نجات کا کوئی اور راستہ نہیں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 14 نومبر 2015

مذہبی عدالت کے ججوں نے اسے موت کی سزا دی۔ سزا کا حکم سنتے ہی برونو نے کہا ’’میرے جج مجھے موت کی سزا کا حکم سناتے ہوئے مجھ سے زیادہ خوف محسو س کر رہے ہیں۔‘‘ اسے آٹھ دن کے لیے جیل میں رکھاگیا تا کہ وہ تائب ہو سکے لیکن توبہ کیسی۔ اسے آگ میں کودنے کے لیے کہا گیا، وہ بے خوف آگ میں کو د پڑا،تماشائیوں میں سے کسی نے صلیب کو بڑھایا، تا کہ برونو مرنے سے پہلے اسے بوسہ دے سکے، مرنے والے نے صلیب کوایک طرف ہٹا دیا تھا۔

آج سے چار سو سال پہلے روم میں برونو کو زندہ جلا دیا گیا تھا، اس نے اس امر پر اصرار کیا تھا کہ زمین سو رج کے گرد چکر کاٹتی ہے۔ مغرب میں ایک ہزار سال تک کلیسا کا اقتدار رہا اس طویل زمانہ میں نہ صرف انسانی جسم کو زنجیروں میں جکڑا گیا بلکہ انسانی ذہن کو بھی مقفل کر دیا گیا تھا۔ انسانوں کو دہشت زدہ کر نے کے لیے نہایت خوفناک سزائیں دی جاتی تھیں، لوگوں کو شکنجوں میں کس کر ان کی ہڈیاں چور چور کی جاتیں، جسموں سے گوشت آہنی کنگھیوں سے نو چ نوچ کر ہڈیوں سے جدا کیا جاتا، آنکھوں میں گرم سلایاں پھیروا دی جاتیں۔

جسم کے نازک حصوں کو آتشیں سلاخوں سے داغا جاتا، زندہ انسانوں کی کھال کھینچ لی جاتی، آگ کے شعلوں میں جھونک دیا جاتا۔ سانپوں اور بچھووں سے بھرے ہوئے تہہ خانوں میں پھِنکوا دیا جاتا، لکڑی کی طرح جسموں کو آرے سے دو ٹکڑے کرایا جاتا، دیگوں میں بند کر کے آگ پر رکھ دیا جاتا۔ شاہی عمارتوں کی بنیادوں میں ہزاروں جنگی قیدیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا، ملحدوں کی گھروں میں بیٹھی عورتوں کی سر بازار عصمت دری کرائی جاتی، عورتوں کو چھاتیوں سے باندھ کر قلعے کی فصیل سے لٹکا دیا جاتا۔ انسانوں کو بھوکے شیروں سے پھڑوا دیا جاتا، ہاتھیوں کے پاؤں کے نیچے کچلوا دیا جاتا، زبان تالو سے کھنچوا کر باہر نکال لی جاتی، زندہ آدمیوں کو دیوار میں چنوا دیا جاتا تھا۔

مذہب کے نام پر معصوم اور بے گناہ انسانوں کا بے دریغ خون بہایا گیا۔ فرانس میں تین بار تو لومیو کا قتل عام مذہب کے نام پر کیا گیا۔عثمانی نے مذہبکے نام پر پچیس ہزار بے گناہوںکا قتل عام کیا۔ دوسری جانب شاہ اسماعیل صفوی نے دین و مذہبہی کے نام پر بیس ہزار افرادکو لقمہ شمشیر بنایا۔ ماضی میں یورپ میں کالی وبا پھیلی تو مذہب کے ٹھیکیداروں نے کہا اس کا باعث یہودی ہیں چنا نچہ یہودیوں کو چن چن کر سولی پر چڑھا دیا گیا۔ ہندؤں نے نہایت بیدردی سے بدھوں کا استحصال کیا۔ تقسیم ہند کے موقعے پر مذہب کے نام پر کم و بیش پندرہ لاکھ بے گناہ انسان نہایت سفاکی سے تہ تیغ کر دیے گئے۔

تمام مذاہب نے تشدد کی مذمت کی ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ اکثر اوقات بد ترین تشدد مذہب کے نام پر ہی روا رکھے گئے ہیں ۔ 16 ویں صدی میں جہاں یورپ میں عدم رواداری اپنی انتہا پر تھی جنوبی ایشیا ء میں رواداری کا دور دورہ تھا۔ پروفیسر فلپ لکھتا ہے ’’یورپ کے قرون وسطیٰ کی فکری تاریخ میں مسلم اسپین نے انتہائی درخشاں ابواب تحریر کیے۔

8 ویں اور 13 ویں صدی کے دوران عربی بولنے والے ساری دنیا میں تہذیب و تمدن کے مشعل بردار تھے۔ مزید برآں ان ہی کی کوششوں سے قدیم سائنس اور فلسفے کی بازیابی ہوئی۔ انھوں نے اس علم میں اضافہ کیا اور اس کو دوسروں تک اس طرح پہنچایا کہ مغرب نشاۃ ثانیہ سے آشنا ہوا۔ سچ یہ ہے کہ یورپ میں رواداری اور سیکولر خیالات کو فروغ دینے میں عرب مفکرین نے بڑا تاریخی کردار ادا کیا اور قومی ریاستوں کو کلیسا کی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے جن دلیلوں کی ضرورت تھی وہ سیکولر مفکر یننے ہی فراہم کیں۔ اٹھارویں صدی صنعتی انقلاب، سیاسی انقلاب اور روشن خیالی کے عروج کی صدی تھی، والیٹر، روسو، مان تس کیو، اولباخ، دیدرو، کانٹ سمیت بے شمار ایسے مفکر پیدا ہوئے جنہوں نے معاشرتی اقدار و افکار کا رخ ہی بدل دیا۔

تاریخی اعتبار سے امریکا عہد جدید کی پہلی سیکولر ریاست ہے مگر جس سماجی انقلاب کی وجہ سے سیکولر اداروں اور مفکروں کے اثرات یورپ اور ایشیا میں نمایاں ہوئے وہ فرانس کا انقلاب عظیم تھا اس کے باعث یورپ میں ملوکیت، فیوڈل ازم اور کلیسا کی بالادستی ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی۔ اور جاگیرداری نظام کے تینوں ستون گرا دیے گئے۔

مغرب نے روایت پسندی کی زنجیروں کو توڑکر نئے علم اور سائنس کی بنیاد ڈالی تو اس کا اثر یہ ہوا کہ دنیا کی شکل بدل گئی اور دوسری طرف اسلامی فکر میں انجمادکا بنیادی سبب یہ تھا کہ مسلم معاشرہجمود کا شکار ہو گیا۔ تلاش و تحقیق، تجزیہ اور مشاہدہ کی روایت کو علمائے دیننے نہ صرف ترک کر دیا تھا بلکہ وہ قرون وسطیٰ کے روشن خیال مسلمان مفکروں کو کافر، ملحد کے لقب سے نوازتے رہے نتیجہ یہ ہوا کہ ہم دلدل میں ایسے پھنسے کہ پھر کبھی نکل نہ سکے۔

اور آج صورتحال یہ ہے کہ یورپ جہاں عدم رواداری انتہا پر تھی اب رواداری انتہا پر ہے اور دوسری طرف ہمارے ہاں جہاں رواداری انتہا پر تھی اب عدم رواداری انتہا پر ہے۔ آج کا عہد عقل اور منطق کا عہد ہے آج عقل آزاد ہے سائنس دانوں، فلسفیوں اور سیاسی مفکروں نے فرسودہ عقائد و نظریات کے بخییادھیڑ دیے ہیں۔ جمہوریت، مساوات، تقسیم اختیارات، آزادی اور امن جیسے تصورات کی پوری دنیا پر حکمرانی ہے۔ دنیا نئے دور میں داخل ہو گئی ہے جب کہ ہم آج پوری دنیا کے ہم سفر بننے کی بجائے پیچھے کی جانب سفر کر رہے ہیں، پوری دنیا میں ہمیں شک کی نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ ہمیں جنونی اور انتہا پسند سمجھا جا رہا ہے آج ہم چند ہزار انتہا پسندوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مجرم کی حیثیت سے کھڑے ہیں۔

ہمیں نفرت کا سوداگر قرار دے دیا گیا ہے۔آج پاکستان وہیں پر کھڑا ہے جہاں صدیوں پہلے یورپ کھڑا تھا۔ ہمیں علاقائی اور عالمی امن کے لیے خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔ ہمارا معاشرہ مذہبی عدم رواداری کی آگ میں جل رہا ہے تشدد اور دہشت گردی نے ملک کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا ہے جمہوری قوتوں کو کمزور کر نے کے لیے ماضی میں جس طرح ملائیت کو فروغ دیا گیا اس نے صورتحال کو بد سے بد تر بنا دیا ہے عسکریت پسندی، تعلیمی نظام میں قدامت پرستی، داخلی اور خاری پالیسیوں میں تبدیلی اور ملک کو ایک ترقی پسند اور سیکولر نظام کی طرف بڑھانے کے سوا نجات کا کوئی اور راستہ نہیں ہے دوسرا ہر راستہ صرف اندرونی شکست و ریخت اور تباہی کی طرف جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔