چین تائیوان مذاکرات، شکست فاتحانہ

اسلم خان  پير 9 نومبر 2015
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

’ہم ایک ہیں دُنیا کی کوئی طاقت ہمیں جدا نہیں کر سکتی ہم ایک خاندان ہیں اور تنازعات سے بھرپور طویل ماہ و سال بھی ہم پر اثر انداز نہیں ہو سکتے کیونکہ گوشت کو ہڈیوں سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ چینی صدر (Xi Jinping) تائیوانی ہم منصب سے 66 سال بعد ہونے والی ملاقات پر انھیں خوش آمدید کہہ رہے تھے۔یہ تاریخ ساز ملاقات غیر جانبدار سنگاپور میں ہوئی۔ ایک منٹ اور 10سکینڈ پر محیط مصافحے اور ایک گھنٹہ طویل مذاکرات کے پس منظر میں گزشتہ آٹھ سال سے جاری کوششیں بارآور ہوئیں ۔

سنگاپور کا کثیرالنسلی سماج، جس میں چینی النسل باشندے 75 فیصد اکثریت رکھتے ہیں، ایشیائی قومیتوں کا خوبصورت گلدستہ بن چکا ہے یہاں ساری دُنیا سے سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔

’ہم دنیا کو بتائیں گے کہ چینی عقل و دانش سے اپنے تمام تنازعات کو حل کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں، آج کے تاریخی دن ہم دوراہے پر کھڑے یہ فیصلہ کر رہے ہیں کہ ہم غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے۔تائیوان کے صدر Ma Ying-Jeou کا ردعمل بڑا خوشگوار اور مفاہمانہ تھا جس کی بنیاد 1992ء میں طے کیے جانے والا ’’ایک چین کی فلاسفی‘‘ کا اُصول تھا۔ چین، تائیوان صدور کی اس تاریخی سربراہ ملاقات کے لیے گزشتہ 8 سال سے باہمی رابطوں کا سلسلہ جاری تھا اس دوران 23 معاہدوں پر دستخط ہوئے سالانہ40 ہزار طالبعلموں کا باہمی تبادلہ ہوا، 80 لاکھ سیاحوں نے خاموشی سے جاری اس امن مارچ میں حصہ لیا۔ چین اور تائیوان کے درمیان 170 ارب ڈالر کی سالانہ تجارت بھی ہو رہی ہے۔

جدید چین کے بانی ڈینگ زیاؤ پنگ نے تین دہائی قبل جب یہ کہا تھا کہ ہم اگلے 50 سال کسی مسئلے پر جنگ نہیں کریں گے اور 50 سال بعد دنیا میں کسی بھی ملک کو چین سے جنگ کرنے کی ہمت نہیں ہو گی تو ہمارے نیم پختہ ، کچے پکے دانشوروں نے اس انوکھی فلاسفی کا مذاق اڑایا تھا۔ آج وہی لوگ کشکول گدائی لے کر بیجنگ کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ اسی طرح اس عظیم چینی دانشور نے جب ہانگ کانگ کے حوالے ’ایک ملک اور دو نظام‘ کا فلسفہ پیش کیا تو بوڑھے ہنری کسنجر جیسے شہ دماغوں نے اسے یکسر مسترد کرتے ہوئے ناقابل عمل قرار دیا تھا۔ لیکن دور اندیش ڈنگ زیاؤ پنگ نے جب یہ اعلان کیا کہ ہانگ کانگ کو ہمارے فوجی سپاہی نہیں چینی سیاح فتح کریں گے تو مغربی اور امریکی اہل دانش چکرا گئے تھے۔ ہزار ہاسالوں پر محیط چینی دانش کے اصل منبع تک اس امریکی چال باز کی رسائی نہیں تھی۔ 55 لاکھ آبادی والے سنگاپور میں 40 لاکھ شہری چینی النسل ہیں۔ جدید سنگا پور کے بانی آنجہانی لی کیو ان خود بھی چین میں پیدا ہوئے تھے، جن کے والدین نے بہتر طرز زندگی کی تلاش میں وہاں سے نقل مکانی کی تھی۔

سنگاپور نے 1990ء میں چین سے سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔ آج سنگاپور چین میں 75 ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ 1956ء میں ملائشیا نے توہین آمیز طریقے سے سنگاپور کو الگ کر کے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔لیکن قانون کی حکمرانی، عزم مسلسل اور لگاتار محنت سے آنجہانی لی کیوان نے سنگا پور کو ذلت کی گہرائی سے باہر نکالا اور آج کے سنگاپور میں دن غروب نہیں ہوتا۔ تائیوان کے بانی چیانگ کائی شیک سے چیئرمین ماؤ نے 27 اگست 1945ء کو آخری بار ملاقات کی۔ یہ ملاقات امریکی صدر ہیری ٹرومین کی مداخلت پر ہوئی تھی کیونکہ امریکی جاپان کے خلاف قوم پرست اور کیمونسٹ چینیوں کو متحد کرنا چاہتے تھے۔ کہتے ہیں کہ سادہ اطوار چیئرمین ماؤ کا یہ پہلا ہوائی سفر تھا۔ انھوں نے اس وقت کے امریکی سفیر پیٹرک ہرلی سے کہا کہ وہ اپنے جہاز میں آ کر انھیں لے جائے۔ چیئرمین ماؤ کے ہمراہ ان کے دیرینہ ساتھی چو این لائی اور دیگر وفد بھی آیا تھا جنہوں نے چیانگ کائی شیک سے تاریخ کے طویل ترین 7 ہفتوں پر محیط ناکام مذاکرات کیے تھے۔ جس کے لیے جنگ عظیم دوم میں نازی ہٹلر کے خلاف اُس وقت کے امریکی اتحادی سوویت رہنما اسٹالن کی آشیر باد بھی حاصل تھی۔

امریکی چاہتے تھے کہ جاپان کے خلاف چین کی مہم خانہ جنگی کی نذر نہ ہو جائے۔ دونوں قدیم متحارب فریق جاپان کے خلاف دوبارہ متحدہ محاذ بنانے پر آمادہ ہو جائیں۔1923ء میں قوم پرست اور کمیونسٹ چینیوں کا اتحاد صرف 4 سال چل سکا۔جس کے بعد خانہ جنگی کی خوں ریز دہائی شروع ہوئی جس کے دوران چیئرمین کو مشہور و معروف ’لانگ مارچ‘ کرتے ہوئے اندرون چین پسپا ہونا پڑا تھا۔ 1937ء میں جاپانیوں نے ایک بار پھر چین پر چڑھائی کر کے منچوریا کو فتح کر لیا جس پر باہم دست و گریبان چینی چار و ناچار متحد ہو کر جاپانیوں سے لڑنے کے لیے اکٹھے ہو گئے۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر امریکیوں نے اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لیے چینی اتحاد کو شطرنج کی بساط پر اپنا پیادہ بنانا چاہا، لیکن عظیم چیئرمین ماؤ کی معاملہ فہمی اور دانشمندی نے اس کو ناکام بنا دیا اور 27 اگست 1945ء کو قوم پرست چیانگ کائی شیک اور کمیونسٹ چیئرمین ماؤ کے جدید سفارت کاری کی تاریخ کے 7 ہفتوں پر محیط طویل ترین مذاکرات ناکام ہوگئے۔

ان ناکام مذاکرات کے صرف ایک سال بعد چین کی خانہ جنگی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی اور ماؤ کے کمیونسٹ گوریلوں نے چیانگ کائی شیک کے قوم پرستوں اور سامراجیوں کو چین کی سرزمین سے مار بھگایا اور انھیں سمندر پار تائیوان کے جزیرے پر پناہ لینا پڑی۔ چین نے بتدریج پیش قدمی کرتے ہوئے تائیوان کو اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں سے بھی پسپا کر دیا۔چین تائیوان صدور کے تاریخ ساز مذاکرات میں کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔ دونوں ممالک کے جھنڈے نہیں آویزاں کیے گئے۔ دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کو جناب صدر کے بجائے صرف مسٹر، یا ساتھی کہہ کر مخاطب کیا۔ایک منٹ اور 10 سکینڈ کے مصافحے سے تاریخ کے نئے باب کا آغاز ہوا۔ چین نے تائیوان کو عالمی بینک کے مقابلے میں قائم کیے جانے والے (AIIB) Asian Infrastructure Investment Bank میں شمولیت کی دعوت دیدی ہے۔

امن مذاکرات کی تقدیر کا فیصلہ 16 جنوری 1916ء کے صدارتی انتخاب میں ہوگا جب تائیوانی عوام نیا صدر منتخب کریں گے۔ لیکن یہ نوشتہ دیوار ہے کہ منتخب ہونے کی صورت میں قوم پرست خاتون صدر Tsai Ing-wen بھی تاریخ کا پہیہ اُلٹا نہیں گھما سکیں گی۔

تائیوان کو یک طرفہ اعلان آزادی سے روکنے کے لیے چین نے 1500 میزائلوں سے اس کے دارالحکومت تائی پی کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ خاص طور پر صدارتی انتخاب کے دوران کشیدگی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس بار بھی امریکی حمایت یافتہ قوم پرست خاتون صدارتی اُمیدوار جذباتی نعرے بازی سے ماحول کو گرما رہی ہیں۔ تائیوان چین کا اٹوٹ انگ ہے جس طرح کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ تاریخ کا سفر جاری ہے اس چلتے پہیے کو روکنا اور اُلٹا گھمانا کسی کے بس کی بات نہیں۔

اس تاریخی ملاقات کو علامتی سفارتکاری قرار دیا جا رہا ہے لیکن چینی حکمت کار علامتی اور فکری توجیحات کو عملی ترجیحات میں بدلنے کا فن جانتے ہیں۔ سفارتی رابطہ کاری نے چین کو تائیوان کی سیاسی قیادت میں اپنے ہمدرد پیدا کرنے اور انھیں مستحکم بنانے کے مواقع فراہم کیے جن کے خاطر خواہ نتائج سامنے آ رہے ہیں۔

چینی چیک بک پالیسی نے تمام سامراجہ افکار اور نظریات کو پسپا کر دیا ہے۔ آج تائیوان میں امریکیوں کو دو دھاری تلوار کا سامنا ہے۔ لامحدود سرمایہ کاری ان کے بس کی بات نہیں۔ دو کروڑ 30 لاکھ تائیوانیوں کو خوشحال چین کے مقابلے میں ذہنی شکست کا سامنا ہے۔ اس لیے تاریخ کا پہیہ کیمونسٹ چین کے حق میں آگے بڑھ رہا ہے جس کو روکنا یا اُلٹا گھما دینا کسی کے بس کی بات نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔