آپ سے تم ، تم سے تو!!!

شیریں حیدر  اتوار 15 نومبر 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

دونوں گاڑیاں اس طرح آمنے سامنے آ گئیں کہ لگا ابھی ٹکرائیں کہ ٹکرائیں… میرے پاس واپس پلٹنے کو کوئی راستہ نہ تھا، میں نے مڑ کر پیچھے دیکھا، گاڑیوں کی ایک طویل قطار تھی اور سامنے والی گاڑی جو کہ ابھی پارکنگ سے نکل رہی تھی، اس کے پاس ہی فقط چند فٹ پیچھے جانے کا راستہ تھا کہ وہ چلی جاتی تو میری گاڑی کے ساتھ ساتھ ساری گاڑیاں اس تنگ راستے سے گزر جاتیں۔

میں نے سامنے والی اچھی شکل و صورت والی اور بظاہر ڈیسنٹ سی نظر آنے والی اس خاتون کو نظروں ہی نظروں میں اشارہ کیا، جواب میں اس کا منہ ہلا… آواز نہ آ رہی تھی تو میں سمجھی کہ شاید وہ چیونگ گم چبا رہی ہوگی، بعض لوگوں کو چیونگ گم چباتے ہوئے آواز بھی نہیں آتی اس لیے میں نے اپنی طرف کا شیشہ ذرا سا نیچے کیا تو اندازہ ہو ا کہ وہ چیونگم نہیںچبا رہی تھی بلکہ کچھ بول رہی تھی۔ اس کے ساتھ والی سیٹ پر بھی کوئی خاتون بیٹھی تھیں جن کا حلیہ اس بات کا گواہ تھا کہ ان کا تعلق کسی اچھے خاندان سے تھا۔

میں نے گاڑی کو چند انچ آگے کیا کہ اس سے بات کروں ، ’’ کیا بات ہے بیٹا؟ ‘‘ جواب میں جو کچھ اس نے کہا وہ اس کی خوبصورت شکل کو قدرے مکروہ بنا رہا تھا، مجھے لگا کہ میں دیکھنے اور سننے کے حواس کو آپس میں یکجا نہیں کر پا رہی تھی، اسے بولنے اور مغلظات بکنے کے درمیان فرق کی تمیز نہ تھی، وہ بھی اس صورت میں کہ وہ عمر میں مجھ سے دو یا تین برس چھوٹی ہو گی اور میں نے انتہائی تمیز سے اسے بیٹا کہہ کر کہ مخاطب کیا تھا۔’’ میری گاڑی کو مارنے لگی تھیں تم!!! ‘‘ وہ چلا رہی تھی، چیونگ گم نہیں، کوئلے چبا رہی تھی، ’’ مرنا ہے تم نے خود یا مجھے مارنا ہے؟ ‘‘

’’ ابھی بھی میری اور آپ کی گاڑ ی میں چند انچ کا فاصلہ ہے بیٹا اور میں کیوں آپ کی گاڑی کو ٹکر ماروں گی؟ ‘‘ (اس بے چاری کے پلے تو پہلے ہی کچھ نہ تھا، کوئی پاگل ہی ہوتا جو اس کی گاڑی کو مارتا جو تقریباً مردہ ہی تھی مگر چل رہی تھی)

’’ لاؤ پھر… لاؤ اور آگے لاؤ… مارو ٹکر!!! ‘‘ اس نے مردانہ وار دو تین گالیاں بڑبڑائیں، لہو تو گرم ہوا مگر کسی بد تمیز کے منہ لگنے سے کہیں بہتر ہے کہ انسان اپنا راستہ بدل لے، میں نے گاڑی کو تھوڑا سا بائیں کیا تا کہ اس کی گاڑی نکل سکے، ’’ اتنی سی جگہ سے میری گاڑی کہاں نکلے گی، تمہیں نظر نہیں آ رہا؟ ‘‘

’’ بیٹا اگر ڈرائیونگ نہیں آتی تو آپ رکشے پر آ جاتیں !! ‘‘ میں نے نرمی سے کہا۔

’’ تمہیں کس نے کہا ہے کہ مجھے گاڑی نہیں چلانا آتی، میں بیس سال سے گاڑی چلا رہی ہوں !!! ‘‘ اس نے غصے میں پھنکارکر کہا۔’’ لگ رہا ہے بیٹا کہ بیس سال سے یہی گاڑی چلا رہی ہیں آپ، ویسے بھی گاڑی کی حالت بتا رہی ہے کہ آپ کو ڈرائیونگ آتی ہے، جتنی جگہ آپ کو دی ہے اس میں سے گاڑی نکال لیں ورنہ یہیں کھڑے کھڑے باتیں کرتے ہیں !! ‘‘ میں نے تحمل کا دامن مضبوطی سے تھاما۔’’ تم ہو گی دنیا کی سب سے بڑی فارغ اور جاہل، مجھے اور بھی کام ہیں!! ‘‘ اس نے ارشاد فرمایا، ارد گرد کی گاڑیوں کے ہارن کان پھاڑ رہے تھے، ’’ اور میرے منہ نہ لگو، میں بہت بد تمیز ہو سکتی ہوں !!‘‘ اس نے لال بھبھوکا چہرے پر ہاتھ پھیرا۔

’’ واقعی بیٹا ‘‘ میں نے جواباً سر ہلایا، ’’ میں تو سمجھی کہ آپ بد تمیزی کے آخری درجے تک پہنچ چکی ہیں، مگر آپ نے خود بتایا ہے کہ آپ اس سے بڑھ کر بد تمیز بھی ہو سکتی ہیں !! ‘‘ میں نے شیشہ پورا نیچے کیا، فون نکالا، ’’ میں پولیس کو کال کرنے لگی ہوں اور وہ آ کر آپ کو بتائیں گے کہ کسی سے بد تمیزی کس طرح کی جاتی ہے اور گاڑی کس طرح چلائی جاتی ہے۔

اپنا لائسنس وغیرہ نکال کر پاس رکھیں آپ !! ‘‘ میں نے نمبر ڈائل کیا۔’’ فضول باتوں سے ڈرتی ورتی نہیں میں !! ‘‘ اس نے ایک سیاسی لیڈر کی طرح فرمایا، ’ ’ پولیس بلانے کا شوق ہے تمہیں تو بلا لو!! ‘‘ اس نے گاڑی کو ریورس کیا، چند فٹ پیچھے جانے سے ایک منٹ میں چھ سات پھنسی ہوئی گاڑیاں نکل گئیں، میں گاڑی پارک کر چکی تھی، اس کی گاڑی کے پاس پہنچی اور اس کا شیشہ کھٹکھٹایا۔’’ بیٹا خاوند سے لڑائی ہوئی ہو تو اس روز گاڑی نہیں چلاتے ‘‘ اس نے دانت پیسے، ساتھ والی خاتون غالباً اس کی والدہ تھیں، ’’ معلوم نہیں یہ آپ کی والدہ ہیں یا ساس، آپ کے والدین نے آپ کو بولنا تو سکھا دیا مگر بولنے کی تمیز نہیں سکھائی، آپ اپنے بچوں کے ساتھ ایسا ظلم نہ کرنا، انھیں تمیز ضرور سکھانا، آپ کی خوش قسمتی ہے کہ آپ نے اپنا مغلظات بکنے کا سارا شوق میرے ساتھ پورا کیا جسے اپنی عزت سر بازار رولنے کا کوئی شوق نہیں… لازم نہیں کہ انھیں بھی ہمیشہ کوئی میرے جیسا سامع ملے، نئی نسل اتنی اتنی بات پر ہتھیار نکال لیتی ہے، سو احتیاط کریں بیٹا!! ‘‘ میں کہہ کر مڑی۔

’’ تمہیں کہہ رہی تھی میں کہ آرام سے بات کرو !! ‘‘ اس کی ماں یا ساس کی آوازآئی جس کے ماں باپ نے شاید اسے بولنے کے ساتھ بات کرنے کی تمیز بھی سکھائی تھی۔ ایسا نہیں کہ مجھے غصہ نہیں آیا، یہ میرا غصہ ہی تھا جو میں نے اس پر نکالا، میرے طنز نے اسے جو جو چوٹ پہنچائی وہ بھی میں جانتی ہوں، صرف لہجے نہیں، الفاظ بھی کافی ہوتے ہیں غصے کے اظہار کے لیے… میرے پاس کوئی ہتھیار ہوتا تو میں شاید اس بد تمیز ترین خاتون کا منہ بند کرنے کو وہ بھی استعمال کرتی، چھوٹی چھوٹی باتوں پرہم سب کے دماغ گرم ہو جاتے ہیں۔

بدتمیزی کسی سے برداشت نہیں ہوتی مگر لازم نہیں کہ ہر جگہ منہ کھول کر انسان اپنی خوبصورت شکل کے پردے کے پیچھے چھپے ہوئے اپنے بد نما کردار کی نمائش کرے۔یہ ایک مثال ہے، میرا واسطہ اب تک کی زندگی میں کافی لوگوں سے پڑ چکا ہے جنھیں بولتا ہوا دیکھ کر انسان سوچتا ہے کہ اس کا خاموش رہنا کتنا بہتر تھا، بد تمیزی کی پہلی حد انسان اس وقت پھلانگتا ہے جب انسان اپنے سے بڑے یا حتی کہ چھوٹے کو بھی آپ کی بجائے تم یا تو کہہ کر مخاطب کرے۔ آپ سے تم اور تم سے تو، عشق میں بے آبرو ہونے کے بھی مراحل ہیں، یہی مراحل ہر رشتے پر لاگو ہوتے ہیں ۔

اگر آپ کو بولنے کا سلیقہ نہیں تو کم از کم مخاطب کو دھیان سے سنیں، اگر وہ تم یا تو نہیں کہہ رہا، آپ کی گالی کے جواب میں بھی دانت بھینچ کر جواب دے رہا ہو تو یہ نہ سمجھیں کہ وہ آپ سے دب گیا ہے، ظاہر ہے کہ وہ جھگڑا بڑھانا نہیں چاہتا اور آپ کو اس کی خاموشی کو اس کی کمزوری نہیں سمجھنا چاہیے۔ طاقت ور وہ نہیں جو اپنے غصے اور جذبات کو دوسروں پر انڈیل کر اپنی طاقت کی دھاک بٹھا لے، طاقت ور وہ ہے جس نے اپنے غصے کو قابو کرنا سیکھا۔ہمارے ملک میں ٹریفک کے جام ہو جانے کے عمومی اسباب یہی ہیں کہ ہم میں سے ہر کوئی پہلے جانے کے لیے اتاولا ہوتا ہے۔

جلد نکلنے کی کوشش میں گھنٹوں گاڑیاں پھنسا کر کھڑے ہو جائیں گے اور اگر ذرا سا دوسروں کو راستہ دے دیں، کسی کے لیے آسانی پیدا کر دیں تو چند منٹ میں بڑے سے بڑا ٹریفک جام بحال ہو سکتا ہے۔ ٹریفک کا مسئلہ تو ایک علیحدہ مسئلہ ہے، ہم زندگی کی ہر شاہراہ اور راستے پر اسی طرح دوسروں سے الجھ کر معاملات کو پھنسا کر عمر کے قیمتی سالوں میں سے کئی کئی سال برباد کر دیتے ہیں، اپنی زبان کے ہاتھوں کئی پیارے پیارے رشتے کھو دیتے ہیں۔

اپنے حقوق کا دعوی کرتے ہیں اور دوسروں کے حقوق کو کچل کر خوش ہوتے ہیں، دوسروں سے صبر اور برداشت کی توقع کرتے ہیں مگر خود کسی کو space دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو ماں باپ اس کی پرورش کے ہر دور سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

ہمارا فرض بنتا ہے کہ جب ہم اسے کھانا سکھائیں تو کھانے کے آداب اور بولنا سکھائیں تو بولنے کی تہذیب بھی سکھائیں۔ بولنا اہم نہیں، اچھا بولنا اور دوسروں کو بھی بولنے کا موقع دینا اہم ہے ۔ یہ بھی سکھائیں کہ کس موقع پر بولنا بہتر ہے اور کس موقع پر خاموش رہنا۔ اچھی گفتگو نہ کرسکیں تو خاموشی اس سے ہزار درجے بہتر ہے۔ ہمارے تو نبی پاک ﷺ نے ہمیں اچھے اخلاق کے ساتھ صبر اور برداشت جیسے بہترین اوصاف پر قائم رہنے کا سبق دیا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب ماؤں کو اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔