آفتیں اور بلائیں کیوں نازل ہوتی ہیں

اوریا مقبول جان  جمعـء 30 اکتوبر 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

گھر بناتے وقت ان لوگوں نے وہ تمام تدابیر کی تھیں جو سیلاب، آندھی اور طوفان میں گھروں کو محفوظ رکھتی ہیں۔ یہ سب صاحبِ حیثیت لوگ ہیں جو گھروں، دفتروں، دکانوں، پلازوں اور دیگر عمارتوں کو بنانے کے لیے ایسے ماہرین کا انتخاب کرتے ہیں جنہوں نے جدید علم کی روشنی میں عمارتوں کو اس طرح ڈیزائن کرنا سیکھا ہوتا ہے جو زلزلے، طوفان اور سیلاب وغیرہ میں قائم رہیں۔ یہ تو اکیسویں صدی کے سائنس پروردہ انسان ہیں۔ زلزلے سے محفوظ عمارات بنانے کا فن تو انسان صدیوں سے جانتا ہے۔

کوئی حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کے آثار مدائنِ صالح میں جا کر دیکھے کہ کیسے انھوں نے پہاڑ تراش تراش کر گھر بنائے تھے جو آج بھی صحیح سالم ہیں، ان پر ہزاروں سال سے آنے والے زلزلوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اللہ فرماتا ہے “ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو ہلاک کر ڈالا، اب یہ گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں”۔ (النمل 51-52)  دنیا میں عبرت کے طور پر موجود جتنے بھی مقام ہیں ان کی ساخت ایسی ہے کہ زلزلوں اور سیلابوں کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ تاج محل کی پوری عمارت کی بنیادیں نوے فٹ گہری ہیں اور ان کے نیچے 40 فٹ ریت ہے تا کہ اگر کبھی زلزلہ آئے تو پوری کی پوری عمارت ریت کے اندر گھوم جائے اور زلزلہ اس پر اثر انداز نہ ہو۔

انسان جب سے پیدا ہوا ہے  قدرتی آفات کے مقابلے میں احتیاطی تدابیر کرتا چلا آیا اور اس میں کامیاب بھی ہے۔ لیکن جس وقت یہ آفت اسے گھیر لیتی ہے، اسوقت اسے سوائے اللہ کی ذات کے اور کچھ نہیں سوجھتا۔ یہ سارے لوگ جو آج سائنس کی منطقیں بگھار رہے ہیں، ان سب کو اپنی عمارتوں کے مضبوط ہونے کا مکمل یقین تھا، لیکن گزشتہ زلزلے کے وقت یہ سب کے سب کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے گھروں، دکانوں، پلازوں اور دفتروں سے ایسے بھاگ رہے تھے جیسے سیلاب میں چوہے بلوں سے نکل کر بھاگتے ہیں۔

اس وقت نہ کسی کو سائنس کی دنیا یاد آئی، نہ اس بات پر بھروسہ اور ایمان قائم رہا کہ یہ عمارت تو زلزلہ پروف ہے۔ اللہ کی بدترین نافرمانی اور گناہ میں مشغول افراد بھی اسی کا ورد کرتے گھروں اور علاقوں میں موت کے خوف سے بھاگتے پھر رہے تھے۔ لیکن جیسے ہی یہ آفت تھمی ہے فوراً  ارضیات اور فزکس کی کتابیں کھول کر ہر کسی سے بحث کر نے لگے کہ یہ سب تو ایک معمول کی کاروائی ہے جو وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اس کا تعلق اللہ کے غصے اور ناراضی سے کیسے ہو گیا۔

موجودہ سیکولر علم کی بنیاد دو اصولوں پر ہے۔ پہلا ہر وہ چیز جسے تجربے اور مشاہدے کے بعد درست ثابت کر دیا جائے اسے سچ مان لیا جاتا ہے۔  جسے وہ سائنسی سچائی (Scientific Truth) کہتے ہیں اور دوسرا اصول یہ ہے کہ اس دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے واقعہ کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ اس تصور کو علت و معلول (Cause and Effect) کہتے ہیں۔ سائنسی تحقیق زلزلے کے بارے جو منطق پیش کرتی ہے، وہ سائنسدانوں کے مشاہدے پر مبنی ہے کیونکہ زمین کی بالائی سطح جسے Crestکہتے ہیں ابھی تک انسان اس کے رازوں سے بھی آشنا نہیں ہو سکا جب کہ اس کے نیچے آگ کا کھولتا ہوا سمندر ہے جس تک رسائی یا اس کے اندر آنے والی تبدیلیوں تک پہنچنا تو ایک خواب لگتا ہے۔

مشاہدات اور سائنسی منطق کی بنیاد پر زمین کی بالائی سطح جو چند کلو میٹر موٹی ہے اس کے بارے میں ایک سائنسی کہانی (Theory) مرتب کی گئی ہے کہ اس بالائی سطح کی مختلف بڑی بڑی پلیٹیں ہیں جو آہستہ آہستہ سرک رہی ہیں اور صدیوں سے سرکتی چلی آ رہی ہیں۔ ایک دن ہندوستان کی پلیٹ چین اور یورپ کی بڑی پلیٹ سے ٹکرائی تھی تو اس کے نتیجے میں ہمالیہ اور دیگر پہاڑ وجود میں آ گئے تھے۔ ظاہر ہے ان پلیٹوں کو مناسب طریقے سے کاٹا تو نہیں گیا تھا اس لیے اوپر سے تو سب مل گئے، لیکن نیچے خلا باقی رہ گئے۔ ان خلاؤں کو جیالوجکل فالٹ کہا جاتا ہے۔

چونکہ پلیٹیں مستقل حرکت کر رہی ہیں اس لیے جب کبھی یہ حرکت تیز ہو تی ہے تو زلزلہ آ جاتا ہے۔ اس تھیوری کو سچ ثابت کرنے اور اس حرکت کو ناپنے پر ابھی کام جاری ہے۔ سب مفروضے ہیں۔ سیکولر علم کا ایسے موقع پر ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ یہ نیچر کی بھول بھلیاں (Mystry) ہے اور ہماری جستجو جاری ہے۔ سیکولر علم کی بنیاد پر سوچنے والا ایک تصور بنا لیتا ہے کہ اللہ بھی اپنے کسی ارادے کو تکمیل دینے کے لیے اسباب کا محتاج ہے۔

جب کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا دعویٰ ہے کہ وہ خالق اسباب ہے۔ وہ “باری” ہے یعنی ایسا مصور اور تخلیق کار جس کے پاس اسباب نہ ہوں، تو بھی وہ خلق کرتا ہے۔ اسی لیے نہ تو ہمیں اللہ کے تصورِ عذاب کی سمجھ آتی ہے اور نہ ہم سے اس کی اس دینا پر آفتیں اور مصیبتں نازل کرنے کی گتھی سلجھائی جاتی ہے۔ اللہ کے نزدیک یہ دنیا جزا و سزا کی دنیا نہیں ہے۔ یہ تو ایک امتحان کا عرصہ ہے۔ جزا و سزا کے لیے تو ایک دن مقرر ہے جسے روزِ محشر کہتے ہیں۔

اسی لیے اللہ زمین پر نازل کی جانے والی آفت یا عذاب کا مقصد خود بیان کرتا ہے۔ “اور ہم انھیں لازماً مزہ چکھائیں گے چھوٹے عذاب کا بڑے عذاب سے قبل، شاید کہ یہ رجوع کر لیں” ۔ (السجدہ21: )۔  یہاں وہ کسی فرد پر عذاب نازل نہیں کرتا بلکہ پورے گروہ یا قوم میں سے کسی کو استثنیٰنہیں دیا جاتا۔ وہ فرماتا ہے: “اور ڈرو اس وبال سے جو تم میں سے صرف ظالموں کو ہی لاحق نہیں ہو گا”۔ (الانفال:25 ) یہ بھی اسی کا اختیار ہے کہ وہ کبھی کبھی نیک لوگوں کو اپنے عذاب سے خاص طور پر محفوظ رکھتا ہے اور اس میں بھی صرف ایسے لوگوں کو اللہ بچاتا ہے جو لوگوں کو برائی سے روکتے رہے تھے۔” ہم نے بچا لیا ان لوگوں کو جو برائی سے روکتے تھے”۔

(الاعراف:165 ) اس آیت کے آغاز میں اللہ ان لوگوں کا بھی ذکر کرتا ہے جو لوگوں کو کہتے تھے: “تم ان لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنھیں اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا سخت عذاب دینے والا ہے” ۔ (آلِ عمران:164) اللہ نے برائی پر خاموش رہنے والوں کو بھی عذاب میں مبتلا کر دیا۔ برائی سے روکنے والوں کا استثنیٰ بھی اللہ کا اپنا فیصلہ ہے، وہ چاہے تو بچائے اور چاہے تو ہلاک کر دے، اس لیے کہ موت صرف ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف منتقلی کا نام ہے اور روزِ قیامت عذاب کے دوران ہلاک ہونے والے فرداً فرداً پیش ہوں گے۔

جس کے اعمال اچھے ہوں گے وہ جنت میں جائے گا اور جس کے اعمال برے ہوں گے وہ جہنم کا مزہ چکھے گا۔ یہ ہے وہ فلسفہ جس کے تحت اللہ لوگوں کو جھنجھوڑنے اور اپنی جانب لوٹ آنے کے لیے عذاب نازل کرتا ہے۔ وہ تو کسی ظالم بادشاہ کو بھی اپنا عذاب ہی کہتا ہے اور پھر قوموں کو یاد دلاتا ہے کہ میں نے اس ظالم سے تمہیں نجات دلائی” جب ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے نجات دی جو تمہیں بڑا عذاب دیتے تھے، تمہارے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے، یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر بڑی بلا (امتحان) تھی” ۔ (البقرہ:49 ) لیکن علت و معلول اور سائنسی سچائی کو حرف آخر سمجھنے والے اس سب کو دنیا کے عوامل سمجھتے ہیں۔

اسی لیے جب کہا جاتا ہے کہ عذاب میں اللہ کی طرف رجوع کرو، اس سے اجتماعی استغفار کرو تو اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ لیکن میرا اللہ تو حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی مثال دے کر شدید خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ قومیں اس سے اجتماعی توبہ کریں۔ یونس ؑ کی قوم اجتماعی طور پر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو گئی تھی اور اللہ نے عذاب ٹال دیا تھا۔ اللہ فرماتا ہے:  “بھلا کوئی بستی ایسی کیوں نہ ہوئی کہ ایسے وقت ایمان لے آتی کہ اس کا ایمان اسے فائدہ پہنچا سکتا۔

البتہ صرف یونسؑ کی قوم کے لوگ ایسے تھے۔ جب وہ ایمان لائے تو ہم نے دینوی زندگی میں رسوائی کا عذاب ان سے اٹھا لیا اور ان کو ایک مدت زندگی کا لطف اٹھانے دیا”۔ ( یونس:98) یہ ہے قوموں اور نبیوں سے اللہ کی شدید خواہش۔ لگتا ہے ہم اللہ کی خواہش پر، اس کے سامنے جھکنے پر ابھی تک راضی نہیں۔ زلزلے کے بعد ایک صاحبِ نظر سے درخواست کی کہ اس قوم کے لیے رحم کی دعا فرمائیں، فرمانے لگے یہ اللہ کے سامنے جھکنے کو تیار ہیں۔ شاید نہیں، ہر کوئی خوفزدہ ہے، صاحبانِ نظر کانپ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے یہ زلزلہ تو ایسے تھا جیسے چوٹ لگانے کے لیے ہتھوڑے کی نشانی لی جاتی ہے اصل چوٹ سے اللہ ہمیں محفوظ رکھے۔ کاش ہم حضرت یونس کی قوم جیسے ہو جائیں اور اللہ ہمیں زندگی سے لطف اٹھانے کا موقع فراہم کر دے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔