اِسے کہتے ہیں گھر میں گھس کر مارنا!

محمد عثمان فاروق  پير 26 اکتوبر 2015
گھر میں گھس کر مار کھانا ہندوستان کا ایک ایسا کلچر ہے جس کو ہندوستانی میڈیا نے ہی پروان چڑھایا۔ فوٹو: اے ایف پی

گھر میں گھس کر مار کھانا ہندوستان کا ایک ایسا کلچر ہے جس کو ہندوستانی میڈیا نے ہی پروان چڑھایا۔ فوٹو: اے ایف پی

اس سے پہلے کہ میں آپ کو ہندوستان اور جنوبی افریقا کے میچ کا احوال سناؤں آپ کو تاریخی پس منظر میں چند باتیں سمجھانا چاہوں گا، جن کے بغیر آپ آج کا مضمون سمجھ نہیں پائیں گے، تو دوستوں بات کچھ یوں ہے کہ گھر میں گھس کر مار کھانا ہندوستان کا ایک ایسا کلچر ہے جس کو ہندوستانی میڈیا نے ہی پروان چڑھایا۔

آج سے قریباً ایک دہائی پہلے ہندوستانی میڈیا نے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے مسلح جنگ آزادی شروع کرنے والے ’’فریڈم فائٹرز‘‘ کو پاکستانی ’’گھس بیٹھ‘‘ کا نام دیا جن کا سادہ زبان میں مطلب تھا کہ ’’ہندوستان میں گھس کر ہندوستان کو مارنے والے‘‘۔ ہندوستانی میڈیا نے اس لفظ کی اتنی تکرار کی کہ ہندوستان میں مرنے والے چوہوں کا الزام بھی پاکستانی ’’گھس بیٹھیوں‘‘ کے سر لگایا جانے لگا۔ بھارتی پارلیمنٹ سے لے کر ممبئی حملوں تک کا الزام بھی گھر میں گھس کر مارنے والے ’’گھس بیٹھیوں‘‘ کے سر پر لگا دیا جاتا، مگر پھر رفتہ رفتہ ہندوستان کی نئی نسل ان ’’گھس بیٹھیوں‘‘ کے نام سے الرجک ہونے لگی۔ سوال اٹھنے لگے کہ کیا وجہ ہے جس کا دل کرتا ہے ہندوستان میں گھس کر ہندوستان کی پٹائی کرجاتا ہے آخر ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟

جناب اس وقت کی مودی سرکار نے جواب دیا ہم اپنے ملک میں تو اقلیتوں اور چھوٹی ذات کے لوگوں کو آسانی سے مار سکتے ہیں مگر کسی ملک میں گھس کر مارنا ہمارے بس کا کام نہیں ہے لیکن بھارتی عوام کی پر زور یا منہ زور خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کیا گیا کہ بے شک ہم حقیقت میں پاکستان میں گھس کر پاکستان کو نہیں مارسکتے البتہ ہاں فلم میں ایسا کرسکتے ہیں اور پھر ایک ہیوی بجٹ فلم ریلیز کی جاتی ہے جس کا ہیرو مارتا دھاڑتا (فلم میں) پاکستان میں گھستا ہے (فلم میں) اور اس فلم کا ڈئیلاگ مشہور ہوجاتا ہے کہ ’’گھر میں گھس کر ماریں گے‘‘، سارا ہندوستان خوشی میں الٹی چھلانگیں لگاتا ہے کہ اب ہم بھی ’’گھس بیٹھ‘‘ کر مار سکتے ہیں، اب ہم بھی دشمن کے گھر میں گھس کر مار سکتے ہیں یہ جشن جاری تھا کہ جنوبی افریقی ٹیم ہندوستان آتی ہے اور پھر۔۔۔۔۔

ممبئی کے وینکھڈے اسٹیڈیم میں ہندوستان کو جنوبی افریقا کی جانب سے ایسا غم ملتا ہے کہ راون کے سیتا کو اٹھا کر لنکا لے جانے، محمود غزنوی کے سومنات کو گرانے اور 65 میں لاہور جم خانہ میں چائے پینے جیسے غموں سے زیادہ غمناک جھٹکا ہندوستان کو سہنا پڑتا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں سے کرکٹ کو بدنام کرنے اور تباہ کرنے میں جس طرح ہندوستان پیش پیش رہا ہے، آنے والے وقتوں میں تاریخ میں لکھا جائے گا کہ کرکٹ کو بدنام کرنے اور ختم کرنے کا سہرا ہندوستان نامی ایک ملک کے حصے میں آتا ہے۔

رشوت، دولت، دباؤ، گھمنڈ اور طاقت کی بنیاد پر آپ شاید کچھ میچ تو جیت جائیں مگر ہمیشہ یہ کام نہیں چلتا۔ بھارت کو پہلے ٹی ٹوئنٹی سیریز میں کلین سوئپ کا سامنا کرنا پڑا اور پھر ایک روزہ سیریز میں 2-3 سے شکست نے تو جیسے بھارتی ٹیم کی کمر ہی توڑدی۔ آخری اور فیصلہ کن میچ میں جنوبی افریقا نے 50 اووز میں 4 وکٹوں کے نقصان پر 438 زنز بنائے، یہ شاید دنیائے کرکٹ کی چند شرمناک شکستوں میں سے ایک شکست ہے جوکہ ہندوستان کے حصے میں آئی۔ جنہوں نے یہ میچ دیکھا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہندوستان نے جواباً جارحانہ انداز اختیار کرنے کی کوشش کی مگر شومئی قسمت 35.5 اووز میں ہی پوری ٹیم 224 رنز پر پویلین لوٹ گئی۔ جنوبی افریقا کا بھارتی سرزمین پر گھر کے شیر کو اتنے بڑے مارجن سے شکست دینا دراصل ’’گھر میں گھس کر مارنے‘‘ کی شاندار مثال ہے۔

ہندوستان کو شاید اب سمجھ لینا چاہیئے کہ جس طرح وہ حقیقت میں کسی ملک میں گھس کر اسکو مارنے کی جرات اب نہیں رکھتے اسی طرح ان کے کھیل کا بھی یہی حال ہوتا جارہا ہے، لہذا یہاں بھی بھارتی عوام کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ کرکٹ پر بھی فلم بنایا کریں جس میں ہندوستان کو جیتتا ہوا دکھائیں کیونکہ بھارتی کرکٹ بورڈ کے سیکرٹری انو راگ ٹھاکر پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ پاک بھارت کرکٹ سیریز کے لئے ماحول سازگار نہیں ہے، ارے بھئی سازگار کیسے ہوگا، اگر جنوبی افریقا کے بعد پاکستان نے بھی بھارت میں گھس کر بھارت کی پٹائی کردی تو اتنی بڑی فلم بنا کر جو یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ ہندوستان بھی گھس کر مار سکتا ہے وہ تو ضائع چلی جائے گی لہذا، ہندوستانیوں سے اپیل ہے کہ کھیل کے میدانوں میں اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے آپ لوگ صرف فلم بنا کر اس میں جیت کر خوش ہوجایا کریں ورنہ حقیقت میں ’’گھس بیٹھ‘‘ بننے کی کوشش کریں گے تو آپ کا وہی حال ہوگا جو جنوبی افریقا نے آپکے ساتھ کیا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

عثمان فاروق

محمد عثمان فاروق

بلاگر قومی اور بین الااقوامی سیاسی اور دفاعی صورت حال پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سائنس فکشن انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ ان سے فیس بک پر usmanfarooq54 اور ٹوئیٹر پر @usmanfarooq54 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔