یہ شالا مار میں اک برگ زرد کہتا تھا

انتظار حسین  پير 9 نومبر 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

پچھلے چند مہینوں میں جس سرگرمی کے ساتھ لاہور شہر میں اکھاڑ پچھاڑ ہوتی رہی ہے اور سڑکوں کی ادھیڑ بن ہوتی رہی ہے اسے اہل شہر کسی قسم کا ردعمل کا مظاہرہ کیے بغیر مشاہدہ کرتے رہے ہیں۔ ردعمل ہوا بھی تو اس رنگ سے کہ آمد و رفت میں جو دقتیں پیش آئیں ان پر بڑبڑاتے رہے ہیں لیکن جب نئی ٹرین چلانے کا ایسا منصوبہ سامنے آیا جس کی زد میں شہر کی بعض تاریخی عمارتیں آئیں گی‘ خاص طور پر مال روڈ پر بڑے ڈاکخانے کی عمارت‘ چوبرجی‘ اور سب سے بڑھ کر شالا مار باغ تو اہل شہر تھوڑا جاگے اور لاہور بچاؤ قسم کی تحریکیں چلانے والوں نے اس پر احتجاج کیا۔ یہ دیکھ کر کہ یہ منصوبہ تو اب اٹل ہے انھوں نے اپنے احتجاج کا رخ بدلا اور مطالبہ کیا کہ اس منصوبہ میں ایسی ترمیم کی جائے کہ ان تاریخی مقامات پر آنچ نہ آئے۔ مگر اب جلد ہی یہ احتجاج بھی دب گیا۔ احتجاج کرنے والوں میں بس اتنا ہی دم خم تھا کہ تھوڑا روئے گائے اور پھر خاموش ہو گئے۔

اور کسی کو کیا کہیں‘ ہماری نظروں کے سامنے نیرنگ آرٹ گیلری کے سامنے جیل روڈ کے درخت کٹ کٹ کر گرتے رہے اور ہم خاموشی سے دیکھا کیے۔ یاروں نے ٹہوکا کہ پہلے تم درختوں کے کٹنے پر اتنا نوحہ کر چکے ہو‘ اب کیوں چپ ہو اصل میں اب ہماری سمجھ میں بات آ گئی تھی۔ لاہور شہر کو جدید بنانے کا سودا جو شہر کے مائی باپ کے سر پر سوار ہوا تھا اس کے بیچ سے ایک اندھی بہری طاقت کی نمود ہوئی تھی۔ وہ صاحب اختیار تھی اور اندھی اور بہری تھی۔ صرف جدید شہر کا خواب اسے تکتکا رہا تھا۔

ویسے یہ مسئلہ اس عہد کا مسئلہ تھا کہ کس طرح اپنے روایتی شہروں کو جدید بنایا جائے مگر اس طرح کہ اپنے ان شہروں کا روایتی کردار بھی برقرار رہے اور شہر جدید بھی بن جائے۔ ہمارے پڑوس میں اس کی سب سے نمایاں مثال دلی شہر ہے۔ ہم آپ جانتے ہی ہیں کہ سلاطین دہلی سے شروع ہو جائیے اور مغلوں کے عہد تک آ جائیے اس شہر نے کس رنگ سے نشو و نما کی تھی۔ سلاطین کے تعمیر کردہ محلات‘ مساجد اور مقابر اپنی جگہ۔ صوفیا کی درگاہیں اور مزار یہاں اتنے تھے کہ دلی بائیسں خواجہ کی چوکھٹ کے لقب سے یاد کی جانے لگی۔

دلی کے اس تاریخی رنگ سے بظاہر آزادی کے بعد کی حکومتوں کو زیادہ دلچسپی نہیں ہونے چاہیے تھی۔ مگر اب جا کر دیکھیں تو آج کی دلی 47ء سے پہلے کی دلی سے بہت مختلف ہے۔ بالکل جدید شہر۔ مگر عجب رنگ سے اس نے جدیدیت کا جامہ اوڑھا ہے کہ اس کا وہ روایتی رنگ جس کا ابھی ذکر ہوا برقرار ہے۔ اس کی نمایاں مثال شہر کی وہ نمایندہ جدید عمارت ہے‘ ایک جدید کلچرل ادارہ جس کا نام ہے انڈیا انٹرنیشنل سینٹر (آئی آئی سی)۔ نئے زمانے کی دلی کا تہذیبی مرکز۔ اور یہ کہاں تعمیر ہوا ہے لودھی گارڈنز کے بیچ یعنی لودھیوں کے زمانے کی دلی کے بیچ۔ مگر اس طرح کہ اس عہد کے سارے نئے پرانے درخت‘ نئے پرانے مقبرے۔ ان کے ارد گرد پھیلے ہوئے سبزہ زار برقرار ہیں۔ آئی آئی سی کے پچھلے گیٹ سے قدم نکالیں تو اس تاریخی باغ میں، جو اب شہر کی بڑی سیر گاہ ہے، آپ اپنے آپ کو دلی کی پرانی تاریخ کے بیچ کھڑا پائیں گے۔ ادھر عمارت کے اندر ہر رنگ کی کلچرل تقریب ادبی سیمینار‘ تھیٹر‘ مصوری کی نمائشیں‘ لائبریری‘ محفل موسیقی‘ بزم داستان گوئی۔ یہاں ہم کسی ادبی تقریب کے حوالے سے جب کبھی ٹھہرے ہم نے دیکھا کہ ہم دلی کی پچھلی تاریخ اور نئے زمانے کے بیچ سانس لے رہے ہیں۔

لاہور کے سلسلہ میں بھی ایسا جدید و قدیم کا حسین امتزاج ممکن تھا۔ مگر ہمیں اپنے قدیم سے لگاؤ ہوتا جب ہی تو ایسا تردد کرتے۔ بہر حال ہم بہت جلد جدید لاہور کے شہری بننے والے ہیں۔ یہ تصور کتنا خوش کن ہے۔ مگر جو لاہورئیے لہور لہور ہے کا وظیفہ پڑھا کرتے تھے انھیں پتہ چلے گا کہ ان کے ساتھ کیا واردات گزر گئی۔

ابھی پچھلے دنوں لاہور پر ایک روسی خاتون کی تحقیق انگریزی میں شایع ہوئی ہے۔ اس میں خاص طور پر شالا باغ کا تذکرہ ہے۔ اُس نے اِس پہلو سے اس باغ پر بحث کی ہے کہ آخر مسلمان سلاطین کو باغ تعمیر کرنے کا اتنا شوق کیوں تھا۔ اس کی توجیہ اس نے یوں کی ہے کہ اس قوم کے دماغ میں باغ بہشت بسا ہوا ہے۔ شالا مار باغ کی تعمیر کے ساتھ ہی یہ شعر بھی وجود میں آیا جو اس کی پیشانی پر ثبت کیا گیا   ؎

اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

اس سے ہمیں خیال آیا کہ چلو شالا مار باغ ہی سے جا کر پوچھتے ہیں کہ اے لاہور شہر کے بیچ باغ بہشت کے نمونے تجھے یہ بدلتا لاہور کیسا نظر آ رہا ہے۔ ادھر سے عجب جواب آیا   ؎

یہ شالا مار میں اک برگ زرد کہتا تھا
گیا وہ موسم گل جس کا رازدار ہوں میں

نہ پائمال کریں مجھ کو زائران چمن
انھیں کی شاخ نشیمن کی یاد گار ہوں میں

ذرا سے پتے نے بیتاب کر دیا دل کو
چمن میں آ کے سراپا غم بہار ہوں میں

خزاں میں مجھ کو رلاتی ہے یاد فصل بہار
خوشی ہو عید کی کیونکر کہ سوگوار ہوں میں

اجاڑ ہو گئے عہد کہن کے میخانے
گزشتہ بادہ پرستوں کی یاد گار ہوں میں

یہ نظم علامہ اقبال نے ایک عید کے موقعہ پر عید کے واسطے سے شعر لکھنے کی فرمائش پر لکھی تھی۔ سو اس کا آخری شعر یوں تھا ؎

پیام عیش و مسرت ہمیں سناتا ہے
ہلال عہد ہماری ہنسی اڑاتا ہے

اور اب ہم یہ شعر یوں سمجھیں گے کہ شالا مار کا برگ زرد کہہ رہا ہے کہ پیام عیش و مسرت ہمیں سناتا ہے۔ جدید لاہور کا چاند ہماری ہنسی اڑاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔