بلوچستان سول سروس کو کب انصاف ملے گا؟

رحمت علی رازی  اتوار 1 نومبر 2015
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

یہ ہفتہ دس دن کی بات ہے جب ہم لندن کے لیے رختِ سفر باندھ رہے تھے کہ صدرِ مملکت جناب ممنون حسین کی سہمی سہمی سی آواز ہماری سماعتوں سے ٹکرائی‘ ان کے الفاظ کچھ ایسے تھے کہ سفری دستاویزات میز پر رکھتے ہوئے ہمیں بے ساختہ گردن گھما کر ٹی وی سکرین کی طرف دیکھنا پڑا۔ وہ نیشنل اسکول آف پبلک پالیسی کے زیر تربیت افسران کے ایک گروپ سے مکالمہ کرتے ہوئے فرما رہے تھے، ’’پاکستان کے تمام حصے اور ان میں بسنے والے عوام کے حقوق برابر ہیں اور بلوچستان سمیت ملک کے کسی بھی حصے کے عوام کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی برداشت نہیں کی جائے گی۔

ملک کے بعض حصوں کے عوام کی پسماندگی کی ایک وجہ خود وہاں کے ماضی کے حکمرانوں کی زیادتیاں اور وسائل کا غلط استعمال ہے‘ قومی معیشت کی زبوں حالی کی ایک وجہ کمزور منصوبہ بندی بھی ہے‘ علیٰ ہذالقیاس سول سروس میں اقتصادی منصوبہ بندی کا ایک خصوصی شعبہ قائم کیا جائے تا کہ منصوبہ بندی میں کوئی خامی نہ رہے‘ قومی مفاد، عوامی فلاح و بہبود اور بدعنوانی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘‘۔ صدرِ پاکستان کا یہ بیان بھی ویسے تو دیگر سیاسی بیانات کی طرح ایک سیاسی نثر کا ٹکڑا ہی تھا مگر بلوچستان کے ذکر پر لمحہ بھر کے لیے ہم گہری سوچ میں پڑ گئے اور ہمیں اپنے ذہن کی سکرین پر پاکستان کی طویل سیاسی فلم کے بیسیوں ایسے کردار اسی طرح کے خوشنما مکالمے بولتے دکھائی دیے۔

گورنریٹ اور ون یونٹ سے صوبائی خودمختاری تک پاکستان میں جتنی بھی حکومتیں آئیں ان میں سے کسی نے بھی بلوچستان کے مٹھی بھر عوام پر صدقِ نیت سے توجہ نہیں دی۔ آمروں سے لے کر سیاسی حکمرانوں تک سب کے سب ڈنگ ٹپاؤ اسکیموں کے ساتھ ہی مسندِ شاہانہ پر پدھارتے رہے۔ صدر ممنون کے اس جملے کو اگر جملۂ توجیہہ بھی گردان لیا جائے کہ ’’ملک کے بعض حصوں کے عوام کی پسماندگی خود وہاں کے ماضی کے حکمرانوں کی زیادتیاں اور وسائل کا غلط استعمال ہے‘‘، تو بھی زیادتی کے احساس کو تھپکی نہیں ملتی اور ذہن میں یہی سوال برجستہ سر اٹھاتا ہے کہ کیا ایوب خان، ضیاء الحق اور مشرف جیسے آمروں کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ وفاق کے ایک چوتھائی وسائل کو بلوچستان اور اس کے عوام کی فلاح پر خرچ کرتے اور وہاں دیگر صوبوں کی طرح تعلیمی ادارے اور سول سروس کا نظام مضبوط کرتے‘ ہمارے خیال میں ایسا کرنے سے بلوچستان کے قبائلی سردار اُنکے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوتے نہ کہ وہ اپنی ہی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتے۔

ممنون حسین کے اس مختصر خطاب سے نہ صرف ہمیں ماضی میں بلوچستان پر دیے گئے تمام آزمائے ہوئے سیاستدانوں کے بھانت بھانت کے بیانات یاد آئے بلکہ پاکستان کی آئندہ وزارتِ عظمیٰ کے دعویدار عمران خان کے25 دسمبر 2011ء کو مزار ِقائد کے احاطہ میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کے چند اقتباسات بھی ہماری یادداشتوں میں کوند آئے جب انھوں نے کہا تھا کہ ’’ہم سول سروس کو میرٹ پر لائیں گے‘ سرکاری ملازمین سیاستدانوں کے نوکر نہیں ہونگے‘ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے میرٹ پر بھرتیاں ہونگی‘ میں پاکستان کی طرف سے بلوچستان کے بھائیوں سے معافی مانگتا ہوں‘ ان کے ساتھ بہت ظلم ہوا اور وہی رویہ اختیار کیا گیا ہے جو مشرقی پاکستان کے ساتھ اختیار کیا گیا تھا‘ ہم بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرینگے جو مغربی جرمنی نے مشرقی جرمنی کے ساتھ کیا تھا اور بلوچستان کے عوام کو گلے لگا کر اُنکے دکھوں کا مداوا کرینگے‘‘۔

ہمیں جہاں باقی سیاسی چٹکلوں پر ہنسی آئی‘ وہاں تحریکِ انصاف کے قائد کے اس بیان پر رنج بھی ہوا کہ بلوچستان کے عوام کو گلے لگا کر اُنکے دکھوں کا مداوا کرنے کی بات تو مزارِ قائد پر ہی رہ گئی انھوں نے تو کبھی بلوچستان کا دورہ تک بھی نہیں کیا‘ اس کے علاوہ اور کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ 2013ء کے الیکشن میں بلوچستان کے عوام نے ان کا نام تک نہیں پوچھا اور آئندہ بھی اگر ایسا ہی چلن رہا تو حالات کوئی اچھی تصویر پیش نہیں کرنے والے۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کے سلسلے میں کہا جاتا تھا کہ یہ پاکستانی معیشت پر بوجھ ہیں اسلیے کہ مشرقی پاکستان سمندری طوفانوں اور سیلابوں کی سرزمین تھا لیکن بلوچستان تو سونے کی کان ہے اور اس کی آبادی صرف ایک کروڑ ہے مگر ہمارا حکمران طبقہ صرف ایک کروڑ لوگوں کو بھی خوش نہیں رکھ سکا۔

مشرقی پاکستان کی آبادی پاکستان کی مجموعی آبادی کا 54 فیصد تھی لیکن 54 فیصد کے بجائے اسے 50 فیصد وسائل قبول کرنے پر مجبور کیا گیا جب کہ فوج اور سول سروس میں ایسٹ بنگال کا حصہ 20 فیصد بھی نہیں تھا۔ بلوچستان کی صورتحال میں انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ اسے اس کی غربت اور پسماندگی کے تناظر میں پروپورشن کے اعتبار سے وسائل مہیا کیے جاتے لیکن اس صوبہ کو اس کی آبادی کی بنیاد پر وسائل مہیا کیے جاتے رہے ہیں۔ زندگی کو ہر سطح پر محبت، تکریم اور انصاف کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہماری عظیم اکثریت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سرطان کا علاج نزلے کی دوا سے کرنا چاہتی ہے۔

ہمارے حکمران اور بلوچ سردار اپنی اپنی حیثیت میں بلوچ عوام کو کبھی باتوں کی گولیوں سے تو کبھی بندوقوں کی گولیوں سے شانت کراتے رہے ہیں۔ صوبے میں تعلیم کا نظام اتنا پست ہے کہ غریبوں اور پسماندہ علاقوں کے بچے اچھی تعلیم کے لیے ترستے رہ جاتے ہیں اور انجام کار یہ کہ وہاں کے موقع شناس علیحدگی پسند گروہ ان کے ہاتھوں میں کتابوں کی جگہ کلاشنکوف تھما دیتے ہیں اور وہ درسگاہوں کا رخ کرنے کی بجائے پہاڑوں پر جانے کو ہی اپنا حق سمجھتے ہیں۔ تعلیم صرف سرداروں‘ خانوں اور نوابوں کی اولادوں ہی کا مقدر چلی آ رہی ہے‘ بلوچی رؤسا کے صاحبزادگان کوئٹہ‘ کراچی‘ پشاور‘ لاہور اور مغرب کے بہترین تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر کے سول سروس یا افواج پاکستان کا حصہ بن جاتے ہیں جب کہ ایک عام غریب بلوچی طالبعلم کلرک اور نائب قاصد کی نوکری سے بھی محروم رہ جاتا ہے۔

متوسط طبقہ کے نوجوان بالفرضِ محال اگر سول سروس کا امتحان پاس بھی کر لیں تو انہیں طاقتور میرٹ کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے اور ایلوکیشن مل جانے کی صورت میں بھی وہ لاوارث ہی رہتے ہیں۔ عمران خان نے بھی سول سروس کو میرٹ پر لانے اور میرٹ پر بھرتیاں کرنے کی بات کی اور موجودہ حکومت بھی اصلاحات کے موضوع پر بڑی دیر سے چھریاں تیز کر رہی ہے مگر اس کی ساری توجہ وفاق اور پنجاب پر مرکوز ہے اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے نیشنل ایگزیکٹو سروس جیسا حکومتی برہمن گروپ متعارف کروانے کی پلاننگ بھی کر لی ہے۔ جہاں تک دیگر صوبوں کا تعلق ہے تو سندھ اور خیبرپختونخوا میں بیوروکریسی تقریباً پنجاب جیسا ہی اسٹیٹس انجوائے کر رہی ہے اور ان دونوں صوبوں کے بیشمار سول سرونٹس وفاق اور پنجاب میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہیں لیکن بلوچستان کے معدودے چند افسران ہی وفاق اور پنجاب میں تعینات ہیں۔

سول سروس کے حوالے سے بھی بلوچستان دیگر صوبوں سے انتہائی پسماندہ ہے‘ اس کی سب سے بڑی وجہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور ایف پی ایس سی کی منافقت اور بلوچ صوبائی حکومت کی نااہلی ہے‘ دوسری بڑی وجہ صوبے میں سول سروس کے لیے مطلوبہ تعلیم یافتہ افرادی قوت کی زبردست کمی اور تیسری وجہ یہ کہ کوئی وفاقی یا صوبائی افسر وہاں جانے اور رہنے کو ترجیح بھی نہیں دیتا۔ محسن فارانی کا تعلق صوبائی سول سروس سے ہے‘ 1967ء میں ان کا پہلا تقرر مکران میں ہوا تو ان پر بڑی گھبراہٹ طاری ہوئی‘ انھوں نے 22 برس قبل بلوچستان کے مسائل پر ایک کتاب ’’اجنبی اپنے دیس میں‘‘ لکھی۔ موصوف کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے جو لکھا آج حرف بہ حرف درست ثابت ہو رہا ہے‘ جن مسائل کی نشاندہی کی ان میں اضافہ ہوا‘ انتظامیہ کی جس بے حسی اور نااہلی کا ذکر کیا وہ ہنوز قائم ہے‘ اس زمانے میں مغربی پاکستان کے چیف سیکریٹری کو اس بات کا علم تک نہ تھا کہ ضلع مکران کا ہیڈکوارٹر تربت ہے‘ اسی نالائقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیکریٹریٹ والوں نے پوچھا کہ تربت مکران سے کتنا دُور ہے؟ اس پر ڈی سی صاحب کی رگِ ظرافت پھڑکی‘ انھوں نے لکھا: ’’جتنا لاہور پنجاب سے دُور ہے۔‘‘

یہ جرأتِ رندانہ مزاجِ خسروی سے براہِ راست ٹکرائی اور انھوں نے سارے ضلع کو طاقِ نسیان میں ڈال دیا۔ مسائل تو پہلے سے موجود تھے‘ سول سروس کے لوگوں نے ان کی گھمبیرتا میں اضافہ کیا۔ مصنف نے ان کی کوتاہ نظری کا برملا ذکر کیا اور ایسی پالیسیوں کو بے نقاب کیا جن کی وجہ سے نفرت اور بداعتمادی کی خلیج وسیع تر ہوتی چلی گئی تھی‘‘۔ یہ تاثر عام ہے کہ بلوچستان کے لوگ ترقی دشمن ہیں‘ ان کا کلچر چوری ڈکیتی کا ہے اور وہ تعلیم یافتہ افراد و سرکاری افسران کو پسند نہیں کرتے‘ اس پر مصنف نے ایک تاریخی کتاب ’’فتوح البلدان‘‘ کا حوالہ دیا ہے۔

لکھتے ہیں: ’’فتح مکران سے قبل خلیفہ سوم حضرت عثمانؓ نے حکم بن جبلہ کو حالات جاننے کے لیے مکران بھیجا‘ واپسی پر اس نے جو رپورٹ دی وہ خاصی حوصلہ شکن تھی۔ بولا: ’’پانی بہت کم ہے ‘ پھل سخت کڑوا ہے اور چور زیادہ ہیں‘ زیادہ فوج بھیجی تو بھوک سے مر جائے گی‘ تھوڑی کو چور ڈاکو مار دینگے‘‘۔ حاکم کو یقینا بتایا گیا ہو گا کہ قبل ازیں سائرس اعظم، زرکیز، سکندر اعظم کی فوجیں مکران میں نیست و نابود ہو گئی تھیں۔ اس میں کوئی شائبہ نہیں کہ بلوچستان کا رقبہ وسیع ترین اور آبادی کم ترین ہونے کی وجہ سے ڈی ایم جی اور پولیس سروس کے افسران کا حوصلہ بھی نہیں پڑتا کہ وہ وہاں کے کٹھن ترین حالات میں اپنے سول کیریئر کو اَن دیکھے اور اَن سنے تجربات کی نذر کر دیں۔

بلوچستان کا رُخ کرنے سے گھبرانے کا ایک سبب ان افسروں کے لیے یہ بھی ہے کہ وہ انتظامی بادشاہ بن کر خلق خدا پر راج کرنا چاہتے ہیں اور بلوچستان کی آبادی اتنی نہیں کہ اس پر من موجی طریقے سے شاہ گردی کی جا سکے۔ بلوچستان کے مقامی افسروں کی بھی یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ انہیں اپنے صوبے کی بجائے وفاق، پنجاب یا کسی دوسرے صوبے میں پوسٹنگ مل جائے تاہم ان میں زیادہ تر کے یہ ارمان بھی فقط اس بناء پر تشنہ تکمیل رہ جاتے ہیں کہ اولاً تو ان کی صوبائی سول سروس کی اسٹیبلشمنٹ اپنے نو آمدہ افسروں کی سفارشات مرتب کر کے وفاق کو نہیں بھجواتی‘ ثانیاً یہ کہ وفاقی بیوروکریسی اس معاملہ میں ہمیشہ ہی لیت و لعل سے کام لیتی ہے جس سے بلوچستان کے افسران اپنے صوبے کے پہاڑوں میں گھوم گھوم کر ہی تھک جاتے ہیں اور خود کو طفل تسلی دینے کے لیے اپنی شکایات فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو بھجواتے رہتے ہیں۔

ان ہی شکایات کے ازالہ کے لیے رانا بھگوان داس نے ایف پی ایس سی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالتے ہی ایک صدارتی آرڈیننس کا اجراء کروایا تھا‘ سروسز آف پاکستان کے اس ’’ریڈریسل آف انڈر ریپریزینٹیشن‘‘ آرڈیننس 2012ء کی رُو سے صوبائی حکومتوں کے ماتحت کام کرنیوالے افسران کو سیکریٹریٹ گروپ میں گریڈ21 کے عہدے پر بطور سینئر جوائنٹ سیکریٹری اور ایڈیشنل سیکریٹری تعینات کیا جا سکتا ہے تاہم اس کے لیے صرف وہی ملازمین وفاق میں لائے جا سکتے ہیں جن کا تعلق صوبائی سول سروس سے ہو اور متعلقہ صوبائی حکومت ان کی سفارش کرے۔ آرڈیننس میں واضح کیا گیا ہے کہ وفاق میں سینئر جوائنٹ سیکریٹری اور ایڈیشنل سیکریٹری کی موجودہ نشستوں سے 10 فیصد سے زائد مختص نہیں کی جائینگی۔

دوسری جانب پنجاب اور خیبرپختونخوا کے ملازمین اس آرڈیننس سے مستفید نہیں ہو سکتے اور صرف وہی افسران وفاق میں ضم کیے جا سکتے ہیں جن کے خلاف کوئی فوجداری کارروائی نہ ہوئی ہو۔ آرڈیننس کا مقصد وفاقی بیوروکریسی میں سندھ، بلوچستان اور فاٹا کی نمائندگی کو یقینی بنانا تھا، اس صدارتی آرڈیننس کے اجراء پر وفاقی بیوروکریسی میں شدید بے چینی اور مایوسی کا سماں تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ آرڈیننس سندھ، بلوچستان اور فاٹا کے من پسند لوگوں کو نوازنے کے لیے جاری کروایا گیا ہے۔ ہماری ذاتی رائے میں وفاقی گروپ کی یہ ماتم کنائی اس کا ذاتی وہم ہے جو اسے ہمیشہ گھیرے رہتا ہے۔

حقیقت کچھ یوں ہے کہ آر یو آر (ریڈریسل آف انڈر ریپریزینٹیشن) آرڈیننس فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے اس وقت کے چیئرمین رانا بھگوان داس کی ذاتی کاوشوں کا نتیجہ تھا کیونکہ انھوں نے اس سلسلہ میں صدر پاکستان کو کئی خطوط لکھے تھے جن میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ سول سروس میں کم نمائندگی رکھنے والے صوبوں کی دادرسی اور ازالہ کے لیے مناسب قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے‘ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ اگر سول سروس میں خفیف نمائندگی کے صوبوں کے لیے قانون سازی قومی اسمبلی کے ذریعے کی گئی تو اس میں مہینوں یا سالوں لگ جائینگے اور دوسرا انہیں یہ خدشہ تھا کہ ’’طاقتور وفاقی بیوروکریسی‘‘ اس کی راہ میں رکاوٹیں حائل کر دیگی‘ اس لیے انھوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وفاقی بیوروکریسی کا طلسم توڑنے اور چھوٹے صوبوں کی سول سروس میں حسب ضابطہ نمائندگی اور محرومیوں کے ازالہ کے لیے ایک صدارتی آرڈیننس کا اجراء کر دیا جائے۔

اپنی تجاویز میں انھوں نے بلوچستان اور فاٹا کے ساتھ ساتھ سندھ کو بھی محروم صوبہ درج کیا‘ اس کی وجہ ان کے ذہن میں یہ تھی کہ سندھ کی وجہ سے زرداری حکومت ان کے تجویز کردہ آرڈیننس کا بلا تامل اجراء کر دیگی حالانکہ ان کا اصل مقصد تو بلوچستان اور فاٹا کو وفاقی سول سروس میں جائز نمائندگی دلوانا تھا، مگر افسوس کہ یہ صدارتی حکم نامہ محض کاغذ کا ایک پرزہ ثابت ہوا اور  فاٹا اور بلوچستان کے افسروں کو وفاق میں تعینات کرنے کا بھگوان داس کا خواب ان کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی ریٹائر ہو گیا کیونکہ بلوچستان اور فاٹا کے افسران کو وفاق کی بجائے پنجاب میں بھیجا جانے لگا‘ اس آرڈیننس کا پورا پورا فائدہ صرف سندھ کو پہنچایا گیا اور سندھ کے بیشمار صوبائی افسروں کو وفاق اور بیرون ممالک میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز کر دیا گیا۔

پھر پی پی پی کی حکومت کے ختم ہوتے ہی یہ آرڈیننس بھی ہمیشہ کے لیے فائلوں میں دفن ہو کر رہ گیا۔ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی کو شاید یہ خبر بھی نہ تھی کہ اس طرح کا کوئی آرڈیننس جاری ہوا بھی ہے یا نہیں مگر افسوس تو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے وِژن پر ہوتا ہے جنھوں نے پڑھے لکھے اور لبرل سوچ کا مالک ہونے کے باوجود بلوچستان کی سول سروس پر کوئی توجہ نہیں دی اور سارا فوکس اپنے عزیزوں اور دوستوں کے سفارشیوں کو اعلیٰ پائے کی نوکریاں دینے دلوانے پر ہی قائم رکھا‘ انھوں نے صوبے کی بیوروکریسی میں اصلاحات لانے اور وفاق کے جاری کردہ آر یو آر آرڈیننس پر عملدرآمد کروانے میں کبھی دلچسپی ظاہر نہیں کی‘ ہاں اتنا ضرور کیا کہ اپنے کچھ مقاصد کے لیے بلوچستان سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان سول سروس کمیشن ترمیمی بل 2014ء کے تحت پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین اور ممبران کی مدت ملازمت 5 سال سے کم کر کے3 سال ضرور کر دی۔

نتیجتاً ان کے اس بلا مشاورت اور غیر دانشمندانہ فیصلہ سے بلوچستان کی بیوروکریسی میں صوبائی اور وفاقی حکومت کے خلاف شدید نفرت کا ماحول گرم ہو گیا۔ بلوچستان کے مختلف محکمہ جات میں عرصہ دراز سے 4 ہزار کے لگ بھگ آسامیاں خالی پڑی ہیں جن پر پڑھے لکھے بلوچ نوجوانوں کی تعیناتی کو تاحال یقینی نہیں بنایا جا سکا‘ اس سلسلے میں وفاق کی طرف سے صوبائی حکومت کے ساتھ کسی قسم کی مشاورت کی گئی نہ خالی آسامیوں پر بھرتیوں کا کوئی پلان مرتب کیا گیا بلکہ ہزار وعدوں کے باوجود ایوانِ بالا‘ ایوانِ زیریں سمیت دیگر وفاقی سرکاری اداروں میں بلوچ نوجوانوں کو ترجیحی بنیادوں پر ملازمتیں دینے کا کوئی میکانزم بھی مرتب ہی نہیں ہو سکا۔ مختلف وزارتوں اور ان سے متعلقہ ڈیپارٹمنٹس میں بلوچستان کی بی پی ایس 17 سے21 کی سیکڑوں نشستیں بھی خالی پڑی ہیں۔ شنید تھی کہ حکومت کوٹہ سسٹم کو  20 سال کے لیے توسیع دینا چاہتی ہے جس کی وضاحت آئین کے آرٹیکل (1)27 میں موجود ہے اور اس کی معیاد 14 اگست 2013ء کو ختم ہو گئی تھی۔

وفاقی کابینہ نے کوٹہ کی توسیع کے لیے اس آرٹیکل میں ترمیم کی منظوری تو دے رکھی ہے لیکن خفیہ ایمپائر اس پر عملدرآمد میں سنجیدہ نہیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کئی بار اسلام آباد کے دورے کر چکے ہیں مگر وہ اپنے صوبے کی التوائی نشستوں کی خانہ پری کے لیے فیڈرل گورنمنٹ کو یا تو قائل نہیں کر پائے یا پھر وہ جھوٹی تسلی پر ہی خوش ہو جاتے ہیں۔ اندرونی ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عبدالمالک دو سالوں میں بلوچستان کی ڈیڑھ ہزار کے قریب پراونشل اور فیڈرل پوسٹوں پر اپنے من پسند افراد کو بھرتی کروا چکے ہیں جس کی وجہ سے اب وفاق میں صوبے کی آسامیاں گھٹ کر اڑھائی ہزار رہ گئی ہیں۔

اخباری رپورٹیں تو یہ بھی کہتی ہیں کہ ڈاکٹر صاحب اپنے صوبے میں سینئر انتظامی اسامیوں پر ان جونیئر افسران کو تعینات کر رہے ہیں جو اُن کے منظورِ نظر ہیں‘ ان کے اس عمل سے بی سی ایس کے اکابرین سخت نالاں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ اپنے ان ناجائز حربوں سے صوبے کی کمزور ترین سول سروس کا بیڑہ مزید غرق کر رہے ہیں‘ شاید ان کا یہ دھندہ سیاسی روایت کا امین ہو کہ جونیئر افسروں کو تلاش کر کے سینئر ترین عہدوں پر لگایا جائے تا کہ حکومت سے باہر رہ کر بھی وہ ان سے اپنا ہر جائز و ناجائز کام کروا سکیں کیونکہ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ ایسے جونیئر افسران کبھی بھی اپنے سیاسی ماسٹرز کو مایوس نہیں کرتے۔ ڈاکٹر عبدالمالک کی اس روش سے بلوچستان کی سول سروسز کا مورال انتہائی پست ہوا ہے اور اس کے افسروں میں بے چینی اور بے یقینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔

ان کے اس اقدام سے بلوچستان اسمبلی کے کئی ارکان بھی سراپا احتجاج ہیں اور وزیر اعظم ہیں کہ اپنے چہیتے وزیر اعلیٰ کا کان مروڑنے کے بجائے مجرمانہ حد تک خاموش ہیں کیونکہ ان کا اپنا ٹریک بھی اس معاملہ میں کچھ زیادہ قابلِ رشک نہیں۔ منظور ِنظر جونیئر افسران کو سینئر عہدوں پر براجمان کرنے سے سول سروس کا انتظامی ڈھانچہ اپنی افادیت کھو دیتا ہے‘ امپیریل سول سروس یا آئی سی ایس اسٹیل فریم اس لیے کہلاتی تھی کہ وہ انتظامی پوسٹوں کے معاملے میں ضرورت سے زیادہ محتاط تھی‘ اسسٹنٹ کمشنر یا ڈپٹی کمشنر تو دُور کی بات‘ وہ تو فاٹا، گلگت  بلتستان یا ایسے ہی آزاد علاقوں میں کسی کو پولٹیکل ایجنٹ تک مقرر نہیں کرتی تھی جب تک کہ اس نے کسی ایجنسی یا ایف آر ریجن میں بطور اسسٹنٹ پولٹیکل ایجنٹ کام نہ کیا ہو اور وہاں اس کی کارکردگی اطمینان بخش نہ رہی ہو۔

بلوچستان کا احساسِ محرومی ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ بلوچ نوجوانوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے اور پہلی فرصت میں صوبے کی خالی آسامیوں پر ان کی بھرتیاں کی جائیں۔ وفاقی حکومت یہ یقین دہانیاں تو بارہا کروا چکی ہے کہ وہ بلوچ عوام کی خوشحالی و ترقی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گی اور صوبے کی محرومیاں دُور کرنے کے لیے تمام تر اقدامات اٹھانے سے گریز نہیں کریگی لیکن اس بارے عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہے اور اس سلسلے کی پہلی کڑی تعلیم یافتہ بیروزگار بلوچ نوجوانوں کو بلوچستان کی ہزاروں خالی آسامیوں پر صوبائی سول سروس کے ذریعے تعینات کیا جانا چاہیے۔ یہ اَمر قابل تاسف ہے کہ وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں پھرتیاں دکھانے والے فواد حسن فواد اور سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ندیم حسن آصف کے پاس آئی ایم ایف کی تجویز پر سرکاری ملازمین کی حد عمر 60 سال سے 63 کروانے کے لیے تو پی ایم کو قائل کرنے کے لیے اضافی وقت ہے مگر بلوچستان حکومت سے ملکر اس کے حصے کی خالی پوسٹوں پر تعیناتیوں کا منصوبہ ترتیب دینے کے لیے کوئی فرصت نہیں۔

2013ء کے انتخابات میں حسبِ سابق ملازمتوں پر پابندی عائد کی گئی تھی جو اَب تک برقرار ہے‘ پابندی اٹھانے کے لیے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی طرف سے وزیر اعظم کو کئی بار سمری بھجوائی گئی لیکن عمل نہیں ہوا جب کہ اپنے سفارشیوں کو بھرتی کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً یہ پابندی اٹھا لی جاتی ہے جس کی زندہ مثال تعلیم اور صحت کے شعبے ہیں جن میں لاتعداد آسامیوں پر حال ہی میں بھرتیاں کی گئی ہیں۔ متعدد اداروں کے کئی ملازمین کی اسناد جعلی ثابت ہو چکی ہیں اور بیشمار ملازم طویل رخصت پر گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں‘ بلوچستان اور فاٹا کی سیکڑوں آسامیوں پر دیگر صوبوں کے افسران قابض ہیں اور ہزاروں خالی بھی پڑی ہیں‘ مگر اس پر وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے کسی سیکریٹری کو کبھی اپنا فرضِ منصبی یاد نہیں آیا۔

ایک طرف تو بلوچستان اور فاٹا کے ملازمین کی انڈکشن‘ ڈیپوٹیشن‘ پوسٹنگ اور ٹرانسفر پر پابندی عائد ہے تو دوسری طرف کیبنٹ کی خصوصی کمیٹی نے پہلے 2014ء میں 60 ہزار عارضی ملازمین کو مستقل کیا اور اب بغیر آسامی کے مختلف محکمہ جات میں گریڈ17 اور 18 کے افسران کو عارضی بھرتی کر کے مستقل کیا جا رہا ہے۔

کوئی ہمیں بتائے کہ وزیر اعظم نے بلوچستان کے نوجوانوں کی عمر اور تعلیم کی حد میں نرمی کا جو اعلان کیا تھا اس پر عمل کیوں نہیں ہوا؟ تو پھر آفرین کہئے! کہ افواجِ پاکستان نے تو بلوچستان کے نوجوانوں کی عمر اور تعلیم میں نرمی کر کے دکھا بھی دی ہے اور اس بناء پر بلوچ جوانوں کی بھرتیاں بھی جاری ہیں۔ وفاقی حکومت بلوچستان سول سروس میں افسران کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پڑھے لکھے متوسط بلوچ جوانوں کو منتخب کرنے کا فریضہ نبھانے سے تو قاصر رہی‘ ہاں البتہ مقتدرہ کے دباؤ پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے فوجی افسروں کو سول سروس کا حصہ بنانے پر ضرور چوکس نظر آتی ہے۔

اس مقصد کے تحت حکومت نے جی ایچ کیو سے درخواست کی ہے کہ وہ بلوچستان کے ڈومیسائل والے خواہشمند اور قابل افسروں کی فہرست فراہم کرے تا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور ایف پی ایس سی کے قواعد و ضوابط کے مطابق ان کی سول سروس میں شمولیت کو یقینی بنایا جا سکے‘ عسکری قیادت کے فیصلے کے تحت حکومت فوج سے کیپٹن‘ میجر اور کرنل رینک کے ہزارہ اور دیگر قبائل کے افسران کو بھی سول سروس کا حصہ بنانے کی تیاری میں ہے تا کہ محروم اور پسماندہ بلوچ طبقات کی دادرسی ممکن ہو سکے‘ ان افسران کو رانا بھگوان داس کے دور میں لائے گئے ریڈریسل آف انڈر ریپریزینٹیشن آرڈیننس کے تحت پہلے 5 سال بلوچستان میں رہ کر سروس کرنا ہو گی‘ بعد ازاں وہ وفاق یا کسی دوسرے صوبے کا رُخ کر سکیں گے۔

کچھ ناقد حلقے اس پیشرفت کو میرٹ کا جنازہ قرار دے رہے ہیں لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب فوج کا 10 فیصد کوٹہ سول سروس میں مقرر ہے تو پھر میرٹ کا جنازہ کیسے نکل گیا بلکہ بلوچستان کے معروضی حقائق کے پیش نظر اور بدامنی کے حالات میں جب کوئی سول افسر بلوچستان میں ایک دن گزارنے کو تیار نہیں تو ایسے میں صرف فوجی افسران ہی سول انتظامیہ کا بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔

مگر اس معیادی مجبوری کو ہمیشہ کے لیے مہا کلاکاری کا جواز بنا لینا مناسب نہ ہو گا۔ بلوچستان کی عام افرادی قوت کو ترجیحا ً سول سروس کا حصہ بنایا جانا ہی ایک جمہوری و عوامی بلوچستان کے مستقبل کی ضمانت ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب بلوچستان کی صوبائی سول سروس کو ایک مکمل خود مختار ادارہ بنا دیا جائے کیونکہ صوبائی خود مختاری کا مفہوم بھی یہی ہے اور وقت کا تقاضا بھی یہی۔ وفاقی حکومت اور ایف پی ایس سی کو چاہیے کہ وہ بلوچستان سول سروس کو مقامی ڈومیسائل رکھنے والی عام اور متوسط طبقے کی پڑھی لکھی بلوچ یوتھ کو بیوروکریسی کا حصہ بنانے کے لیے فری ہینڈ دے‘ بہ ایں ہمہ بلوچستان کی موجودہ عسکری قیادت کو بھی یہ بات یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ سول سروس جوائن کرنے والے اپنے فوجی افسروں کو ناراض بلوچوں کے دل جیتنے کے لیے دن رات ایک کرنے کی تاکید و تلقین کرے تا کہ بلوچستان میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کا مشن جاری رہ سکے جنھوں نے بلوچستان کی مضبوطی اور ترقی کے لیے ایسے غیر معمولی اقدامات کیے جو مدتوں یاد رہیں گے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ کوئٹہ کے نئے کور کمانڈر بھی جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کی تقلید کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔