ن م راشد کے نام

انتظار حسین  جمعـء 6 نومبر 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

انھیں دنوں ن م راشد کے حوالے سے دو کتابیں آئی ہیں اس مکتبہ فکر کی طرف سے جسے ہم اورینٹل کالج کے نام سے جانتے ہیں۔ ایک کتاب تحسین فراقی کی۔ انھوں نے اپنی پسند اور اپنے حساب سے راشد صاحب کی شاعری سے ایک انتخاب پیش کیا ہے۔ ان کی پسندیدہ نظمیں اور ان کی تشریح و تعبیر۔

دوسری کتاب تحقیق کے خانے میں آتی ہے۔ اس کے مرتب ڈاکٹر محمد فخر الدین نوری ہیں۔ راشد صاحب نے جو اپنے دوستوں اور ہمعصروں کو خطوط لکھے ان کی بانگی ہم اب سے پہلے دیکھ چکے ہیں۔ یہ مجموعہ ان خطوط کا ہے جو راشد کے دوستوں اور ہمعصروں نے وقتاً فوقتاً انھیں لکھے ’مکاتیب بنام راشد‘۔ یہاں نواسی خطوط جمع ہیں جو  چودہ مشاہیر نے راشد صاحب کو لکھے۔

خط لکھنے والوں میں اولاً وہ ہیں جن سے راشد صاحب کے دیرینہ تعلقات چلے آتے تھے جیسے پطرس بخاری‘ غلام عباس‘ آفتاب احمد خان‘ ضیاء محی الدین۔ یہ سرسری خط ہیں۔ کسی نے کسی تقریب سے ایک خط لکھا۔ کسی نے دو۔ مگر قابل توجہ وہ خطوط ہیں جن میں خیر و عافیت کے ساتھ کچھ مسائل بھی زیربحث ہیں۔

ان میں کچھ مسائل قومی نوعیت کے ہیں۔ باقی ادبی مسائل۔ ان میں ایک تو شمس الرحمن فاروقی ہیں جن کے خطوط کی تعداد بیس ہے۔ پھر جمیل جالبی ہیں جن کے چھ خطوط اس مجموعہ میں شامل ہیں۔ شہریار کے تیرہ خط۔ ڈاکٹر مغنی تبسم کے سولہ خط۔ منیر نیازی کے چودہ خط مگر اس سے یہ مت سمجھئے کہ ایک نوخیز شاعر نئی شاعری کے امام سے اپنی عقیدت کا مظاہرہ کر رہا ہے اور ان سے کچھ جاننے سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے یہاں منیر نیازی ایک ناشر کی حیثیت سے شاعر سے جس کا کلام زیر طبع ہے مخاطب ہے۔

پطرس بخاری کا ایک خط ہے۔ نہ بہت مختصر نہ بہت طویل۔ لیکن اس سے راشد صاحب کے متعلق کچھ معلومات اخذ کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً لکھتے ہیں انگریزی شاعروں پر جو کتاب آپ لکھ رہے ہیں وہ ہمت کا کام ہے۔ سوچتا ہوں کہ مضمون اور قاری کے مابین جو فاصلے جا بجا نظر آئیں گے ان کو آپ کیونکر پھاندیں گے۔ لیکن آپ حوصلہ مند ہیں۔ آپ سے کچھ بھی بعید نہیں۔ آج کل اچھے شعر کہیں پائے جاتے ہوں تو ہمیں بھی کچھ بھیج دیجیے۔ دریں زمانہ رفیقے کہ خالی از خلل است‘‘

ضیا محی الدین کی سنئے ’’آپ سے ملاقات ہوئے بہت سا پانی بہہ چکا۔ وطن عزیز کی یاد ابال پہ ہے۔ آگے لکھتے ہیں ’’اور اگر آپ کے پاس مہمانوں رشتہ داروں کا غلغلہ نہیں (جس کا خدشہ ہم ایشیائیوں کو ہمیشہ رہتا ہے) تو ایک آدھ شام گزار کر کہ اس سے طبیعت کو بہت تسکین ہو گی، روح کی پرورش ہو گی کراچی چلا جاؤں گا‘‘۔ آگے لکھتے ہیں ’’جمال عجم کے طلسمات دیکھنے کا وقت نہ ہو گا تو بھی شاید کسی گلرو غزالہ کو دیکھ پائیں۔ آپ ساتھ ہوں گے تو گویا تماشہ گہہ لالہ زار۔ ویسے سنا ہے آج کل تہران میں عروس جواں سال فردا حجابوں میں مستور کم ہوتی ہیں‘‘۔

صفدر میر کیا کہتے ہیں۔ سنئے ’’چند برس ہوئے میں نے انھیں تین شاعروں راشد‘ فیض‘ میرا جی کے بارے میں ایک سلسلہ مضامین مرتب کیا تھا۔ اسی زمانے میں یہ خیال بھی آیا کہ اس موضوع پر مبنی جدید اردو شاعری کے امامین کے بارے میں ایک مستقل تصنیف مرتب کروں۔ مسئلہ کتاب لکھنے کا نہیں تھا‘ کتاب چھپوانے کا تھا۔ اگر وہ امریکی ناشر جس کے بارے میں آپ نے لکھا ہے آپ کے کہنے سے اس کتاب کے لکھنے کا کام مجھ پر ڈال سکتا ہے تو اس سے مجھے نہایت خوشی ہو گی‘‘۔

آفتاب احمد خان لکھتے ہیں ’’مجلس (یاد گار غالب) نے فروری 1949ء میں غالب کی صد سالہ برسی شایان شان طریقے پر منانے کا اہتمام کیا ہے۔ مطبوعات کے ذیل میں ایک خاص کتاب شایع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ’غالب‘ ذاتی تاثرات کے آئینہ میں‘۔ ہر مضمونچے کا موضوع ہو گا کوئی نیا تصور یا احساس‘ کوئی نیا فکری یا جذباتی افق جو غالب کے واسطے سے صاحب مضمون کے لیے منور یا منکشف ہوا۔ میں مجلس یاد گار غالب کی طرف سے آپ کو اس بزم میں شرکت کی دعوت دیتا ہوں‘‘۔

شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں ’’پچھلے دنوں محمود ہاشمی‘ خلیل الرحمن اعظمی‘ شہریار‘ بلراج کومل اور بہت سے لوگ یہاں جمع تھے۔ اکثر آپ کی شاعری کا ذکر چھڑتا رہا۔ آپ کا شعری ارتقا، آہنگ شعر‘ موضوعات سب زیر بحث آئے۔ ہم سب نے تسلیم کیا کہ اپنے بعد آنے والی نسل پر آپ کی شاعری کا جو اثر پڑا ہے وہ دور رس‘ دیرپا‘ اہم اور بظاہر زیر زمین لیکن درحقیقت جاری و ساری ہے۔ ہم سب کو اس بات پر بھی حیرت تھی کہ اس وقت جب آپ کے تمام ہم عصر پرانے سبق دہرا رہے ہیں آپ کی توانائیاں نئی راہوں پر گامزن ہیں‘‘۔

’’ایمان کی بات تو یہ ہے کہ اقبال کے بعد اردو میں صحیح معنوں میں کوئی بڑا شعر پیدا ہوا ہے تو وہ آپ ہیں‘‘۔ شہریار نے مزید لکھا ’’جدید تر نسل کے شعرا میں جو بھی اچھائیاں ہیں وہ آپ کی دین ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ لوگ ان اثرات کا سراغ اب تک نہیں لگا سکے۔ بغاوت اور احتجاج جو اس دور کی شاعری کی نمایاں خصوصیت ہے اس کے لیے آپ کا اسلوب سب سے زیادہ موزوں ہے لیکن بدقسمتی سے کسی کی شخصیت اتنی بڑی نہیں ہے جتنی کہ آپ کی۔ قصیدہ کے فن پر عبور ہوتا تو آپ کی شان میں قصیدہ ضرور لکھتا۔ اور کیا معلوم کسی روز لکھ ہی ڈالوں‘‘۔

جمیل جالبی لکھتے ہیں ’’حالات ایسے ہیں کہ ساری زندگی بے یقینی کا شکار ہو گئی ہے۔ نہ چین ہے اور نہ اعتماد۔ یہ آپ نے ٹھیک کہا 72ء تو ہنستے روتے گزر جائے گا لیکن 73ء سخت دشوار سال ہو گا۔ جی چاہتا  ہے کہ آپ سے پوچھا جائے کہ وہ کون سا راستہ ہے جو ہمیں ان حالات سے نکال سکتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ہمیں مذہب سے زیادہ فلسفہ کی ضرورت ہے۔ ایمان سے زیادہ خرد کی۔ لیکن وہ فلسفہ کیا ہو۔ اس خرد کی کس طرح نشان دہی کی جائے۔ کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے۔ اگر آپ اس پر تفصیل سے روشنی ڈالیں تو میرے لیے باعث طمانیت ہو گا۔

دوسرا خط ’’ابن انشا کے کالم کا تراشہ جس میں اسلام آباد کی ایک شام کا ذکر ہے جہاں بیگم اختر جمال نے ایک ہاتھ کے کٹ جانے کا ذکر کیا تھا۔ یہ بالکل اتفاقی امر ہے کہ آپ کی نظم دایاں بازو میرے پاس محفوظ ہے۔ نہ میں نے یہ نظم کسی کو دکھائی یا سنائی۔ مشرقی پاکستان کا صدمہ ایک عظیم صدمہ تھا۔ یہ اور اس قسم کے تاثرات کا ذکر عام طور پر ہوا ہے۔ آپ کو اس بات نے چونکایا۔ لیکن یہاں یہ ایک عام سی معمولی بات تھی۔ اس حادثہ نے غیر معمولی باتوں کو معمولی باتوں کی سطح پر لا کھڑا کیا ہے۔ آپ نے اپنی نظم میں یہ بات جس انداز سے کہی ہے وہ مختلف ہے‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔