نیلی عینک…

شیریں حیدر  پير 26 اکتوبر 2015
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’باجی یہ دیکھیں!خالص چائنہ کا سلک ہے ‘‘ اس نے ایک تھان پھیلا کر کھولا اور وہ ہماری گودوں تک پھیل گیا۔

’’ نہیں سلک نہیں چاہیے بیٹا، کوئی سوتی کپڑا دکھاؤ! ‘‘ میںنے سلک کو اپنی طرف سے ہٹایا۔

’’ کوریا سے تازہ بہ تازہ سلک مرینہ آیا ہے باجی، ایسا گرم کہ سردی بھی پریشان ہو جائے! ‘‘ اس کے کہنے پر میں نے نئے کپڑے کی ورائٹی کو چھو کر دیکھا تو اس کے تھان کھولنے کی رفتار میں تیزی آ گئی۔

’’ اتنے زیادہ تھان نہ کھول دو بیٹا، جومیں بتاؤں صرف وہی کھولنا ‘‘ میں نے اس کو بریک لگانے کو کہا، ’’ مجھے بس ایک آدھا سوٹ چاہیے اس لیے تم زیادہ تردد میں نہ پڑو!‘‘

’’ اچھا یہ دیکھیں ‘‘ اس نے ایک اور کپڑا لفافے میں سے نکالا اور کھول کر پھیلایا، ’’ خالص انڈیا کا مال ہے، ہاتھوں ہاتھ بک گیا ہے، کل دس تھان لایا تھا اس میں سے یہ آخری بچا ہے! ‘‘

’’ اسے تو بالکل پرے کر لو بیٹا!! ‘‘ میں نے اس کپڑے کو ہٹایا، ’’ کچھ پاکستان کا بھی ہے تمہارے پاس؟ ‘‘ جانتی تھی کہ وہ سب کے سب کپڑے پاکستانی ہوں گے مگر جب تک دکاندار ان پر غیر ملکی ہونے کا لیبل نہ لگائیں، ہم عورتیں نظروں سے اس کپڑے کو لفٹ بھی نہیں کرواتیں۔ ’’ تم نے نیلی عینک لگانا کب سے شروع کر دی؟ ‘‘ میرے ساتھ بیٹھے ہوئی نرگس نے گھور کر مجھے دیکھا۔ نیلی عینک ہم سہیلیوں کا کالج کے زمانے کا کوڈ ورڈ ہے جسے نہ جانے کب کس نے تعصب کی نظر کے متبادل کے طور پر استعمال کیا اور پھر ہماری گفتگو میں ایسے الفاظ مستعمل ہو گئے، حسد کے لیے لال عینک، پیار کے لیے ہری، غصے کے لیے جامنی، بیماری کے لیے سفید اور اداسی کے لیے پیلی عینک جیسے الفاظ ہم سہیلیوں کے درمیان عام گفتگو میں استعمال ہوتے۔

’’ تم سمجھتی ہو کہ اب بھی ہم نیلی عینکیں نہ لگائیں ؟ ‘‘ میں نے آہستگی سے اسے کہا، ساتھ ساتھ ہم دکاندار سے جان چھڑانے کو ایک ’’ انڈونیشین مرینہ ‘‘ کی دو قمیصیں لے کر اپنی گاڑی کی طرف چل پڑے… ’’ کافی پیو گی؟ ‘‘ میں نے نرگس سے پوچھا، اس نے اثبات میں سر ہلایا اور میں نے گاڑی ایک چھوٹے سے کیفے کے پاس روک دی۔’’ چند دن پہلے ہی تو تم نے مجھ سے کہا تھا نرگس کہ میں ملک میں انڈین فلموں کے ریلیز ہونے اور ہمارے ٹیلی وژن کے چینلوں پر انڈیا کے پروگراموں اور ڈراموں کی بہتات پر کالم لکھوں ! ‘‘

’’ تو اور کیا، اس پر تو کئی کالم لکھے جا سکتے ہیں ! ‘‘ اس نے میری تائید کی ۔ اب تو اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جس دو قومی نظرئیے کو ہماری حکومتیں اور نوجوان نسل بے مقصد سمجھتی تھیں وہ اس وقت کے مفکروں نے بہت پہلے سمجھ لیا تھا۔ وہ مفکر اور رہنما جن کے بارے میں معلومات کو ہماری تاریخ کی کتابوں سے حذف کر دیا گیا ہے تا کہ پاکستان مخالف قوتوں کو خوش کیا جا سکے، انھوں نے ہی مناسب وقت پر ہمیں صحیح راہ دکھائی ورنہ آج ہم پڑے ہوتے انھی تاریک راہوں میں جن میں ہمارے بھارتی مسلمان پڑے ہوئے ہیں۔

ہندوستانیوں کا متعصب رویہ کس کی نظر سے چھپا ہے، وہاں پر تقسیم کے بعد مستقل رہنے والے شہری ہوں، اسکول کالج میں پڑھنے والے بچے ہوں ، کاروبار کرنے والے مسلمان یا پھر سیر و تفریح یا اپنے عزیز واقارب کو ملنے کے لیے جانے والے مجبور پاکستانی، جو رویہ ان کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں نہ ہی نریندر مودی کے دور حکومت میں وہاں رہنے والے مسلمانوں کے ناگفتہ بہ حالات۔ وہاں سے بار بار کہا جاتا ہے کہ ہماری تاریخ ایک ہے، ثقافت ایک، تہذیب ایک، لباس اور زبان ایک… مگر سب سے اہم فرق مذہب کا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، چند ماہ سے ان کا تعصب کئی اشکال میں ہمارے سامنے آ رہا ہے، کہیں کسی کے چہرے پر سیاہی پھینکی جاتی ہے تو کہیں کرکٹ میچ کھیلنے پر پابندی، مسلمانوں کو وہاں اچھی ملازمتیں نہیں ملتیں۔

ان کی فلمیں اور ڈرامے بھی مذہبی اور سیاسی تضادات کو نمایاں کرتے نظر آتے ہیں اور ان میں اسلام اور مسلمانوں کا تاثر مسخ کر کے دکھایا جاتا ہے… ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں ، مگر جب دلوں میں فاصلے ہیں اور معلوم ہے کہ ہم ایک دوسرے کے کھلے دشمن ہیں تو پھر امن کی امیدیں کہاں کی؟ جو کچھ ہے اسے میڈیا پر عوام کے سامنے کھلا پیش کریں اور جب ہمیں معلوم ہے کہ ان کے دلوں کی نفرت کئی مواقع پر ابھر کر سامنے آ چکی ہے تو پھر کیا ہم ان کی فلم ، ڈرامے اور مختلف انواع و اقسام کے شوز کا بائیکاٹ نہیں کر سکتے؟کیا ہمارے لیے لازم ہے کہ ہمارے حکمران بھی وہاں اپنے کاروبار جمائیں، ان کے ساتھ تجارت بھی ہو؟ وہ ہمارے پانیوں پر بھی قابض ہے، جب ہم ترستے ہیں، ضرورت ہوتی ہے تو وہاں سے پانی بند ہوتا ہے اور جب ہم سے خود اپنے ملک کی بارشیں نہیں سنبھل رہی ہوتیں تو وہاں سے بھی پانی چھوڑ دیا جاتا ہے جو مرے پر سو درے کے مترادف ہمارے ہاں طغیانی میں اضافہ کرتا ہے۔

کس کس موقع پر انڈیا نے ہمیں اپنی دشمنی نہیں دکھائی، بغل میں چھری رکھ کر اگر منہ میں رام رام کی بھی ہے تو جلد ہی نتائج سامنے آ جاتے رہے ہیں، دشمن کی انتہائی مکاری ہم نہیں سمجھتے، ہم صرف سرحدوں پر متوجہ ہیں اور اپنی سینہ سپر فوج پر فاخر ہیں کہ وہ اس ملک کا بال بھی بیکا نہیں ہونے دے گی، مگر ان کی ثقافتی یلغار کے ہلے کو ہم سمجھ پائے ہیں نہ ہمارے حکمران ! ان کی تو بات ہی اور ہے، ان کے اپنے ذاتی مفادات وابستہ ہیں سو ان کی بلا سے ۔ وزیر اعظم صاحب دورہء امریکا پر گئے ہیں، شنید ہے کہ مقصد بھارت کی شکایت لگانا ہے، د یکھیں ان کی شنوائی کس طرح ہوتی ہے!! کہیں بہتر تو یہ ہوتا کہ طریقے کے مطابق اس پر یو این او UNO میں قرارداد پیش کی جاتی اور ان کے خلاف حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی مگر … شیر جنگل کا بادشاہ ہے، جو چاہے کرے، انڈے دے یا بچے!! ہندوستانیوں کے پاس فخر کرنے کو بہت کچھ ہے کہ ان کے ہاں تقسیم سے لے کر آج تک جمہوری نظام ہے، فوج کی اقتدار میں آمد کا راستہ کبھی نہیں کھلا اور اقتدار اپنی معینہ مدت میں درست طریقے سے ایک سے دوسری حکومت کو منتقل ہوا ہے مگر اس جمہوری ملک میں اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کس طرح کیا جاتا ہے، اس کا اندازہ ہم سب بخوبی کر سکتے ہیں۔

اہم عہدوں پر انتہا پسند ہندوؤں کی اجارہ داری اور مسلمانوں کے لیے مذہبی آزادی کا نہ ہونا سب سے اہم ہے، جس ملک میں آپ کو اپنی جان اور مال محفوظ نہ لگے، خواہ آپ وہاں کے باسی ہوں یا سیاح… تو کیسی اور کہاں کی جمہوریت؟؟ انڈیا کے خلاف تین اہم جنگیں لڑ کر اور سرحدی جھڑپوں میں اب بھی مسلسل مصروف ملک کے باسیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ دوست اور دشمن میں کیا فرق ہوتا ہے۔ ہم بول کر احتجاج کریں یا لکھ کر، گھروں سے باہر نکل کر نعرے لگا کر احتجاج کریں یا گھروں میں بیٹھ کر ان کی ہر طرح کی ثقافت اور تجارت کا بائیکاٹ کر کے… یہ ہمارا حصہ ہو گا!! اگر نیلی عینک لگانا پڑتی ہے تو سب لگائیں اور ان کی مصنوعات اور ثقافتی یلغار کا بائیکاٹ کریں، یہ کہنا اور دوسروں سے سننا چھوڑ دیں کہ ہندوستان سے علیحدہ ہونا ہمارے مفکروں اور رہنماؤں کی غلطی تھی۔ یہ ملک ہمیں بہت سی قربانیوں اور مشقت کے بعد حاصل ہوا ہے، اپنے آبا ء کی قربانیوں کی قدر کریں، ہم میں سے بہتوں نے بہت پیارے رشتے کھوئے اور اپنا سب کچھ قربان کر کے اس ملک میں آئے، صرف اس لیے کہ اس میں ہم آزادی سے رہ سکیں۔

رشتہ دار، گھر، زمینیں اور جائیدادیں بھی چھوڑیں کہ ان چیزوں سے بڑھ کر مذہبی آزادی اور ایک آزاد فضا میں سانس لینے کا شوق تھا، لٹ لٹا کر اور کتنا کچھ گنوا کر اس ملک میں پہنچے جہاں کا خواب ہمارے آباء نے دیکھا اور قائد نے اس خواب کی تعبیر اللہ کے کرم سے ہمیں تحفے میں دی۔ مگر ہم، ان کی اگلی نسل، سب کچھ بھول گئے ہیں کیا؟ ہمیں اپنے آباء سے محبت نہیں یا ان کی قربانیوں کا احساس نہیں کہ ہم اس مشکل اور تکالیف جھیل کر حاصل کی گئی آزادی کی بجائے ان کی ان دیکھی زنجیروں میں قید ہو گئے ہیں؟براہ کرم اپنے بچوں کو اس ملک سے محبت کا جذبہ منتقل کریں لیکن اس کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ پہلے آپ خود اس ملک کی محبت میں مبتلا ہوں !!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔