دعوئوں اور وعدوں کا شور

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 11 نومبر 2015

یہ بات اچھی طرح سے سمجھنے کی ہے کہ آپ جیسا چاہیں گے ویسا ہی ہو گا، یعنی زندگی کے سارے کھیل میں اصل اہمیت حالات کی نہیں بلکہ آپ کی مرضی کی ہوتی ہے۔ لوگ خود یہ طے کرتے ہیں کہ ان کی زندگیاں کس طرح سے گزریں گی، اگر ہم خوش و خر م ہیں، خوشحال اور بااختیار ہیں تو یہ ہمارا اپنا انتخاب ہے اور اگر ہم بدحال، بے اختیار اور برے حال میں ہیں تو یہ بھی ہمارا اپنا ہی انتخاب ہے۔ ہماری اپنی مرضی کے خلاف ہمارے حالات کا فیصلہ ہو ہی نہیں سکتا، جب آپ اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لیتے ہیں تو آپ زندگی کے سارے فلسفے سے آگاہی حاصل کر لیتے ہیں۔

آج جو کچھ بھی ہمارے ساتھ ہو رہا ہے اس کی ساری کی ساری ذمے داری خود ہمارے اوپر عائد ہوتی ہے، ہم نے اپنے لیے اس زندگی اور حالات کا انتخاب خود کیا ہے، ہمارے ساتھ یہ سب کچھ ہماری اپنی مرضی اور منشا سے ہو رہا ہے، اگر ہماری مرضی اور منشا نہ ہوتی تو کسی میں بھی مجال تک نہیں ہے کہ وہ ہماری زندگی کے حالات کو خود طے کرے۔

قدیم یونان کا ممتاز دانشور، فلسفی اور مصنف پلوٹارک ایک بار ایک عوامی جلسے سے خطاب کر رہا تھا، اسی دوران بادشاہ کا ایک قاصد بادشاہ کا خط لے کر آ گیا تقریر کرتے کرتے پلو ٹارک نے خط کھول کر پڑھنا چاہا تو عوام میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور پلوٹا رک سے کہنے لگا پہلے ہمارے ساتھ بات کروٍ، بادشاہ کا خط پھر پڑھ لینا۔ پلوٹارک نے مسکرا کر خط بند کر دیا اور جیب میں رکھ لیا۔ جب جلسہ ختم ہو گیا اور لوگ چلے گئے تو خط پڑھا۔

ادھر روم میں جب عیسائیت رائج ہو گئی تب بھی Colosseum میں وحشتناک کھیل بند نہ ہوئے۔ 200 میں شہر میں حسب دستور اعلان ہوا کہ Colosseum میں تیغ زنی کے کرتبوں کا مظاہرہ ہو گا، سارا شہر جمع ہوا اور ان کے ساتھ ایک بزرگ درویش بھی تماشا گاہ میں داخل ہو گیا، تیغ زن اپنے ہاتھوں میں تیز تلواریں اور نیزے لیے ہوئے اکھاڑے میں اترے اور اپنے بادشاہ کے سامنے سے گزرتے ہوئے کہہ رہے تھے، مرحبا قیصر، مرنے والے تجھے سلام کرتے ہیں۔

اور جیسے ہی وہ ایک دوسرے سے مقابلے کو بڑھے تو ہجوم میں سے وہ بزرگ درویش نکلا اور دیوار پر سے اکھاڑے میں کود پڑا، اس نے تیغ زنوں سے التجا کی کہ وہ ناحق خون سے ہاتھ نہ رنگیں۔ اب کیا تھا اہل شہر نے چلانا شروع کر دیا، بوڑھے پیچھے ہٹ جاؤ۔ مگر بوڑھا درویش کب ہٹا، اس نے پھر تیغ زنوں کو منع کیا لیکن اب رومی غصے میں بپھر گئے اور ہر طرف سے یہ ہی آواز بلند ہو رہی تھی کہ اس دیوانے کو مار ڈالو۔ آخر بادشاہ نے بھی اپنی رضامندی کا اظہار کر دیا، تیغ زنوں نے ایک لمحہ میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور اسے روندتے ہوئے ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے لیے بڑھ گئے، سفاکی اور خونریزی کا سبق پھر دہرایا گیا، لیکن اس روز رومیوں نے بہت بے لطفی محسوس کی۔ بزرگ درویش کا خون رائیگاں نہ گیا، رومیوں نے اپنے کیے پر ندامت محسوس کی، انھیں خود اپنی سنگدلی پر صدمہ سا ہوا کہ انھوں نے خونریزی کی پیاس بجھانے کے لیے ایک مقدس بزرگ کی جان لی تھی۔

اسی دن سے Colosseum کے یہ ہولناک تماشے بند ہو گئے اور 402 میں بادشاہ ہانوریس نے ان وحشیانہ کھیلوں کو قانوناً بند کر دیا۔ بعد میں رومیوں نے احتراماً اس گمنام بزرگ کو مذہبی رسوم کے مطابق سینیٹ کلیمنٹ کے قریبی گرجا میں سپرد خاک کر دیا۔ پلوٹارک نے بادشاہ ٹارجن کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمہاری حکومت سب سے پہلے اپنے دل پر ہونی چاہیے۔

کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج ہمارے سامنے کتنی ہی ناانصافی، ظلم، زیادتی کیوں نہ ہو جائے کتنا ہی کسی کا حق کیوں نہ مارا جا رہا ہو ہم یہ سب کچھ اپنے سامنے ہوتا ہوا دیکھ کر خاموشی کے ساتھ اپنا راستہ نہیں بدل لیتے ہیں۔ کیا ہم سب اندھے، گونگے اور بہرے نہیں بن چکے ہیں، کیا ہم خاموش فلموں کے خامو ش ایکسٹرا کا کردار نہیں ادا کر رہے ہیں، کیا ایسا نہیں لگتا ہے کہ ہم اس طرح زندگی گزار رہے ہیں جیسے ہم کسی جنازے میں میت کے ساتھ ساتھ چل رہے ہوں، خاموش، اداس، غمگین، فکر مند، اپنی باری کے منتظر۔

سچ بات یہ ہے کہ ہمارا دشمن ہم سے زیادہ طاقتور اور مضبوط ہو چکا ہے جو ہمارے اندر بیٹھا ہوا ہے، ہر بالغ انسان بالغ نہیں ہوتا حالانکہ ہر بالغ انسان اپنے آپ کو بالغ سمجھتا ہے۔ ہماری عمر 68 سال ہو چکی ہے کیا یہ عمر بالغ ہونے کے لحاظ سے کافی نہیں ہے۔ لیکن کیا ہم اپنے آپ کو بالغ کہہ سکتے ہیں؟ آپ اور کچھ نہ کریں ملک کے ہر ادارے کا حال خود جا کر دیکھ لیں۔

اگر یہ نہیں کر سکتے ہیں تو پھر آپ صرف قومی اسمبلی کی ایک دن کی کارروائی جا کر دیکھ لیں اور اگر یہ بھی مشکل ہے تو چلو صرف ایک روز اپنے ٹی وی کے سامنے شام 6 بجے سے لے کر رات 2 بجے تک بیٹھ کر مختلف چینلز پر چلنے والے تمام ٹاک شو دیکھ لیں اور ساتھ ہی ساتھ کسی ایک روز کے تمام اخباروں کا تفصیلی مطالعہ بھی کر لیں، اس کے بعد اگر آپ پھر بھی پاکستانی قوم کو بالغ قوم کہیں گے تو پھر میں سر میں خاک ڈال کر جنگل کی طرف نکل جاؤں گا۔

ایک عام آدمی سے لے کر سیاست دانوں تک ہم سب بچے بنے ہوئے ہیں۔ اور بچے بھی وہ جو بگڑے ہوئے ہوں اور جو بچپن میں ہی یتیم ہو چکے ہوں۔ جس طرح ایک ایسا کمرہ جس میں ہر چیز ترتیب سے رکھی ہوئی ہو اور آپ اس کمرے میں تھوڑی دیر کے لیے ایک بچے کو اکیلا چھوڑ دیں پھر جب آپ تھوڑی دیر بعد اس کمرے میں جائیں تو آپ اس کمرے کا حشر نشر دیکھ کر سر پکڑ کے رہ جائیں گے اور تھوڑی دیر کے لیے آپ کی عقل جواب دے چکی ہو گی کہ میں اس کمرے کو دوبارہ صحیح کرنے کی ابتدا کہاں سے کروں۔ سو وہی حال ہمارے کروڑوں بچوں نے اس ملک کا کر دیا ہے۔

ملک میں صرف کوئی ایک چیز بتا دیں جو صحیح طریقے سے کام کر رہی ہو یا اس میں پہلے کے مقابلے میں بہتری آ گئی ہو۔ اگر غلطی یا نادانی سے کوئی چیز صحیح طریقے سے کام کرنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے تو اسے دیکھ کر ہماری آنکھوں میں خون اتر آتا ہے، اس کی یہ مجال دیکھ کر ہم اپنے آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور اس کو ایسی سزا دیتے ہیں کہ پھر اسے دوبارہ یہی کچھ کرنے کی جرأت ہی نہیں رہتی ہے اور ملک میں کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے، بس ہمارے چاروں طرف صرف کان پھاڑ دینے والے پروپیگنڈے ہو رہے ہیں۔

چین لوٹ لینے والے دعوے ہو رہے ہیں، کروٹ کروٹ بے چین کر دینے والے وعدے ہو رہے ہیں، بس چاروں طرف سے بڑے بڑے لاؤڈ اسپیکروں سے پروپیگنڈوں، دعوؤں اور وعدوں کا ایسا شو ر مچا ہوا ہے کہ انسان اپنے دل کی بھی نہیں سن پا رہا ہے، بس بیچ چوراہے میں کانوں پر ہاتھ دھرے اکڑوں بیٹھا زار و قطار رو رہا ہے اور اس کے چاروں طرف بھدی، بھونڈی بلند آوازیں دیوانہ وار ناچ رہی ہیں۔

زخموں سے چور چور ہیں اشجار کے بدن

ہے پھر ہوا کے ہاتھ میں خنجر کھلا ہوا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔