گوہرگزشت

رفیع الزمان زبیری  بدھ 11 نومبر 2015

’’گوہر گزشت‘‘ الطاف گوہر کی یادوں پر مشتمل ہے۔ یہ ان کی پرشور زندگی کی نامکمل داستان ہے۔ ان پر جو گزری اس کا تذکرہ ہے اور جن بزرگوں، سیاست دانوں اور حکمرانوں سے ان کے ذاتی تعلقات رہے ان کے خاکے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ’’گوہر گزشت‘‘ پاکستان کی سیاست کی ایک تصویر ہو جس کے خدوخال اور رنگ ان کے مشاہدات اور تجربات کے آئینہ دار ہوں۔

الطاف گوہر کا سیاست دانوں اور حکمرانوں سے قربت سے پہلے کا بھی ایک دور تھا۔ اس زمانے میں لاہور کی ایک حسین خاتون گورنمنٹ کالج میں ان کی ہم جماعت تھی۔ وہ چمپا تھی۔ وہ جب سائیکل پر بیٹھ کر گھر سے نکلتی تو پرانی انارکلی میں لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے دکانوں سے باہر نکل آتے۔

چمپا سے ان کی دوستی ہو گئی، ایسی دوستی جو مردوں اور عورتوں میں کم ہوتی ہے۔ الطاف گوہر کہتے ہیں ’’چمپا نے مجھے اپنے انداز میں یہ سمجھا دیا تھا کہ انھیں عشاق کی کمی نہیں مگر کوئی مرد دوست نصیب نہیں ہوا۔ میں سارا دن ان کے ساتھ گزارتا اور شام کو دیر تک ان کے گھر بیٹھا رہتا۔ ہم ایم اے کے امتحان کی تیاری کر رہے تھے۔ سنگھا صاحب (چمپا کے والد) ہماری دوستی سے مطمئن تھے۔‘‘ چمپا ایک آئی سی ایس افسر کی محبت میں گرفتار تھی۔ پاکستان بننے کے بعد چمپا کی زندگی بدل گئی جس کا الطاف گوہر نے بڑے دکھ سے ذکر کیا ہے۔

ایم اے کرنے کے بعد الطاف گوہر نے اپنے والد راجہ تفضل حسین جنجوعہ کے اصرار اور چمپا کی حوصلہ افزائی سے انڈین سول سروس کا امتحان دیا، کامیاب ہوئے اور حکومت ہند کی وزارت مالیات میں فنانس آفیسر ہو گئے۔ قیام پاکستان کے بعد اگست 1947 میں دلی سے لاہور آ گئے اور کراچی میں وزارت خزانہ میں کام کرنے لگے۔

یہاں سے ان کا تبادلہ کر کے زاہد حسین کا پرائیویٹ سیکریٹری بنا دیا گیا۔ بعد میں وہ اسٹیٹ بینک کے سیکریٹری کے اعلیٰ عہدے پر مقرر ہو گئے۔ بینک کے قیام کے بعد انھیں سول سروس آف پاکستان میں منتقل کر دیا گیا۔ یہاں سے ان کے جوہر اور ترقی کی راہیں کھلتی چلی گئیں۔

لکھتے ہیں۔ ’’لاہور میں سی ایس پی کی ٹریننگ کے چند مہینے ختم ہوئے تو مجھے مشرقی پاکستان بھیج دیا گیا اور پھر جوانی کے چھ سال وہیں گزرے۔ بنگلہ زبان اور کلچر کو سمجھنے اور اپنانے کا موقع ملا اور کئی بنگالی صحافیوں سے دوستی بھی ہو گئی۔‘‘

1958میں الطاف گوہر وزیر اعظم ملک فیروز خاں نون کے ڈپٹی سیکریٹری تھے۔ ملک صاحب نے ان کی مستعدی دیکھی، بے تکلف آدمی تھے، ان کا نام ’’بجلی‘‘ رکھ دیا۔ لکھتے ہیں۔ ’’یہ نام مجھے ناپسند تھا ۔

اس سال جب مارشل لا لگا تو الطاف گوہر ایک ٹریننگ کورس پر لندن میں تھے۔ انھیں فوری واپس بلا لیا گیا اور وزارت تجارت کے حوالے کر دیا گیا، یہ ہدایت بھی کر دی گئی کہ انھیں چیف کنٹرولر امپورٹس ایکسپورٹس مقرر کیا جائے، مگر ایسا نہ ہوا اور انھیں حکم ہوا کہ وہ پہلے کچھ عرصہ زیر تربیت رہیں گے۔

کچھ عرصے بعد جب ان کی تربیت ختم ہوئی اور محکمے کا چارج دیا گیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے جو وزیر تجارت تھے انھیں بلایا اور کہا ’’معلوم ہے تمہیں اتنے دن تک محکمے کا چارج کیوں نہیں دیا گیا؟‘‘ الطاف گوہر نے جب لاعلمی کا اظہار کیا تو بولے ’’اس لیے کہ جب تم کراچی کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہوتے تھے تو تم نے میرے ساتھ بدتمیزی کی تھی۔‘‘

الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ ہوا یہ تھا کہ جب وہ مشرقی پاکستان سے تبدیل ہو کر کراچی آئے تھے تو انھیں کراچی کا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لگا دیا گیا۔ ان ہی دنوں بھٹو صاحب پستول کا لائسنس لینے ان کے پاس آئے۔ انھوں نے بھٹو سے پوچھا کہ ان کے پاس کوئی لائسنس ہے اور جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ بھٹو کے پاس چالیس لائسنس ہیں تو انھوں نے یہ کہہ کر کہ چالیس لائسنس کافی ہیں، مزید لائسنس دینے سے انکار کر دیا۔ بھٹو اس ’’گستاخی‘‘ کو نہیں بھولے تھے۔ پھر ساری زندگی الطاف گوہر ان کے کرم اور ستم کا نشانہ بنتے رہے۔

’’گوہر گزشت‘‘ میں کراچی ڈسٹرکٹ مجسٹریسی کے دور کی بہت سی یادیں قابل ذکر ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب کراچی ملک کا دارالحکومت تھا اور حسین شہید سہروردی پاکستان کے وزیر اعظم تھے۔ اسکندر مرزا سے تو ان کی ملاقات مشرقی پاکستان میں پوسٹنگ کے دوران ہو گئی تھی۔ اسکندر مرزا مشرقی پاکستان کے گورنر تھے اور جنرل ایوب خان مشرقی پاکستان میں 14 ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ تھے۔

نواب کالا باغ سے ان کا واسطہ اس وقت ہوا جب الطاف گوہر مغربی پاکستان کے فنانس سیکریٹری مقرر ہوئے۔ اس وقت پورے صوبے پر نواب کالاباغ کا راج تھا۔ نواب صاحب کے ساتھ ان کا اچھا وقت گزرا۔ لیکن ابھی ایک سال ہی گزرا تھا کہ ان کو وفاقی حکومت میں واپس جانا پڑا۔ الطاف گوہر لکھتے ہیں ’’اس واقعے نے میری زندگی کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔‘‘

صدر ایوب خان نے الطاف گوہر کو وزارت اطلاعات کا سیکریٹری مقرر کر دیا اور یہاں سے ان کی ایوب خان سے قربت کا آغاز ہوا۔ الطاف گوہر لکھتے ہیں ’’ایوب خان کی قربت حاصل کرنے میں مجھے ایک برس سے زیادہ لگ گیا۔ مجھے اس بات کا قطعاً احساس نہ تھا کہ ایک آمر حکمراں کی معاونت اس وقت تک نصیب نہیں ہوتی جب تک انسان اپنی ذات کے اصولی تقاضوں کو بھلانے کے لیے تیار نہ ہو جائے۔ محنت، مشقت اور قابلیت وہ خوبیاں ہیں جنھیں ایوب خان پسند فرماتے تھے مگر ان کا ہم راز بننے کے لیے ان کی مکمل اطاعت اور فرماں برداری لازم تھی۔‘‘

الطاف گوہر نے ایوب خان کے گیارہ سالہ دور حکومت کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ’’جنوبی ایشیا کے پہلے مسلم حاکم تھے جنھوں نے اسلام کے اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے ملک کو جدید سیکولر راستے پر گامزن کرنے کی کوشش کی۔

’’گوہر گزشت‘‘ میں الطاف گوہر نے مشرقی پاکستان میں اپنی ملازمت کے دوران ہونے والے جن واقعات کا ذکر کیا ہے وہ ملک کے مشرقی حصے کی علیحدگی کے اسباب اور اس کے پس منظر کو سمجھنے میں معاون ہوتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت اور ان کی آمرانہ سوچ اور اقتدار کی طلب پر بھی ان کے تجزیے قابل توجہ ہیں۔

سیاست اور بیوروکریسی سے باہر بھی الطاف گوہر نے اپنے دوستوں، مخالفوں کا ذکر کیا ہے۔ کچھ ایسی شخصیتوں کی یادیں بھی ہیں جن سے ان کی قربت تھی۔ منظور قادر ان میں سے ایک تھے۔ ان کا ذکر ہے۔ منظور قادر، ایوب خان کی کابینہ میں امور خارجہ کے وزیر تھے۔

الطاف گوہر لکھتے ہیں ’’وہ بیمار ہوئے اور لاہور ملٹری اسپتال میں انھیں خون دیا گیا۔ بدقسمتی سے خون میں کوئی جان لیوا آمیزش تھی جس سے منظور صاحب کی حالت بگڑ گئی۔ میں انھیں اسپتال میں دیکھنے گیا تو وہ بستر پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے آگے کوئی پانچ دس کتابیں کھلی پڑی تھیں۔ منظور بڑے تحقیقی آدمی تھے۔

انھوں نے اپنی بیماری پر سب کتابیں پڑھ لی تھیں۔ مجھے بتانے لگے کہ ڈاکٹر صاحبان کا ایک وفد انھیں دیکھ کر گیا ہے اور انھوں نے سب کو قائل کر دیا ہے کہ ان کا علاج غلط ہو رہا ہے۔ وہ چند ہفتے زندہ رہے۔ وفات سے پہلے علامہ اقبال کی نظمیں پڑھتے رہے۔ آخری دنوں میں انھوں نے قرآن کی چند آیات بھی پڑھیں اور خدا کی ذات کے بارے میں ان کے سارے شکوک رفع ہو گئے اور وہ بڑے اطمینان سے خالق حقیقی سے جا ملے۔

الطاف گوہر جسٹس محمد منیر کی عیادت کو بھی گئے۔ جسٹس منیر کا نام پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں بڑا اہم نام ہے۔ ان کے بعض عدالتی فیصلوں نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا رخ موڑ کر رکھ دیا۔ الطاف گوہر لکھتے ہیں ’’مجھے معلوم ہوا جسٹس منیر بیمار ہیں اور ان کے صحت یاب ہونے کا امکان نہیں۔ میں ان کے گھر گیا۔

انھوں نے مجھے اپنے کمرے میں بلا لیا اور چارپائی پر اپنے ساتھ بٹھایا۔ باتیں کرتے کرتے انھوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ’’الطاف گوہر! تمہیں معلوم ہے کہ خدا کے وجود کے بارے میں میرے دل میں کئی سوال ہیں۔ موت کے بعد اگر میرا خدا سے سامنا ہوا تو میں کیا کروں گا؟‘‘ میں نے عرض کیا، آپ تمام عمر توہین عدالت کے مقدمات سنتے رہے ہیں۔ ایسے مقدمات کی سماعت اس وقت ہوتی ہے جب مدعی اپنے جرم کا اعتراف کرے اور اپنے آپ کو عدالت کے رحم و کرم پر ڈال دے۔ آپ بھی یہی کیجیے گا۔ پیش ہوتے ہی اپنے جرم کا اعتراف کر لیجیے اور فیصلہ خداوند کریم پر چھوڑیے جو رب الرحیم ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔