پھر ایک بڑی تباہی

مقتدا منصور  جمعرات 29 اکتوبر 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

26اکتوبر دن کے 2بج کر کچھ منٹ ہوئے تھے کہ خیبر پختونخوا سمیت ملک کے شمالی علاقہ جات 10سال18دن بعد ایک اور بد ترین زلزلہ سے لرز اٹھے۔ اس زلزلے کی شدت 8اکتوبر 2005کو آنے والے زلزلے سے زیادہ تھی لیکن شکر ہے کہ اس سے ہونے والی تباہی اب تک کے تخمینے کے مطابق خاصی کم ہے۔ ان دس برسوں کے دوران زلزلوں کے علاوہ ملک بد ترین سیلابوں سے بھی گذرا ہے۔ حالانکہ سیلاب ہر سال کسی نہ کسی شکل میں نقصان کا باعث بنتے ہیں۔

یہ طے ہے کہ قدرتی آفات کو روکنے پر انسان ابھی تک قادر نہیں ہوسکا ہے، مگر دنیا کے بیشتر ممالک نے ایسی حکمت عملیاں مرتب کرلی ہیں، جن کے نتیجے میں ان آفات کے نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی ناگہانی قدرتی آفت کی صورت میں جو فوری اقدامات کیے جاتے ہیں، ان میں سب سے پہلے لوگوں کو بچانا(Rescue)اور ریلیف مہیا کرنا ہے۔ حالات معمول پر آنے کے بعد تعمیر نو اور متاثرہ افراد کی آبادکاری ہے۔ اس لیے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ احتیاطی تدابیر اور بعد از نقصانات اقدامات کے حوالے سے ریاستی سطح پر ہم کہاں کھڑے ہیں۔

8اکتوبر2005کا زلزلہ قیامت خیز ایک بڑی قدرتی آفت تھی، جس نے کشمیر سمیت خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں کو بری طرح تباہی سے دوچار کردیا تھا۔ اس وقت کئی مسائل سامنے آئے تھے۔ اول، حکومت کی کسی بھی سطح پر ایسی مشینریوں کا فقدان تھا، جو ڈھ جانے والی عمارتوں کو کاٹ کر لوگوں کو جلد از جلد Rescue کرسکے۔ دوئم، زخمیوں کو اسپتالوں تک پہنچانے کے لیے ایمبولینس سروس کی کمی۔ سوئم، قدرتی آفت کے بعد کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تربیت یافتہ عملے کا فقدان جس کی وجہ سے Rescueاور Reliefکے کام میں خاصی دشواریاں پیش آرہی تھیں۔ اکثر مقامات پر لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کام کرنے کی کوشش کی مگر ناتجربہ کاری اور وسائل کی عدم دستیابی کے سبب بیشتر زخمی مناسب طبی امداد ملنے سے قبل ہی دم توڑ گئے۔ یوں 70فیصد کے قریب ایسے زخمی تھے جنھیں بچایا جاسکتا تھا، مگر ممکن نہ ہوسکا۔ اسی طرح بھاری کرینوں اورکٹر مشینوں کی عدم دستیابی کے باعث ملبے میں دبے بیشمار افراد کو نہیں بچایا جاسکا۔

اس دوران عالمی اور ملکی سطح پر کام کرنے والی فلاحی تنظیموں نے فوری طور پر ریلیف کیمپ قائم کرکے متاثرہ افراد کو انتہائی جانفشانی کے ساتھ امداد فراہم کرکے فعالیت کا مظاہرہ کیا۔ ساتھ ہی دنیا بھر سے ادویات، غذائی اشیاء اور پینے کا پانی وغیرہ مہیا کیا گیا۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے اساتذہ اور طلبا و طالبات اپنے ایف ایم ریڈیو سمیت ان علاقوں میں پہنچ گئے۔ ریڈیو پر متاثرہ خاندانوں اور ان کے اہل خانہ کے بارے میں معلومات نشر کرنے لگے جس کی وجہ سے خاندان کے بچھڑے ہوئے افراد کو ایک دوسرے کا اتا پتہ مل سکا اور مل جانے کی سبیل ہوسکی۔ گشتی اسپتالوں اور خیمہ بستیوں کے قیام سے متاثرہ لوگوں کو خاصی حد تک ریلیف مہیا کی جاسکی۔ اس دوران یہ بات شدت سے محسوس کی جارہی تھی کہ حکومتی اقدامات ناکافی اور غیر تسلی بخش ہیں۔ اگر ملکی اورغیر ملکی تنظیمیںریلیف کی ذمے داری نہ سنبھالتیں تو متاثرہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد عمر بھرکے لیے مفلوج ہوسکتی تھی۔

حکومت نے اس تباہ کن زلزلے کے بعد تباہی کا شکار ہونے والے علاقوں کی تعمیر نو اور متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے ایک ادارہ قائم کیا جس کا نام ایرا یعنی (Earthquake Reconstruction & Rehabilitation Authority)تھا۔ایک دوسرا ادارہ ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے نام سے قائم کیا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ دونوں ادارے پیشہ ورانہ اہلیت کے فقدان اور پاکستان میں جاری کرپشن کی وجہ سے پہلے دن ہی سے غیرفعالیت کا شکار ہوگئے۔ ایرا کی ذمے داری تھی کہ وہ متاثرہ علاقوں میں تعمیرنو کے بعد متاثرہ خاندانوں کی فوری آبادکاری کا بندوبست کرے گا۔ اس دوران ماہرین ارضیات نے یہ بھی مشورہ دیا تھا کہ بالاکوٹ جس مقام پر آباد ہے، وہ انتہائی غیر محفوظ علاقہ ہے۔ اس شہر کو جس جگہ منتقل کرنا تھا، اس کا بھی تعین کرلیا گیا تھا۔ مگر بالاکوٹ کے نئے شہر کی تعمیر نوکرشاہی کے سرخ فیتے کی نذر ہوگئی۔ اسی طرح متاثرہ خاندانوں کو اپنے تباہ شدہ اور خستہ حال گھروں کی تعمیر کے لیے تین قسطوں میں رقم کی ادائیگی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اول تو مکان یا دکان کی تعمیر کے لیے سرکاری اہلکاروں نے جو تخمینہ لگایا وہ تعمیراتی قیمت(Cost)سے بہت کم تھا۔ دوسرے ہماری معلومات کے مطابق گزشتہ سال کے ختم ہونے تک متاثرین کی اکثریت کو تیسری (آخری) قسط نہیں مل سکی تھی۔ ایرا میں کرپشن ، بدعنوانی اورخورد برد کی بڑی تعداد میں شکایات زبان زد عام ہیں۔

ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی بھی محض دکھاوے کا ادارہ ثابت ہوا۔ زلزلے کے پانچ برس بعد جب ملک میں شدید بارشوں کے نتیجے میں بدترین سیلاب آیا تو اس محکمے کی اصلیت اور حقیقت کھل کر سامنے آگئی۔ اگر فوج آگے بڑھ کر ذمے داریاں نہ سنبھالتی تو یہ ادارہ عوام کو ریلیف مہیا کرنا تو دور کی بات ان تک رسائی کی اہلیت بھی نہیں رکھتا تھا۔18ویں ترمیم کے بعد جب ماحولیات کا شعبہ صوبائی حکومت کی ذمے داری قرار پایا تو یہ محکمہ بھی صوبائی حکومتوں کے زیر اثر چلا گیا۔ جس کے بعد سے اس کی صورت حال مزید ابتری کا شکار ہو چکی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق جاپان کی ایک فلاحی تنظیم JICA نے تمام صوبائی حکومتوں کو ماحولیاتی آلودگی جانچنے کے حساس آلات عطیہ کیے۔ سندھ حکومت کی نااہلی کے سبب یہ آلات گزشتہ تین برس سے پڑے زنگ کھا رہے ہیں اور سندھ کے عوام کو نہیں معلوم کہ وہ جس فضا میں سانس لے رہے ہیں، وہ کس قدر آلودہ ہے اور کتنی مضر صحت ہے۔

2005کے زلزلے اور 2010کے سیلاب نے ہمیں یہ اچھی طرح جتا دیا کہ ہمارا خطہ اب ارضیاتی اور موسمیاتی تغیرات کی زد میں ہے اور وقت بے وقت انتہائی خطرناک صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ہمارے سامنے گلیشئر کے پگھلنے سے بننے والی عطا آباد جھیل بھی ہے۔پھر یہ بھی دیکھا کہ صدیوں سے شمالی علاقہ جات جہاں برف باری دسمبر کے وسط یا جنوری کے اوائل میں شروع ہوتی تھی۔ اس مرتبہ ناران اور ملحقہ علاقوں میں اکتوبر کے تیسرے ہفتے ہی میں شدید برفباری شروع ہوگئی، جو اس بات کا اظہار ہے کہ موسمیاتی نظام بہت تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہا ہے۔ اسی طرح راولپنڈی اور اطراف کے علاقوں میں ڈھائی سو ملی میٹر سے زائد بارش کا ہونا بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ یہ تمام تبدیلیاں ریاستی سطح پر ایک واضح اور ٹھوس حکمت عملی کی متقاضی ہیں ، لیکن اس سلسلے میں کسی بھی حکومت کی جانب سے اب تک کوئی ٹھوس پیش رفت نظر نہیں آئی ہے۔ حالانکہ 2005کے زلزلے کے بعد یہ تیسری حکومت ہے۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیز صورتحال اورکیا ہوسکتی ہے کہ ملک میں ماحولیات کا کوئی ماہر وزیر تک نہیں ہے، جو اس وزارت کی مناسب دیکھ بھال کر سکے۔

اس وقت بھی صورتحال یہ ہے کہ زلزلے کے فوراً بعد آرمی چیف فعال ہوگئے اور انھوں نے پوری فوج کو ہائی الرٹ کردیا۔ وہ خود پوری صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور بحالی کے کاموں کی براہ راست نگرانی کررہے ہیں۔ بلکہ یہ احکامات تک جاری کردیے کہ پیشگی احکامات کا انتظار کیے بغیر فوجی اہلکار جہاں تباہ کاریاں ہوئی ہیں، وہاں پہنچ کر شہریوں کو مدد فراہم کریں۔ یہ ایک راست اقدام ہے، مگر ہمیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی وہ فعالیت نظر نہیں آرہی، جس کا مظاہرہ فوج نے کیا ہے۔ اس بات کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم فوج کو سویلین حکومتوں پر فوقیت دے رہے ہیں۔ مقصد صرف یہ عرض کرنا ہے کہ جو لوگ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں، ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے ووٹروں کی دہلیز پر سب سے پہلے پہنچ کر ان کے دکھ درد کا مداوا کرنے میں پہل کریں گے۔

اب بھی وقت ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور وفاق اور صوبوں میں قائم ماحولیات کی وزارتوں کو مزید فعال بنانے کے لیے ترجیحی اقدامات کریں۔ ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو ازسر نو منظم کریں اور اس کی فعالیت کو بہتر بنانے کے لیے اس میں پیشہ ورانہ اہلیت کے حامل اہلکاروں کو تعینات کیا جائے اور کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ سندھ حکومتJICAسے ملنے والے آلات کو استعمال میں لانے کی حکمت عملی تیار کرے اور اس حوالے سے پیشہ ور افراد کا تقرر کرے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان زلزلوں، سیلابوں اور سمندری طوفانوں (سونامیوں)کی زد میں ہے۔ اس لیے کسی بھی قسم کی لاپرواہی یا کوتاہی بہت بڑے نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔