کراچی بد امنی عملدرآمد جائزہ کیس میں اعلیٰ حکام آج طلب

اصغر عمر  منگل 23 اکتوبر 2012
 ٹارگٹ کلنگ میںحکومتی جماعتیںملوث ہیں،عدالتی فیصلے کتابوں میں گم ہوچکے ہیں،قانونی ماہرین  . فوٹو: فائل

ٹارگٹ کلنگ میںحکومتی جماعتیںملوث ہیں،عدالتی فیصلے کتابوں میں گم ہوچکے ہیں،قانونی ماہرین . فوٹو: فائل

کراچی: سپریم کورٹ نے کراچی بد امنی اورٹارگٹ کلنگ کیس کے فیصلے پر عملدرآمدجائزہ کیس میںاٹارنی جنرل،چیف سیکریٹری سندھ، محکمہ داخلہ، آئی جی سندھ ، ڈی جی رینجرز اورصدرسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو آج طلب کیا ہے۔

جسٹس انورظہیرجمالی کی سربراہی میں لارجربینچ آج سے سماعت شروع کریگا،دوسری جانب قانونی حلقوں نے سپریم کورٹ کی کارروائی کو امن وامان کی بحالی کیلیے ناکافی قراردیاہے۔ چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری نے ازخود نوٹس کیس پرعملدرآمد کاجائزہ لینے کیلیے6رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھاتاہم جسٹس اطہرسعیدناسازی طبع کے باعث بینچ میں شریک نہیںہوںگے۔ فیصلے پرعملدرآمداور قانون نافذ کرنیوالے اداروںکی کارکردگی کے جائزے کے بارے میں سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں مانیٹرنگ ٹیم تشکیل دی گئی تھی اور جسٹس مشیرعالم اس حوالے سے اپنی رپورٹس سپریم کورٹ کو ارسال کرتے رہے تھے اوروہ میڈیا سے گفتگومیںمختلف مواقع پرقانون نافذ کرنیوالے اداروںکی کارکردگی پر عدم اطمینان کااظہارکرچکے ہیں۔

جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری بھی متعدد بار وکلاسے خطاب کے دوران یہ کہہ چکے ہیں کہ امن و امان سے متعلق عدالتی فیصلے پرعملدرآمد نہیں ہورہا۔ جسٹس مشیرعالم اور چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری نے متعدد بارکہاکہ کراچی میں امن و امان قائم نہ ہونے کی بڑی وجہ پولیس میں سیاسی مداخلت ہے۔ دریں اثناسابق جسٹس خواجہ نوید احمد نے ایکسپریس کوبتایاکہ سپریم کورٹ کاکراچی پھر بلوچستان کی امن وامان کی صورتحال کے بارے میں جائزہ لینا۔

اگرچہ احسن اقدام ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام کو سپریم کورٹ کی کارروائی سے بے انتہا امیدیں پیداہوگئی تھیںاور وہ اپنی تکالیف کامداوا سپریم کورٹ کے فیصلوںکو سمجھنے لگے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کواحساس ہواکہ سپریم کورٹ کے فیصلے قانون کی کتابوں میںگم ہوگئے ہیں اورکراچی میںلاشیں گرنے کاٹوئنٹی20میچ ختم نہیں ہورہا ۔ انھوں نے کہاکہ اس میچ میں حکومت میں شامل جماعتیںہی کھلاڑی ہیں اورایمپائرز بھی ان کے ہیں اس لیے سپریم کورٹ کو فیصلے موثربنانے پربھی غورکرناچاہیے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔