قوم کو مبارک ہو! اب ڈاکو, چور اور اشتہاری بلدیاتی نظام چلائیں گے

رحمت علی رازی  اتوار 15 نومبر 2015
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

بلدیاتی نظام کے حوالے سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ کلی طور پر آمرانہ ورثہ ثابت ہوتا ہے۔ ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے اپنے سنگھاسن کو غیر متزلزل بنانے کے لیے مقامی حکومتوں کے بدست پارلیمانی نظام کو اپنے اپنے زاویہ سے گن پوائنٹ پر رکھا۔ ان تینوں آمروں نے عالمی برادری کو فریبِ نظر دینے کے لیے پارلیمانی بتوں کو نمائشی کھلونے بنا کر سیاسی ایوانوں کے طاقچوں پر سجائے رکھا اور بلدیاتی کھلیانوں میں بنیادی جمہوریت کے ہل چلا کر اقتدار کی قدآور فصلیں اگاتے رہے۔

عام معنوں میں بلدیات کی اصل رشتہ داری آمریت سے نہیں جمہوریت سے ہے مگر اہلِ جمہور نے اس کے سر پر ہاتھ رکھنے کی بجائے اسے قبیلہ بدر کیے رکھا۔ بلدیاتی نظام کی ابتدا سب سے پہلے 1959ء میں جنرل ایوب خان نے کی اور باقاعدہ قانون سازی کر کے بنیادی جمہوریت کے سیٹ اپ کو 1962ء میں دستور کا حصہ بنایا۔ ایوب خان نے یونین کونسل سے بھی زیریں سطح پر گاؤں گاؤں، قریہ بہ قریہ اپنا رسوخ جمانے کے لیے مقامی کونسلیں تشکیل دیں اور اسطرح اپنی اس ’’بنیادی جمہوریت‘‘کو پارلیمانی جمہوریت کا متبادل قرار دیا۔ جنرل ایوب کے اقتدار سے رخصت ہوتے ہی بنیادی جمہوریت کے ہر خوشہ کو جلا کر راکھ کر دیا گیا۔

بعد ازاں جنرل ضیاء نے اقتدار کے افق پر نمودار ہوتے ہی جنرل ایوب کے نقش قدم کی خاک چوم کر آنکھوں سے لگائی اور اس میں انہیں ایسی ٹھنڈک محسوس ہوئی کہ 1979ء میں لوکل گورنمنٹ سسٹم کے نفاذ کو عملی جامہ پہنا دیا۔ ایوب کے بی ڈی سسٹم میں مقامی کونسل، یونین کونسل، تحصیل کونسل و ضلع کونسل جیسے ادارے تھے جب کہ ضیاء کے لوکل گورنمنٹ سسٹم میں شہری سطح پر ٹاؤن کمیٹی، میونسپل کمیٹی، میونسپل کارپوریشن اور میٹروپولیٹن کارپوریشن اور دیہی سطح پر یونین کونسل، تحصیل کونسل اور ضلع کونسل کے نام سے بلدیاتی ڈھانچہ متعارف کروایا گیا۔ جنرل ضیاء کی موت کے ساتھ ہی اسکا مقامی حکومتوں کا نظام بھی کریش ہو گیا اور بعد میں آنیوالی غیر یقینی حکومتوں نے اسے آمروں کی باقیات سمجھ کر اچھوت قرار دیدیا۔

تیسری بار مشرف کی شکل میں ایک اور آمر وارد ہوا تو اس نے بلدیاتی نظام کی سرجری کروا کر اسے ایک نئی شکل عطا کی اور ضلع، تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر ناظم مقرر کیے اور مجسٹریسی نظام ختم کر کے ڈی سی او کو ضلعی انتظامیہ کا انچارج بنا دیا جو ضلع ناظم کی نگرانی میں کام کرنے کا پابند تھا۔ تینوں آمرانہ حکومتوں کے نظام ہائے بلدیات دراصل ایک ہی سلسلہ کی مختلف کڑیاں ہیں تاہم ایوب اور ضیاء کے پیش کردہ انتظامی ڈھانچے میں کچھ زیادہ فرق نظر نہیں آتا کیونکہ ان میں ڈسٹرکٹ مینجمنٹ اور پولیس گروپ کا کردار بیحد مضبوط ہے جب کہ مشرف کے ضلعی سیٹ اپ میں ڈسٹرکٹ گورنمنٹ بیوروکریسی پر حاوی ہے۔

افسر شاہی پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے مشرف نے ضلعی حکومتوں کو دل کھول کر فنڈز دیے اور ساتھ ہی ہر سرکاری محکمہ میں ریٹائرڈ عسکری افسران کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کر دیا۔ مشرف کے بعد بلدیاتی ماحول میں ایک بار پھر تعطل پیدا ہو گیا اور پیپلز پارٹی جیسی لبرل حکومت نے بھی ذوالفقار علی بھٹو کی ڈگر پر چلتے ہوئے طاقت کا ارتکاز اپنی مٹھی ہی میں رکھا اور مشرف کے بلدیاتی نظام کو چلتا کیا۔ اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے وقت پی پی پی کے تھنک ٹینکس کو یہ خیال آیا کہ صوبائی خودمختاری کے ضمن میں بلدیاتی انتخاب کا حق بھی صوبوں کو تفویض کر دیا جائے تا کہ وفاق اس قابل نہ رہے کہ وہ کسی آمر یا صدارتی مہم جو کو مقامی حکومتوں کے ذریعے ملک پر راج کرنے کا راستہ دے سکے۔

لوگ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ زرداری لیگ نے اختیارات کی انتہائی نچلی سطح تک منتقلی کے لیے اٹھارہویں ترمیم میں بلدیاتی الیکشن کا تحفہ دیکر صوبوں پر احسان کیا یا اس میں اس کا ذاتی مفاد تھا تو یہ سراسر اُن کی بھول ہے،اور یہ بات صوبہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے دیر تک بلدیاتی انتخاب سے فرار کی شکل میں ثابت بھی ہو چکی ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو بلدیاتی قوانین بنانے کا پابند بنایا گیا ہے مگر ہر صوبے نے قانون سازی کے عمل میں حتیٰ الوسع تاخیر کا مظاہرہ کیا۔ بلوچستان، جسے سب سے پسماندہ صوبہ تصور کیا جاتا ہے، نے اس استحقاق سے بلاحیل و حجت استفادہ کرتے ہوئے 2010ء میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ منظور کر لیا جب کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا نے سندھ کی تقلید میں اس معاملہ کو آئندہ عام انتخابات تک لٹکائے رکھا۔

2013ء میں پی ٹی آئی کی حکومت نے سب سے پہلا کام لوکل گورنمنٹ ایکٹ پاس کرنے کا کیا تو پنجاب اور سندھ نے بھی اسی سال لوکل گورنمنٹ ایکٹس پاس کر لیے۔ سندھ اور خیبرپختونخوا نے قانون سازی کرتے وقت اس بات کا خیال ضرور رکھا کہ مقامی حکومتوں کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنایا جائے جب کہ پنجاب اور بلوچستان نے ضلع کونسلوں کو صوبائی حکومتوں کا دستِ نگر بنا دیا ہے لیکن بحیثیت مجموعی چاروں صوبوں کے وضع کردہ قوانین سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں جنرل ضیاء کے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کی جھلک نمایاں ہے اور انتظامی اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کی طرف زیادہ جھکاؤ نہیں دکھایا گیا،بہ ایں ہمہ ساری انتظامی طاقت صوبائی حکومتوں نے اپنے ہاتھ میں ہی مرکوز رکھی ہے۔

انتقالِ اختیارات کو ضلع لیول یا اس کی زیریں تہہ تک لے جانے کا سودا پنجاب میں سب سے زیادہ مشکل ہے۔ پنجاب کو طاقتور بیوروکریسی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور بیوروکریسی خواہ وفاقی ہو یا صوبائی،ازل سے بلدیاتی سیٹ اپ کی مخالف رہی ہے۔ شہباز شریف کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کا جانشین اسلیے سمجھا جاتا ہے کہ وہ تیسری مرتبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے ہیں اور ہنوز قسمت کی دیوی ان پر مہربان نظر آتی ہے،وزارتِ اعلیٰ میں ہیٹ ٹرک کرنے پر انہیں تخت لاہور کا وارث ہونے کا نمایاں اعزاز حاصل ہے،انھوں نے پنجاب پر جب جب حکمرانی کی،ایک طاقتور افسر شاہی ان کے نیٹ ورک کا حصہ رہی،ان کی ذاتی حیثیت بھی ایک اعلیٰ پائے کے مہا کلاکار بیوروکریٹ کی سی ہے جو کمال فنکاری سے صوبے کے تمام انتظامی و مالی اختیارات پر قابض ہے۔

خادمِ اعلیٰ کو عوامی مسائل کے حل سے کبھی دلچسپی نہیں رہی،انھوں نے طاقت کی بادہ نوشی کے لیے ضلعی بیوروکریسی کے اختیارات تک سلب کر رکھے ہیں،ایسے میں وہ ایک بااختیار متبادل انتظامی سیٹ اَپ بھلا کیونکر متعارف کروائیں گے۔ وہ تو پہلے ہی ہر تحصیل و ضلع کے ایم پی ایز کو وظیفے دے دے کر عاجز آ چکے ہیں،اب چیئرمین، وائس چیئرمین اور کونسلروں کو بھی وظیفے دینا پڑیں گے،معاملہ وظیفوں تک رہے تو بھی کسی حد تک قابل برداشت ہے لیکن ایک لمبا چوڑا ترقیاتی بجٹ 36 اضلاع اور ان کی تحصیلوں اور یونین کونسلوں کے عوام کی بنیادی سہولیات اور مسائل کے حل پر خرچ ہو، یہ ان کی برداشت سے باہر ہے۔

شہباز شریف کا تو یہ ملال بھی آج تک رفع نہیں ہو سکا کہ وہ مشرف دور کے ناظمین سے ریوڑیوں کی طرح بانٹے ہوئے اربوں کھربوں کے سرکاری فنڈز واپس نہیں لے پائے حالانکہ 2008ء میںپنجاب کا اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد انھوں نے ہنگامی بنیادوں پر سابقہ ضلعی حکومتوں کا آڈٹ شروع کروایا تھا اور اخبارات میں بڑے بڑے سرکاری اشتہارات شایع کروائے تھے کہ عوام کے خون پسینے سے کشید کیے گئے کھربوں روپے پرویز الٰہی سرکار نے بے رحمی سے ضلعی اور ذیلی ناظموں پر نچھاور کیے جو عوام کی فلاح پر خرچ کرنے کی بجائے ضلعی حکومتوں کے کارندوں نے نجی فلاح کے لیے استعمال کیے،یہ پنجاب کے عوام کے ساتھ بہت بڑا فراڈ ہے جسکا حساب ہر حال میں لیا جائیگا۔

شہباز شریف نے ضلعی حکومتوں کا سپیشل آڈٹ بھی کروایا اور 12 سال سے سالانہ آڈٹ رپورٹیں بھی آج تک مرتب ہو رہی ہیں مگر سیاسی چالبازیوں میں بات آئی گئی ہو گئی،افسوس تو یہ ہے کہ پنجاب حکومت کی طرف سے آج تک ان آڈٹ رپورٹس کا فورم تک طے نہیں ہو پایا۔

شہباز شریف جس نظام کی مخالفت پر تلے رہے اب عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے پر وہی نظام انہیں اپنے ہاتھ سے بنا کر پنجاب میں رائج کرنا پڑ رہا ہے۔ سندھ اور پنجاب نے گزشتہ دورِ حکومت میں بلدیاتی نظام سے متعلق قانون سازی پر کوئی توجہ نہ دی اور موجودہ حکومت میں بھی اڑھائی سال کا عرصہ 2013ء کے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس میں ترمیم کرنے کی حیلہ جوئی پر گزار دیا۔ اب بھی اگر سپریم کورٹ آنکھیں نہ دکھاتی تو باقی اڑھائی سال بھی لیت و لعل میں ہی گزر جاتے۔

بلوچستان اور خیبرپختونخوا میںتو بلدیاتی الیکشن کب کے ہو چکے،سندھ اور پنجاب میں اب ہونے شروع ہوئے ہیں،اور جیسا کہ گزشتہ ادوار میں ہوتا آیا ہے اس بار بھی سیاستدانوں کے اقرباء ہی کو ٹکٹیں بانٹی گئی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنی اس روایت کا آغاز خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات سے کیا اور ضلع شانگلہ میں اپنے صوبائی رہنماء اور وزیر اعظم کے مشیر امیر مقام کے بیٹے نیاز امیر کو ضلعی ناظم منتخب کرانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔

یہ دیکھ کر تحریک انصاف بھی موروثی و خاندانی سیاست کے باب میں پی پی اور نون لیگ سے پیچھے نہ رہی اور اب اس ضمن میں اس کا موقف بھی مکمل بے اثر ہو چکا ہے۔ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک جو پہلے ہی سے اقرباء پروری کے الزامات کی زد پہ تھے، انھوں نے بلدیاتی انتخابات میں اپنے بھائی لیاقت خٹک کو نوشہرہ کا ضلعی ناظم بنوا کر دم لیا۔ صوبائی وزیر مال علی امین گنڈہ پور نے اپنے چھوٹے بھائی عمر امین گنڈہ پور کو ڈیرہ سے تحصیل ناظم بنایا۔ ڈیرہ ہی کی ایک اور تحصیل پہاڑ پور سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب تحصیل ناظم جہانزیب خان پنیالہ کے معروف خاندان کے چشم و چراغ ہیں،ان کے بھتیجے احتشام اکبر اپنے والد جاوید اکبر خان کے جعلی ڈگری کے مقدمے میں نااہلی کے بعد تحریک انصاف کے منتخب ممبر اسمبلی ہیں۔

ضلع ٹانک میں پاکستان تحریک انصاف کے منتخب ممبر قومی اسمبلی داور خان کنڈی نے اپنے بھائی مصطفی خان کنڈی کو ضلعی ناظم منتخب کروایا۔ ڈیرہ میں ضلع کونسل کے چیئرمین امان اللہ خان کنڈی عرف منو خان 1979ء میں چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل رہے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے منتخب ضلعی ناظم عزیز اللہ خان علی زئی پی ٹی آئی کے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی سمیع اللہ خان علی زئی کے برادر نسبتی اور فرسٹ کزن ہیں جب کہ ضلع کونسل میں یوتھ کی مخصوص نشستوں پر اپنے بھائی عثمان علی زئی کو رکن منتخب کروانے میں کامیاب رہے۔

صوبائی وزیر قانون امتیاز قریشی نے اپنے بھائی اشفاق قریشی کو ضلع کوہاٹ کی تحصیل لاچی سے تحصیل ناظم منتخب کروایا۔ تحریک انصاف کی ٹکٹوں پر منتخب ممبران اسمبلی کی اکثریت موروثی سیاست یا خاندانی سیاست کی پروردہ ہے جب کہ عمران خان کی جانب سے خصوصاً اور پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے عموماً مورثی سیاست اور خاندانی سیاست کے خاتمے کی مسلسل باتیں کی جاتی رہی ہیں مگر عملاً خود انھوں نے صوبہ بھر میں بلدیاتی اداروں میں ارکان اور ضلعی و تحصیل نا ظمین کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم میں صوبے کے بااثر خاندانوں کے افراد کو ٹکٹوں سے نوازا۔ سندھ میں بھی حالیہ بلدیاتی الیکشن میں پیپلز پارٹی کے وزراء نے سب ٹکٹیں اپنے خاندان میں بانٹی ہیں۔ پاپی سیاستدانوں کے یہ اقارب بھی جرائم کی دلدل میں ناک ناک دھنسے ہوئے ہیں۔

دیگر صوبوں میں الیکشن کمیشن نے بلدیاتی نمائندوں کے کریکٹر سرٹیفکیٹ چیک نہیں کیے،پنجاب میں یہ کام ایجنسیاں کر رہی ہیں۔ بلدیاتی انتخابات سے قبل سپیشل برانچ اور سیکیورٹی برانچ پولیس نے بڑی چھان بین اور تگ و دو کے بعد چیئرمین،وائس چیئرمین اور کونسلرز کا انتخاب لڑنے والے پنجاب بھر کے امیدواروں کا بائیو ڈیٹا جانچنے کے بعد ایک سپیشل رپورٹ مرتب کی تھی جسکے مطابق بیشمار امیدوار کریمنل ریکارڈ کے حامل قرار پائے گئے اور ان امیدواروں کے بارے میں جو تفصیلات اکٹھی کی گئیں۔

ان کی روشنی میں لکھا گیا کہ ان کا سابقہ ریکارڈ درست نہیں اور قانونی و اخلاقی طور پروہ عوامی نمائندے منتخب ہونے کے اہل نہیں ٹھہرتے۔ اہم سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ان کم درجہ متوقع عوامی نمائندوں کی ذاتی رپورٹیں وزیر اعلیٰ شہباز شریف سمیت دیگر متعلقہ وزارتوں و اہم شخصیات کو بھجوائی گئی تھیں مگر تمام حقائق کی جانکاری کے باوجود وزیر اعلیٰ نے ان کی پارٹی نامزدگی منسوخ کی نہ ہی ٹکٹ الاٹ کرنیوالے ایم پی ایز نے ان کی جگہ متبادل امیدواروں کا اہتمام کیا۔

تشویشناک اَمر تو یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے ایسے جرائم پیشہ امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی پر ایک اعتراض تک نہیں لگایا،اس کی وجۂ اکبر یہ ہے کہ پنجاب کے لوکل گورنمنٹ ترمیمی ایکٹ 2015ء میں بلدیاتی امیدواروں کے صادق و امین اور باکردار ہونے کی کوئی شق داخل نہیں کی گئی لہٰذا الیکشن کمیشن کے ہاتھ یہ توجیہہ آ گئی کہ ضلعی حکومتوں کے نامزد امیدواروں کی کردار پیمائی کی کوئی کسوٹی یا پیمانہ قانون میں موجود نہیں اور آئین کے آرٹیکل 62/63 کا اطلاق بلدیاتی امیدواروں پر کسی صورت بھی نہیں ہوتا۔

اس دلیل سے صاف ظاہر ہے کہ محکمہ انتخاب بھی پنجاب حکومت کے اس فعل میں برابر کا شریک ہے حالانکہ دُنیا کا کوئی بھی ریاستی قانون معاشرے کی اخلاقی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے اور جہاں آئین و قانون کسی سماجی برائی کی تشریح کرنے سے قاصر ہو وہاں انصاف فراہم کرنیوالوں کو اخلاقی بنیادوں پر ہی فیصلے صادر کرنا پڑتے ہیں۔ پنجاب حکومت کے ایماء پر متعلقہ صوبائی اداروں نے جرائم پیشہ بلدیاتی امیدواروں کے کوائف میڈیا میں عام کرنے کی بجائے اُلٹا ان کی پردہ پوشی کا رویہ اختیار کیا،یہی وجہ ہے کہ نومنتخب چیئرمینوں،وائس چیئرمینوں اور کونسلروں میں اکثریت قماربازی، منشیات فروشی، قتل، اقدامِ قتل، ڈکیتی، ریپ، مذہبی منافرت، زمینوں پر قبضہ، گینگ وار، بدمعاشی، بھتہ خوری اور اجرتی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے اور ان میں بعض جرائم ایسے بھی ہیں جن کی نوعیت دہشت گردی کی ہے جو نیشنل ایکشن پلان کے دائرہ کار میں آتی ہے۔

ان نوآموز کریمنل لیڈروں کے خلاف صوبائی دارالحکومت کے مختلف تھانوں میں مقدمات درج ہیں،ان میں بعض اشتہاری اور مفرور بھی ہیں جو بااثر سیاسی شخصیات کے ڈیروں پر پناہ لیے رہے ہیں اور بعض مہا کلاکار ایسے بھی ہیں جو آج بھی پولیس کی ملی بھگت اور سیاسی سرپرستی میں اپنے کاروبار بڑے محتاط انداز میں چلا رہے ہیں،اس کی ایک مثال لاہور سے مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ پر یوسی 124 وارڈ نمبر 6 سے 328 ووٹ لے کر کامیاب ہونے والا جنرل کونسلر ہے۔

یہ کونسلر صاحب فیکٹری ایریا انویسٹی گیشن پولیس کی زیرحراست تھے جب انہیں کامیابی کی نوید سنائی گئی،ان کے خلاف تھانہ فیکٹری ایریا میں کئی مقدمات درج ہیں،انہیں ان کے ایک ساتھی ملزم سمیت بلدیاتی الیکشن سے تین دن قبل گرفتار کیا گیا تھا،کونسلر منتخب ہونے پر سرپرستوں نے جب قابلِ احترام عوامی ملزم کی رہائی کے لیے پولیس پر دباؤ بڑھایا تو ایس پی کینٹ امتیاز سرور کو فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے محکمہ کا دفاع یہ کہہ کر کرنا پڑا کہ ’’ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کوئی کتنا طاقتور ہے یا سیاست میں اس کا کیا کردار ہے،ہماری نظر میں مجرم صرف مجرم ہے۔

ملزمان ایکسائز دفتر کے باہر تعینات گارڈز کو یرغمال بنا کر زبردستی اندر گھسے اور گن پوائنٹ پر 15 لاکھ روپے لوٹ لیے جب کہ والٹن روڈ پر واقع مختلف موبائل شاپس سے انھوں نے گن پوائنٹ پر متعدد موبائل فونز بھی چھینے،اسلیے ملزمان کو چھوڑا نہیں جا سکتا جب تک کہ انویسٹی گیشن پولیس اپنی تفتیش مکمل نہیں کر لیتی‘‘۔ اس معاملہ میں خادمِ اعلیٰ کے مثالی کردار کی داد دینا پڑیگی کہ ایک طرف تو انھوں نے ایس پی کینٹ کو شاباش دی ہے اور دوسری طرف انہیں ان کی اوقات میں رکھنے کے لیے مناسب بندوبست کی گھنٹی بھی دبا دی ہے۔ اس سے تو یہی اشارہ ملتا ہے کہ جنابِ کونسلر خواہ کتنے ہی بڑے ڈکیت کیوں نہ ہوں، انہیں اپنے عہدے کا حلف لینے سے قانون کا کوئی لمبا چھوٹا ہاتھ نہیں روک سکتا کیونکہ موصوف کا تعلق حکمران جماعت سے ہے اور حکومت کسی قیمت پر بھی اپنی ایک جیتی ہوئی نشست سے دستبردار نہیں ہو گی۔

سپیشل برانچ اس بات پر حیرت میں مبتلا ہے کہ اس نے بلدیاتی امیدواروں کی جو تفصیلی رپورٹ الیکشن سے پیشتر وزیر اعلیٰ کو بھجوائی تھی،اس کی روشنی میں صوبائی حکومت نے کوئی ایکشن پلان مرتب نہیں کیا اور لوکل باڈیز الیکشن کے پہلے مرحلے میں کریمنل ریکارڈ رکھنے والے وہ تمام امیدوار کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔

جن کا تذکرہ خفیہ رپورٹ میں کیا گیا تھا۔ حساس اداروں میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے اور تیسرے مرحلے میں مزید جرائم پیشہ نمائندے دھونس دھاندلی اور طاقتور ووٹ کے ذریعے کامرانیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ اندرونی ذرائع کے مطابق سپیشل برانچ پر وفاقی وزارتِ داخلہ اور اعلیٰ حساس اداروں کی طرف سے زبردست دباؤ ہے جسکے چلتے وہ ضلعی انتخابات کے دوسرے اور تیسرے مرحلے سے پہلے ایک بار پھر متحرک ہو گئی ہے اور اس نے صوبائی دارالحکومت سمیت پنجاب کے باقی اضلاع کے تھانوں کی معاونت سے لوکل الیکشن میں حصہ لینے والے جملہ امیدواروں کے بارے میں تفصیلات جمع کرنا شروع کر دی ہیں،جن میں لاہور کے دو درجن تھانوں کا ریکارڈ بھی دوبارہ چیک کیا جا رہا ہے۔

شہباز شریف وزارتِ داخلہ کے اس اقدام سے کافی حدتک ناراض و نالاں نظر آتے ہیں کیونکہ اس پیشرفت سے ان کے نصف سے زائد جیتے ہوئے اور نصف سے کہیں زیادہ متوقع فاتح امیدوار الیکشن سے قبل یا بعد مجرمانہ اعمالنامے کی بنا پر نااہل قرار پا سکتے ہیں،اس بابت ایک وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار نون لیگ کو خوار و زبوں کرنے کے مختلف ہتھکنڈے تلاش کرتے رہتے ہیں اور وہ شریف برادران کی ذلت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ دوسری جانب پنجاب کے حکومتی ذرائع سپیشل برانچ کی رپورٹ کو صوبے کا ذاتی معاملہ قرار دیتے ہیں،مزید برآں صوبائی وزارتِ قانون کے چند دبے دبے اشاروں کے مطابق بھی یہ رپورٹ وزیر اعلیٰ سے مشاورت کے بعد ہی مرتب کی جا رہی ہے اور اسے مکمل کر کے سب سے پہلے وزیر اعلیٰ ہی کو پیش کیا جائے گا۔

سوال یہ ہے کہ اگر یہ رپورٹ وزیر اعلیٰ کی مرضی سے تیار کی جا رہی ہوتی تو پھر کیا وجہ ہے کہ خادمِ اعلیٰ صاحب اپنے تئیں متعلقہ تھانوں سے جرائم پیشہ نمائندوں کا ریکارڈ حذف کروا رہے ہیں اور انہیں دودھوں دھلے اور معصوم بالکے ظاہر کرنے پر کمربستہ ہیں۔ کچھ حلقوں کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ قیاس کسی حد تک غالب ہو سکتا ہے کہ شہباز شریف یہ سپیشل رپورٹ خود تیار کروا رہے ہیں اور کوئی بعید نہیں کہ مخالف امیدواروں کے خلاف متعلقہ تھانوں میں جھوٹے اور من گھڑت مقدمات قائم کروا کر مستقبل میں ان کی راہ میں کانٹے بچھا دیے جائیں،مگر لاہور میں جہاں بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ تمام ہو چکا ہے۔

مختلف پولیس اسٹیشنوں میں نو منتخب امیدواروں کے کریمنل ریکارڈ اَزسرنو مرتب ہونے سے وفاقی وزارتِ داخلہ والی بات زیادہ پختہ ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں سیاستدانوں کا ایک مخصوص پس منظر رہا ہے اور اس ملک میں یہ پتلی تماشا قیام پاکستان کے وقت سے جاری ہے کہ پاکستان کی ہر تحصیل و تعلقہ سے ہر بار جاگیردار، وڈیرے، سردار، سرمایہ دار اور صنعتکار ہی منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں، اس تناظر میں ہمیں طاہرالقادری کا وہ جملہ دہرانا ضروری لگ رہا ہے کہ پاکستان کا الیکشن کمیشن 68 سالوں سے ایک خاص ظالم طبقہ پال رہا ہے جو 95 فیصد مظلوموں کا موروثی طور پر استحصال کر رہا ہے۔

جماعتی بنیادوں پر رچائے گئے پنجاب و سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں اب کی بار اس ظالم سیاسی طبقے کا تسلسل قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے ہوتا ہوا یونین کونسل جیسی نچلی سطح تک پھیل گیا ہے۔ پنجاب حکومت نے ٹکٹوں کی تقسیم کی اتھارٹی صوبائی وزراء اور ایم پی ایز کو بنایا ہوا ہے جنھوں نے اپنے اعزاء و اقارب کے سوا کسی کو چیئرمین اور وائس چیئرمین تو کجا جنرل کونسلر تک کی ٹکٹ بھی نہیں دی۔ اس پرپنجابی کی یہ کہاوت صادق آتی ہے: ’’انّاں ونڈے شرینیاں مُڑ مُڑ اپنیاں نوں‘‘یہی سبب ہے کہ اس بار عوام میں جڑیں رکھنے والے سیکڑوں امیدوار وں نے آزاد الیکشن لڑا رہے ہیں۔ جن نئے سیاسی طالع آزماؤں پر کریمنل مقدمات درج ہیں ان میں 90 فیصد بااثر سیاسی شخصیات کے قبیلدار ہیں۔

سپیشل برانچ والے تو دعوؤں کی حد تک یہ بھی کہتے ہیں کہ لوکل گورنمنٹ کے جرائم پیشہ نمائندوں کے ساتھ ساتھ انہیں ٹکٹ جاری کرنیوالی شخصیات پر بھی گرفت مضبوط کی جائے گی کہ انھوں نے بلدیاتی امیدواروں کا مجرمانہ پس منظر جانتے ہوئے بھی انہیں ٹکٹیں فراہم کیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ خوفناک ماضی و حال کے مالک زیادہ تر مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ اس کے برعکس آزاد گروپ کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لینے والوں کا کردار قانون اور عوام دونوں کی نظر میں شفاف ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آزاد امیدواروں کو نہ تو کسی سیاسی پارٹی کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے نہ ہی ان کے پاس دھاندلی کا کوئی میکانزم ہوتا ہے،اس کے باوصف اگر وہ فتحیاب ہوتے ہیں تو یقینا انہیں عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہوتی ہے۔

اسی طرح کے ایک آزاد امیدوار ظفر بالی ہیں جو چیئرمین میونسپل کمیٹی کے امیدوار کے طور پر تلہ گنگ سے بلدیاتی الیکشن لڑنے کے لیے معرکہ آزما ہیں،ظفر بالی مشہورِ زمانہ ڈاکو چراغ بالی کے اکلوتے سپوت ہیں،وہ خود بھی گریجوایٹ ہیں اور ان کے بیٹے بیٹیاں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ظفر بالی کا والد حکومت کی نظر میں ایک ڈاکو تھا مگر پورے علاقے کے لوگ ان کے والد اور خاندان کو انتہائی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،ان کے والد غریبوں کی مدد کرتے تھے،ضرورتمندوں کی ضرورتوں کا خیال رکھتے تھے،آج یہی مشن لے کر وہ علاقہ مکینوں کے پرزور اصرار پر دو بڑی سیاسی جماعتوں کے مقابلے پر سیاست میں حصہ لے رہے ہیں۔

تلہ گنگ میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دینے کے لیے ’’عوام دوست اتحاد‘‘کے نام سے ایک آزاد گروپ بھی سرگرم عمل ہے جس کی سربراہی ظفر بالی کر رہے ہیں،اب تک اطلاعات یہی ہیں کہ عوام دوست اتحاد تلہ گنگ میں کلین سویپ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ میڈیا میں بڑی حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ایک ڈاکو کا بیٹا بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے جا رہا ہے مگر ہماری ذاتی رائے یہ ہے کہ ڈاکو، ظفر بالی کا والد تھا وہ خود ڈاکو نہیں ہیں،اور ویسے بھی چراغ بالی کا کردار سیاسی ڈاکوؤں سے ہزارہا درجے بہتر تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ڈاکو کے بیٹے کا ایساکوئی ریکارڈ بھی نہیں،ان پر کوئی مقدمہ ہے،نہ سپیشل برانچ کی فہرست میں ان کا نام ہے۔ وہ بلاشبہ ملک کے ان بڑے بڑے نام نہاد ڈاکوؤں کی اولادوں سے بدرجہا بہتر ہیں جو اپنی خفیہ کریمنل رپورٹوں کو تلف کروانے کے لیے تھانوں میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سپیشل برانچ کی رپورٹ نہ صرف پنجاب کے واسیوں کے لیے بلکہ پاکستان بھر کے عوام کے لیے لمحۂ فکریہ ہے اسلیے ناگزیر ہے کہ تمام صوبوں کے بلدیاتی امیدواروں کے کردار، تعلیم اور خاندانی پس منظر کا خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے پورا پورا ملاحظہ ہونا چاہیے اور کلیئرنس سرٹیفکیٹ ملنے کے بعد ہی انہیں الیکشن لڑنے کا اہل قرار دیا جانا چاہیے،منتخب نمائندوں میں جو کریمنل ریکارڈ کے حامل پائے جائیں ان کا الیکشن کالعدم قرار دیکر نئے انتخاب کرانے کی بجائے ان امیدواروں کی جگہ اس علاقہ کے اہل و ہونہار نوجوانوں کو بلا انتخاب مطلوبہ نشستیں الاٹ کر دی جائیں۔

جب تک عوامی صفوں کو ایسے مجرموں سے پاک نہیں کیا جاتا عوام کی جان و مال اور عزت و ناموس تو خطرے میں رہے گی ہی،وہ اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم رہے گی اور بنیادی سہولیات سے بھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ’’سرپرستی‘‘میں جرائم کرنیوالے یہ بہروپئے عوامی نمائندے بن کر بلا خوف من مانیاں کرینگے اور پولیس ان کا بال بھی بیکا نہیں کر پائے گی کیونکہ اختیارات حاصل ہونے کے بعد وہ پولیس پر بھی اثرانداز ہونگے اور پھر انہیں اپنے اپنے علاقوں میں جرائم کی نرسریاں پروان چڑھانے سے کوئی نہیں روک پائیگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔