٹیز کے درمیان اختلافات انگریز کی ہندوستان پر حکمرانی کے لیے سود مند ثابت ہوئے اور اسے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران ہندوؤں اور مسلمانوں کی بعض ایسی تحاریک ابھریں، جنہوں نے ہندو مسلم کمیونیٹیوں کے درمیان عدم اعتماد اور فاصلوں کو مزید بڑھایا لیکن 1940ء کی قرارداد لاہور کی منظوری کے بعد مختلف قوم پرست ہندو تنظیموں کے علاوہ خود انڈین نیشنل کانگریس کے اندر ایک بہت بڑے حلقے میں بھی یہ سوچ اور رائے پیدا ہوئی کہ جب مسلمان ہندوستان کو توڑ کر ایک مسلم ریاست بنانے پر اصرار کر رہے ہیں، تو ہم بھی آزادی کے بعد ہندوستان کو ایک ہندو ریاست بنائیں۔

مگر پنڈت جواہر لعل نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد سمیت کئی صاحب الرائے کانگریسی رہنماؤں نے اس نقطہ نظر کو رد کرتے ہوئے بھارت کو سیکولر جمہوریہ بنانے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔ جنھیں مہاتما گاندھی کی حمایت بھی حاصل تھی۔ ان رہنماؤں کو پختہ یقین تھا کہ بھارت کی بقاء صرف سیکولر نظام سے مشروط ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں درجنوں عقائد، اتنی ہی تعداد میں وسیع ادبی ذخیرہ رکھنے والی زبانیں اور طویل تاریخی پس منظر رکھنے والی ثقافتیں ہوں وہاں اکثریت کے عقائد نہیں سیکولر جمہوریت ہی ملک کو متحد رکھنے کا سبب بنتی ہے۔ اس لیے بھارت کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے انھوں نے نہ صرف پوری شدت کے ساتھ سیکولر نظام کی وکالت کی، بلکہ اسے نافذ اور جاری رکھنے کے لیے عملی اقدامات بھی کیے۔

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں شروع ہی سے سیکیولر ازم کی مخالف اور بھارت کو بالکل ایک دھارمک (مذہبی) ریاست بنانے کی خواہشمند چلی آ رہی ہیں۔ ان کے اور ہمارے ملک کی مذہبی جماعتوں کے طرز عمل میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ دونوں ہی غیر مذہب کے ماننے والوں کو معاشرے میں قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ہمارے یہاں تو ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو غیر مسلموں کے علاوہ کسی دوسرے فرقہ یا مسلک سے تعلق رکھنے والوں تک کو مسلمان تسلیم نہیں کرتے۔ لہٰذا یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس قسم کی فکر اور رجحانات کے پرچارک سرحد کے دونوں جانب پائے جاتے ہیں۔

فرق صرف اتنا ہے کہ پاکستان میں ریاستی مقتدرہ کی سرپرستی کے باوجود  مذہبی شدت پسند عناصر اب تک 5 فیصد سے زائد مقبول ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں جس کی وجہ سے انھیں اقتدار میں آنے کا موقع نہیں مل پایا ہے جب کہ بھارتی سماج چونکہ صدیوں سے عقیدہ پرستی کی توہم پرستانہ بندشوں میں جکڑا ہوا ہے، اس لیے تمامتر ریاستی اقدامات کے باوجود حقیقی سیکولر معاشرہ نہیں بن سکا ہے۔ اس کے علاوہ بیوروکریسی سمیت مختلف ریاستی اداروں میں موجود تنگ نظر ذہنیت ان عناصر کو مزید تقویت دینے کا باعث ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جماعتیں سیاسی طور پر اس قدر مضبوط ہو چکی ہیں کہ یہ ان کا چوتھا اقتدار ہے۔

بی جے پی شروع ہی سے راشٹریہ سویام سیوک سنگھ (RSS) اور شیوسینا کے زیر اثر چلی آ رہی ہے۔ مگر اس مرتبہ اقتدار نریندر مودی جیسی شخصیت کے ہاتھوں میں ہے، جن کے انتہاپسندانہ خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ریاست گجرات کے واقعات جس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اس لیے اپنے ملک میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور پاکستان کے لیے نفرت آمیز رویہ اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ لہٰذا ممبئی میں غلام علی کے شو کی منسوخی ہو یا شہریار خان کے ساتھ روا رکھا گیا رویہ ہو، یا پھر گائے کا گوشت کھانے کے شبے میں اپنے ہی ایک شہری کا قتل ہو، اسی مخصوص ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔ البتہ بھارت میں دھارمک جماعتوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور ان کے متشددانہ طرز عمل نے آئینی طور پر ایک جمہوری اور سیکولر ملک میں معاشرتی سطح  پر فکری کثرتیت کے لیے عدم قبولیت پر کچھ نئے سوالات ضرور پیدا کر دیے ہیں۔

لیکن حقیقت پسندانہ سوچ رکھنے والے بھارتی دانشوروں کو یہ پختہ یقین ہے کہ BJP میں موجود RSS اور شیو سینا اور خود نریندر مودی اپنے شدت پسندانہ مزاج کی وجہ سے ہندوتوا کے نام پر اکثریتی ہندو آبادی کو بے وقوف بنانے کی جو کوششیں کر رہے ہیں، وہ زیادہ عرصہ تک کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔ کیونکہ ان حلقوں کے خیال میںBJP کو ملنے والا ووٹ ہندوتوا کے نعرہ کو نہیں بلکہ نریندر مودی کی ان کامیاب معاشی پالیسیوں کو ملا ہے جو ان کی14 سالہ وزارت اعلیٰ کے دوران صوبہ گجرات کی خوشحالی کا سبب بنی ہیں۔ لہٰذا اس طرز عمل کے نتیجے میں بھارتی عوام کا جلد ہی ان سے بیزار ہو جانا فطری ہے۔ اس کے علاوہ ان حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ریاستی ادارے بالخصوص عدلیہ، ذرایع ابلاغ اور سول سوسائٹی 68 برسوں کے دوران اس قدر مضبوط اور مستحکم ہو چکے ہیں کہ وہ سیکولر ازم کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو ناکام بنا نے کے لیے مستعد ہیں۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ خورشید محمود قصوری کی کتاب کی رسم اجراء کی تقریب تمامتر متشددانہ کارروائیوں کے باوجود منعقد ہوئی، بلکہ بھارتی میڈیا نے مسٹر کلکرانی کے چہرے پر سیاسی پھینکے جانے کے عمل کی مذمت کرتے ہوئے اس پیر کو جس دن یہ واقعہ ہوا Black Monday   قرار دیا۔

اس لیے جذبات کی رو میں بہکنے اور سیکولرازم کے بارے میں منفی ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا آئین میں سیکولر شقیں شامل کر دینا ہی ریاست کو سیکیولر بنانے کے لیے کافی ہے؟ یا مزید کچھ اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے؟ اس میں شک نہیں کہ آئین میں سیکیولر ازم سے متعلق شقیں شامل کرنے سے مذہبی اور دیگر اقلیتوں کو آئینی اور قانونی تحفظ ضرور حاصل ہو جاتا ہے، لیکن ریاست کو جمہوریانے (Democratisation of state) کے ساتھ معاشرے کا جمہوریانا (Democratisation of Society) بھی انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر مختلف سیاسی، سماجی اور ثقافتی گروہوں کے مساوی شہری حقوق کی ضمانت ممکن نہیں ہوتی۔ ساتھ ہی یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ آئین پر عمل درآمد ریاستی منتظمہ کی ذمے داری ہوتی ہے۔ اگر ریاستی منتظمہ آئین میں درج بعض شقوں کے حوالے سے سرد مہری کا مظاہرہ کرے، تو ان شقوں پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد ممکن نہیںہوتا۔

پڑوسی ملک میں ہونے والے واقعات ہمیں یہ سوچنے کی دعوت دیتے ہیں کہ آیا ہم پاکستان کو جناح کا پاکستان بنا سکے یا نہیں؟ کیونکہ مقبول ووٹ نہ رکھنے کے باوجود شدت پسند مذہبی عناصر جس انداز میں ہماری ریاستی منصوبہ سازی پر اثر انداز ہوتے ہیں، وہ آنے والے دنوں کے لیے ایک انتہائی خطرناک صورتحال کی نشاندہی ہے۔ بھارت میں تو مذہبی اقلیتیں اکثریتی مذہب کے ماننے والوں کا نشانہ بن رہی ہیں۔ ہمارے یہاں تو مسلمانوں کے مختلف مکاتیب فکر اور مسالک کے خلاف جو متشدد رویے پروان چڑھ رہے ہیں وہ معاشرتی یکجہتی کے لیے خطرے کا الارم ہیں۔ اس لیے بھارت میں رونماء ہونے والے واقعات سے سبق سیکھتے ہوئے، ہمیں اپنے ملک و معاشرے کو شدت پسندی سے بچانے کی تدابیر پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔