- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
- کراچی میں سیشن جج کے بیٹے قتل کی تحقیقات مکمل،متقول کا دوست قصوروار قرار
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبروں نے اقوام متحدہ کو بھی خوفزدہ کردیا
- ایکس کی اسمارٹ ٹی وی ایپ متعارف کرانے کی تیاری
- جوائن کرنے کے چند ماہ بعد ہی اکثر لوگ ملازمت کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟
- لڑکی کا پیار جنون میں تبدیل، بوائے فرینڈ نے خوف کے مارے پولیس کو مطلع کردیا
- تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے بات چیت کرنے کی تجویز
- سندھ میں میٹرک اور انٹر کے امتحانات مئی میں ہونگے، موبائل فون لانے پر ضبط کرنے کا فیصلہ
- امریکی یونیورسٹیز میں اسرائیل کیخلاف ہزاروں طلبہ کا مظاہرہ، درجنوں گرفتار
- نکاح نامے میں ابہام یا شک کا فائدہ بیوی کو دیا جائےگا، سپریم کورٹ
- نند کو تحفہ دینے کے ارادے پر ناراض بیوی نے شوہر کو قتل کردیا
- نیب کا قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں غیر قانونی بھرتیوں کا نوٹس
- رضوان کی انجری سے متعلق بڑی خبر سامنے آگئی
- بولتے حروف
- بغیر اجازت دوسری شادی؛ تین ماہ قید کی سزا معطل کرنے کا حکم
- شیر افضل کے بجائے حامد رضا چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نامزد
- بیوی سے پریشان ہو کر خودکشی کا ڈرامہ کرنے والا شوہر زیر حراست
- 'امن کی سرحد' کو 'خوشحالی کی سرحد' میں تبدیل کریں گے، پاک ایران مشترکہ اعلامیہ
- وزیراعظم کا کراچی کے لیے 150 بسیں دینے کا اعلان
- آئی سی سی رینکنگ؛ بابراعظم کو دھچکا، شاہین کی 3 درجہ ترقی
اصغر خان کیس کے فیصلے سے سیاسی انتشار بڑھے گا، چیف الیکشن کمشنر
اسلام آ باد: چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ریٹائرڈ ) فخرالدین جی ابراہیم نے کہا ہے کہ عشروں پہلے سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے سے ملک میں سیاسی انتشار میں اضافہ ہوگا۔
گزشتہ روز بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ عدالت نے مقدمہ16سال تک التوأ میں رکھنے کے بعد انتخابات کے قریب اس کا فیصلہ سنادیا ہے۔ میری رائے میں اس فیصلے سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا اب وقت ہے کہ ماضی کو بھلا کر آگے بڑھا جائے۔ ہر کسی سے غلطیاں ہوتی ہیں اور ان سب سے بھی ماضی میں غلطیاں ہوئی ہوں گی۔ ماضی میں سپریم کورٹ نے فوجی حکمرانوں کے اقتدار کو جائز قرار دیا اور ججوں نے بھی پی سی او کے تحت حلف اٹھائے۔ ہمیں نہیں معلوم کی ایوب خان آئے تو کیا ہوا، ہمیں نہیں معلوم کہ ذوالفقار علی بھٹو کو کیسے پھانسی پر لٹکایا گیا۔
ہمیں نہیں معلوم کہ ضیاالحق کے دور میں کیا ہوا۔ بھائی یہ وقت ہے پرانی باتوں کو بھول کر نیا دور شروع کرنے کا۔ ماضی میں رہنے کے بجائے ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ الیکشن کمیشن کسی ایسے سیاستدان کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتا جس پر رقم لینے کا الزام ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت کسی سیاستدان کے خلاف کارروائی کی گنجائش نہیں۔ عدالت نے خود اپنے فیصلے میں حکم دیا ہے کہ رقوم کی تقسیم کا معاملہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کے حوالے کیا جائے جو تحقیق کرے گا کہ کس نے کس سے رقم لی۔
فخر الدین جی ابراہیم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے خود کو بھی متنازع بنالیا ہے اور الیکشن سے پہلے ملک میں ایک اور تنازع کھڑا کردیا ہے۔ اس سے قبل چیف الیکشن کمشنر نے میڈیا سے غیر رسمی بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ کی نااہلی سے متعلق ابھی تک سینیٹ کے چیئرمین کی طرف سے الیکشن کمشن کو ریفرنس نہیں بھیجا گیا۔ ریفرنس موصول ہونے پر الیکشن کمیشن کارروائی کا جائزہ لے گا۔ انھوں نے کہا کہ اصغر خان کیس میں الیکشن کمیشن کو سیاستدانوں کے خلاف کارروائی کا آئینی اختیار ہے نہ سپریم کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کو ایسی کوئی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ البتہ آئندہ انتخابات میں سیاستدانوں کے جب بھی کاغذات نامزدگی جمع ہونگے تو سب سے پہلے دیکھاجائیگا کہ وہ آئین کے مطابق صادق اور امین ہیں کہ نہیں۔علاوہ ازیں چیف الیکشن کمشنر جسٹس(ر) فخرالدین جی ابراہیم نے آئندہ عام انتخابات عدلیہ کی زیرنگرانی کرانے کیلیے چیف جسٹس پاکستان سے باضابطہ درخواست کردی ہے۔
انھوں نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کو الیکشن کے موقع پر ریٹرننگ افسروں کی ذ مے داریاں سونپنے کیلیے قومی عدالتی ساز پالیسی میں ترمیم کی درخواست کی ۔ چیف الیکشن کی سربراہی میں وفد نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی، وفد میں کمیشن کے رکن جسٹس (ر) ریاض کیا نی اور جسٹس (ر) شہزاد اکبر خان شامل تھے ،چیف الیکشن کمشنر نے اس موقع پر آئندہ عام انتخابات میں ضلعی عدلیہ کے کردار پر تفصیلی بریفنگ دی اور کہا کہ جب تک انتخابی عملے کی مناسب تربیت نہیں ہوتی تب تک ضلعی عدلیہ کا تعاون انتخابات کو شفاف بنانے کیلیے بہت اہم اور ضروری ہے ۔
سول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں اور میڈیا میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ عام انتخابات کو ہرحوالے سے عوام کیلیے قابل اعتبار بنا یا جائے۔ انھوں نے اس بارے میں قومی عدالتی پالیسی میں ترمیم کی درخواست کی تاکہ سیشن ججوں کو آئندہ عام انتخابات میں ذمے داریاں دی جاسکیں۔چیف جسٹس نے کہا اس وقت قومی عدالتی ساز پالیسی ضلعی عدالتوں کو الیکشن عمل میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتی کیونکہ اس سے ایک طرف ججوں کی پیشہ ورانہ ذمہ داری متاثر ہوتی ہے تو دوسری طرف بدعنوانی کے الزامات بھی سامنے آتے ہیں تاہم انھوں نے چیف الیکشن کمشنر کو یقین دلایا کہ وہ بحیثیت چیئرمین نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی، آپ کی درخواست اور سول سوسائٹی کے جذبات کو کمیٹی تک پہنچا دیں گے اور یہ معاملہ تین نومبر کو کمیٹی کے اجلاس میں شرکا کے سامنے رکھ دیا جائیگا۔
کمیٹی ڈسٹرکٹ اور اسسٹنٹ ریٹرننگ افسران کی موثر نگرانی کیلیے الیکشن میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے کردار کا بھی جائزہ لے گی۔ چیف الیکشن کمشنر نے چیف جسٹس کو بتایا کہ سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں شفافیت برقرار رکھنے کیلیے سیشن ججوں کو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر تعینات کیا جائے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کی طرف سے اس ملاقات سے متعلق جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے چیف جسٹس نے چیف الیکشن کمشنر کو بتایا ہے کہ2009میں بنائی جانے والی نیشنل جوڈیشل پالیسی کے تحت ججوں کو انتظامی امور انجام دینے سے روکا گیا ہے جس کا مقصد عدلیہ کو بدعنوانی کے الزامات سے بچانا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے چیف الیکشن کمشنر اور دیگر حکام کو اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ اس درخواست کو3نومبر کو نیشنل جوڈیشل پالیسی کی کمیٹی کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے کہا ہے کہ الیکشن قریب ہیں وہ صدر آصف زرداری سے درخواست کرتے ہیںکہ وہ ایوان صدر میں بیٹھ کر کوئی سیاسی سرگرمی نہ کریں کیونکہ وہ کسی ایک طبقے کے نہیں بلکہ سب کے صدر ہیں۔ انھیں امید ہے کہ آئندہ الیکشن میں ٹرن آئوٹ ساٹھ فیصد ہو گا۔ اصغر خان کیس تحقیقات کیلیے ایف آئی اے کو ریفر کیا گیا ہے۔ یہ معاملہ الیکشن کمشنر کے پاس نہیں آئے گا۔ اگر یہ معاملہ انھیں بھیجا گیا تو وہ اس معاملے کو دیکھیں گے۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام لائیو ود طلعت کے میزبان طلعت حسین سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ الیکشن قریب ہے، اصغر خان کیس کے فیصلے سے سیاسی پارٹیوں میں محاذ آرائی شروع ہو جائے گی اور انتشار پھیلے گا جو خو د الیکشن کیلیے بھی نقصان دہ ہے۔
ماضی میںسب سے غلطیاں ہوئیں اب آگے دیکھنے کا وقت ہے۔ دہری شہریت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی دہری شہریت رکھتا ہے تو اس کو اسمبلی میں بیٹھنے کا حق نہیں۔ ہمییں اسمبلیوںمیں آدھے پاکستانی نہیں چاہئیں۔ دہری شہریت کا پتہ چلانا مشکل ہے۔ اس معاملے پر ہم نے سیکریٹری قومی اسمبلی اور سیکریٹری سینیٹ کو خط لکھا مگر کوئی جواب موصول نہیں ہوا ۔ اب ہم نے تمام ارکان پارلیمنٹ کو دہری شہریت کے حوالے سے ایک حلف نامہ بھیجا ہے جس کی واپسی کی مدت 30 اکتوبر ہے۔ اس تاریخ کے بعد جو رکن بھی حلف نامہ الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کرائے گا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ ہم اس وقت یہ کارروائی اس لیے کر رہے ہیں تاکہ اگلی اسمبلی دہری شہریت والوں سے پاک ہو۔ فخرالدین جی ابراہیم نے بتایا کہ ارکان جو اثاثے ظاہر کرتے ہیں ان کوچیک کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس نہیں۔
18 سال کی عمر کے نوجوان بڑی تعداد میں اپنا نام ووٹرز لسٹ میں درج کرائیں۔ لوگوں کا ان کے اپنے ہاتھ میں ہے اگر وہ ووٹرز لسٹ میں اپنا نام درج نہیں کرائیں گے تو ان کا مستقبل نہیں سنورے گا۔ انھوں نے بتایا کہ ووٹرز لسٹ انتخابات کیلیے بنیادی چیز ہے مگر کسی سیاسی جماعت نے اس میں دلچسپی نہیں لی اور ووٹرز لسٹ حاصل نہیں کی۔ وہ سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے کہیں گے کہ وہ ابھی ووٹرز لسٹ چیک کر لیں اور انتخابات کے بعد اس پر کوئی اعتراض نہ کریں۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ وہ لوگوں کی سہولت کیلیے پولنگ اسٹیشنوں کی تعداد میں اضافہ کریں گے۔انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے اگر ضرورت پڑی تو ہر پولنگ اسٹیشن پر ایک فوجی بھی بٹھائیں گے۔
سیکیورٹی کا سخت انتظام ہوگا۔ اسلحہ لے جانے کی پابندی ہوگی۔ اگر کسی کے پاس سے اسلحہ برآمد ہو ا تومجسٹریٹ اس کو موقع پر ہی سزا سنائے گا۔ الیکشن کو مانیٹر کرنے کے لیے سول سوسائٹی کے نمائندوں اور غیر ملکی مبصرین کو بھی دعوت دی جائیگی۔الیکشن کو شفاف بنانے کیلیے الیکڑانگ ووٹنگ کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ الیکشن سے قبل ہر صوبے میں ایک ماڈل پولنگ اسٹیشن بنائیں گے اور عوام ، میڈیا اور دیگر اداروں کو اسے دکھائینگے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی چینلز پر اس وقت جو انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے وہ غلط ہے۔ جو اشتہاربازی ہورہی ہے یہ نہیں ہونی چاہیے تاہم وہ اس بارے میں کارروائی کا اختیار نہیں رکھتے۔ ہم الیکشن کے شیڈول کے اعلان کے بعد ہونے والے اخراجات پر ہی کوئی کارروائی کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔