بھارت میں ظلم کے خلاف احتجاج کی لہر

آصف زیدی  اتوار 8 نومبر 2015
ادیبوں، شاعروں کے بعد فلم سازاور سائنس داں بھی میدان بھی آگئے ۔  فوٹو : فائل

ادیبوں، شاعروں کے بعد فلم سازاور سائنس داں بھی میدان بھی آگئے ۔ فوٹو : فائل

 کہتے ہیں کہ اہم ذمے داریاں نبھانے کے لیے انتہائی تدبر، صبروتحمل اور دوراندیشی کی ضرورت ہوتی ہے، ظلم و زبردستی کی بنیاد پر چلنے والی حکومتوں کے سربراہ لمبے عرصے تک مسند اقتدار پر بیٹھ تو سکتے ہیں، لیکن ان کی حکومت اور زندگی وقعت سے محروم رہتی ہیں۔ یہ بات اس وقت پڑوسی ملک بھارت میں حکم راں مودی سرکار پر صادق آرہی ہے۔ مودی اور بھارتی حکومت کے کارندے دھونس، دھمکی، انتہاپسندی، ڈھٹائی اور ظالمانہ ہتھکنڈوں سے کسی نہ کسی طرح اپنی مدت پوری کرنے کے چکر میں ہیں اور اپنے خلاف بلند ہونے والی ہر آواز کو دبانے کی بھرپور کوششیں بھی کررہے ہیں۔

بھارتی حکومت کی عدم برداشت اور انتہاپسندی کی پالیسی ہی کا نتیجہ ہے کہ مختلف علاقوں میں گائے کا گوشت کھانے یا گائے ذبح کرنے کے محض الزامات لگاکر کئی مسلمانوں کو قتل کردیا گیا۔ یہی نہیں، گائے کے ذبیحے کے خلاف جس جس شخص نے بھی آواز احتجاج بلند کی، اسے مودی حکومت کی سرپرستی میں انتہاپسندوں نے اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔

گجرات کے محمد اخلاق کا ظالمانہ قتل ہو یا سابق وزیرخارجہ خورشید قصوری کی کتاب کی تقریب رونمائی کے منتظم کے منہ پر کالک ملنا، ہر موقع پر مودی سرکار مجرموں کی سرپرستی کرتی نظر آئی۔ کچھ مذمتی بیانات بھی بھارتی حکومت کی پالیسی کا حصہ تھے جن کا مقصد انتہاپسندوں کی حوصلہ شکنی نہیں تھا بلکہ میڈیا میں خود کو نام نہاد سیکولر اور اقلیتوں کا بڑا دوست ثابت کرنا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ ان ظالمانہ ہتھکنڈوں اور مجرمانہ پالیسیوں کو دیکھ کر پورے بھارت میں احتجاج کی صدائیں بلند ہورہی ہیں اور لوگ جان چکے ہیں کہ مودی سرکار کی پالیسیاں خود بھارت کے لیے ٹھیک نہیں۔ طلبہ، ادیب ، شاعر، سائنس داں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات اپنے اپنے انداز میں مودی حکومت کے انداز حکم رانی پر لعن طعن کررہی ہیں۔ اخبارات ہوں یا ٹی وی چینل، گلی کوچے ہوں، کوئی اہم فورم ہو یا سوشل میڈیا، ہر جگہ بھارت میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے ناسور کے خلاف آواز اٹھائی جارہی ہے۔

کسی بھی شعبے میں اپنی زندگی بھر کی محنت لگانے والے جب اعتراف کے طور پر ایوارڈ وصول کرتے ہیں تو وہ ان کی زندگی کا قیمتی سرمایہ ہوتا ہے جو لیکن بھارتی ادیب، سائنسدان اور دیگر شخصیات بھارتی حکومت کے رویے کی وجہ سے اپنے یہ ایوارڈ بطور احتجاج واپس کررہی ہیں جو بھارتی سرکار کے منہ پر زوردار طمانچے سے کم نہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک 50 معروف بھارتی شخصیات بھارت سرکار سے ملنے والے اعزازات (ایوارڈ) واپس کرچکی ہیں یا واپس کرنے کا اعلان کرچکی ہیں، ان میں ادیب، شاعر، سائنس داں اور دیگر شخصیات شامل ہیں۔

اگر ایوارڈ واپس کرنے والے ادیبوں، شاعروں اور سائنس دانوں کی فہرست مرتب کی جائے تو ان کی تعداد 50 سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ ان میں (1) ہندی رائٹر اُدے پرکاش (2) انگریزی ادیب ناپانتر اسیگل (3) شاعر اشوک واجپائی (4) ناول نگار سارہ جوزف (5) کشمیری ادیب غلام نبی خیال (6) اردو ناول نگار رحمان عباس (7) پنجابی زبان کے ادیب وریام سندھو (8) اجمیر سنگھ اوسکھ (9) پنجابی ادیب اتامیت سنگھ (10) معروف شاعر، فلم ساز اور ہدایت کار گلزار

(11) مترجم بی این رنگا ناتھ راؤ (12) ہندی زبان کے ادیب سنگلایش دبرال (13) راجیش جوشی (14) گجراتی زبان کے مصنف گنیش دیوی (15) سری ناتھ ڈی این (16) ناول نگار کمبار ویر ابھادرایا (17) رحمت تاریکرے (18) پنجابی ناول نگار بلدیوسنگھ (19) جسوندر (20) درشن بٹلر (21) سرجیت پرتار (22) پنجابی زبان کے مترجم چمن لال (23) آسام سے تعلق رکھنے والا صحافی ہومن جورگوین (24) بنگالی شاعر منداکر شاسین

(25) بھارتی انگریزی شاعر کیکی ابن دارو والا (26) نتر بھردواج (27) تھیٹر آرٹسٹ مایا کرشنا راؤ (28) میگھ راج متر (29) ششی دیشن پانڈے (مصنف) (30) کے ست چند آنندن (مصنف) (31) پی کے پارک دو (32) اروند مالاگتی (رائٹر)، (33) دیباکار بینرجی (فلمساز) (34)آنند پتوردھن (فلم ساز)، (35)پاریش کامدار (فلم ساز)، (36)نشتھا جین فلمساز)، (37)کریتی ناکوا (فلم ساز)، (38)ہرش وردھن کلکرنی (فلم ساز)، (39)ہری نائر (فلم ساز)، (40)راکیش شرما (فلم ساز)، (41)اندرا نیل لاہری (فلم ساز)، (42) لیپیکا سنگھ (فلم ساز) شامل ہیں۔

ان فلم سازوں نے ممبئی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنے قومی ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان سے قبل فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے 2 استاد پراتک واتسا اور وکرنت پوار بھی پونا میں ایسے ہی اعلان کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ابھی فہرست میں پی ایم بھارگو ا سمیت 10 سائنس دانوں کو بھی شامل کرنا ضروری ہے جنھوں نے ایوارڈز اور اعزازات کو حکومت ہی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے واپس کرنے کا اہم فیصلہ کیا۔

مالیکیولر سینٹر برائے حیاتیات کے بانی سائنس دان پی ایم بھرگوا نے اس موقف کے ساتھ اپنا پدمی بھوشن ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کیا کہ ملک میں مسلمانوں  اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت اور تعصب کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔فلم میکرز بھی سخت نالاں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ  ایسے میں ایوارڈ لینے کا کیا فائدہ جب ملک میں عدم برداشت کا زہر پھیل رہا ہو۔

غور طلب بات یہ ہے کہ ان شخصیات نے اپنی تن خواہوں میں اضافے یا دیگر آسائشوں کے حصول کے لیے تحریک نہیں چلائی بلکہ وہ پورے بھارت میں تیزی سے پھیلتے عدم برداشت اور انتہاپسندی کے رویوں اور اُس کے نتیجے میں ہونے والی قتل و غارت گری کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرارہے ہیں۔ کئی ادیب کہتے ہیں کہ بطور عام آدمی ہم مسلح جدوجہد پر یقین نہیں رکھتے لہٰذا اعزازات واپس کرنا ہماری جدوجہد اور ہمارا ہتھیار ہے۔ طلبہ و طالبات کی بھی بڑی تعداد موجودہ صورت حال کے حوالے سے پریشان اور مشتعل ہے۔

بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی 88 سالہ بھتیجی بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو بھارتی عدم برداشت کے رویے سے سخت نالاں ہیں۔ انھوں نے گذشتہ ماہ ‘Sahitya Akademi Award’بھی واپس کرنے کا اعلان کردیا ۔

معروف بھارتی ادیب و نغمہ نگار گلزار بھی مودی حکومت کے شدت پسندانہ رویے کے خلاف میدان میں آگئے ہیں اور انھوں نے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ لینے سے انکار کردیا ہے۔

بھارتی ادیب اور مورخ نین تارا سہگل موجودہ صورت حال کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اب اُن لوگوں نے راج نیتی سنبھالی ہے جو چاہتے ہیں کہ ہر کوئی ان ہی کی طرح سوچے اور بولے۔

80سالہ ناول نگار دلیپ  نے بھارتی معاشرے میں تیزی سے پھیلتے عدم برداشت کے رویے پر احتجاج کرتے ہوئے اپنا قومی ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کیا۔گذشتہ ماہ اگست میں بھارتی ریاست کرنا ٹکا میں ایک معروف ادیب کے قتل کے بعد سے بھارتی اہل قلم خواتین و حضرات میں نہ صرف تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ پھر گائے کے ذبح کرنے کے معاملے اور گھر میں گائے کا گوشت رکھنے کے ’’جرم‘‘ پر انتہا پسندوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر ظلم و تشدد کی مسلسل کارروائیوں نے صورت حال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔

بھارت کا پڑھا لکھا اور سمجھ دار طبقہ اس وقت سراپا احتجاج ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ جو صورت حال آج دیکھنے میں آرہی ہے، ایسی ہم نے اپنے دیش میں پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں 2002 میں مودی کے ہاتھوں بھارتی ریاست گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام پر ساری دنیا تاحال پریشان ہے۔

مودی نے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد بھی طور طریقے نہیں بدلے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا بھارت خود بھارتیوں کے لیے انتہائی غیرمحفوظ بن چکا ہے۔ ہر بہیمانہ واردات یا کسی خونی واقعے کے بعد مودی سرکار کی جانب سے مذمتی بیان قاتلوں کے لیے پیغام ہوتا ہے کہ ’’شاباش! اپنی کارروائیاں کرتے رہو‘‘!۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اپنے ملک کے سرمائے (ماہرین تعلیم، فن کار، سائنس دانوں، ادیبوں) کی صدائے احتجاج کو مودی سرکار سنتی ہے یا ہمیشہ کی طرح ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتی ہے اور اقلیتوں کے خلاف ظلم و زیادتیاں جاری رہتی ہیں۔

میں نہ مانوں۔۔۔حکم رانوں کی ہٹ دھرمی
٭ یونین منسٹر ایم وینکائے نائیڈو نے ایوارڈ واپس کرنے والوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا سب کچھ کسی خاص ایجنڈے کے تحت کیا جارہا ہے۔ ایوارڈ واپس کرنے کے اعلانات کا مقصد لوگوں کو گم راہ کرنا ہے۔

راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے جوائنٹ سیکریٹری داتاتریا ہوسابال نے بھی مودی سرکار کی ظالمانہ کارروائیوں کا ساتھ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایوارڈ واپس کرنے والے مصنفین، فلم سازوں، سائنس دانوں اور تاریخ دانوں کا اپنا سیاسی ایجنڈا ہے اور انھوں نے آر ایس ایس کو پنچنگ بیگ بنا رکھا ہے۔ انھوں نے مودی حکومت کی ناکام پالیسیوں اور غنڈاگردیوں کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ نام نہاد دانشور عوام کی جانب سے نظرانداز کیے جانے پر پریشان ہیں اور دوبارہ توجہ حاصل کرنے کے لیے ایسے ڈرامے کر رہے ہیں۔ کچھ فلم ساز، تاریخ داں، سائنس داں ملک میں برداشت کے ٹھیکے دار نہیں، سابقہ دور حکومت میں بھی لوگ قتل ہوئے مگر کسی نے بھی ایوارڈ واپس نہیں کیا، اب ایسا کیا ہوگیا ہے؟

ایک تصویر، جو بھارت کی بدنامی بن گئی
سابق پاکستانی وزیرخارجہ خورشیدقصوری کی کتاب کی تقریب رُونمائی بھی شدت پسندوں اور انتہاپسندوں کو ایک آنکھ نہ بھائی، انھوں نے تقریب کے منتظم سدھندرا کلکرنی پر سیاہی انڈیل کر اپنے دل و ذہن کی غلاظت اور کالک کا اعتراف کیا۔ سدھندرا کلکرنی کی کالک لگی تصویر سوشل میڈیا پر آئی تو ایک بھونچال آگیا تھا۔

ٹویٹر پر اس تصویر کا ٹرینڈ سب سے زیادہ دیکھا گیا۔ ہر کوئی اس واقعے کو بھارت کی اپنی بدنامی سے تعبیر کررہا تھا، اپنے کمنٹس میں بہت سے لوگوں نے تو حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایسی حرکت کرنے والوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ ہمارے دیس میں دوبارہ انتہاپسندوں کو ایسی حرکت کرنے کی جرات نہ ہو۔

انتہاپسندی، بھارتی معیشت کے لیے خطرہ
بھارت میں عدم برداشت کے رویوں کی وجہ سے رونما ہونے والے مسلسل واقعات سے ماہرین معاشیات بھی پریشان ہیں۔ ادیبوں، مصنفین، شاعروں، فلم سازوں کی احتجاجی تحریک کا رُخ دیکھ کر بھارت کے مرکزی بینک کے گورنر رگھورام راجن نے بھی ملک بھر میں صبر و برداشت کے پرچار کی ضرورت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ معاشی ترقی کے لیے باہمی رواداری اور برداشت کے رویوں کی سخت ضرورت ہے۔ ورنہ نقصان سب سے زیادہ ملک ہی کو پہنچے گا۔ رگھورام راجن کے مطابق پُرتشدد واقعات سے عالمی سطح پر بھارت کا امیج مسخ ہورہا ہے، جس کا سب سے منفی اثر معیشت پر پڑے گا، حکومت کو اس جانب بھرپور توجہ دینی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ ایسے واقعات کا تدارک کیا جاسکے۔

’’مسلمانوں کے لیے نہیں، ہم اپنے لیے سڑکوں پر آئے ہیں‘‘
بھارت کی سول سوسائٹی مودی سرکار سے مسلسل مطالبات کررہی ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کو ٹھیک کرے بل کہ انھیں انسان دوست بنائے۔ اس کا کہنا ہے کہ مصنفین کے ساتھ ساتھ گائے کے گوشت کے معاملے پر محمد اخلاق کا قتل ملک میں آزادی اظہار پر پابندی کے مترادف ہے۔ اگر لوگوں کو صرف ان کے مذہب اور عقائد کی بنیاد پر قتل کیا جائے تو اس سے بری صورت حال کوئی نہیں ہوسکتی۔ مختلف مقامات پر احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ ہم مسلمانوں یا کسی اور اقلیت کے لیے احتجاج نہیں کررہے بل کہ ہم اپنے معاشرے کو سدھارنے کے لیے سڑکوں پر آئے ہیں۔

’’ابھی بہت کچھ سامنے آئے گا‘‘
معروف بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی اس ساری صورت حال پر کچھ اس طرح سے تبصرہ کرتی ہیں کہ ایوارڈ کی واپسی تو صرف ابتدا ہے، یہ احتجاج کا علامتی اظہار ہے، ابھی بہت کچھ سامنے آئے گا۔ دوسری طرف بھارت میں موسیقی کے شعبے کی مشہور شخصیت زوبین مہتا نے عدم برداشت کے رویے کے خلاف جاری مہم کو ایک بڑی تحریک سے تعبیر کیا ہے۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ بھارت میں اقلیتوں کو احساس تحفظ ہونا چاہیے جبھی وہ ملک اور حکومت کے لیے اچھا سوچ سکتی ہیں، حکومت اس بارے میں سنجیدگی سے اقدامات کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔