ہندو لڑکیوں کی جبری شادی

رئیس فاطمہ  اتوار 8 نومبر 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

گزشتہ کالم ’’پاک بھارت، دو پڑوسی یا دو دشمن‘‘ کے حوالے سے جو ای میل میرے پاس آئی ہیں۔ ان میں اکثریت نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ دونوں طرف کے مذہبی انتہا پسند عناصر کو ’’بوجوہ‘‘ امن پالیسی پسند نہیں۔ لوگوں نے برملا ان اداروں کے نام لے کر نشان دہی کی ہے کہ ’’جب ہم جانتے ہیں کہ یہ کون سی قوتیں ہیں، تو برملا نام کیوں نہیں لکھا؟‘‘ اور بھی بہت سے سوال و جواب اٹھتے ہیں۔ جنھیں ہمیشہ مصلحت کی چادر یا نقابوں میں لپیٹ کر رکھ دیا جاتا ہے۔ ایک عذاب ہم سب قلمکاروں پہ یہ بھی ہے کہ ہم باوجود سچ جاننے کے دودھ اور پانی کو الگ الگ کر کے نہیں دکھا سکتے۔ لیکن آزاد میڈیا کا اتنا احسان ایک عام آدمی پہ یہ ضرور ہے کہ باوجود اس کے کہ:

صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

کے مصداق حقیقت کو پا ہی لیتے ہیں۔ اہل درد اب ’’پزل‘‘ سلجھانے کے ماہر ہو چکے ہیں۔ قارئین سے یہی گزارش ہے کہ جو دکھایا اور سنایا جا رہا ہے صرف وہی سچ نہیں ہے۔ سچ تو دھندلکوں میں چھپا ہوتا ہے۔ اہل دانش اس کو باآسانی پہچان لیتے ہیں۔

ان ہی ای میل میں ہندوستان کے شہر بنگلور کی ایک خاتون مسز سعید نے ایک خبر کی طرف توجہ دلائی۔ ان کی بات میں وزن تو تھا ہی۔ لیکن اتفاق سے 29 اکتوبر کے ایکسپریس میں شایع شدہ ایک سہ کالمی سرخی کے ساتھ لگی خبر نے مجھے اور بھی بے چین کر دیا۔ مسز سعید کا کہنا ہے کہ ’’وہاں آپ ’’را‘‘ کے ایجنٹ ہیں اور یہاں ہم ’’آئی ایس آئی‘‘ کے۔ صرف ہمیں پر یہ الزام کیوں لگتا ہے اور اگر یہی سب ہونا تھا تو پاکستان بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ تقسیم نے ہماری اجتماعی قوت توڑ دی۔

آپ لوگ بنگلہ دیش بننے کے بعد مزید اقلیت میں ہو گئے۔ جب کہ یہاں مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اگر تقسیم ہوئی تھی تو تمام مسلمانوں کو محمد علی جناح پاکستان بلا لیتے۔ لیکن شاید زمینی حقائق کچھ اور تھے اور جغرافیائی لحاظ سے آپ کا علاقہ تمام ہندوستانی مسلمانوں کے لیے کافی نہیں تھا۔‘‘

انھوں نے لکھا تو بہت کچھ ہے جس میں پوری سچائی تمام تر ہولناکیوں کے ساتھ موجود ہے۔ جسے یہاں نقل نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن 29 اکتوبر کی ایک دردناک خبر ضرور ان کے موقف کی تائید کرتی ہے۔

ایکسپریس کی اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ ’’سندھ میں 36 ہندو لڑکیوں کی زبردستی شادی و مذہب کی تبدیلی پر رپورٹ طلب کر لی گئی۔‘‘ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اقلیتی فرقوں کی لڑکیوں کو کچھ طاقتور لوگ مذہب تبدیل کرنے اور زبردستی مسلمان کر کے ان سے شادی کر کے نہ صرف مذہب اسلام بلکہ مملکت پاکستان کو بھی بدنام کر رہے ہیں۔

سپریم کورٹ میں درخواست آئی ہے کہ ہندو برادری کی لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کر کے ان کی شادی کر دی جاتی ہے اور پولیس شکایت بھی درج نہیں کرتی۔ صرف دو ماہ میں 36 سے زائد واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ لیکن پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اور حکومت کو تو کچھ پتہ ہی نہیں کہ کہاں کیا ہو رہا ہے۔

مسز سعید کی ای میل میں ایک بات نہایت قابل توجہ ہے وہ یہ کہ اگر یہی صورت حال بھارت میں مسلمان لڑکیوں کے ساتھ ہو، جو کہ اب تک تو نہیں ہوئی ہے۔ تب پاکستان کی مذہبی جماعتیں کیا کریں گی؟ کیا صرف انڈین لیڈروں کے پتلے نذر آتش کر کے انھیں اپنا مقصد حاصل ہو جائے گا، جیسا کہ وہ پہلے بھی کرتے رہے ہیں؟

یہ بات سچ ہے کہ پاکستان میں جو ناروا سلوک مختلف بنیادوں پر، ہندو اور کرسچن کمیونٹی پر روا رکھا جا رہا ہے۔ اس کا خمیازہ بھارت اور امریکا میں دونوں جگہ مسلمانوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

پاکستان میں ایسے بہروپیے موجود ہیں جو اپنے ظاہری حلیے سے تو مسلمان لگتے ہیں لیکن اندر سے یہ وہ ہیں جو منی لانڈرنگ، ڈرگ اسمگلنگ سے لے کر جعلی دواؤں تک کے کاروبار میں ملوث ہیں۔ بہت سے ’’قاضی الحاجات‘‘ بنے ٹیلی ویژن پہ بھی جلوہ گر ہیں اور جب پکڑے جاتے ہیں تو ان کے پیچھے کھڑے ان کے ’’والی وارث‘‘ کوئی نہ کوئی نکتہ نکال کر ان کے ناجائز کام کو جائز بھی بنا دیتے ہیں۔

بہرحال سوچنے کی بات یہ ہے کہ اندرون سندھ میں خاص طور پر شکارپور کے ہندو سیٹھ کاروباری لحاظ سے بہت مستحکم ہیں۔ ان کی بیٹیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں۔ بعض عناصر تاک کر نشانہ لگاتے ہیں تا کہ لڑکی اور جائیداد دونوں ہاتھ آئیں۔ جبراً نکاح کر کے انھیں ڈراتے دھمکاتے بھی ہیں کہ اگر حقیقت بتائی تو ان کے خاندان کی خیر نہیں۔ کسی نہ کسی طرح یہ خبریں سینہ بہ سینہ یا کچھ صاحب ضمیر رپورٹرز کے ذریعے عام آدمی تک پہنچ ہی جاتی ہیں۔

اگر نہیں پہنچتیں تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں تک۔ یہ آج کا مسئلہ نہیں ہے کئی سال پہلے بھی جب کشمیر سے برہمنوں اور پنڈتوں کے 80 سے زائد خاندان ہجرت کر کے بھارت چلے گئے تھے۔ اس وقت بھی اندرون سندھ میں اسی طرح کے واقعات ہوئے تھے۔ میں نے دو کالم اس وقت بھی بطور مذمت لکھے تھے اور ان میں ان لڑکیوں کے حق میں جن میں سے ایک ڈاکٹر تھی آواز بھی اٹھائی تھی۔ اور بھی کالم نگاروں نے ان کارروائیوں کی مذمت کی تھی۔

لیکن افسوس کہ کسی بھی حکومت نے ان بدنما دھبوں جیسے واقعات کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ اندرون سندھ تو ’’پی پی‘‘ کا گڑھ ہے۔ وہ ’’پی پی‘‘ ہی کو ووٹ دے کر کامیاب کرواتے ہیں۔ لیکن ان سے زیادہ بے رحم کوئی نہیں، جو مردہ بچوں کی لاشوں پہ سیاست کرتے ہیں۔ بھوک اور پیاس سے لوگ اور جانور سب مر جاتے ہیں۔ لیکن حاکم سندھ کے لیے منرل واٹر کی بوتلیں معیاد گزر جانے کے بعد سرو کی جاتی ہیں۔ لیکن عام آدمی پانی کے لیے ترستا رہتا ہے۔

70 قسم کی ڈشوں سے ان کی مدارات کی جاتی ہے تا کہ موصوف من مانی کرنے میں رکاوٹ نہ بنیں۔ کوئی بتائے کہ یہ حکمرانی کا کون سا چہرہ ہے جس میں ظلم کے واقعات بھی مسلسل سامنے آ رہے ہیں اور ہمارے دانشور اور اہل قلم ’’ایوارڈ‘‘ اور کانفرنسوں کے دعوت نامے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ آخر ہم کب جاگیں گے؟ بھارتی دانشوروں اور ادیبوں کی طرح کب ہم متحد ہو کر ہاتھوں کی زنجیر بنا کر ان مظلوموں کے لیے آواز بلند کریں گے۔ اپنے ایوارڈ واپس کریں گے۔ حکومت تو صرف اقتدار کے لیے آتی ہے۔ اسے ہر قیمت پر پانچ سال پورے کرنے ہیں۔ لہٰذا مختلف ایشوز میں لوگوں کو الجھا کر وہ یہ مدت آسانی سے پوری کر لیتی ہے۔

ہم اہل دل اور اہل قلم بھی اس زیادتی پر آواز نہیں اٹھائیں گے تو کون اٹھائے گا؟ کیا چرند پرند، کتے اور بلیاں؟ یہ بھی اپنوں کو دکھ نہیں دیتے۔ کسی ایک کوے یا اس کے بچے کو پتھر ماریے، یا پکڑ لیجیے۔ آپ دیکھیں گے کہ فوراً ہی کوؤں کا غول کا غول پتھر مارنے والے پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ چہ جائیکہ آپ اسے چھوڑ نہ دیں۔ ہم تو انسان ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے بہت سے ادیبوں کے ہاتھ ’’ایوارڈ‘‘ کی ہتھکڑی سے بندھے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔