روشنی کی ایک ہلکی سی کرن

مقتدا منصور  پير 9 نومبر 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ ہفتے چند ایسے واقعات سامنے آئے، جو برصغیر کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی رویوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا مظہر ہیں۔ بھارت میں مذہبی شدت پسند عناصر کی جانب سے جس قسم کی روش اور رویوں کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس کے ردعمل میں وہاں کے اہل دانش (Intelligentsia) نے جو ردعمل ظاہر کیا، وہ جمہوری اقدار اور فکری کثرتیت کی بقا اور فروغ کے حوالے سے خاصا حوصلہ افزا ہے۔ جب کہ دوسری طرف تحریک انصاف کے سربراہ نے اپنی طلاق کے مسئلہ پر ایک صحافی کے سوال پر جس تند و ترش ردعمل کا اظہار کیا، وہ پاکستانی معاشرے میں ہر سطح پر بڑھتی ہوئی عدم برداشت کا ایک واضح نمونہ ہے۔

لیکن گئے ہفتے جو سب سے چونکا دینے والی بات سامنے آئی۔ وہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کا بیان ہے، جس میں انھوں نے کہا کہ پاکستانی عوام کا مستقبل ایک جمہوری اور لبرل پاکستان میں پوشیدہ ہے۔ یہ ایک حیران کن مگر خوش آیند اور جرأت مندانہ بیان ہے، جو 68 برس بعد ہی سہی کسی پاکستانی حکمران نے پہلی بار دیا ہے۔ گو کہ اس کی مخالفت میں مذہبی جماعتوں کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ لیکن اس میں وہ شدت نہیں، جو ان کا وطیرہ رہا ہے۔ چونکہ ان تمام واقعات اور بیانات کا تعلق کسی نہ کسی طور پاکستان کے اندرونی حالات کے علاوہ برصغیر میں امن کی کوششوں سے جڑا ہوا ہے، اس لیے ان پر گفتگو ضروری ہے۔

سب سے پہلے میاں نواز شریف کی اس تقریر پر گفتگو کرتے ہیں، جو انھوں نے سرمایہ کاری کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس میں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام کا مستقبل ایک جمہوری اور لبرل پاکستان کے ساتھ وابستہ ہے۔ پاکستان کی 68 برس کی تاریخ میں کسی حکمران نے پہلی مرتبہ پاکستان کے بارے میں بابائے قوم کے ویژن کو برملا تسلیم کیا ہے، جب کہ مقتدر اشرافیہ اپنے مخصوص مفادات کی خاطر روز اول ہی سے پاکستان کو ایک تنگ نظر مذہبی ملک بنانے کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ بات ثابت ہوتی چلی گئی کہ بابائے قوم محمد علی جناح کا ویژن درست تھا اور بیوروکریسی کے کل پرزے چوہدری محمد علی کی سوچ غلط تھی، جنھوں نے ایک مولانا کو قرارداد مقاصد کے لیے اکسایا تھا۔ یہ بھی طے ہے کہ آج پاکستان جن مسائل و مصائب میں گرفتار ہے، ان کا اصل سبب جناح کے ویژن سے انحراف اور ریاست کے منطقی جواز کی تھیوکریٹک تفہیم و تشریح ہے۔ بنگلہ دیش کی آزادی کا معاملہ ہو یا ملک کے چھوٹے صوبوں میں پائی جانے والی بے چینی، ان کے پس پشت جمہوریت اور وفاقیت سے انحراف اور تنگ نظر مذہبیت پر اصرار ہی نظر آئے گا۔ ایک ایسے ماحول میں ملک کے منتخب وزیر اعظم کا بیان ہوا کا تازہ جھونکا ہے۔

اب دوسری طرف آئیے۔ رواداری میں کمی اور عدم برداشت کا بڑھتا ہوا رجحان صرف ہمارے معاشرے کا المیہ نہیں ہے۔ اس کے مظاہر پورے برصغیر میں جابجا نظر آتے ہیں۔ چند برس قبل جب بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی تیسری بار حکومت قائم ہوئی، تو انھوں نے 1971ء میں فوجی آپریشن کے دوران پاکستان کا ساتھ دینے والے افراد پر مقدمہ چلا کر انھیں تختہ دار تک پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا۔ جس سے نہ صرف پاکستان کے ساتھ تلخیوں میں اضافہ ہوا، بلکہ بنگلہ دیش کے اپنے اندر سیاسی کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا۔ حالانکہ وہ نیلسن منڈیلا کی روایات پر عمل کرتے ہوئے ان تمام افراد کو عا م معافی دے سکتی تھیں، جن پر بنگلہ قوم پرستی سے انحراف کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ مگر انھوں نے سخت گیر راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ جس کی وجہ سے ماضی کے بعض زخم ایک بار پھر ہرے ہو گئے۔

جہاں تک بھارت کا تعلق ہے، تو وہاں مذہبی شدت پسند تنظیمیں شروع ہی سے فعال ہیں۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ 1948ء میں نتھورام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو اس لیے قتل کیا تھا کہ انھوں نے پاکستان کو اس کا حصہ دلوانے کے لیے مرن برت (تادم مرگ بھوک ہڑتال) رکھا تھا۔ اس کے علاوہ جَن سنگھ اور RSS جیسی تنظیمیں کئی دہائیوں سے فعال ہیں اور بھارت کو ایک مکمل ہندو معاشرے میں تبدیل کرنے کے مشن پر کام کر رہی ہیں۔ تقریباً تین دہائی قبل شیوسینا (شیوا جی مرہٹہ کی فوج) نے مہاراشٹر میں عصبیتوں کی نئی فصل بوئی، جو اب تناور درخت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اسی دوران جن سنگھ نے دیگر جماعتوں کے ادغام سے پہلے جنتا پارٹی اور پھر بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) تشکیل دی، جو دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعت ہے۔ اس جماعت کا بنیادی منشور ہی یہ ہے کہ بھارت کو ایک ہندو ریاست میں تبدیل کیا جائے۔ لہٰذا اس کا سیاسی کردار واضح ہے اور اس سے فکری کثرتیت کے لیے گنجائش کی توقع عبث ہے۔

پاکستان اور بھارت میں مذہبی شدت پسندانہ رجحانات کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے ہمیں چند باتوں کو مدنظر رکھنا ہو گا۔ اول، پاکستان میں دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کو عوامی سطح پر وہ پذیرائی کبھی حاصل نہیں ہوئی، جو بھارت میں ہندو قوم پرست جماعتوں کو ملتی رہی ہے۔ پاکستان میں اب تک ہونے والے کسی بھی عام انتخاب میں مذہبی جماعتوں کو مجموعی طور پر 5 فیصد سے زائد ووٹ کبھی نہیں مل پائے۔ مگر اس کے باوجود ریاستی منصوبہ سازی پر حاوی ہیں اور نصاب تعلیم سمیت کسی بھی شعبہ میں حقیقت پسندانہ تبدیلیوں کی راہ میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں ریاستی مقتدرہ کی حمایت و سرپرستی حاصل ہے۔ جب کہ پاکستان میں سول سوسائٹی انتہائی نحیف و ناتواں ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں BJP کا یہ تیسرا دور اقتدار ہے۔ شیوسینا کی مہاراشٹر اسمبلی میں کئی دہائیوں سے قابل ذکر نمایندگی ہے۔ جب کہ ممبئی کی میٹروپولیٹن کارپوریشن میں اکثر و بیشتر غالب اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوتی رہتی ہے۔ لیکن ان کامیابیوں اور کوششوں کے باوجود ریاست کی بنیادی اساس یعنی سیکولرازم کو ختم کرنے میں ناکام ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ وہاں سول سوسائٹی اور ریاستی اداروں کا مضبوط ہونا ہے۔

دوئم، پاکستان کی قومی (Mainstream) سیاسی جماعتیں واضح نظریات نہیں رکھتیں۔ دہرے فکری معیار کا شکار ہونے کی وجہ سے ابہام میں مبتلا رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر پیپلز پارٹی کی شناخت ایک سیکولر جماعت کے طور پر ہوتی ہے۔ مگر بھٹو مرحوم نے آئین سازی سے 1977ء میں اپنی حکومت کے خاتمہ تک جو فیصلے کیے ان کی کسی لبرل سیکولر جماعت کے بجائے کسی بنیاد پرست جماعت ہی سے ان کی توقع کی جا سکتی ہے۔ مگر اس کے باوجود مذہبی حلقوں نے ہمیشہ انھیں شک کی نگاہ سے دیکھا اور اسٹیبلشمنٹ نے ان پر اعتبار کرنے سے گریز کیا۔ پاکستان میں عدلیہ کا کردار بھی شروع ہی سے متنازع رہا ہے۔ جب کہ بھارتی عدلیہ نے ریاست کے منطقی جواز کو برقرار رکھنے کے لیے کئی بار انتہائی جرأت مندانہ فیصلے کیے۔

ہمیں وسیع القلبی کے ساتھ اس بات کو تسلیم کرنا چاہیے کہ آج بھارت کے اہل دانش، صحافی اور متوشش شہری اپنے ملک میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کے خلاف صف آرا ہیں۔ وہ فکری کثرتیت اور ثقافتی تنوع کو قائم رکھنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات اپنے ایوارڈز اور انعامات واپس کر رہی ہیں۔ بڑھتے احتجاج کے دو متوقع نتائج نکل سکتے ہیں۔ اول، بھارتی حکومت حالات و واقعات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے اپنی روش تبدیل کر لے اور مذہبی اقلیتوں کے لیے آئین میں درج حقوق کا تحفظ کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ اس طرح اسے اپنی مدت مکمل کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ دوئم، طاقت کے زعم میں سول سوسائٹی کے احتجاج کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی موجودہ روش کو جاری رکھے۔ اس صورت میں وسط مدتی انتخابات کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ لیکن یہ توقع کرنا کہ وہاں کوئی غیر جمہوری سیٹ اپ آ سکتا ہے، بعید از قیاس تصور ہے۔

جب کہ ہماری سول سوسائٹی اس قدر نحیف و ناتواں ہے کہ وہ شدت پسند عناصر کے خلاف منظم جدوجہد کرنے سے ہچکچاتی ہے۔ ہمارے اپنے ملک میں انتہاپسند جماعتوں اور ان کے قائدین پر نام لے کر تنقید کرنا تو کجا، ان کی بارے میں اشاروں کنایوں تک میں بات کرنا ممکن نہیں ہے۔ ذرایع ابلاغ ایسے اظہاریے اور فیچر شایع یا نشر کرنے سے گریز کرتے ہیں، جن میں ان جماعتوں پر تنقید کی گئی ہو۔ ریاستی ادارے بھی یہ جانتے ہوئے کہ یہ جماعتیں دہشت گرد عناصر کی تربیت گاہ اور ان کا محفوظ ٹھکانہ ہیں، مگر دانستہ ان کی سرگرمیوں سے صرف نظر کرتے ہیں۔ جب کہ اپنی پوری طاقت لبرل جماعتوں کو کچلنے پر صرف کرتے ہیں۔ جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نیت ان متشدد عناصر اور تنظیموں کو مکمل طور پر کچلنے کی نہیں ہے، بلکہ انھیں ایک حد سے آگے بڑھنے سے روکنا ہے۔ ایک ایسی صورتحال میں جب اپنی آستینوں میں پلنے والے شدت پسند عناصر کی سرگرمیوں سے صرف نظر کیا جاتا ہو، صرف بھارت میں شدت پسندی کا واویلا مچانا عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔ لہٰذا اس تناظر میں میاں صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے، اگر وہ اس پر ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہتے ہیں اور جمہوریت مخالفت قوتوں کے خلاف ڈٹ جاتے ہیں، تو ملک کے صحیح سمت میں آگے بڑھنے کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔ یہی روشنی کی ہلکی سی ایک کرن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔