راسپوتن اور پوتن   (پہلا حصہ)

تشنہ بریلوی  پير 26 اکتوبر 2015
tishna.brelvi@yahoo.com

[email protected]

خوبصورت لڑکی اور طرح دار لڑکے کی پہلی ملاقات ۔ روس کے شہر پیٹرسبرگ(SANKT PETERBERG)  کے دلفریب ماحول میں ہوئی۔ اب سے ٹھیک سو سال پہلے ۔ دونوں کے درمیان مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا اور دلوں کا بھی۔ اب شادی میں کیا رُکاوٹ ہوسکتی تھی۔ دونوں ہی یورپ کے شاہی خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے ۔ ملکہ وکٹوریہ دونوں کی گریٹ گرانڈ مدر(پرنانی) تھی۔

لڑکی کا نام تھا شہزادی میری، یعنی وسیع وعریض سلطنتِ روس کے زار(قیصر)کی شوخ وشنگ تیسری بیٹی ۔لڑکا تھا ڈکی، یعنی لوئی بیٹن برگ Louis Battenberg  جوکچھ عرصے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے روپ میںبرصغیرکا آخری وائسرائے بن کر ہم پر حکومت کرنے والاتھا ۔

لیکن ان Teenage پریمیوں کی پہلی ملاقات ہی آخری ملاقات بن گئی۔ جلد ہی ایک ایسا اندوہناک المیہ وقوع پذیر ہوا کہ زمین آسمان ہل گئے ۔ روس میں دو انقلاب جلد جلد آئے اور پھر نئے بالشیوک حاکموں کی ہدایت پر زار نکولس کا سارا خاندان یعنی زار، بیمار زارینہ، چار خوبصورت شہزادیاں اور معذور ولی عہد یورال کے دوردراز علاقے ایکاترن برگ Ekaterinburgمیں گولیوں سے بھون ڈالے گئے اور جو شخص اس ٹریجیڈی کا سب سے زیادہ ذمے دار مانا جاتا ہے اس کا نام تھا راسپوتنRasputin۔

کبھی کبھی حقیقی زندگی میں ایسے کردار سامنے آتے ہیں جو افسانوی کرداروں سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہوتے ہیں ۔ راسپوتن کا اصل نام گریگری افیمووچ تھا ۔ یخ بستہ سائبریا کے ایک دور افتادہ علاقے کاان پڑھ یہ دیہاتی تہذیب وتمدن سے کوسوں دور تھا لیکن اس میں کچھ ایسی صلاحیت تھی کہ وہ زار کے سارے خاندان کا ’’گرو‘‘ بن گیا اور اتنا طاقتور ہوگیا کہ حکومت کا سارا نظام اس کے ہاتھوں میں آگیا ۔اس کے حکم کے بغیر پتّہ نہیں ہلتا تھا ۔ وزراء اور رؤساء اس کی نظر کرم کے طلبگار ہوتے تھے ۔ زارینہ (روس کی ملکہ) تو اس کی پوجا کرتی تھی۔ یہ غریب کسان شاہانہ ٹھاٹ باٹ سے رہتا تھا ۔ راسپوتن نے خودکو ایک (Staret) پہنچے ہوئے آدمی یعنی’’پیرِ کامل‘‘ کے طور پر پیش کیا تھا ۔ جس کے اشارۂ ابرو سے بلائیں بھاگ جائیں اور تمام بیماریاں دور ہوجاتی تھیں ۔ کیا واقعی راسپوتن سینٹ(ولی) تھا ، روحانی معالج تھا یا غیبی طاقت رکھتا تھا ؟ یقیناً وہ ان میں سے کوئی بھی نہیں تھا ۔ پھر بھی اس کی شخصیت میں کچھ ایسا سحر تھا کہ لوگ متاثر ہوجاتے تھے۔

راسپوتن اپنی اس صلاحیت سے خوب فائدہ اٹھاتااور خصوصاً عورتوں کو اپنے جال میں پھنساتا۔ ہٹلرکی طرح اس کی نیلی آنکھیں سب پرگہرا اثر چھوڑتی تھیں۔ آنکھوںمیں بھی جادو ہوتا ہے جو راسپوتن کی آنکھوں میں بھی تھا۔ حسن پرست (اور بوالہوس) وہ نوجوانی سے تھا اور ہر خوبصورت عورت کو اپنی ’’چیز‘‘ سمجھتا تھا۔ جہاں کوئی اچھی صورت نظر آئی راسپوتن اس سے ’’بغل گیر‘‘ ہوجاتا۔ گھونسے، لاتیں ، تھپّڑ اس پر کچھ اثر نہ کرتے مگر اس کو ’’کامیابیاں ‘‘ بھی حاصل ہوتی تھیں۔ اعلیٰ طبقے کی عورتیں اس ’’گندے گھناؤنے‘‘ گنوارکی دست درازی سے خوش ہوتیں۔ شاید راسپوتن ہندوستان کے منتر جپنے والے سادھوؤں کی طرح تھا جوگناہ پر زور دیتے ہیں اور اسے مُکتی(نجات) کے لیے لازمی قرار دیتے ہیں ۔ اس قسم کی ایک شخصیت راجنیش امریکا میں بہت مقبول ہوئے اور وہاں ’’ ہرے کرشنا‘‘ سبھا قائم کی جس میں عورت اور مرد مل کر رات کی تاریکی میں ’’عبادت‘‘ کرتے اور’’پوتر‘‘ ہوجاتے تھے۔

ملتی بھلا ہے کس کو یہاں فرصتِ گناہ
باقی رہے نہ دل میں کوئی حسرتِ گناہ
(تشنہ)

راسپوتن بھی راجنیش کی طرح گناہ کے بعد تپسیا اورا س کے بعد نجات کا راستہ دکھاتا تھا۔

زار نکولس کی شریک حیات الیگزینڈرا ملکہ وکٹوریہ کی نواسی تھی اور جرمن شاہی خاندان سے اس کا تعلق تھا ۔ زار نکولس اور الیگزنڈرا کی پسند کی شادی ہوئی تھی۔ الیگزنڈرا روسی زبان نہیں جانتی تھی لیکن زار نکولس انگریزوں کی طرح انگلش بولتاتھا ۔ان کی لگا تار چار لڑکیاں ہوئیں۔ جب کہ زارکو ولی عہد کی تمنّا تھی۔ بالآخر پانچویں اولاد لڑکے کی صورت میں نمودار ہوئی۔ زار اور زارینہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کیونکہ ولی عہد آچکاتھا ۔

مگر جلد ہی یہ خوشی کافور ہوگئی پتہ چلا کہ بچہ تو ہیمو فیلیا Hemophilia کا شکار ہے ۔ یورپ میں اس کو شاہی بیماری کہا جاتا ہے چونکہ یہ ملکہ وکٹوریہ کے بچوں میں تھی۔ اگر بچے کو چوٹ لگے اور خون بہے تو رکھتا نہیں ہے اس لیے کہ Blood Clotting Deficiency کے سبب خون گاڑھا ہونے کی صلاحیت کھودیتا ہے ۔ زبردست احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اور والدین کی نیند حرام ہوجاتی ہے ۔ لہذا جب زار اور زارینہ کو یہ معلوم ہوا تو ان کی حالت غیر ہوگئی اور بچے کی اسی بیماری کے سبب راسپوتن جیسے جعلی عامل کو ولی عہد کی ماں یعنی زارینہ پر چھا جانے کا موقع ملا۔

ایک رات ولی عہد کی حالت بہت خراب ہوگئی ، زارینہ نے رات بڑی بے چینی سے گذاری اور رات ہی میں اس کے بال سفید ہوگئے ۔ زارینہ کی ایک ملازمہ نے راسپوتن کا ذکر کیا اور اس کی روحانی طاقت کی بہت تعریف کی ۔ مایوس زارینہ نے فوراً راسپوتن کو پیغام بھیجا۔وہاں سے جواب آیا ’’ننھا شہزادہ صحت مند ہوجائے گا ۔‘‘ اور واقعی ایسا ہی ہوا ۔ ولی عہد ایک دن میں ٹھیک ہوگیا۔ اب تو زارینہ اورزار دونوں راسپوتن کے مرید بن گئے ۔ اس قربت سے راسپوتن نے خوب فائدہ اٹھایا ۔ وہ نوابوں کی طرح رہنے لگا ۔ معاملات ِ سلطنت میں بھی اس نے مداخلت شروع کردی۔ اپنے دوستوں کو وزارتیں دلوانا شروع کردیں۔ لوٹ مار کا بازارگرم۔ طبقۂ اشرافیہ کی خواتین بھی اس کی پہنچ سے دور نہیں تھیں۔ زارینہ خود بھی بدنامی اور نفرت سے نہ بچ سکی۔ لیکن زار خاموش رہا ۔ یہ سوچ کر کہ ولی عہد کی زندگی ’’راسپوتن کے ہاتھوں میں ہے ۔‘‘زار نکولس اپنے بیٹے کی وجہ سے بہت پریشان رہا مگر اس کے دو کارنامے بھی ہیں ۔5ہزار میل لمبی ریلوے لائن، ماسکو سے ولاڈی وسٹاک تک جو گیارہ دن لیتی تھی اور ہیگ میں بین الاقوامی عدالت کا قیام ۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔