آنسو بھری معافی، ہرگز نہیں ہے کافی

تشنہ بریلوی  جمعرات 5 نومبر 2015
tishna.brelvi@yahoo.com

[email protected]

سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی  بلیئر، نے جو (1997 تا2007 ء) دس سال اقتدار میں رہے، اچانک اپنی غلطیوں کا اعتراف کر لیا اور بھرائی ہوئی آواز میں دنیا سے معافی مانگ لی۔ جو کچھ موصوف نے فرمایا ہے اس کا لب لباب یہ ہے:

’’ہماری اطلاعات غلط تھیں کہ عراق کے پاس تباہ کن ہتھیار ہیں۔ عراق میں ہماری فوجی کارروائی قطعی بلاجواز تھی جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے اور جس کی وجہ سے ’’داعش‘‘ جیسی تنظیم وجود میں آئی۔ میں اپنی اس غلطی پر معافی مانگتا ہوں۔‘‘ موصوف نے Sorry   نہیں کہا جو ایک ہلکا لفظ ہے بلکہ Apologise   کہا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مسٹر بلیئر واقعی بہت شرمندہ ہیں اور دل سے معافی کے خواستگار ہیں۔

برطانوی اخبار گارجین (سابقہ مانچسٹر گارجین) نے ٹونی بلیئر کی اس معافی کو ناکافی قرار دیا۔ اور اُن کو بعد میں ہونے والی تمام تباہیوں کا ذمے دار ٹھہرایا ہے۔

آنسو بھری معافی ہرگز نہیں ہے کافی

اب کیوں نہ یاد آئیں صدام اور قذافی

ٹی وی پر ہم سب تماشے کی طرح دیکھتے ہیں کہ شام اور افریقہ کے پناہ گزینوں کے قافلے سمندر میں ڈوب رہے ہیں، سرحدوں پر دھتکارے جا رہے ہیں، ریل کی پٹری کے ساتھ پیدل چل رہے ہیں، بچے بوڑھے اور عورتیں انجانی منزل کی طرف۔ سرحدوں پر بلیڈ والے تاروں کی باڑھ لگائی جا رہی ہے۔ چائے کا کپ ہاتھ میں اور نظریں ٹی وی پر۔ فلموں اور ڈراموں کی اب کیا ضرورت جب خبر نامہ ہی اتنا ’’چٹ پٹا‘‘ ہو گیا ہو ۔

تماشا گاہ عالم میں تماشا ہم بھی دیکھیں گے

کسی معصوم کو سرحد پہ مرتا ہم بھی دیکھیں گے

ٹونی بلیئر کی آنسو بھری معافی کی داستان شروع ہوتی ہے،45   سال پہلے کے عراق سے۔ جنرل حسن البکر اقتدار پر قابض ہو گیا تھا۔ مصر کے جمال ناصر کی طرح وہ بھی امریکا کو پسند نہیں تھا اس لیے CIA   نے مصر ہی کے انور السادات کی طرح صدام حسین کو آگے بڑھایا، تا کہ عراق کے تیل کی دولت پر امریکی قبضہ رہے۔

شہنشاہ ایران آریا مہر کا سورج ڈوب گیا اور امام خمینی کی سربراہی میں پاسداران شدت پسندوں کا دور شروع ہوا۔ صدر کارٹر نے ایران پر حملہ کیا جس میں امریکا کو ناکامی ہوئی۔ پھر صدر ریگن کے دور میں امریکا نے عراق کے صدام حسین کو ایران کے خلاف تیار کیا اور ایران عراق جنگ شروع کرا دی جس میں دونوں طرف کے دس لاکھ سپاہی لقمہ اجل بنے۔

امریکا اب صدام سے بھی ناراض ہو گیا۔ اور نئی صدی کے آغاز پر پُراسرار ٹوئن ٹاور ٹریجڈی کے بعد امریکا نے عراق پر حملہ کر دیا۔ اس عرصے میں امریکا طالبان اور القاعدہ کو بھی مدد فراہم کر چکا تھا (بعد میں داعش کے قیام میں بھی درپردہ امریکی حمایت شامل تھی)۔ مشرق وسطیٰ میں شعیہ سنی جھگڑے انتہا پر ہیں، جو اب عرب اسرائیل دشمنی سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔

ٹونی بلیئر نے تو معافی نامہ پیش کر دیا لیکن ٹونی بلیئر کو تو صدر بش کا پالتو کتا (Poodle) کہا جاتا تھا، صدر بش آقا تھے اور وزیر اعظم برطانیہ ان کا ’’ملازم‘‘۔ کیا سابق صدر بش بھی معافی مانگیں گے؟ مگر اب تو ایک سعودی شہزادے نے اسرائیل کے بارے میں عجیب و غریب بیان دے دیا ہے اور روس بھی مشرق وسطیٰ کے اکھاڑے میں کود پڑا ہے، لہٰذا شطرنج کا یہ کھیل بے حد پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ خدا خیر کرے۔ پاکستان کو بھی بہت ہوشیاری سے کام لینا پڑے گا، اس کے لیے کہ ہمارا تو مشرقی پڑوسی بھی ایک ’’ گمبھیر سمسیا‘‘ ہے۔

بہتر ہے کہ اس موقع پر چند اور معافیوں کا بھی ذکر ہو جائے۔

اپریل 1919 ء  میں امرتسر میں جلیانوالہ باغ کا سانحہ پیش آیا۔ ظالمانہ رولٹ ایکٹ کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے شہریوں کی ایک کثیر تعداد اس باغ میں جمع ہوئی۔ ہندو مسلم سکھ سب ہی شامل تھے۔ بچے عورتیں اور بوڑھے بھی۔ جنرل ڈائر نے باغ کا واحد گیٹ بند کر کے گورکھا  سپاہیوں کو مجمع پر فائر کرنے کا حکم دیا۔ ہزار کے قریب لوگ مارے گئے۔ پھر حکم آیا کہ سڑک پر پیٹ کے بل چلو۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے سر کا خطاب واپس کر دیا۔   بارہ سال پہلے برطانیہ کے وزیر خارجہ جیک اسٹرا نے اس واقعے پر ہندوستان سے معافی مانگی۔

1938 ء میں برطانیہ کے وزیر اعظم نیویل چیمبر لین نے جرمنی کے ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر کو خوش کرنے کے لیے چیکو سلواکیہ کو بھینٹ چڑھا دیا۔ اس ملک کے مغربی حصے میں کچھ جرمن بھی رہتے تھے۔ لہٰذا وہ علاقہ جرمنی کے حوالے کر دیا گیا اور پھر جرمنی سارے ملک پر قابض ہو گیا۔ بے شمار چیک باشندے مارے گئے۔ پراگ میں ان کی یادگار میں معصوم بچوں کے مجسمے بھی ہیں مگر برطانوی وزیر اعظم تھیچر نے اس غلطی کو تسلیم کیا اور چیکو سلواکیہ سے معافی مانگی۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے بھی معافی مانگی۔

1945ء میں جاپان پر دو جوہری بم گرانے کے بعد امریکا نے طاقت کے نشے میں بدمست ہو کر مشرق و مغرب میں ظلم و ستم کا جو بازار گرم کیا ہے اسے کون فراموش کر سکتا ہے۔ کوریا، انڈوچائنا، انڈونیشیا، مشرق وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی امریکا میں تقریباً ایک کروڑ لوگ قتل کیے گئے اور وہ بھی جمہوریت اور روشن خیالی کے نام پر۔ ویت نام میں امریکا نے جو انسانیت سوز مظالم روا رکھے ان کو یاد کر کے سابق صدر جانسن کے وزیر دفاع رابرٹ مکنامارا نے آنسوؤں کے دریا بہا دیے اور معافی مانگی، جس کا مذاق اڑایا گیا۔

80 سال پہلے جاپان بہت طاقتور تھا اور چین بڑا ہونے کے باوجود بہت کمزور۔ جاپانی فوجوں نے چین پر دھاوا بولا۔ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ پورے ملک کو قحبہ خانہ بنا دیا اور لاکھوں کو قتل کیا مگر قدرت نے پھر انتقام لیا۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان کا سارا کس بل نکل گیا۔ اِدھر کمیونسٹ چین ترقی کر کے بہت مضبوط ہو گیا۔ اب سے چند سال پہلے جاپان نے بھی اپنی زیادتیوں کے لیے چین سے سرکاری طور پر معافی مانگی تھی۔

یہ سب معافیاں تو محض علامتی معافیاں تھیں۔ بے معنی اور بے مصرف۔ لیکن ایک معافی ایسی بھی تھی کہ جس کی کھل کر تعریف کی جا سکتی ہے۔

1940ء میں جرمنی سے بری طرح شکست کھانے کے بعد بھی فرانس کا دماغ درست نہیں ہوا۔ اس نے انڈوچائنا میں ظلم و ستم کا بازار جاری رکھا مگر  1953ء میں اس کو وہاں بھی شکست ہوئی۔ اب شمالی افریقہ کی باری تھی جہاں تیونس، الجزائر اور مراکش اس کے زیر نگیں تھے۔ ان میں سے الجزائر کو جو وسائل سے مالا مال اور سب سے بڑا ہے، فرانس نے اپنے ملک کا حصہ قرار دے دیا تھا اور وہاں فرانسیسی بھی کافی آباد تھے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں فرانس کہہ رہا تھا کہ تیونس اور مراکش تو آزاد ہو جائیں لیکن الجزائر ہمارے پاس ہی رہے گا اس لیے کہ یہ ہمارا ’’اٹوٹ انگ‘‘ ہے۔ الجزائر کے باشندوں نے آزادی کے لیے زبردست قربانیاں دیں۔

فرانس کا ہیرو جنرل شارل دیگال  1958ء میں صدر بنا تو اس نے فوراً ہی الجزیرہ کا دورہ کر کے یہ اعلان کیا۔JE VOUS AI COMPRIS  یعنی ’’میں تمہارے جذبات کو سمجھ چکا ہوں۔‘‘ دیگال نے الجزائر کے باشندوں سے معافی مانگی اور نتیجتاً الجزائر فرانس سے الگ ہو کر آزاد ہو گیا۔

اب آخر میں ذرا قبلِ مسیح چلے جائیں۔ اشوکا موریہ بھارت کا سب سے بڑا سمراٹ تھا۔ سب سے بڑی سلطنت کا مالک اور بہت ظالم۔ کلنگہ کی جنگ میں زبردست خون خرابہ ہوا۔ 3 لاکھ کے قریب لوگ مارے گئے۔ اس تباہی کا مہاراجہ کے دل پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے کلنگہ کے باسیوں سے معافی مانگی، جیتنے کے باوجود تاوان ادا کیا اور بدھ دھرم اختیار کر کے جنگ سے توبہ کر لی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔