اُردو سے اتنی دشمنی اچھی نہیں میاں!

رحمت علی رازی  اتوار 8 نومبر 2015
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

ہم ایسے نجانے کتنے محبانِ اُردو کے دِلوں پر اس وقت کٹاریں چل گئیں جب منگل کے روز چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے حسب سابق اپنی روایتی اُردو دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایوانِ بالا میں ایک بار پھر انگریزی تقریر کا سانپ چھوڑ دیا‘ انھوں نے انگلش کی مہارت جھاڑنے کے لیے مستشرقی انداز کی انگریزی میں چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی کو سینیٹ میں خوش آمدید کہا۔

قاضی القضات کو چیئرمین سینیٹ کی طرف سے ایک غیر رسمی و غیر سرکاری دعوت پر سستے انصاف کی فراہمی اور جسٹس اینڈ لاء ڈویلپمنٹ پر اظہار رائے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے کسی حاضر سروس قاضیٔ اعلیٰ نے ایوانِ بالا میں خطاب کیا ہے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں جو کچھ کہا اس کے لیے آئندہ ہم کسی کالم میں بحث کرینگے تاہم اس اَمر پر ضرور روشنی ڈالیں گے کہ جس ایوان سے قومی زبان اُردو کو سرکاری زبان تصور کرنے کا قانون منظور کیا گیا ۔

اسی ایوان کے چیئرمین نے سپریم کورٹ کے نفاذِ اُردو کے فیصلے کی خاک اڑاتے ہوئے چیف جسٹس کے روبرو اس قانون کی دھجیاں بکھیر دیں اور کاٹھا انگریز بننے کے زعم میں اُردو کی بجائے انگریزی میں تقریر کی۔ ہم چیف جسٹس جناب جسٹس انور ظہیر جمالی کا اس اعتبار سے بیحد شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انھوں نے رضا ربانی کے برعکس شستہ اُردو میں ایوانِ بالا سے خطاب کیا اور خوبصورت ادبی الفاظ اور شاندار لغت کا انتخاب کیا‘ ان کا اُردو کو وسیلۂ تقریر بنانے کا مقصد چیئرمین کو کنایۃً یہ جواب دینا تھا کہ جب سپریم کورٹ نفاذِ اُردو کے حق میں فیصلہ سنا چکی ہے اور تمام حکومتی اداروں کو اُردو ذریعۂ کتابت و خطابت کے لیے احکام صادر کر چکی ہے تو پھر عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کی توہین و تضحیک چہ معنی دارد؟ رضا ربانی یہ توقع کر رہے تھے کہ ان کی بے معنی انگلش گری کے بعد چیف جسٹس بھی لامحالہ طور پر انگریزی میں ہی مخاطب ہونگے مگر ان کی یہ چال کارگر نہ ہوئی۔

جنابِ قاضی محترم اپنی ہی عدالت کے فیصلے کے منافی کیسے جا سکتے تھے‘ ان کے اُردو میں خطاب سے مسٹر ربانی جب کچھ شاداں نہ ہوئے تو انھوں نے سوچی سمجھی تدبیر کے تحت انگریزی زبان میں ایک سوالنامہ لکھ کر چیف جسٹس کے آگے بڑھا دیا جس پر مجبوراً اور بادلِ نحواستہ انہیں انگریزی میں جوابات دینا پڑے۔ چیف جسٹس صاحب کی فی البدیہہ انگریزی بھی چیئرمین کی اسکرپٹ شدہ انگریزی سے بدرجہا اعلیٰ تھی۔ یہ اَمر غور طلب ہے کہ رضا ربانی نے جب سے اٹھارہویں ترمیم متعارف کروائی ہے انہیں اُردو ہضم نہیں ہو رہی اور وہ اس مسکین زبان کے ساتھ اللہ واسطے کا بَیر نبھانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کی ذہنیت وفاق دشمنی کی زبردست عکاس ہے اور وہ اسلام آباد میں بیٹھ کر صوبوں کو آخری حد تک آزاد اور طاقتور بنا دینا چاہتے ہیں۔

جس سندھ کے لیے انھوں نے اٹھارہویں ترمیم کی وفاق دشمن تلوار ڈھا لی ہے وہاں تو محض کراچی کے علاوہ صوبہ بھر میں اُردو کی کہیں دال نہیں گلتی اور پنجابی و دیگر زبانیں بولنے والوں کو سندھ مخالف اور بدیشی تصور کیا جاتا ہے۔ قوم پرستی کی چھتر چھایا میں وہاں لسانی تعصب کا یہ عالم ہے کہ علامہ اقبالؒ جیسے قومی شاعر کو تدریسی نصاب سے خارج کرنے کا ایجنڈا زوروں پر ہے، قوم پرستوں کی وفاق سے مخاصمت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ بدین اور گلارچی کے درمیانی نواحی قصبوں کے بعض پرائمری اور مڈل اسکولوں میں پاکستان کا جھنڈا نہیں لہرایا جاتا اور قومی ترانہ نہیں پڑھا جاتا۔ سندھ کی قومی اور سرکاری زبان سندھی ہے۔ تدریسی اداروں‘ سرکاری محکموں‘ تھانوں اور کچہریوں میں تمام لکھت پڑھت سندھی میں ہوتی ہے۔

اگر آپکا تعلق کراچی شہر یا کسی دیگر صوبہ سے ہے تو اندرون سندھ آپ کو پولیس یا عدالت سے سامنا کرتے ہوئے خاصی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ تھانوں میں ایف آئی آر اور عدالتوں کی کارروائی سب سندھی میں ہوتی ہے‘ اس پر مستزاد کہ پولیس ‘ جیل اور عدالت کا عملہ وغیرہ کسی غیر سندھی مدعی کے تقابل میں سندھی ملزم کو زیادہ سپورٹ کرتا ہے۔ اسی سے ملتی جلتی جھلک خیبرپختونخوا میں بھی نظر آتی ہے اور اب کشمیریوں اور سرائیکیوں میں بھی یہ بیماری ایک متعدی وباء کی طرح پھیل رہی ہے جب کہ بلوچستان میں اس کے اثرات نسبتاً کم ہو رہے ہیں۔ قوم پرستی اب صوبہ پرستی پر اُتر آئی ہے جسے پیپلزپارٹی کے نام نہاد سیاسی اداکاروں نے اٹھارہویں ترمیم کی توپ تھما دی ہے۔

اس ترمیم کے تناظر میں ہم قبل ازیں بھی ایک کالم رقم کر چکے ہیں جس میں بیان کردہ ہمارا تجزیہ مستقبل قریب میں اَولوں کی خوراک کی مانند متوقع نتائج سے کہیں زیادہ گہرا اثر ظاہر کریگا‘ اس کا لب لباب یہی ہے کہ یہ ترمیم ملکی سلامتی کے لیے عام سوچ سے زیادہ مضر ثابت ہو گی۔ یہی وہ ترمیمی آئین ہے جسکا تن ڈھانپ کر اسے باغی دُلہا بنانے اور پاکستان کی قومی زبان کے دست و بازو کاٹنے کے لیے ایک خاص سیاسی گروہ میدانِ عمل میں برقی چھلانگیں لگا رہا ہے۔

اس پس منظر میں اب ہمیں شدت سے یاد آتا ہے کہ ون یونٹ کی کیا اہمیت تھی۔ رضا ربانی ذوالفقار علی بھٹو کے مقلد‘ آصف زرداری کے ہمرکاب اور خود کو اینٹی فیڈریشن موومنٹ کا ہیرو تصور کرتے ہیں۔ یہ چیف جسٹس صاحب کی نیک نیتی اور شفاف دِلی ہے کہ وہ بلا قیاس و تامل چیئرمین سینیٹ کی دعوت پر آ کر خطاب فرما گئے‘ سیاسی و صحافتی حلقوں میں اس روایت کو ایک مثبت پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے‘ اس اقدام سے تمام سرکاری اداروں کو باہمی میل جول اور شانہ بشانہ کام کرنے کے مواقع میسر آئینگے حالانکہ اس سے پہلے یہ بات ریکارڈ پر ہے جب افتخار چوہدری نے لاہور میں ریٹرننگ افسران کے وفد سے خطاب کیا تھا تو سیاسی پارٹیوں‘ قانونی حلقوں اور سول سوسائٹی کی طرف سے زبردست ردعمل آیا تھا اور انہیں اپنے اختیارات و حدود سے تجاوز کرنے کے ضمن میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ رضا ربانی کی جو بھی کن کوشی ہے۔

وہ اہل عقل و بینا خوب جانتے ہیں مگر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی درویش صفت‘ سادہ لوح‘ فرض شناس اور عدلِ محمدی پر یقین رکھنے والے بے لوث اور عوام دوست انسان ہیں اور سب سے بڑھ کر وہ پاکستان کی سلامتی کے امین و ضامن ہیں۔ انھوں نے سینیٹ سے اپنے خطاب میں جن آراء کا اظہار کیا ان کا ایک ایک لفظ موتیوں کی مالا تھا اور اس روایت نے ادب و قانون کا ایک نیا دبستان کھول دیا ہے۔ ہمیں دُکھ ہے تو صرف اس بات کا کہ ان کے حلقۂ نظر کے درمیان انگریزی میں تقریر کے ذریعے ان ہی کے پیشرو سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے نفاذِ اُردو کے فیصلے کو تار تار کیا گیا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قاضیِ معظم سینیٹ کانفرنس کے چلتے چیئرمین سینیٹ پر بر موقع توہین عدالت عائد کر کے وہیں کے وہیں سزا بھی سنا دیتے، اس سے بلاشبہ ان کا نام تاریخ میں جلی حروف میں رقم ہو جاتا‘ بہ ایں ہمہ اینٹی فیڈریشن موومنٹ اور انگریزی کنگڈم کے حامیوں کے منہ بھی بند ہو جاتے اور اُردو مخالف تحریک کے بانیوں کو ریختہ سے محبت کا پیغام بھی پہنچ جاتا۔ اُردو کو لاوارث سمجھنے والوں کو اس حقیقت کا اِدراک نہیں کہ یہ محض قومی زبان ہی نہیں‘ بین الصوبائی رابطے کا ذریعہ بھی ہے اور یہ واحد زبان ہے جو سارک کے ساتوں ممالک میں مواصلاتی ضرورت کے تحت اپنا وجود رکھتی ہے‘ انڈیا اور پاکستان میں اسے ہندی اور اُردو کا نام دیا جاتا ہے مگر یہ دونوں زبانیں معمولی فرق کے ساتھ دراصل ایک ہی زبان ہیں۔

ان میں بنیادی فرق صرف لغت کا ہے جب کہ گرائمر ایک ہی ہے‘ ہندی اُردو میں زمین آسمان یا ہندو مسلمان کا فاصلہ صرف ان کے رسم الخط کی وجہ سے نظر آتا ہے۔ قائداعظمؒ کو اُردو بہت پسند تھی‘ انھوں نے اسے ہندی مسلمانوں کی زبان قرار دیا اور قیام پاکستان کے بعد بھی اس کی بھرپور حمایت کی مگر پاکستان کی افسر شاہی نے اُردو کی شدید مخالفت کی اور اسے سرکاری زبان کا درجہ دیے جانے میں حتیٰ المقدور سدِراہ بنے۔

1973ء کے آئین میں واضح لکھا ہے کہ نفاذِ آئین کے عین 15 سال بعد اُردو کو سرکاری زبان بنایا جائے گا‘ اس شمار سے تو اسے 1988ء میں سرکاری زبان کا درجہ مل جانا چاہیے تھا مگر بیوروکریسی کے رحم و کرم پر چلنے والی غیر متوقع حکومتوں نے اپنا اُلو سیدھا رکھنے کے لیے اُردو کی بجائے انگریزی کی حمایت کر کے اس پنگے میں نہ پڑنے میں ہی عافیت جانی۔ بالآخر یہ بِیڑا سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ ہی کو اٹھانا پڑا‘ اس کا عملی مظاہرہ انھوں نے اپنا حلف اُردو میں اٹھا کر اور اپنے فیصلے اُردو میں لکھ کر کیا۔

پاکستان کی عدالتی تاریخ میں وہ مختصر ترین عرصہ کے لیے چیف جسٹس کے عہدہ پر فائز رہے‘ وہ 24 دنوں کے لیے آئے اور اس دوران ان کا سب سے بڑا اور قابل قدر کارنامہ نفاذِ اُردو کا فیصلہ ہے۔ ان کا یہ تاریخی فیصلہ کسی ازخود نوٹس کے ذریعہ سے نہیں بلکہ ایک ایسی لاوارث درخواست پر آیا جو کسی اُردو پریمی نے عرصہ دراز سے سپریم کورٹ میں دائر کر رکھی تھی اور سالہا سال سے التواء میں تھی۔ دیکھا جائے تو ذوالفقار علی بھٹو بھی اُردو کو سرکاری زبان بنانے میں مخلص نہیں تھے۔

ایک طرف تو ان کا ملغوبہ آئین صوبائی خودمختاری کی حمایت کرتا ہے تو دوسری طرف اس میں یہ درج ہے کہ اُردو کو 15 سال بعد سرکاری زبان کا درجہ ملے گا‘ اگر وہ چاہتے تو نفاذِ آئین کے ساتھ ہی اُردو کو بھی سرکاری زبان کے طور پر نافذ کر سکتے تھے مگر ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ آخرکار یہ سہرا جواد ایس خواجہ کے سر ہی سجا اور انھوں نے 8 ستمبر 2015ء کو 68 سال سے ملک پر مسلط انگریز کے نظام پر کاری ضرب لگائی اور اس مسئلے کو حل کر کے دکھا دیا۔

انھوں نے اُردو کا فیصلہ اُردو میں لکھا اور تمام ملکی اداروں اور اربابِ بست و کشاد کو حکم دیا کہ اُردو زبان کو تین ماہ کے اندر اندر سرکاری اداروں میں نافذالعمل بنایا جائے۔ اس سلسلے میں سکیورٹیز ایکسچینج کمیشن پاکستان کو باقاعدہ ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ اُردو کو ابلاغ کا ذریعہ بنانے کے لیے فی الفور کام شروع کر دے۔

سپریم کورٹ کے اس حکم کی تعمیل میں ایس ای سی پی نے انگریزی زبان کی جگہ اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیے جانے کے بعد سرکاری اداروں میں اُردو وسیلۂ ابلاغ کے لیے اہم قوانین اور قواعد و ضوابط کا اُردو میں ترجمہ کرنے کی غرض سے ایک دارالترجمہ بھی قائم کیا، سرکاری اجلاسوں اور کانفرنسوں میں اُردو کو ذریعۂ ابلاغ بنانے کی ہدایت بھی جاری کی اور تمام سرکاری اداروں کو دیگر اداروں سے اُردو میں خط و کتابت کرنے کے لیے بھی زور دیا مگر کمیشن کی ہدایات کو کسی نے درخورِاعتنا نہ سمجھا۔ کمیشن نے ترویجِ اُردو پر عملدرآمد کی رپورٹ تین ماہ بعد عدالت میں پیش کرنا تھی اور آج ٹھیک تین ماہ ہو چکے ہیں اور کسی سرکاری ادارے نے ہنوز اردو کو منہ تک نہیں لگایا‘ ذرائع کے مطابق سکیورٹیز ایکسچینج کمیشن کا قائم کردہ دارالترجمہ بے پناہ اخراجات کے بعد مقفل پڑا ہے اور کمیشن کے کرتا دھرتا اس سوچ میں غرق ہیں کہ اب عدالت عظمیٰ میں جو رپورٹ پیش کی جائے اس میں کیا کیا بہانے تراشے جائیں۔

نفاذِ اُردو کے فیصلہ کے مطابق حکومتی اکابرین پر واجب آتا تھا کہ وہ درون و بیرون ملک انگریزی کی بجائے اُردو میں خطاب کریں مگر اس کی سب سے پہلی خلاف ورزی چیئرمین سینیٹ نے کی جنھوں نے اس کورٹ آرڈر کے فوراً بعد ایوانِ بالا کی ساری کارروائی انگریزی میں پڑھی۔ اس کے بعد وزیر اعظم نواز شریف بھی ان کے پیروؤں میں شامل ہو گئے اور اُوفا سے لے کر واشنگٹن تک اپنے تمام غیر ملکی دوروں میں انھوں نے انگلش میں خطابات کیے۔

اس پیشرفت کو دیکھ کر سرکاری افسران بھی اپنے ارادوں سے پھر گئے اور جن جن محکموں میں اُردو کا جس حد تک اہتمام زیربار تھا، وہیں کا وہیں ٹھپ ہو کر رہ گیا حالانکہ سرکاری سطح پر اُردو رائج کرنے کے احکامات کے بعد اعلیٰ سرکاری افسروں نے انگریزی ڈکشنریاں طاق پر رکھ دی تھیں‘ دفتروں اور گھروں میں ایک محنتی طالبعلم کی طرح اُردو لغت کا مطالعہ شروع کر دیا تھا اور پرانی اُردو سمریوں کو انگریزی میں ترجمہ کر کے ساتھی افسران کو سنا سنا کر مزہ لینے لگے تھے جب کہ متعدد ڈویژنوں اور وزارتوں نے اُردو کے لیے پروگرامر کی خدمات حاصل کرنے کی نیت سے ڈرافٹ بھی تیار کر لیا تھا۔

یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ وفاقی اور صوبائی افسران نے اپنے دفاتر کے باہر نام کی تختیوں اور شاہراہوں پر نصب منصبی بورڈز کی اُردو میں تبدیلی کے لیے سرکاری خزانے کے عمومی اخراجات کو پرنٹنگ اور اسٹیشنری کی مدمیں خرچ کرنا شروع کر دیا تھا‘ کچھ اداروں نے ابتدائی مرحلہ میں گریڈ ایک سے 4 کے ملازمین کو تمام مراسلت اُردو زبان میں کرنے کا پابند بنایا تا کہ انہیں سمجھنے اور لکھنے میں آسانی ہو‘ اسی طرح ان کی رخصت کی درخواست بھی اُردو میں بھجوانا لازمی قرار دیا تھا۔

تاہم یہ اَمر قابل توجہ ہے کہ تاحال آنکہ 76 وزارتوں‘ ڈویژنوں اور نیم سرکاری اداروں میں سے 50 سے زائد اداروں نے مقتدرہ قومی زبان سے اُردو رائج کرنے کے لیے تجاویز لینا تو کُجا‘ رابطہ تک کرنا بھی صرف اسلیے گوارا نہ کیا کہ جب چیئرمین سینیٹ اور وزیر اعظم پاکستان عدالتی فیصلے پر عملدرآمد سے منکر ہیں تو دریں حالات انہیں کیا افتاد آن پڑی ہے کہ وہ اپنا بنا بنایا نظام ایک نئے نسخۂ کیمیا کی نذر کر دیں۔ ہم نے جو محسوس کیا اس سے یہی اندازہ لگایا کہ بیوروکریسی کے زیادہ تر افسران اُردو کی لغت‘ سائنسی ڈکشن‘ ٹیکنالوجی کی اصطلاحات اور نئے علوم کے غیر معروف الفاظ کو اپنی تحریروں میں ایڈجسٹ نہ کر پانے سے سخت پریشان تھے‘ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مقتدرہ قومی زبان میں ادبی‘ تخلیقی اور جدید سوچ کے حامل افراد نہ ہونے کی وجہ سے یہ ادارہ خارجی زبانوں بطور خاص انگریزی کی تکنیکی اصطلاحوں کا اُردو میں مناسب ترجمہ کرنے میں یکسر ناکام رہا ہے۔

اس نے اب تک جن سائنسی و تکنیکی اصطلاحوں کے تراجم کیے ہیں انہیں پڑھ کر ہنسی بھی آتی ہے اور دل بھی کڑھتا ہے‘ اس کی ایک زندہ مثال کسی زمانے کی پرائمری سائنس کی ایک ٹرم ’’اوس موسس‘‘ ہے جسکا ترجمہ ’’کششِ انابیت اشعری‘‘ کیا گیا۔ ایک سادہ سی انگریزی اصطلاح کی جگہ اُردو کے تین غیر مانوس الفاظ کی ترکیب لکھنے اور پڑھنے میں کیا تاثر پیدا کرتی ہے، اس کا اندازہ آپ کو بخوبی ہو گیا ہو گا۔ اسی طرح حیدر آباد دکن کے ایک معلم نے پوسٹ آفس کا ترجمہ دفتر نامہ اور دفتر مکتوب کیا تھا مگر بعد میں بابائے اُردو مولوی عبدالحق نے اسے انگریزی فارسی کے اختلاط سے ڈاکخانہ بنا دیا۔

انگریزی کی ایک اور اصطلاح ہے ’’پوسٹ باکس‘‘، ہندی والوں نے اس کا ترجمہ ’’پترگھسیڑو‘‘ کیا ہے جب کہ قدمائے اُردو نے اسے ’’صندوقچۂ خطوط‘‘ کے بجائے پوسٹ باکس لکھنا زیادہ مناسب جانا۔ فارسی زبان دانوں نے بھی اس کا ترجمہ کرنے کی بجائے اسے ’’پوسٹ بکس‘‘ لکھنے پر اکتفا کیا۔ ہماری نئی نسل کی اُردو اس قدر کمزور ہے کہ وہ قومی زبان میں ایک سادہ سی درخواست تک لکھنے سے عاری ہے‘ بڑی بڑی اسناد کے حامل انگریزی زدہ اور بیزارِ اُردو فرقہ کا یہ حال ہے کہ وہ ٹوٹی پھوٹی اُردو میں چند سطور بحالت مجبوری لکھ بھی لے تو ان میں بھی آدھے الفاظ انگریزی کے ہوتے ہیں جو وہ انگریزی ہی میں تحریر کرتا ہے اور بولتے وقت تو اُردوئے معلیٰ کو اور بھی چتکبرا بنا دیتا ہے۔

شروع شروع میں ایسی بے ضابطہ زبان کو گلابی اُردو کہا جاتا تھا مگر اب اس کا حلیہ اس قدر بگڑ چکا ہے کہ اسے قلمی اُردو بلکہ سرقلمی اُردو کا نام دیا جائے تو یہ زیادہ موزوں ہو گا‘ یہ سب اُردو سے نفرت کا نتیجہ ہے۔ فکری طور پر ہم اس درجہ پست ہو چکے ہیں کہ ہر کوئی بڑا آدمی بننے اور نوکری کے حصول کے لیے انگریزی کو واحد ذریعہ مانتا ہے۔ جس اُردو نے پاکستان بنانے میں مہمیز کا کام کیا تھا آج وہ اتنی لاوارث ہو چکی ہے کہ پاکستان کے حکمران بھی اس کی سرپرستی سے پہلو واگزار کیے ہوئے ہیں۔ اُردو کے واحد وارث اب فقط ادباء و شعراء ہی رہ گئے ہیں‘ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ بھی فکر معاش میں اُلجھ کر اُردو کے اس طفلِ بے سروساماں کو محض دلاسہ ہی دے سکتے ہیں۔

اُردو کے سرکاری زبان نہ بننے کی وجہ سے قومی رابطے کی زبان میں بین الاقوامی سطح پر ہم اس قدر دیوالیہ ہو چکے ہیں کہ انٹرنیٹ پر نہ تو ہماری کوئی لغت موجود ہے نہ ہی اُردو کے مطلوبہ سوفٹ وئیرز دستیاب ہیں‘ جو آدھے ادھورے اور ناقص لینگویج پیک ہاتھ لگتے ہیں ان کی اُردو قابلِ استعمال نہیں۔ دولت مشترکہ کے ممالک کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک کے کمپیوٹرز اپنی اپنی زبان بول رہے ہیں۔ اس معاملہ میں تو ایران جیسا ملک جسکا رابطہ انٹرنیٹ آنے سے قبل کا پوری دنیا سے کٹا ہوا ہے اس کے کمپیوٹرز تو کیا ہمہ نوع کمیونیکیشن سسٹم 25 سالوں سے فارسی زبان میں جدید دنیا کا مقابلہ کر رہا ہے۔ چین اور بھارت کی کیا بات کریں، ہم سے تو تھائی لینڈ اور اسرائیل جیسے چھوٹے ممالک بھی انٹرنیٹ پر سبقت لے گئے ہیں۔ مقتدرہ قومی زبان کی مجرمانہ غفلت اور پیشہ ورانہ نالائقی پر آنسو بہانے کو جی چاہتا ہے کہ نیٹ پر انھوں نے جو انگریزی اُردو لغت ڈالی ہوئی ہے وہ بھی عرصہ دراز سے ناقابل استعمال ہے۔

اُردو کے انسائیکلوپیڈیا اور دیگر مواد کے لیے ہم اختیاری طور پر انڈیا کے طفیلیے بننے پر مجبور ہیں۔ ہندوستان نے اپنی دیگر علاقائی زبانوں کی معیت میں اُردو کو بھی ایک علاقائی زبان کے طور پر انٹرنیٹ کی زبان بنایا ہوا ہے اور اس کا انڈین اُردو بورڈ ہی پاکستان کے انٹرنیٹ متلاشیوں کی تشنگی دو چار فیصد بجھا رہا ہے جو ہمارے حکمرانوں کے لیے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ مقتدرہ قومی والے عالیشان دفتروں میں بیٹھ کر سارا دن گپیں ہانکتے ہیں جن کے عوض وہ لمبی چوڑی تنخواہوں اور مراعات سے لطف اندوز ہوتے ہیں‘ عملاً ان کا حال بھی اکادمی ادبیات کے بیوروکریٹ ادیبوں سے قطعی مختلف نہیں ہے۔

نفاذِ اُردو کے احکامات کے بعد انھوں نے ملک پر اتنا احسان ضرور کیا ہے کہ 76 وزارتوں اور ڈویژنوں کے چند اداروں کو یہ بتا دیا ہے کہ سیکشن افسر کو صیغہ افسر، ڈپٹی سیکریٹری کو نائب معتمد، جوائنٹ سیکریٹری کو مشترکہ معتمد، ایڈیشنل سیکریٹری کو اضافی معتمد اور سیکریٹری کو معتمد لکھا جائے گا اور بالفرضِ محال اگر ضرورت پڑی تو وہ اس طرح کے کچھ اور عہدوں کا ترجمہ بھی بازار سے کروا کر دے سکتے ہیں۔

ہمیں کامل یقین ہے کہ اب کسی وزارت یا محکمہ کو مقتدرہ قومی زبان کی مزید خدمات کی حاجت پیش نہیں آئیگی کیونکہ نفاذِ اردو کا حکم دینے والے جج صاحب تو ریٹائر ہو چکے‘ اگر وہ بدستور اپنے عہدے پر قائم ہوتے تو بلاشبہ وہ اس کے نفاذ تک چین سے بیٹھنے والے نہیں تھے۔ ان کے ہوتے سکیورٹیز ایکسچینج کمیشن اور مقتدرہ قومی زبان کی حاضریاں بھی سپریم کورٹ میں یقینی تھیں۔ جواد ایس خواجہ صاحب اُردو زبان و ادب کا بے پایاں شغف رکھتے ہیں اور اُردو کی لغت اور گرامر کی معلومات سے بھی مالامال ہیں۔ اُردو کو معاشرے میں ہر سطح پر لاگو کرنے میں ان کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ریٹائر ہونے کے بعد بھی اپنے حلقۂ احباب سے نفاذِ اُردو کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔

گزشتہ ماہ ’’قومی زبان تحریک‘‘ کے ایک عہدیدار سید عارف مصطفی نے فون کر کے جب انہیں ’’محسن اُردو‘‘ کا خطاب اور اُردو کا اعزاز و تمغہ وصول کرنے کے لیے کراچی آنے کی دعوت دی تو انھوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ وہ ابھی عوامی مجالس میں شرکت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ باتوں باتوں میں اُردو کے حوالے سے بات چلی تو محترم خواجہ صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ قومی زبان تحریک کو اپنے وفود اہم قومی اور تعلیمی اداروں میں بھیجنے چاہییں جو وہاں کے اربابِ حل و عقد کو اُردو میں اُمور کی بتدریج انجام دہی کی ترغیب دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب صرف کام ہونا چاہیے اور اسے عملی طور پر نفاذِ اُردو کی صورت میں ہوتا نظر آنا چاہیے۔ جسٹس خواجہ کو اس بات کا بھی بخوبی علم و اندازہ تھا کہ سرکاری افسران انگلش کی تکنیکی اصطلاحات کے اُردو میں موزوں متبادل نہ ہونے کی وجہ سے مخمصے کا شکار ہیں۔

اس کا حل انھوں نے یہ پیش کیا کہ ’’انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں کے وہ اصطلاحات و الفاظ جو ہمارے ہاں عام طور پر مستعمل ہیں اور اس لشکری زبان کا بخوبی جزو بن چکے ہیں انہیں اور ان کے ساتھ سائنسی اور فنی تعلیم میں بھی کچھ عرصہ تک مشکل اصطلاحات کو جوں کا توں لکھ کر ان کے ساتھ ان کا اُردو ترجمہ درج کیا جانا زیادہ مناسب ہے‘ رفتہ رفتہ یہ ترجمہ عوام کی یادداشت میں جگہ بنالے گا اور مشکل اصطلاحیں ازخود معدوم ہوتی جائینگی‘ اُردو میں قانونی و فنی علم سے متعلق تراجم کی رفتار کو بڑھانے کی اشد ضرورت ہے اور اس سلسلہ میں متعلقہ قومی اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنی رفتار میں تیزی لائیں۔

ابھی حال ہی میں آکسفورڈ ڈکشنری نے سیلفی (سیل فون سے از خود اپنی تصویر لینا) کو انگریزی میں ایک باقاعدہ لفظ کے طور پر داخل کر لیا ہے اور یہ لفظ چونکہ اب اُردو میں بھی بکثرت استعمال ہوتا ہے چنانچہ اسے انگریزی کے ساتھ ساتھ اب اُردو لفظ کے طور پر بھی برتنا چاہیے نیز اسی نوعیت کے دیگر الفاظ کو بھی اُردو لغت کا حصہ بنانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کے علاوہ میڈیا کو بھی اب عوام کی زبان بولنی چاہیے اور جابہ جا انگریزی کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے‘ سرکاری سطح پر بھی اُردو کے نفاذ کو یقینی بنانے کی فوری ضرورت ہے اور اس ضمن میں ٹال مٹول کرنا عدالتی حکم نامے کی پامالی کے مترادف ہو گا‘۔

اب سوال یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے تو حکم صادر کر دیا اور اس حکم کے امین ریٹائرڈ جسٹس نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنے فیصلے پر اقامتِ رائے کا اظہار کیا مگر اس حکم کی تعمیل کرنا اور کرانا تو حکومتی فریضہ ہے وگرنہ واقعی یہ عدالتی حکم نامے کی توہین ہو گی۔ ہماری رائے میں اس مقدس فریضے کو عملی قالب میں ڈھالنے کے لیے اُردو زبان کے کمیشن کو مستعد کیا جائے کہ وہ اولین فرصت میں ایک فعال دارلترجمہ کی بنیاد ڈالے جس میں ملکی اور عالمی سطح کے اُردو کے ایسے معلمین‘ پروفیسرز‘ ادیب اور مترجمین متعین کیے جائیں جن کی اُردو اور انگریزی پر مساوی دسترس ہو اور اس کام کا آغاز جدید علم و ادب کے اُردو ترجمے سے کیا جائے، بصورتِ دیگر تین ماہ سے جو حکومتی غفلت پہلے سے موجود ہے۔

اس میں مزید اضافہ ہوا تو اُردو کے نفاذ کو ناممکن قرار دینے والی مافیا اسے مزید ناممکن بنانے پر کمربستہ ہو جائے گی‘ یہی وہ مافیا ہے جسکے کالے انگریزوں نے 68 سالوں سے پاکستان کے 98 فیصد عوام کو انگریزی کے ڈنڈے سے یرغمال بنایا ہوا ہے اور ملک کو اگر کوئی خطرہ ہے تو ان ہی کالے چوروں سے ہے جو خود کو اشرافیہ کا نام دیتے ہیں اور ملکی مشینری پر بھی قابض ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ چیف جسٹس صاحب سپریم کورٹ کے نفاذِ اُردو کے فیصلے کو خود مانیٹر کریں اور اپنی نگرانی میں اُردو کو سرکاری زبان کے طور پر تمام اداروں میں رائج کروائیں‘ بہ ایں ہمہ ایف پی ایس سی کو پابند بنائیں کہ وہ سی ایس ایس کے امتحانات اُردو میں منعقد کروائے تا کہ اہل غریب امیدواروں کو بھی سول سروس کا حصہ بننے کا موقع مل سکے۔ آخر میں اُردو کے مخالفین کے لیے عرض ہے:

اُردو سے اتنی دشمنی اچھی نہیں میاں
یہ قوم کی زبان ہے کچھ تو خیال کر
حاصل ہے ریختہ کو جو مقام و مرتبہ
انگلش کی کب وہ شان ہے کچھ تو خیال کر

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔