نیپال چین کی آغوش میں

ع محمود  اتوار 15 نومبر 2015
بھارتی حکومت کی آمرانہ پالیسیوں نے پڑوسی نیپالیوں کو اس سے متنفر کر دیا ۔  فوٹو : فائل

بھارتی حکومت کی آمرانہ پالیسیوں نے پڑوسی نیپالیوں کو اس سے متنفر کر دیا ۔ فوٹو : فائل

یہ ستمبر 1768ء کا واقعہ ہے جب ایک ہندو نیپالی نواب، پرتھوی نارائن نے دیگر چھوٹی ریاستوں کو شکست دے کر مملکتِ نیپال کی بنیاد رکھی۔ وہ پھر ٹھاٹ باٹھ سے حکومت کرنے لگا اور مطلق العنان بادشاہ بن بیٹھا۔ وہ اور اس کے وزیر درباری تو آرام و آسائش کی زندگی گزارنے لگے، عوام بیچارے بدستور غریب و محتاج رہے۔ انیسویں صدی میں انگریز نیپال بھی پہنچ گئے، مگر اپنے مفادات کی خاطر انہوں نے  شاہی حکمران طبقے کو بدستور عوام پہ راج کرنے دیا۔

حالات میں تبدیلی 1940ء کے بعد آئی۔ نیپال میں ہندوؤں کی اکثریت ہے۔ لہٰذا کئی نوجوان ہندو نیپالی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خاطر ہندوستانی یونیورسٹیوں میں جایا کرتے تھے۔ وہاں بہت سے نیپالی نوجوان ایک ابھرتے سیاسی و معاشرتی نظریے، کمیونزم سے متاثر ہوئے۔ انہیں یقین ہوگیا کہ یہ نظریہ اپنانے کے بعد وہ نسلی، مذہبی اور لسانی اختلافات سے بالاتر ہوکے نیپال کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل حل کرسکتے ہیں۔

کمیونزم سے متاثر نیپالی نوجوانوں نے پھر ستمبر 1949ء میں کلکتہ میں کمیونسٹ پارٹی آف نیپال کی بنیاد رکھی۔ اس سیاسی جماعت کا مقصد نیپال سے بادشاہت اور جاگیرداری کا خاتمہ کرنا تھا تاکہ وہاں عوام برسراقتدار آسکیں۔اس زمانے میں نیپال کی تجارت اور کاروبار پر بھارتی ہندو چھائے ہوئے تھے۔ شاہی خاندان بھی ہندو برہمنوں سے قربت رکھتا تھا۔ جب بھارت میں برہمن برسراقتدار آئے، تو وہ بھی نیپالی شاہی خاندان کے طرف دار بن گئے۔ لیکن بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو چاہتے تھے کہ اقتدار میں سیاسی جماعت، نیپالی کانگریس کو بھی شریک کیا جائے جس کے بیشتر رہنما ہندو تھے۔

نیپال میں 1814ء سے رانا خاندان بھی بادشاہ کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹ رہا تھا۔ پنڈت نہرو نے 1951ء میں نیپالی کانگریس کے ذریعے رانا خاندان کے خلاف بغاوت کرادی۔ نتیجتاً نیپالی حکمران طبقہ مجبور ہوگیا کہ وہ اقتدار میں نیپالی کانگریس کو بھی شریک کرلے۔ یوں اوائل ہی سے بھارت کمزور پڑوسی ملک کو زیر تسلط لے آیا۔نیپال کے کمیونسٹ برہمن بھارتی طبقے کی چالیں سمجھ گئے۔ انھیں یقین ہوگیا کہ بھارتی حکومت نیپال میں مطلق العنان شاہی خاندان ہی کو حکمران رکھنا چاہتی ہے۔ گویا صدیوں سے چلا آرہا ظلم و جبر کا دورختم نہ ہوسکا اور عام لوگ غربت کی چکی میں پستے رہے۔

نیپالی کمیونسٹ پھر شاہی حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے لگے۔ انہوں نے بغاوتیں بھی کیں مگر بھارتی اسلحے کی مدد سے شاہی فوج ان پر قابو پانے میں کامیاب رہیں۔ کمیونسٹوں کو چین اور سویت یونین کی اخلاقی حمایت حاصل تھی۔ مگر دشوار گزار راہوں کی وجہ سے دونوں ممالک نیپالی کمیونسٹوں کی زیادہ عملی مدد نہیں کرسکے۔

لیکن آہستہ آہستہ دیہی علاقوں میں کمیونزم کے نظریات مقبول ہونے لگے جہاں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ کمیونسٹوں نے نیپالی عوام پر اجاگر کیا کہ مٹھی بھر حکمران طبقہ ملک کے سارے وسائل پر قابض ہے۔ اسی کو ساری آمدن ملتی ہے جس کے بل پر وہ آرام و آسائش کی زندگی بسر کررہا ہے۔ جبکہ عوام جانوروں سے بھی بدتر ماحول میں رہ رہے ہیں۔ لہٰذا اس طبقہ بالا کے خلاف جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ باتیں عوام کی سمجھ میں آنے لگیں اور وہ کمیونسٹوں کے ہمنوا بنتے چلے گئے۔وقت کے ساتھ ساتھ مختلف کمیونسٹ پارٹیاں وجود میں آ گئیں مگر کمیونزم کے نظریات ترویج پاتے رہے۔آخر 1990ء میں شاہی خاندان کے خلاف سینوں میں دبا غم و غصہ ابل پڑا۔ نیپالی عوام نے حکمران طبقے کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے کیے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ اقتدار عوام کے سپرد کیا جائے۔ نیپالی بادشاہ، بریندرا نے اپنا اقتدار خطرے میں دیکھا، تو تمام آمروں کی طرح بزور عوامی احتجاج کو کچلنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس آمرانہ قدم نے کمیونسٹوں اور نیپالی کانگریس کو متحد کردیا… حالانکہ کمیونسٹ اس سیاسی جماعت کو بھارت کی کٹھ پتلی سمجھتے ہیں۔

شاہی فوج نے کئی مظاہرین مار ڈالے، مگر آخر میں آمریت ہی نے شکست کھائی۔ شاہ بریندرا نے سیاسی جماعتوں کے قیام پر عائد پابندی اٹھالی۔ یوں نیپال میں جمہوریت کا سورج بھی طلوع ہوا اور ایک نیا آئین تخلیق پایا۔ مگر اس عوامی انقلاب کو نیپالی کانگریس نے ہائی جیک کرلیا۔نیپالی کانگریس دراصل حکمران طبقے کی حامی تھی۔

اسی لیے وہ ’’وضعِ موجود‘‘ (سٹیٹس کو) برقرار رکھنے کی سعی کرنے لگی۔ اسے بھارتی حکومت کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ چناں چہ شاہی خاندان بدستور عوام کا خزانہ استعمال کرتے ہوئے گلچھڑے اڑاتا رہا۔ اس روش نے کمیونسٹوں کو متوحش کردیا جو اب نیپال میں دوسری بڑی سیاسی طاقت بن چکے تھے۔ انہیں احساس ہوا کہ اقتدار اب بھی آمریت کے قبضے میں ہے۔

بادشاہت کا خاتمہ کرنے کے لیے کمیونسٹ 1996ء سے مسلح جدوجہد کرنے لگے۔ نیپالی کمیونسٹوں کا دعویٰ ہے کہ دوران جدوجہد انہیں چین اور پاکستان کی حمایت حاصل رہی۔ جبکہ بھارت، امریکا اور برطانیہ شاہی خاندان کے طرف دار تھے۔ اس نیپالی خانہ جنگی میں 2006ء تک سترہ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

2001ء میں شاہ بریندرا اپنے بیٹے کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس کا بھائی گائینیندرا نیا بادشاہ مقرر ہوا۔ کمیونسٹوں نے اس کے خلاف بھی مسلح تحریک جاری رکھی۔ فروری 2005ء میں گائینیندرا نے اپنا اصل روپ دکھایا اور آئین معطل کردیا۔ میڈیا کو پابندیوں کی زنجیروں سے جکڑا اور مخالفین پر ظلم توڑنے لگا۔کمیونسٹوں کی کوششوں سے اپریل 2006ء سے عوام پھر اپنی آمرانہ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ حسب روایت شاہِ وقت نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے عوام پر گولیاں چلوادیں اور کئی نیپالی شہری جان بحق ہوئے۔ مگر عوامی مظاہروں نے آخر بادشاہ کو ہار ماننے پر مجبور کردیا۔

لہٰذا اس نے معطل پارلیمنٹ بحال کردی۔اب بھارتی حکمران طبقے کو بھی احساس ہوگیا کہ نیپال میں عوام کا سیاسی شعور بیدار ہوچکا اور اب وہ آمریت کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ اسی واسطے بھارتی حکومت نے بادشاہ کے خلاف عملی اقدامات کرنے کی خاطر اپنی پٹھو جماعت، نیپالی کانگریس کو ہری جھنڈی دکھادی۔ نیپالی کانگریس نے جلد ہی پارلیمنٹ میں ایک قانون منظور کرکے بادشاہ کے سبھی اختیار چھینے اور اسے نمائشی حکمران بنا ڈالا۔ اس عمل سے نیپالی کانگریس عوام میں مقبول ہونا چاہتی تھی۔

عوام کی حمایت پانے کے لیے ہی اس نے کمیونسٹوں سے بھی امن معاہدہ کرلیا۔دسمبر 2007ء میں تمام سیاسی جماعتوں کے مابین طے پایا، بادشاہت کا خاتمہ کردیا جائے اور ملک وفاقی جمہوریہ قرار پائے۔ چناں چہ نئے آئین کی تشکیل کے لیے اپریل 2008ء میں آئین ساز اسمبلی کا الیکشن ہوا جو خلاف توقع کمیونسٹوں نے بھاری اکثریت سے جیت لیا۔

یوں نیپال کی حکومت انہوں نے سنبھال لی۔نئے آئین کی تشکیل کے دوران سیاسی اختلافات ابھر کر سامنے آئے۔ بہرحال تیاری کا مرحلہ جاری رہا اور 2010ء میں نیا نیپالی آئین تیار ہوگیا۔ اس کی رو سے نیپال کو سات صوبوں میں تقسیم کردیا گیا۔ لیکن نیپال کے علاقے، ترائی میں آباد مہادیشی ہندوؤں نے اس تقسیم کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ نئے صوبوں کی تشکیل سے وہ علاقے میں اقلیت بن جائیں گے۔

مہادیشیوں کی مخالفت کے باعث آئین کی تشکیل کا مرحلہ لٹک گیا حتیٰ کہ پہلی آئین ساز اسمبلی مئی 2012ء میں تحلیل ہوگئی۔ نومبر 2013ء میں دوسری آئین ساز اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ اس بار نیپالی کانگریس سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری۔ اس نے 575 میں سے 196 نشستیں حاصل کیں۔ تاہم کمیونسٹوں کی دونوں بڑی پارٹیاں، کمیونسٹ پارٹی آف نیپال اور یونائٹیڈ کمیونسٹ پارٹی بالترتیب 175 اور 80 نشستیں جیتنے میں کامیاب رہیں۔ اس لیے قومی اسمبلی میں کمیونسٹوں کا پلّہ ہی بھاری تھا۔

نئے آئین کی تیاری پھر شروع ہوئی۔ اب تک بھارت نواز نیپالی کانگریس کو احساس ہوچکا تھا کہ ’’کچھ دو اور کچھ لو‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر ہی نیا آئین تشکیل پائے گا۔ چناں چہ نیپالی کانگریس اور کمیونسٹوں نے اپنی اپنی مانگیں ایک دوسرے سے منظور کرالیں۔ جب اختلافات افہام و تفہیم سے حل ہوئے، تو 20 ستمبر 2015ء کو نیپال کی قومی اسمبلی نے نیا آئین منظور کرلیا۔لیکن مہادیشیوں نے یہ آئین قبول نہیں کیا۔

ان کا مطالبہ ہے کہ نیپال کی سات صوبوں میں تقسیم کو ختم کیا جائے۔ اس دوران بھارتی حکومت نے بھی معاملے میں دخل دے دیا۔ خود کو ہندوؤں کا چیمپئن سمجھنے والے نریندر مودی نے نیپالی حکومت پر زور ڈالا کہ وہ مہادیشیوں کے مطالبات قبول کرلے۔نیپالیوں کو احساس ہوگیا کہ بھارتی حکومت ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہی ہے۔ ان سے بھارتی حکومت کا برتاؤ بڑے بھائی نہیں آقا جیسا تھا۔ یہ سچائی نیپالی حکومت کو طیش میں لے آئی اور اس نے بھارتی وزیراعظم کے احکامات پر چلنے سے انکار کردیا۔

بھارتی حکومت تو نیپال کو اپنا طفیلی ملک سمجھتی ہے، اسے نیپالی حکومت کی آزاد روی پسند نہ آئی۔ چناں چہ مودی نے حکم دیا کہ نیپال کو بھارت سے ایندھن اور دیگر اشیاء کی ترسیل روک دی جائے۔ بہانہ یہ بنایا گیا کہ مہادیشیوں کے احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے سڑکیں بند ہیں اور ٹرک نیپال نہیں جاسکتے۔

نیپال تین اطراف سے پہاڑوں میں گھرا ملک ہے۔ اس کے میدانی علاقے صرف بھارت سے لگتے ہیں۔ اسی لیے نیپال ایندھن اور دیگر مطلوبہ سامان بذریعہ ٹرک بھارت ہی سے منگواتا ہے۔ مگر بھارتیوں نے اس دوستانہ عمل کو اپنے مذموم عزائم پورے کرنے کا ذریعہ بنالیا۔جب بھارت سے ایندھن نیپال نہ پہنچا تو وہاں ایندھن کی شدید قلت پیدا ہوگئی۔ موٹر سائیکل اور کار سوار پٹرول کی تلاش میں مارے مارے پھرنے لگے۔بجلی جانا معمول بن گیا۔ نیپالی حکومت نے کار چلانے پر پابندی لگادی اور بہت سے اشیاء کی قلت نے بھی نیپالی عوام کو خوار کردیا۔غرض نیپالیوں کی روزمرہ زندگی بہت متاثر ہوئی۔

نیپالی بے وقوف نہیں، انہیں محسوس ہوگیا کہ بھارتی حکومت نے ایندھن و سامان کی ترسیل اسی لیے روکی تاکہ آئین میں اس کی مرضی کے مطابق تبدیلیاں ہوسکیں۔ اس حقیقت نے نیپالی خواص و عام کو بھارت سے متنفر کردیا۔انہیں احساس ہوا کہ بھارتی حکمران طبقہ نیپالیوں کو اپنا دست نگر سمجھتا اور ان سے حاکمانہ برتاؤ کرتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے بھارتی حکومت کے سامنے سرجھکانے سے انکار کردیا۔نیپالی حکومت نے پھر چین سے رابطہ کیا۔

چینی حکومت نئے نیپالی آئین کا خیر مقدم کرچکی تھی۔ اس نے مشکل وقت میں نیپال کو تنہا نہیں چھوڑا اور فوراً ایندھن بھجوانے کا وعدہ کرلیا۔ حالانکہ حالیہ زلزلوں کی وجہ سے نیپال اور چین کے مابین راستے تودے گرنے کے باعث بند پڑے تھے۔چینیوں نے پھر دن رات کام کرکے بند راستے کھولے اور یوں چینی ٹرکوں پر لدا ایندھن اور دیگر ضروری سامان نیپال آنے لگا۔ چین کے فوری تعاون نے نیپالی عوام کے دل جیت لیے۔یہی وجہ ہے، آج نیپال میں بھارت سے زیادہ چین کی قدر ہو رہی ہے۔

نیپالی حکومت نے بھارت پر انحصار کم سے کم کرنے کی خاطر فیصلہ کیا ہے کہ اب وہ اپنا 40 تا50 فیصد ایندھن چین ہی سے خریدے گا۔نیپال کے معاملے میں مودی سرکار کی ناکام پالیسی پر بھارتی صحافی بہت چراغ پا ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے اپنی حماقتوں کے باعث نیپال کو چین کی آغوش میں دھکیل دیا ۔ پوری صورت حال کے دوران چینی حکومت کا رویہ مدبرانہ اور سلجھا ہوا رہا جبکہ بھارت ایک جارح طاقت کی حیثیت سے اپنے کمزور پڑوسی پر چڑھ دوڑا۔

بھارتی صحافیوں کا تو یہ تک کہنا ہے کہ مودی حکومت کی جارحانہ پالیسیوں کے باعث جنوبی ایشیا میں بھارت کی پوزیشن کو بہت نقصان پہنچ چکا۔ پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور بھوٹان میں کئی حلقے بھارتی حکومت کے جارحانہ رویّے کو بطور مثال پیش کرتے ہوئے بھارت کو ڈکٹیٹر قرار دیتے ہیں۔

دوسری طرف چین ایک سپرپاور ہے، مگر اس نے کبھی یہ کوشش نہیں کی کہ پڑوسی ممالک پر زبردستی اپنی پالیسیاں ٹھونس دی جائیں۔ شاید مودی حکومت کو یقین تھا کہ تجارتی مقاطعہ سے نیپال اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گا۔ مگر اس مقاطعہ نے اسے چین کے کیمپ میں شامل کر دیا۔ اب نیپال میں بھارت کا اثرورسوخ خاصا ماند پڑچکا اور اس کے نئے کمیونسٹ وزیراعظم، پرشاد شرما اولی بھارتیوں کے اثر سے آزاد ہو کر اپنی خود مختاری سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔