شاباشی کے اصل حقدار کون

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 4 نومبر 2015

نامور دانشور اور مصنف نپولین ہل نے اپنی کتاب Master Key to Riches میں ایک بہت دلچسپ بات لکھی ہے کہ میں نے اپنے ذہن میں چار عظیم انسانوں کی ایک کابینہ بنائی ہوئی تھی، ان میں نپولین بوناپارٹ، ابراہام لنکن، سکندر اعظم اور حضرت عیسیٰ شامل ہیں، جب بھی مجھے کوئی پیچیدہ صورتحال درپیش ہوتی یا مجھے کوئی اہم فیصلہ کرنا ہوتا تو میں حالت سکون میں آنکھیں بند کر کے سو چتا کہ اگر میری جگہ یہ کابینہ ہوتی اور یہ ہی فیصلہ انھیں کرنا پڑتا تو وہ کیا فیصلہ کرتے اور جب میں ان اکابرین سے مشورہ کرتا ان کی حکمت و دانشمندی سے رہنمائی حاصل کرتا تو میں ایسا فیصلہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا جو نہ صرف موزوں ترین ہوتا بلکہ قابل عمل و نتیجہ خیز بھی۔ ادھر ہم بھی مبارک باد کے لائق ہیں کیونکہ ہم بھی نپولین ہل ہی کی طرح سمجھ دار، دانش مند اور عقل مند ثابت ہوئے ہیں کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے بھی پہلے ہی روز ایک چار رکنی کابینہ تشکیل دے دی تھی، اگر اب بھی ہمیں کوئی بے وقوف سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے۔

راز کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی دانشمندی اور عقل مندی کے لحاظ سے ہمیشہ پوری دنیا کو بے وقوف بناتے آئے ہیں۔ میرے ہم وطنو، ہوشیار اور خبردار ہو جاؤ اور اپنے اپنے دل تھام کر رکھو، کیونکہ میں اب آپ کے سامنے ہمارے حکمرانوں کی کابینہ کے ناموں کا انکشاف کرنے والا ہوں، ان کے نام سن کر آپ بھی میرے ہم نوا بن جائیں گے کیونکہ ہمارے حکمرانوں کی کابینہ میں شامل شخصیات سمجھ دار، ہوشیار، عقل مند، شاطر، ذہین اور حکمت و دانش میں یکتا ہیں، بلکہ اگر انھیں انمول کہا جائے تو جھوٹ نہ ہو گا، وہ شخصیات ہیں (1) اسکندر مرزا (2) غلام محمد (3) شریف الدین پیرزادہ (4) یحییٰ خان۔

مجھے معلوم ہے کہ آپ یہ نام پڑھ کر مسکرا دیے ہوں گے، کیونکہ آپ بھی میری ہی طرح ان عظیم شخصیات کے کارناموں، عقل و دانش مندی، سمجھداری، ہوشیاری اور ذہانت سے اچھی طرح سے واقف ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ میری کہی گئی باتوں کی سچائی پر ایمان لے آئے ہوں گے۔ اب آپ ذرا آزادی کے ساتھ دنیا بھر میں اپنی نظریں دوڑا لیں یا پھر تاریخ کے کوڑا دان میں گھس جائیں، لیکن آپ کسی بھی صورت میں ہمارے حکمرانوں کی کابینہ میں شامل شخصیات سے زیادہ عقل مند، ہوشیار، ذہین، شاطر شخصیات نہیں ڈھونڈ پائیں گے۔

ایک بات جو بہت توجہ طلب ہے اور جس سے ہمارے حکمرانوں کی عقل مندی، ہوشیاری، سمجھ داری اور ذہانت چھلک چھلک جاتی ہے کہ انھوں نے اپنی کابینہ کی تمام شخصیات مکمل ملکی رکھی ہیں، یہ اس لیے کہ وہ شخصیات ہمارے مزاج، ہمارے رویے، ہماری سوچ، ہمارے انداز و اطوار، ہماری طرز حکمرانی اور ہماری طبعیت سے اچھی طرح سے واقف ہیں اور ہمیں اچھی طرح سے جانتے اور سمجھتے ہیں، اسی لیے وہ تمام کے تمام مشورے ہمارے ہی حساب و کتاب، مزاج و موسم کے حساب سے دیتے آئے ہیں اور دوسرے یہ کہ وہ چونکہ ہمارے اپنے ہیں تو ان سے زیادہ ہمارا خیرخواہ اور ہمدرد کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا اور آپ میری طرح یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ غیر ملکی تو پہلے ہی دن سے ہمارے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔

ہمیں مٹا دینے پر تلے بیٹھے ہیں اور آپ کو تو یہ بات بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ ملک میں جاری ہر خرابی اور برائی کے پیچھے ان ہی کا ہاتھ ہے اور تمام سازشوں کے پیچھے ہمیشہ وہ ہی مسکراتے کھڑے ہوئے پائے گئے ہیں اور دوسرا یہ بھی کہ ہمارے حکمران ہمیشہ اس قدر معصوم اور سیدھے سادے سے واقع ہوئے ہیں کہ وہ ان غیر ملکیوں کی چالاکیوں کو کبھی سمجھ ہی نہیں پاتے اور ہوتا یہ کہ غیر ملکی شخصیات اپنے حالات و واقعات، تجربے، ذہانت، رویے، سوچ کی بنا پر ایسے ایسے مشورے دیتے کہ اگر ان پر عمل کر لیا جاتا تو ہمارے حکمرانوں کے اقتدار کا ایک ہی روز میں دھڑن تختہ ہو جاتا۔

ظاہر ہے وہ ہمارے حکمرانوں کو یہ مشورہ دیتے کہ ملک میں ہر کام میرٹ پر ہونا چاہیے تو ظاہر ہے ہمارے سب حکمران پہلے ہی روز نااہل ہو چکے ہوتے، کیونکہ وہ سب کے سب میرٹ پر کتنے اترتے، یہ بات میں اور آپ اچھی طرح ہی سے جانتے ہیں، وہ دوسرا مشورہ یہ دیتے کہ عوام کو طاقتور، بااختیار اور خوشحال بنانا چاہیے، ملک میں عوام کی حاکمیت سپریم ہونی چاہیے، ملک ہر قسم کی کرپشن اور لوٹ مار سے پاک ہونا چاہیے، ملک سے اقربا پروری کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے، ملک سے جاگیرداری کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے، ملک میں مساوات، رواداری، برداشت کو فروغ حاصل ہونا چاہیے، خواتین اور اقلیتوں کو مکمل مساوی حقوق حاصل ہونا چاہئیں، تعلیم اور صحت کی سہولیات ہر شہری کو مفت ملنی چاہیے۔ بجلی، گیس، انتہائی سستی ہونی چاہیے، ملک میں انتخابات صاف اور شفاف ہونے چاہئیں۔

اب آپ ہی بتلائیں کہ یہ سب کے سب غیر دانشمندانہ مشورے کیا ہمارے حکمرانوں کے لیے جان لیوا ثابت نہ ہوتے اور اگر ان مشوروں پر عمل کر لیا جاتا تو کیا وہ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے لڈو یا کیرم بورڈ نہ کھیل رہے ہوتے۔ اس لیے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے مشیر غیر ملکی نہ رکھے، ورنہ نجانے 68 سال میں کیا سے کیا کچھ ہو جاتا، کیونکہ جس طرح الف لیلوی کہانیوں میں جن اور دیو کی زندگی طوطا، مینا، یا کبوتر میں چھپی ہوئی ہوتی ہے، اسی طرح ہمارے سب حکمرانوں کی اقتدار کی مدت دھونس، دھاندلی، زبردستی، کرپشن، بدانتظامی میں چھپی ہوئی ہے۔

آئیں اب ذرا بات کرتے ہیں اپنے تمام حکمرانوں کے لاجواب، انمول، تاریخی اور لافانی فیصلوں کی جو ہماری 68 سالہ تاریخ میں کیے گئے، اس طرح آپ کو ہمارے حکمرانوں کی کابینہ کی صلاحیت کا بھی اچھی طرح سے احساس اور علم ہو جائے گا۔ پہلا لاجواب فیصلہ جو انمول مشورے کے بعد کیا گیا وہ قرارداد مقاصد کی منظوری تھا، پھر نظریہ ضرورت ہو یا 1952ء کا مارشل لاہو یا 1956ء کے آئین کی منسوخی ہو یا 1958ء کا مارشل لا ہو یا ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ہو یا مشرقی پاکستان کا سانحہ ہو، ون یونٹ کا قیام ہو یا مہران بینک کا اسکینڈل ہو، ایک کے بعد ایک پھر تو جیسے انمول فیصلوں کی موسلادھار بارش ہو گئی۔

ایسے ایسے فیصلے کہ عوام داد دیتے دیتے تھک گئے، عوام کے ذہنوں نے اپنا کام کرنا بند کر دیا، دماغ اور ہونٹوں پر تالے پڑ گئے اور ان عظیم، تاریخی اور انمول فیصلوں کے نتیجے میں آج 20 کروڑ عوام بھوکے ننگے ہیں اور چند سو لوگ عیش کرتے پھر رہے ہیں۔ دریا خشک پڑے ہوئے ہیں، بجلی اگر آ جائے تو خوشیاں منائی جاتی ہیں، ڈالر سو روپے سے آگے نکل گیا، مہنگائی آسمان پر جا کر اس سے باتیں کر رہی ہے، اشیائے خور و نوش کی قیمتیں سن کر لوگ چکرا کر گر جاتے ہیں، انسان اپنے گھر سے نکلتا اپنے پاؤں پر ہے اور آتا ایمبو لینس میں ہے، بے روزگاروں کی پوری فوج تیار ہو چکی ہے۔

ملک میں صرف کرپٹ، لالچی، بھتہ خور، کمیشن خور قبضے کرنے والے روز خوشیاں مناتے ہیں اور ملک کے اصل مالک 20 کروڑ عوام روز ماتم کرتے ہیں۔ لوگ ووٹ کسی اور کو دیتے ہیں اور جیتتا کوئی اور ہے، کرتا دھرتاؤں کو صرف اپنی پڑی ہے اور عوام زمین پر پڑے ہیں۔ بجلی کے بل دیکھ کر لوگوں کو دل کے دورے پڑ جاتے ہیں اور دوسری طرف بڑے لوگ دورے پہ دورے کرتے پھرتے ہیں۔ بس سمجھ میں یہ نہیں آتا ہے کہ شاباشی اور داد کے اصل حقدار کون ہیں، ہمارے حکمران یا پھر ان کی کابینہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔