دولت بنانے والی مشینیں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 7 نومبر 2015

آج سے 2600 سال پہلے قدیم یونانی شاعر پنڈرا نے لکھا تھا ’’اپنی ذات کی پہچان کے ذریعے وہی کچھ بنو جو تم ہو‘‘ اس کا مفہو م کچھ یوں ہے کہ آپ ایک خاص قسم کی شکل و شباہت اور رحجانات کے ساتھ پیدا ہوئے ہو جو تمہارے مقدر کی نشان دہی کرتے ہیں، اس مقدر کی تہہ میں صرف اور صرف آپ ہو، اکثر لوگ وہ کچھ کبھی نہیں بن پاتے جو کہ وہ حقیقت میں ہوتے ہیں اسی لیے وہ خود پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور ہمیشہ دوسروں کی مرضی و منشا کے مطابق کام کرتے ہیں، اس طرح وہ اپنے چہرے پر نقاب اوڑھ کر اپنی حقیقت اور فطرت چھپالیتے ہیں۔

1760 میں چار سال کی عمر میں موزارٹ نے اپنے باپ کی ہدایت پر پیانو اپنے ہاتھ میں پکڑا، موزارٹ نے اتنی کم عمری میں پیانو بجانے کے بارے میں اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا، جب کہ اس کی سات سالہ بہن پہلے ہی پیانو سیکھناشروع کرچکی تھی، دراصل جب اس نے یہ دیکھا کہ اس کی بہن کو پیانو بجانے کی وجہ سے والدین کی طرف سے بہت پیار اور محبت ملی ہے تو اپنے ماں باپ کا پیار اور توجہ حاصل کرنے کے لیے اس کے دل میں بھی پیانو سیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔

پریکٹس کے ابتدائی چند مہینوں میں اس کے باپ لیوپولڈ نے جو خود بھی ایک پائے کا پیانو نواز تھا یہ بات محسوس کی کہ اس کا بیٹا موزارٹ غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے، سب سے حیران کن بات اس کی عمر تھی، اسے پیانو کی پریکٹس کا اتنا جنون تھا کہ رات گئے اس کے والدین کو اسے پیانو سے گھسیٹ کر جدا کرنا پڑتا۔ پانچ سال کی عمر سے ہی اس نے اپنی سریں بنانا شروع کردیں۔ موزارٹ نے اپنی مہارت سے درباری سامعین کو مبہوت کرکے رکھ دیا اور یورپ کا ہر شاہی دربار اس بچے کی فنی مہارت اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا خواہش مند بن گیا۔

مگر جوں جوں اس نے بلوغت میں قدم رکھے اس کے اندر ایک نئی ہلچل مچ گئی، وہ سوچتا کہ کیا اس کی خوشی کا سبب پیانو ہے یا لوگوں کی طرف سے ملنے والی توجہ اور پیار۔ وہ الجھاؤ کا شکار ہوگیا، سالہا سال تک موسیقی کی دھنیں ترتیب دیتے دیتے اب وہ اپنی موسیقی تخلیق کرنے لگا تھا جو اس کا اپنا اسٹائل کہلایا، اس کے باپ کی خواہش تھی کہ وہ روایتی موسیقی بجا کر شاہی درباریوں کو محظوظ کرتا رہے جب کہ موزارٹ کی خواہش تھی کہ وہ اپنی دنیا آپ تخلیق کرے۔

اسی وجہ سے وہ ہر گزرتے لمحے خود کو اذیت میں محسوس کرتا۔ 1777 میں اس کے والد نے موزارٹ کو 21 سال کی عمر میں اپنی والدہ کے ہمراہ پیرس جانے کی اجازت دے دی، اسے یہ بھی ہدایت کی کہ وہ وہاں جاکر اپنا میوزیکل گروپ بنانے کی کوشش کرے تاکہ خاندان کی کمائی کا سلسلہ جاری رہے مگر موزارٹ کو پیرس بالکل پسند نہ آیا۔ اسے وہاں جو کام ملا وہ کسی طور پر اس کے مرتبے اور ٹیلنٹ کے مطابق نہ تھا اور وہ سالزبرگ واپس آگیا اور خود کو مکمل طور پر والد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اس نے کورٹ موسیقار کی معمولی نوکری تو قبول کرلی مگر اس کے دل میں ایک کھلبلی سی مچی رہتی۔ اسے لگتا کہ وہ عامیانہ قسم کے لوگوں کو اپنی موسیقی سے خوش کرکے اپنا قیمتی وقت برباد کررہا ہے۔

ایک موقع پر اس نے اپنے باپ کو لکھ بھیجا کہ میں ایک کمپوزر ہوں، خدا نے مجھے موسیقی کے جس ٹیلنٹ سے نوازا ہے میں اسے برباد کرسکتا ہوں نہ مجھے برباد کرنا چاہیے۔

موزارٹ کو ذاتی طور پر نہ تو پیانو کبھی محبوب تھا اور نہ ہی موسیقی، اسے کٹھ پتلی کی طرح دوسروں کے سامنے موسیقی بجانا کبھی اچھا نہیں لگتا تھا، اسے کمپوزنگ سے عشق تھا مگر اس سے بھی کہیں زیادہ تھیٹر اچھا لگتا تھا۔ وہ اوپراز کی کمپوزنگ کرنا چاہتا تھا اور یہ ہی اس کے دل کی آواز تھی۔ 1781 میں ویانا کے دورے کے دوران موزارٹ نے تاریخی فیصلہ کیا کہ وہ کبھی سالزبرگ واپس نہیں جائے گا۔ اس نے اپنے خاندان سے قطع تعلق کرلیا اور پھر وہ دن رات کمپوزنگ میں یوں مصروف ہوگیا گویا اس پر جنات کا سایہ ہو۔ آج پوری دنیا موزارٹ کی پوجا کرتی ہے کیونکہ اس نے اپنے دل کی بات مان لی تھی۔

اصل میں ہم سب بھی موزارٹ ہی ہیں، ہم سب کا بچپن سے جوانی تک کا سفر بڑا کٹھن اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس دوران ہمارے ماں باپ ہم میں اپنے آپ کو تلاش کررہے ہوتے ہیں، ہم میں اپنے آپ کو ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں، وہ دراصل اپنے ادھورے اور کنوارے خوابوں کو ہمارے ذریعے پورا کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں، وہ اپنی تکمیل ہمارے ذریعے سے کرنے کی جستجو میں مصروف ہوتے ہیں، ہم سب بچپن سے نوجوانی تک اپنے آپ کے اور اپنے ماں باپ کے خوابوں کے درمیان پستے رہتے ہیں، اس ساری کشمکش میں ہم خود کہیں گم ہوجاتے ہیں، کھوجاتے ہیں۔

اصل میں ہم رشتوں کو بھی اپنی جاگیر سمجھے بیٹھے ہیں، ایسی جاگیر جہاں کوئی بات ہماری مرضی کے خلاف نہیں ہونی چاہیے اور اپنی مرضی کے چکر میں ہم دوسروں کی مرضی کو گھاس تک نہیں ڈالتے ہیں، بس اپنی مرضی کا ڈنڈا مارتے رہتے ہیں اور پھر ہم ساری زندگی دوسروں کی مرضی کو پورا کرنے میں گزار دیتے ہیں۔

بچپن میں ہم اپنی خواہشوں، اپنی مرضی، اپنے خوابوں سے لاعلم ہوتے ہیں اور یہ سب ہمارے اندر کہیں نہ کہیں چھپے ہوئے ہوتے ہیں، جنھیں ہم محسوس نہیں کرپاتے ہیں اور جب نوجوانی میں وہ خواہشات، آرزوئیں، خواب ایک دم ہمارے اندر سے باہر آکر ہمارے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں تو ہم ڈر جاتے ہیں اور ان سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔

چھپنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ہر بار ہمیں ناکامی سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور اس طرح ہم نہ ہم رہتے ہیں اور نہ ہم کبھی دوسرے بن پاتے ہیں اور اس طرح ہم سب دوغلی اور جھوٹی زندگی گزارتے رہتے ہیں اور ہمارے اندر کا خلا وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہتا ہے اور آخر میں صرف خلا ہی باقی رہ جاتا ہے، کیونکہ ہم دوسروں کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے جس شعبے کا انتخاب کرتے ہیں وہ ہمارے ذہنی رحجانات اور ہمارے خوابوں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے، اس لیے ہماری کاریگری کو دیمک چاٹنا شروع کردیتی ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ آج ہمیں اپنے سماج میں ہر شعبے میں دولت بنانے والی مشینیں تو جابجا نظر آتی ہیں لیکن کہیں بھی انسان نظر نہیں آتے۔ آج ہمیں اپنے سماج کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے یہاں انسانوں کا قحط آگیا ہو، ہماری زمین وہ بنجر زمین بن کر رہ گئی ہے جو انسان نہیں صرف مشینوں کو جنم دے رہی ہے، وہ مشینیں جو ہر احساس، جذبات، فکر، سوچ، خیالات سے خالی ہیں، جن میں کسی قسم کی کوئی حس نہیں، سب کی سب بے حس ہیں، فقط دولت تیار کرنے والی مشینیں ہیں، جنھیں پیار، محبت، سکون، اخوت کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔