بھارت پرایٹم بم گر چکا ہے !!

تشنہ بریلوی  منگل 17 نومبر 2015
tishna.brelvi@yahoo.com

[email protected]

11 اگست1947  کو قائد اعظم دستور ساز اسمبلی میں اپنی معرکۃ آلارا تقریر کے ذریعے نئی آزاد مملکت ’’پاکستان‘‘ کے قیام کا اعلان کرنے کے بعد وائسرائے ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ گورنر جنرل ہاؤس کی طرف روانہ ہوئے ۔وہ ایک شاہانہ رولس رائس میں سوار تھے جو نواب بہاولپور نے تحفے میں دی تھی۔

برطانیہ کا آخری وائسرائے ’’اعلانِ پاکستان‘‘ کی غرض سے کراچی آیا مگر اس وقت بہت گھبرایا ہوا تھا ۔ملکہ وکٹوریہ کے پڑ نواسے اور برطانوی بحریہ کے ایڈمرل کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں ۔ جب اس نے سیاہ رولس رائس پر نظر ڈالی تو دل کی دھڑکن اور تیز ہوگئی ۔گاڑی تو اسے ’’ میّت گاڑی‘‘ جیسی لگی۔’’شاید یہ میری زندگی کا آخری دن ہے۔‘‘ اس نے سوچا اور قائد اعظم پر نظر ڈالی لیکن بانیٔ پاکستان بہت مسرور اور مطمئن تھے چونکہ ان کی طویل جدوجہد، جس کی خاطر انھوں نے اپنی صحت قربان کی، اب پایۂ تکمیل کو پہنچ چکی تھی اور ان کی زندگی کا مشن پورا ہوچکا تھا۔

راہبر صاحب کردارکہاں سے لاؤں

پھر وہی قافلہ سالارکہاں سے لاؤں

رولس رائس میں بیٹھے دونوں لیڈر عوام کے سلام کا جواب دے رہے تھے ۔ نعرے لگ رہے تھے ۔ سڑک پر زبردست ہجوم تھا ۔ وائسرائے کو یہ ہجومِ قاتلاں نظر آیا اور کھلی گاڑی میں وائسرائے اور قائد اعظم آسان ترین نشانہ تھے۔ گولی کا یا بم کا ۔ وائسرائے کو دلّی میں بتادیا گیا تھا کہ دہشت گرد ہندو تنظیم RSSکی طرف سے تیاری کرلی گئی ہے کہ بانیٔ پاکستان پر کراچی میں بم پھینکا جائے ۔ وائسرائے کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا مگر گاڑی آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی۔

الفنسٹن روڈ ( اب زیب النساء اسٹریٹ) پر بھیڑ میں ایک نوجوان سکھ کھڑا تھا۔ گاڑی پر بم پھینکنا اسی کی ذمے داری ۔ اس کے دائیں بائیں بھی چند’’والنٹیئر‘‘ کھڑے تھے جن کی ڈیوٹی یہ تھی کہ جیسے ہی بم پھینکا جائے بمبارکو ’’غائب ‘‘ کردیا جائے یا ختم کردیا جائے ۔جب سرکاری رولس رائس قریب آئی تو سردار جی کی ہمّت جواب دے گئی اور وہ چپکے سے سرک گیا۔لہذا راشٹریا سویم سیوک سنگھ کا یہ منصوبہ ناکام ہوگیا ۔ مگر ہندو فاشسٹ موقعے کی تلاش میں تھے۔یہ’’موقع‘‘ انھیں چند ماہ بعد مل گیا ۔ تقسیم ِ برصغیر کے خونیں واقعے کے بعد دونوں ملکوںکے درمیان نفرتیں بڑھتی گئیں ۔

برٹش انڈیا کے ریزرو بینک میں جو کیش موجود تھا اس میں سے 55 کروڑ روپے مزید پاکستان کا حق بنتا تھا لیکن نہرو اور پٹیل یہ رقم پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کررہے تھے ۔ گاندھی جی نے دھمکی دی کہ اگر انصاف کا تقاضہ پورا نہ کیا گیا تو وہ ’’مرن برت‘‘ رکھ لیں گے۔ حکومت ہند نے مجبوراً یہ رقم پاکستان کے حوالے کردی ۔ اس پر تمام ہندو پارٹیاں برہم ہوگئیں مہاراشٹر کا شہر پونا مرہٹہ سردارشیوا جی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور RSSکا ہیڈ کوارٹر بھی ہے ۔

اس شہر میں ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس کے شرکاء تھے، نارائن آپٹے، وشنوکرکرے، گوپال گوڈسے ، نتھورام گوڈسے اور مشہور مہاسبھائی لیڈر، شاعر اور ادیب ونائیک دامودر ساورکر۔ سب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ ’’موہن داس گاندھی کا قتل تو اب ضروری ہوگیا ہے یہ مہاتما تو مسلمانوں کا ساتھ دے رہا ہے ۔ اگر یہ جیا تو بھارت تباہ ہوجائے گا ۔‘‘

قتل کی ذمے داری 39  سالہ نتھورام گوڈے کو سونپی گئی جو بہت شرمیلا نوجوان تھا ،عورتوں کے سائے سے بھاگتا تھا اور بولتا کم تھا لیکن مسلمانوں کے خلاف پر جوش تقریریں کرتا تھا ۔بڑی مشکل ایک پستول (Beretta semi automatic)  حاصل کیا گیا اور نتھو رام نے اسے چلانے کی پریکٹس بھی کی پھر 30  جنوری کے دن گاندھی جی کی پرارتھنا کے بعد نتھو رام نے دونوں ہاتھ جوڑ کر انھیں پرنام کیا اور تین گولیاں ان کے ننگے سینے میں پیوست کردیں۔ اس دن سے ہندوستان کے ہر گوشے میں ہندو مہاسبھا کے زیر اثر شدّت پسندی کے اشارے ملتے رہے لیکن مہاراشٹر جو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا گڑھ ہے مسلم دشمنی میں سب سے آگے رہا ۔

یہاں مغل دور کے سردار شیواجی بھونسلے کا اثر ہے جو چھتر پتی شیواجی مہاراج کی صورت میں ہر مرہٹے کے دل پر راج کررہے ہیں۔ شیواجی بھیس بدلنے میں ماہر تھا ، چھپ کے وارکرتا تھا ۔

اس نے مرہٹوں کو ایک فوجی طاقت بنایا ۔ اس کا سب سے بڑا اور (دلچسپ) کارنامہ یہ ہے کہ جب بیجا پور کے عادل شاہ کا ایلچی افضل خان اس سے بات کرنے کے لیے آیا تو شیواجی نے ایک خفیہ ہتھیار (شیر پنجہ) مٹھی میں چھپا رکھا تھا اور موقع پاکر یہ افضل خان کے سینے میں پیوست کر کے اسے ختم کردیا ۔ مرہٹے اس پر اب تک بغلیں بجاتے ہیں ۔ راشٹریہ سیوک سنگھ تمام شدّت پسند ہندو تنظیموں کی نگراں ہے۔ تشدد پر انحصار کرنے والی یہ تنظیم ’’ مہان بھارت ‘‘ قائم کرنا چاہتی ہے جس میں پاکستان بنگلہ دیش نیپال اور برما بھی شامل ہیں۔ اور گاندھی جی کے قاتل نتھو رام گوڈے کو دیوتا کا درجہ دیتی ہے ۔

وزیر اعظم نریندر مودی سے پہلے بھی RSS  کے جیالے غنڈہ گردی کرتے رہتے تھے ۔ خاص کر ممبئی کے وان کھاڑے اسٹیڈیم میں جو ایک مرہٹے کے نام پر ہے پاکستانی کرکٹرز کو خاص طور پر بہت پریشان کیا جاتا ہے اور علیم ڈار جیسے مانے ہوئے کرکٹ امپائر کو بھی بھارت بدر کردیاگیا۔ بال ٹھاکرے ایک کارٹونسٹ تھا اور بابو راؤ پٹیل کے رسالے فلم انڈیا میں کارٹون بنایا کرتا تھا اس نے پچاس سال پہلے شیو سینا قائم کی اور ثانیہ مرزا ٹینس اسٹار کی پاکستانی کرکٹر شعیب ملک سے شادی پر ہنگامہ کیا تھا ۔ امیتابھ بچن کو بھی دھمکیاں دی تھیں لیکن نریندر مودی کے دور حکومت میں تو RSS  والوں کے مزے آگئے ہیں چونکہ نریندر مودی گجراتی ہونے کے باوجود بال ٹھاکرے کے چرن چھو چکا ہے اور اب تو RSSکے دہشت گردوں نے واقعی بھارت پر ایٹم بم گرادیا ہے جو ہٹلر کی طرح ’’سواستیکا‘‘ کو سلام کرتے ہیں۔

گائے کا گوشت کھانے کے جرم میں کئی مسلمانوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔ پاکستانی گلوکار غلام علی کو بمبئی میں پرفام کرنے سے روک دیا گیا ۔ اب شاہ رخ خان نشانے پر ہیں۔ تعلیم کو ہندو رنگ دیا جارہا ہے۔ سکھوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کئی بار ہوچکی ہے۔ سکھ 1948  کے قتل عام کو نہیں بھولے۔دلت برادری کی زندگی حرام کردی گئی ہے ۔ روشن خیال ہندو بھی زد میں ہیں اور صحافی بھی۔ ’’ گھر واپسی‘‘ کے نام پر مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوبارہ ہندو بنایا جارہا ہے۔

یہ سوامی شردھانند کی ’’شدھی‘‘ تحریک تھی۔ سارے بھارت میں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔ تاج محل تک کو اڑانے کے منصوبے ہیں۔ بھارتی صحافی سدھیندرکلکرنی کی سیاہی ملی تصویر مشرق و مغرب میں گردش کرکے اب بھارت ماتا کے منہ پر کالک مل چکی ہے ۔ بھارتی سیکولر ازم کا پردہ فاش ہوگیا ہے اور ساری دنیا تھوتھو کررہی ہے ۔ یاد رہے کہ ٹی وی کے ذریعے دنیا ایک ڈرائنگ روم بن چکی ہے ۔ عالمی شہرت یافتہ مصنفہ ارون دھتی رائے سمیت بہت سے ادیبوں ، شاعروں اور فنکاروں نے ایوارڈ واپس کردیے ہیں اور نریندر مودی سرکار پر سخت ترین حملے کیے ہیں مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا ہے۔

فہرست بہت طویل ہے ۔ نریندر مودی فاشسٹ ہٹلر اور مسولینی کا انجام یاد رکھیں اور یہ بھی کہ عظیم سویت یونین کس طرح ٹوٹا، ساری طاقت دھری کی دھری رہ گئی ۔ ہندوستان میں مقبوضہ کشمیر سے راس کماری تک اور امرتسر سے میگھالیہ تک شورش ہی شورش ہے ۔ہر طرف بغاوت کے آثار ۔ کرپشن الگ۔ ملک کے اتحاد کو زبردست خطرہ۔ ہندوستان نے فلم ، کرکٹ اور آئی ٹی کے میدانوں میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ بھی خاک میں مل گئیں پورے ملک میں خوف و دہشت ہے ۔ ہندوستان اب بھی بہت غریب ہے۔ سکم اور بھوٹان کے علاوہ کسی پر اس کا اثر نہیں ہے۔

وہ کس منہ سے اقوام متحدہ کا مستقل ممبر بننے کا دعویٰ کرسکتا ہے؟ اور اب تو نریندر مودی ہی کے پرستار ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ بجارہے ہیں ۔ یہ نقصان اتنا بڑا ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت پر ’’ایٹم بم‘‘ گر چکا ہے۔بھارت کو چاہیے کہ وہ اشوک چکر اور سفید پٹی اپنے جھنڈے سے نکال دے کہ یہ امن کی علامتیں ہیں۔ دلّی اور اب بہار جیسے اہم صوبے میں عوام نے نریندر مودی کیBJPکو الیکشن میں شکست دے کر ایک اور ایٹم بم گرادیا ہے۔ مگر RSSاور شیو سینا کو کون قابو میں کرے گا کیونکہ اصل مسئلہ تو ہندو دہشت گرد پارٹیاں ہیں۔ پاکستان بھی ان تمام واقعات سے سبق حاصل کرے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔