پاک، بھارت۔ دو پڑوسی یا دو دشمن؟

رئیس فاطمہ  جمعرات 29 اکتوبر 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ تاریخی جملہ انگریزوں نے کہا تھا یعنی Divide and Rule اور حقیقت بھی یہی ہے کہ لوگوں کو آپس میں لڑا کر حاکم اپنے من چاہے نتائج حاصل کرلیتے ہیں۔ برصغیر یعنی غیر منقسم ہندوستان کی سرزمین اپنی کثیرالجہات وجوہات کی بنا پر اس مقولے کے لیے بہت سازگار تھی۔ بالخصوص انگریزوں کے لیے تو انتہائی زرخیزکہ جب انھوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد ڈالی، تو حکمرانی مسلمانوں کے پاس تھی۔ یہ حکومت ہندوؤں سے مغلوں نے حاصل کی تھی، لیکن تاریخ کے صفحات کے علاوہ محبت کی وہ تحریریں جو ہندو اور مسلمانوں کے دلوں پہ لکھی تھیں اور لکھی ہیں وہ بتاتی ہیں کہ خواہ اشوک دی گریٹ کا راج ہو یا مغل اعظم جلال الدین اکبر کا۔ عام آدمی کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ عام آدمی کا مسئلہ حکومتی سازشوں سے الگ ہوتا ہے۔ خواہ ہندو راجا ہوں یا مسلمان بادشاہ دونوں جانتے تھے کہ رعایا کو سب سے پہلے پیٹ بھرنے کے لیے روٹی درکار ہوتی ہے اور روٹی کے لیے روزگار کا ہونا ضروری ہے۔ پھر صحت اور رہنے کو گھر۔

یہ حکمران خود بھی بہت دور اندیش تھے، ساتھ ہی ملک کے بہترین عالم فاضل لوگوں کا انتخاب ان کی ذاتی لیاقت اور دانشوری پہ کرتے تھے اور ہر اہم فیصلے میں ان سے رائے طلب کرتے تھے۔اس بے مثل زمانے میں، بھانڈ اور بہروپیے تک صرف اپنے ہنرکی بنا پر دربار تک رسائی حاصل کرپاتے تھے۔ چہ جائیکہ ’’وزیر باتدبیر‘‘ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کرکیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ’’شہنشاہ اکبرکے نو رتن‘‘ (نوانمول ہیرے)اپنے ناموں کے ساتھ زندہ ہیں۔ حکمران وزیروں اورعالموں کے انتخاب میں صرف ان کی قابلیت کو مدنظر رکھتے تھے۔کوئی بھی متعصبانہ سوچ رکھنے والا اس منصب کا اہل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ دربارعام ایک طرح سے ’’ہاؤس آف کامن‘‘ تھا جہاں عوام کی رائے کا احترام کیا جاتا تھا۔

انگریز ایک زیرک قوم ہے۔ اس نے ’’سونے کی چڑیا‘‘ کو بزور قوت حاصل کرنے کے لیے نہ جنگ لڑی نہ بم برسائے، بلکہ نفسیاتی حربہ استعمال کیا، ہندوؤں کو احساس دلایا کہ مسلمان غاصب ہیں۔ انھوں نے تم سے حکومت اور اقتدار چھینا ہے، اگر تم دوبارہ اپنی سرزمین پر حکومت کرنا چاہتے ہو تو ہمارا ساتھ دو۔ دوسری طرف مسلمانوں کو ہندوؤں کے خلاف اکسایا، تیسری طرف سکھوں کو ورغلایا، اور ساتھ ہی نچلی ذات کے ہندوؤں کو جنھیں آج ’’دلت‘‘ کہا جاتا ہے۔ انھیں احساس دلایاکہ دیکھو عیسائیت میں سب برابر ہیں، نہ کوئی دیوتا کے سر سے پیدا ہوا اور نہ کوئی پاؤں کی دھول سے۔ سب انسان برابر ہیں۔ برہمن اور پنڈت جو ظلم تمہارے ساتھ کر رہے ہیں وہ حضرت عیسیٰ کی تعلیمات کے خلاف ہے۔

انگریز اس معاملے میں مسلمانوں کے ساتھ تھے کہ اسلام میں سب برابر ہیں، سب کو ایک ہی رب کائنات نے پیدا کیا ہے۔ سب اپنی اپنی ماؤں کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ جس خاندان میں پیدا ہوتے ہیں، وہی ان کا مذہب قرار پاتا ہے اور بس۔ لیکن مذہب میں رواداری نہ برتی جا رہی ہو اور امتیازی سلوک کیا جا رہا ہو تو انسان اپنا مذہب یا عقیدہ بدل سکتا ہے۔ لہٰذا ایک طرف تو عیسائی مشنریوں نے نچلی ذات کے ہندوؤں جنھیں اس وقت ’’شودر‘‘ کہا جاتا تھا جن کا آبائی پیشہ لوگوں کی گندگی اٹھانا تھا اور جن کے سائے پر گزرنا بھی اونچی ذات کے ہندو بدشگونی سمجھتے تھے۔ انھوں نے عیسائی مذہب اختیارکرنا شروع کردیا۔ پاکستان میں اب بھی ان کی بڑی تعداد پنجاب میں آباد ہے اور اپنے آبائی پیشے سے ہی منسلک ہے لیکن بیشتر تعلیم حاصل کرنے کے باوجود شناخت حاصل نہ کرسکے جب کہ اسلام میں ذات پات کا کوئی چکر نہ تھا۔ محض شنکر سے ڈیوڈ بن جانے سے کچھ بھی نہ ہوا، البتہ ایک نیا محاذ کھل گیا۔

ان تمام عیاریوں اور مکاریوں کو نہایت باریک بینی سے استعمال کیا گیا۔ اسی پلاننگ کے تحت بلوہ کروانے اور اپنے حق میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے لالچی اور مفاد پرست لوگوں کا ایک ٹولہ کرایے پر حاصل کیا گیا، جو ایک دن مسجد میں سور مارکر ڈال دیتے تھے اور جب کم فہم آدمی انگریزوں کی چال کو سمجھنے کے بجائے لڑائی، مار دھاڑ اورگالم گلوچ پہ اتر آتا تھا،تو دوسرے دن کسی مندر میں گائے ذبح کرکے پھینک دی جاتی۔ انگریز حاکم اپنے محل میں بیٹھا مسکراتا رہتا تھا۔ اور بنا سامنے آئے دونوں قوموں کو باہم دست وگریباں ہوتے دیکھ کر خود کو داد دیتا تھا اور ملکہ برطانیہ کے وفاداروں میں اپنا قد بڑھاتا تھا۔

وہ ہندوؤں سے کہتا تھا کہ مسلمانوں نے تم سے حکومت چھینی ہے اور مسلمانوں سے کہتا کہ ہندو غدار ہیں، ایک سے کہتا کہ تم گؤ ماتا کو پوجتے ہو، اور دوسرے سے کہتا کہ تم گائے کا گوشت کھاتے ہو۔ لہٰذا تم دونوں ساتھ نہیں رہ سکتے۔ ان تمام منافقانہ کارروائیوں میں ہمارے کچھ مسلمان انگریزوں کے شانہ بہ شانہ کھڑے تھے۔ یہ جو خان بہادر اور “Sir”کے سابقے اور لاحقے استعمال کرتے تھے اور جن کی اولاد فخریہ ان خطابات کا ذکر کرتی ہے کہ سرکار انگلشیہ نے یہ خطاب اور جاگیریں ان کے بزرگوں کو کسی خدمت کے عوض عطا کی تھیں۔ تو یہ 99 فی صد غلط ہے۔ دراصل یہ سب غدار تھے، لالچی تھے، انگریز حاکموں کے غلام تھے۔ لوگوں کو پھانسی چڑھوانے میں دونوں قوموں کے ایسے ہی مفاد پرست اور بدفطرت لوگ شامل تھے۔ جنھیں ان کی ’’خدمات‘‘ کے بدلے میں جاگیریں دی گئیں۔ اگر ان جاگیرداروں کا شجرۂ نسب نکال کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ سب پر وہی کہاوت لاگو آتی ہے ’’مایا تیرے تین نام‘ پرسا‘ پرسو‘ پرس رام‘‘ اور یہی ان کا نسب نامہ ہے۔

چلیے مان لیا کہ انگریز اپنے وفاداروں اور قوم کے غداروں کے تعاون سے ہندوستان پہ قابض ہوگیا، انگلستان کا پرچم لہرا دیا گیا، نواب سراج الدولہ، ٹیپو سلطان اور بھگت سنگھ مجرم قرار پائے، چاندنی چوک دلی میں خونی دروازہ آج بھی موجود ہے۔ ہمایوں کا عظیم الشان اور وسیع و عریض مقبرہ آج بھی ان مہاجرین اور پناہ گزینوں کی دردناک چیخوں اور آہوں کا امین ہے جب بمشکل انگریز کی غلامی سے چھٹکارا نصیب ہوا۔ لاہور سے دلی آنے والی اس ٹرین کو بھی کوئی نہیں بھولا جس میں سکھوں اور ہندوؤں کی لاشیں تھیں، پھر یہ سلسلہ چل نکلا، دونوں طرف سے بلوہ، قتل عام، اغوا اورآبرو ریزی کے واقعات رونما ہونے لگے، کیا انبالہ، امرتسر، جالندھر، دہلی، بھوپال، الٰہ آباد، لکھنو اور نہ جانے کون کون سے شہر اور علاقے۔ اور کیا، کراچی، لاہور، سندھ اور دیگر پاکستانی علاقوں سے خانماں برباد ہوکر جانے والے۔ سب کا درد مشترک تھا۔ لیکن ہجرت کے نام پر اتنی بڑی خوں ریزی کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ سب چپ تھے۔ دونوں طرف کے طالع آزما اپنے اپنے حصے کا ملیدہ اور حلوہ کھا رہے تھے۔ میزان عدل توڑ دیا گیا تھا۔ صرف ایک تلوار تھی جس کے دو پلڑوں میں دو لاشیں تھیں۔ ایک ہندو کی، دوسری مسلمان کی۔ اس کرب کو محسوس کیا تو ’’رامانند ساگر‘‘ اور سعادت حسن منٹو نے۔ چلیے ملک تقسیم ہوگیا۔ پاکستان کے اثاثے بحفاظت اور ایمانداری سے منتقل ہونے کے لیے مہاتما گاندھی نے مرن برت رکھا اور اپنے ہی ہم مذہب کے ہاتھوں مارے گئے۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خاں بھی اپنوں ہی کی سازشوں کا نشانہ بنے۔

اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دونوں ملک امن اور چین سے اچھے پڑوسیوں کی طرح رہتے اور ایک دوسرے کا تحفظ کرتے تاکہ کسی تیسرے کی شب خون مارنے کی جرأت نہ ہو۔ لیکن ہوا اس کے برعکس، جب کہ انڈیا کے ایک بڑے لیڈر نے کہا تھا کہ ’’پاکستان ایک حقیقت ہے اور ہمیں اسے قبول کرلینا چاہیے۔‘‘ یہ بیان بالکل ایسا ہی تھا جیساکہ مشرقی پاکستان کے ’’بنگلہ دیش‘‘ بننے کے بعد ایک لیڈر نے وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کے لیے کہا تھا ’’خدا کا شکر ہے، پاکستان بچ گیا‘‘ گویا سابقہ مشرقی پاکستان کبھی ’’پاکستان‘‘ تھا ہی نہیں۔ اور اب وہ صرف بنگلہ دیش ہے جس کے بارے میں ہمارے تعلیمی نصاب میں کچھ نہیں ہے۔ کسی میٹرک کے طالب علم سے پوچھ کر دیکھیے۔ وہ حیرانی سے آپ کا منہ دیکھے گا۔ جیسے آپ نے کوئی احمقانہ بات کہہ دی ہو۔ نصاب میں نہ 1971 کی جنگ کا ذکر ہے، نہ جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے کی سچائی۔ نہ یحیٰ خان ، جنرل رانی کی کہانیاں ، نہ 90 ہزار پاکستانیوں کے جنگی قیدی بننے کی روئیداد۔ نہ شملہ معاہدے کی تفصیل۔ نہ مکتی باہنی کی انتقامی کارروائیاں اور نہ مشرقی پاکستان کے غیر بنگالی لوگوں کا بنگالیوں کے ساتھ ہتک آمیز رویہ۔ جس نے بنگالیوں کے دلوں میں نفرت کی اتنی آگ بھری کہ انھوں نے گھبرا کر بھارت سے مدد مانگ لی اور الگ ہوگئے۔ طشتری میں رکھی وزارت عظمیٰ کن قوتوں نے کس کو اور کیوں پیش کی، یہ سب جانتے ہیں۔ کیونکہ کہانی، کردار، پلاٹ، ڈائریکٹر، پروڈیسر سب وہی ہیں، جو ہمیشہ ہوتے تھے اور آیندہ بھی ہوں گے۔

آج سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ دونوں پڑوسی ملک بھارت اور پاکستان کیوں دہشت گردوں کے قبضے میں ہیں؟ کون ان عناصر کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ نواز شریف نے پہلے بھی اپنے دور حکومت میں بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا اور جواب میں واجپائی جی دوستی بس سے لاہور آئے تھے۔ تب یہاں بھی کچھ عناصر نے ان کی آمد پہ احتجاج کیا تھا۔ کچھ اور ’’بادشاہ گر‘‘ لوگوں نے بھی منہ چڑایا تھا۔ آخر کیوں۔ دونوں ملکوں کی امن پالیسی کامیاب نہیں ہوئی۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔