اردو اور لسانی مغالطے

انتظار حسین  پير 2 نومبر 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

اس وقت میز پر ہمارے اردگرد اردو کے موٹے موٹے رسالے رکھے ہوئے ہیں اور ہم سوچ رہے ہیں کہ ان سے کیسے عہدہ برا ہوا جا سکتا ہے۔ یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں کی طرف سے ضخیم مجلہ کی اشاعت کا ایک جواز ہے، یہ تو اصل میں علمی تحقیقی رسالے ہیں۔ سو اگر سال میں ایک رسالہ اپنے دامن میں بہت سی تحقیق اور بہت سارا علمی مال مسالہ کے ساتھ شایع ہوتا ہے تو اس کا تاخیر سے شایع ہونا بھی جائز ہے اور ضخیم ہونا بھی جائز ہے مگر ادبی رسالہ تو ہم عصر ادب کا ترجمان ہوتا ہے۔

وہ اگر دو دو تین تین سال میں مرتب ہو کر دھوندل کاٹ شکل میں نمودار ہو تو یہ کوئی جائز بات نہیں ہے۔ ایسے رسالوں ہی کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمارا عصری ادب ضخامت تلے دب کر رہ گیا ہے۔ مثال کے طور پر کراچی سے شایع ہونے والا ادبی رسالہ ’مکالمہ‘ جسے مبین مرزا مرتب کرتے ہیں اور اکادمی بازیافت کراچی کے زیر اہتمام وہ شایع ہوتا ہے۔ لیجیے وہ اس وقت ہمارے پیش نظر ہے۔ جب ایڈیٹر نے اسے مرتب کرنے میں ڈھائی تین سال لگائے ہیں تو قاری کو بھی اسے پڑھنے کے لیے اتنی ہی مدت درکار ہونی چاہیے۔

مگر ہمیں تو اس اشاعت پر تبصرہ کرنا ہے۔ ہم کیا کریں۔ بس یہی کہ جلدی جلدی ورق گردانی کی۔ کچھ پڑھا، کچھ چھوڑا اور اس پر رائے زنی کے لیے مستعد ہو بیٹھے۔ لیجیے ابتدا ہی میں مقالات کے ذیل میں ایسا مقالہ نظر آ گیا۔ سوچا کہ ارے یہ تو ان دنوں جو بحث گرم ہے اس کے ذیل میں آتا ہے۔ عدالت عالیہ نے حکم صادر کیا کہ بہت تاخیر ہو گئی، اردو کو جلد از جلد قومی زبان کے طور پر نافذ کیا جائے۔ لیجیے یہ تو بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا۔ حامی اور مخالفین اپنے اپنے سیاسی لسانی تعصبات کے ساتھ قلم کان پر رکھ کر رواں ہو گئے۔ پہلے کچھ لسانی مطالعہ کیا ہوتا۔ پھر بولتے اچھے لگتے تھے۔ مگر اتنا تردد کون کرے۔ سو کتنے لسانی مغالطوں کے ساتھ یہ بحث گرم ہے۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے ان لسانی مغالطوں کے جھاڑ جھنکاڑ سے اردو کو نکالنے کی کوشش کی ہے۔

پہلا مغالطہ۔ اردو مسلمانوں کی، یعنی صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔ تقسیم سے پہلے اردو کے حمایتی زور دے کر یہ بات کہتے تھے کہ اردو ہندو مسلمانوں کی مشترکہ زبان ہے اور برصغیر کی لنگوافرینکا ہے۔ تقسیم کے بعد کیا ہوا۔ ادھر ہندی کے حامیوں نے کہا کہ اردو تو بس مسلمانوں کی زبان ہے تو اٹھا لو پاندان اپنا اور لے جاؤ اسے پاکستان میں۔ ادھر پاکستان میں اردو کے حامیوں نے یہی مناسب جانا کہ اردو کو تخصیص کے ساتھ مسلمانوں کی زبان بلا شرکت غیرے قرار دیا جائے۔

غلط، غلط، غلط۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ کہتے ہیں کہ ’’مسلمان جب ہندوستان میں وارد ہوئے تھے تو کیا اردو بولتے ہوئے آئے تھے۔‘‘ وہ تو عربی، فارسی، ترکی، حتیٰ کہ پشتو بولتے ہوئے آئے تھے۔ مقامی بولیاں پہلے سے موجود تھیں، مقامی لوگ ہندو تھے۔ ان کی بولیوں میں مسلمانوں کی آمد کے بعد فارسی، عربی ترکی کے الفاظ شامل ہوتے گئے۔ یعنی مقامی لوگ اپنی بولیوں میں عربی فارسی کے الفاظ کا اختلاط کرتے چلے گئے۔ ’’یہ جدید اردو کی ایک شکل تھی جس کا آغاز مقامی غیر مسلموں نے کیا۔ تو اردو کے بنانے والے غیر مسلم ہوئے یا مسلمان۔‘‘

یہ کہ اردو درباروں میں پلی بڑھی غلط ہے۔ ڈاکٹر پاریکھ کا استدلال یہ ہے کہ مغلوں کی سرکاری، درباری (اور بعض صورتوں میں مادری) زبان بھی فارسی ہی تھی۔

’’اردو کی سرپرستی ابتدا میں بادشاہوں نے نہیں اہل تصوف نے کی کیونکہ ان بزرگوں کو اپنی بات عوام تک اور عوامی زبانوں میں پہنچانی تھی۔‘‘

ایک اور مغالطہ۔ اردو میں سائنسی اور فنی موضوعات پر کتابیں نہیں لکھی گئیں۔ اس کی تردید میں ڈاکٹر پاریکھ کہتے ہیں کہ اردو میں سائنسی اور فنی موضوعات پر کتابوں کی تصنیف و تالیف کا آغاز سولہویں صدی میں ہو گیا تھا… اس وقت سے لے کر بیسویں صدی تک اردو میں برابر فنی تکنیکی موضوعات پر کتابیں لکھی جاتی رہیں۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں آج سے سو سال پہلے بھی میڈیکل اور انجینئرنگ کی تمام تعلیم اردو میں ہوتی تھی۔‘‘ اور یہ کہ اردو والے انگریزی والوں سے بہتر ثابت ہوتے تھے کیونکہ غیر زبان میں پڑھنے والوں کا خاصا وقت زبان پر عبور حاصل کرنے میں صرف ہو جاتا تھا۔ پھر یہ بھی کہ یہ انگریزی کے طلباً تحقیق و تفکر کے بجائے تقلید کے عادی ہو جاتے تھے۔‘‘

ہاں اسی سیکشن میں چند ایک اور مقالے بھی شامل ہیں۔ دو مقالے احفاظ الرحمن کے، ایک فیض صاحب کے بارے میں دوسرا ساحر لدھیانوی کے بارے میں۔ خیر فیض صاحب کا معاملہ تو یہ ہے کہ اس عہد کے شاعروں میں سے سب سے بڑھ کر فیض صاحب کا سکہ چلتا ہے۔ ہاں ساحر کا مسئلہ غور طلب ہے۔ اس شاعر کو ویسے تو ابتداء ہی میں قبول عام کی سند مل گئی تھی۔ آگے چل کر جب ساحر کی شاعری کو بمبئی کی فلم میں رسائی حاصل ہو گئی تو اس شاعر کی مقبولیت نے اردو کے دائرے سے نکل کر پورے برصغیر کی وسعتوں کو اپنے اثر میں لے لیا۔ مگر عجب ہوا کہ پھر اردو تنقید اس شاعری سے بے نیاز ہو گئی۔ آخر کیوں۔ اس لیے کہ اس پر فلمی شاعری کا ٹھپہ لگ گیا تھا۔ یہ بھی عجب قسم کا تعصب ہے کہ شاعری اگر فلمی ہے تو شاعری کا معیار کیسا ہی ہو اور مقبولیت کتنی ہی زیادہ ہو اردو کا نقاد اس پر توجہ نہیں کرے گا۔ فلم کے واسطے سے خاص طور پر بمبئی کی فلم کے واسطے سے اردو شاعری نے بیشک اپنے جھنڈے گاڑ دیے یہ پوری روایت اردو کے نقاد کے لیے کوئی معنی ہی نہیں رکھتی۔ اردو شاعری کا یہ وسیع علاقہ اردو تنقید کی روایت سے باہر باہر پھیلا ہوا ہے۔

ارے ہاں اس رسالہ میں ایک خصوصی گوشہ بھی ہے۔ سحر انصاری کا گوشہ۔ ان کی غزل، نظم، تنقید سب پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔

کشور ناہید نے عباس اطہر کے خاکے میں پاک ٹی ہاؤس کے اس دور کو یاد کیا ہے جب خود ٹی ہاؤس کی چائے کی پیالیوں کے بیچ سے کچھ نگ برآمد ہوئے۔ ان میں سے دو عباس اطہر اور زاہد ڈار اس بی بی کے پسندیدہ نگ تھے۔ اس دور میں ایسے کتنے نوخیز شعر و شاعری کی راہ نمودار ہوئے۔ پھر شعر و شاعری کو چھوڑ صحافت اور سیاست کی طرف نکل گئے۔ ان میں عباس اطہر کا امتیاز یہ تھا اس نقل مکانی سے پہلے وہ شاعری میں اچھا خاصا زور دکھا کر اتنا کچھ چھوڑ گیا تھا کہ آج بھی ہم اسے شاعر کے طور پر یاد کر سکتے ہیں ورنہ اکثروں کے ساتھ یہ ہوا کہ شعر و ادب کے نام پر غل بہت مچایا۔ پھر مناسب وقت پر ٹی ہاؤس کو اور شعر و ادب کو سلام کر کے آگے نکل گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔