نصاب تعلیم:ایک مختصر جائزہ

مقتدا منصور  جمعرات 12 نومبر 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

نصاب تعلیم وہ تدریسی اور تربیتی محدودات (Outlines) ہوتی ہیں، جن کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے تعلیمی ادارے نئی نسل کو ذہنی ، فکری، علمی اور عملی طور پر تیار کرتے ہیں۔

نصاب تعلیم کا انحصار ریاست کی قومی تعلیمی پالیسی پر ہوتا ہے، جس میں مستقبل کے اہداف کا تعین کیا جاتا ہے۔ وقت اور حالات کے تحت جہاں دیگر ریاستی امور و معاملات تبدیلیوں اور تغیرات سے گزرتے ہیں، وہیں تعلیمی اہداف بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں چونکہ نصاب تعلیم قومی اہداف سے مشروط ہوتا ہے، اس لیے اس میں بھی وقتاً فوقتاً تبدیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایک ترقی دوست ریاست رونما ہونے والے اندرونی و بیرونی تغیرات کا ادراک کرتے ہوئے اپنی دیگر پالیسیوں کے ساتھ تعلیمی نظام کی فعالیت کو برقرار رکھنے کی خاطر اس میں بھی حسب ضرورت ترامیم و اضافہ کرتی رہتی ہے۔ پاکستان کے نظام تعلیم میں گو کہ مختلف ادوار میں تبدیلیاں ضرور لائی گئیں، لیکن یہ تبدیلیاں حقیقت پسندی کا مظہر ہونے کے بجائے فکری نرگسیت کے زیر اثر زیادہ رہی ہیں جس کی وجہ سے نظام تعلیم معاشرے پر خاطر خواہ مثبت اثرات مرتب کرنے میں ناکام ہے۔

پاکستان جس خطے پر قائم ہوا ہے، وہ انگریز ہی نہیں بلکہ مغلیہ دور سے پسماندہ چلا آرہا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ملک کے مغربی حصے میں خواندگی کی شرح صرف 8.5فیصد تھی،جو اربن علاقوں سے ہجرت کر کے آنے والوں کی وجہ سے14.7فیصد ہوگئی تھی ، لیکن اس شرح میں اگلے چار برس یعنی1951تک کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

البتہ مشرقی حصے میں خواندگی کی شرح مغربی حصے کے مقابلے میں قدرے بہتر تھی۔ تعلیم کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے قیام پاکستان کے فوراً بعد یعنی اسی برس قومی تعلیمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، لیکن ماہرین کی کمیابی اور وسائل کی عدم دستیابی کے سبب تمام سطحوں پر برطانوی دور کے نصاب کو جاری رکھنے کا فیصلہ ہوا۔

1951میں ہونے والی تعلیمی کانفرنس میں پہلی بار اہداف کا تعین کرنے کی کوشش کی گئی اور ایک چھ سالہ منصوبہ(1951-57) ترتیب دیا گیا۔ اس وقت صورتحال یہ تھی کہ 4سے10برس عمر کے بچوں کی دو تہائی اکثریت اسکولوں سے باہر تھی۔ انھیں اسکولوں میں داخل کرنے کے لیے نئے اسکولوں کی تعمیر کے ساتھ فوری طور پر  87ہزار تربیت یافتہ اساتذہ کی ضرورت تھی لیکن سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ صرف تربیت یافتہ اساتذہ ہی کی قلت نہیں تھی، بلکہ میٹرک تک تعلیم یافتہ افرادی قوت بھی بہت کم دستیاب تھی جو اساتذہ درس و تدریس کی ذمے داریاں ادا کررہے تھے، وہ مطلوبہ تعداد کا تقریباً ایک چوتھائی تھے جن میں سے بیشتر غیر تربیت یافتہ تھے۔

اسی دوران پہلا پنج سالہ منصوبہ (1955-60)پیش کیا گیا، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ4 ہزار نئے اسکول قائم کیے جائیں ، تاکہ1960 تک اسکولوں کی تعداد کو کم از کم20ہزار تک پہنچایا جا سکے۔یہ بھی طے کیا گیا کہ تعلیم کے فروغ کی خاطر نجی شعبے کی بھی حوصلہ افزائی جائے مگر اس دوران پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں جو اسکول کھلے وہ زیادہ تر شہروں میں تھے جس کی وجہ سے دیہی علاقوں کی تعلیمی پسماندگی میں کوئی زیادہ فرق نہیں آ سکا۔

پاکستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ جہاں صاحب بصیرت سیاستدانوں کے فقدان کے باعث مختلف ریاستی پالیسیوں پر بیوروکریسی حاوی ہوتی چلی گئی ہے، وہیں تعلیم کے شعبے میں اہل ماہرین تعلیم کی عدم موجودگی کے باعث تعلیمی پالیسیوں کی تشکیل پر بھی روز اول سے بیوروکریسی ہی حاوی چلی آ رہی ہے۔ دوسری طرف ریاستی منصوبہ سازوں نے ریاست کے منطقی جواز کی تھیوکریٹک تفہیم کے لیے ہر سطح پر فکری نرگسیت کا سہارا لیا۔ تعلیم کا شعبہ اس سوچ کی پہلی تجربہ گاہ بن گیا۔ اس پر طرہ یہ ہوا کہ ابھی چھ سالہ منصوبے پر مکمل طور پر عمل درآمد بھی نہیں ہو پایا تھا کہ ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کردیا۔

ایوب خان کا دور حکومت گو کہ خاصا لبرل کہلاتا ہے، لیکن نصاب تعلیم میں نفرت انگیز مواد(Hate Material)پہلی بار انھی کے دور میں شامل کیا گیا۔ 1959 میںانھوں نے ایک نیا تعلیمی کمیشن قائم کیا جس میں نصاب کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ خاص طور پر تاریخ، جغرافیہ اور شہریت جو چھٹی سے نویں جماعت تک الگ مضمون کے طور پر پڑھائے جاتے تھے، انھیں معاشرتی علوم کے مضمون میں ضم کردیا گیا۔اول ، تاریخ ایک ذیلی مضمون بن کر رہ گیا۔

دوئم،تاریخ کواس خطے میں مسلمانوں کی آمد اور آل انڈیا مسلم لیگ کی جدوجہد تک محدود کرنے کے علاوہ اس میں غیر مسلموں کے خلاف نفرت انگیز مواد شامل کردیا گیا۔ یہی کچھ جغرافیہ اور شہریت کے ساتھ کیا گیا۔ اردو میں ایسے مضامین شامل کیے گئے جن سے مسلم قومیت کا تصور اجاگر ہوتا ہو۔ ون یونٹ کی خواہش میںسندھ کے تعلیمی اداروں سے سندھی زبان کی لازمی مضمون کے طورپر تدریس ختم کردیے جانے کے نتیجے میں صرف کراچی میں400 سندھی میڈیم اسکول بند کردیے گئے۔

اس زمانے میں نصاب کی تیاری کا کام وفاقی وزارت تعلیم کی ایک برانچ جو Curriculum Wing کیاکرتی تھی جسے ملک کے دونوں صوبوں کے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں پڑھایا جاتا تھا۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نے1972میں نئی تعلیمی پالیسی ترتیب دی۔گوکہ اس پالیسی کی تیاری میں بھی نمایاں کردار بیوروکریسی ہی کا تھا،لیکن اس تعلیم کے بارے میں پیپلز پارٹی کے اہداف کوشامل کیا گیا تھا۔ اس پالیسی کے تحت اسکولوں اور کالجوں کو قومیائے جانے کے ساتھ نصاب کی تیاری کے لیے قومی ادارہ نصاب و نصابی کتب(National Bureau of Curriculum & textbooks)قائم کیا گیا۔

اس کے علاوہ ہر صوبے میں  صوبائی ادارہ نصاب وتوسیع تعلیم(Bureau of curriculum & extension wing)اور ٹیکسٹ بک بورڈز قائم کیے گئے۔ بھٹو مرحوم کا خیال تھا کہ جب دس برس بعد مشترک فہرست (Concurrent list)ختم ہوگی اور صوبے تعلیم سمیت دیگر صوبائی شعبہ جات کی پالیسی سازی میں خودمختار ہوں گے، تو اس وقت تک صوبائی ادارہ نصاب کی استعداد اس حد تک بڑھ چکی ہو کہ وہ اپنے صوبے کا نصاب خود بنا سکیں۔ ان اداروں کے قیام کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ نصاب کی تیاری میں اساتذہ کے کردار کو بتدریج بڑھایا اور بیوروکریسی کا کردار کم سے کم کیا جائے۔

لیکن1977میں ضیاء الحق کے مارشل لاء نے 1972 کی تعلیمی پالیسی کو اہداف کی تکمیل سے پہلے ہی غیر فعال کردیا۔1979میں اس حکومت نے ایک نئی تعلیمی پالیسی دی۔ یہ ایک خطرناک پالیسی تھی، مذہبی تنگ نظری اور فرقہ وارانہ تعصب کی راہ ہموارکی گئی تھی جس کا ثبوت یہ ہے کہ دینیات کانام تبدیل کر کے اسے اسلامیات کردیا گیا۔ شیعہ اور سنی طلبہ کے لیے اسلامیات کی الگ کتب لائی گئیں اور امتحانی بورڈز نے اسلامیات کے پرچے میں شیعہ اور سنی طلبہ کے لیے الگ حصے مختص کیے۔

اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کی تدریس کو انٹرمیڈیٹ تک لازمی کرنے کے علاوہ پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں کے نصاب میں بھی شامل کردیا گیا۔ بھٹو کے دور تک چھٹی سے آٹھویں جماعت تک طلبہ کو فارسی یا عربی میں سے کوئی ایک اختیاری مضمون پڑھنا ہوتا تھا لیکن 1979کی پالیسی میں عربی کو لازمی مضمون قرار دے دیا گیا۔ اس کے علاوہ ہر مضمون میں کوئی نہ کوئی ایسا سبق شامل کیا گیا، جس میں غیر مسلموں بالخصوص ہندو کمیونٹی کو سازشی اور مسلم دشمن ثابت کیا گیا ہو۔

میاں نواز شریف نے اپنے دونوں ادوار میں تعلیمی پالیسیاں دیں، پہلی1992اور دوسری1998میں۔ ان میں تعلیم کے فروغ کے لیے بعض ٹھوس اقدامات تجویز کیے جانے کے باوجود نصاب میں موجود نفرت انگیز مواد کو خارج کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ اس کا سبب شاید اسٹبلشمنٹ اور مذہبی جماعتوں کا دباؤ تھا جن کے مخصوص مفادات کی تکمیل نفرت انگیز مواد کا زہر نئی نسل کے ذہنوں میں بھرنے سے مشروط ہے۔

جنرل پرویز مشرف نے 2001میں تعلیم کو عالمی معیار کے مطابق جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے چند ترقی دوست ماہرین تعلیم سے رابطہ کیا جن میں ڈاکٹر اے ایچ نیر، ڈاکٹر پرویزہود بھائی اور دیگر شامل تھے۔ مگر بیوروکریسی نے ان کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا ۔گو کہ بعض سطحوں پر خوشگوار تبدیلیاں آئیں لیکن نفرت انگیز مواد بدستور نصاب کا حصہ رہا۔

پاکستان میں ایک ترقی دوست نصاب کی تیاری میں سب سے بڑی رکاوٹ ریاست کے منطقی جواز کے حوالے سے پایا جانے والا ابہام ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی اسٹبلشمنٹ اور مقتدر اشرافیہ جدید خطوط پر استوار ترقی دوست نصاب تعلیم کے رائج کیے جانے کے حق میں نہیں ہے کیونکہ تعلیم کے عام ہونے سے ان کے مخصوص مفادات کی تکمیل ممکن نہیں ہوتی۔

اپنے مقصد کے حصول کے لیے مذہبی جماعتوں کو استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے سرکاری اور نچلے متوسط طبقے کے علاقوں میں قائم نجی تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا نصاب جدید تقاضوں کے مطابق تبدیلیوں سے محروم ہے جب کہ متمول گھرانوں کے بچے ان تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔

جہاں کیمبرج سسٹم کے تحت تعلیم دی جاتی ہے۔ اس طرح ایک طرف طبقاتی فرق مزید گہرا ہو رہا ہے۔ دوسری طرف سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار  پست سے پست تر ہوتا جا رہا ہے۔ تعلیمی نظام کی اس تباہی کی تمام تر ذمے داری ریاستی مقتدر اشرافیہ اور مذہبی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے جو نصاب تعلیم میں مثبت تبدیلیوں کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔