فرانس پر حملہ کیوں ہوا؟

محمد عثمان فاروق  منگل 17 نومبر 2015
اب فرانس، فلسطین کی حمایت کرکے جو غلطی کر بیٹھا تھا اس کے بعد فرانس کو سزا ملنا لازمی ہوچکا تھا۔ فوٹو: رائٹرز

اب فرانس، فلسطین کی حمایت کرکے جو غلطی کر بیٹھا تھا اس کے بعد فرانس کو سزا ملنا لازمی ہوچکا تھا۔ فوٹو: رائٹرز

صحافت کی دنیا میں جو پہلا سبق میں نے پڑھا وہ یہ تھا کہ ’’خبر‘‘ کسے کہتے ہیں؟ استاد نے بتایا اگر کتا انسان کو کاٹ لے تو وہ خبر نہیں لیکن، اگر کوئی انسان کتے کو کاٹ لے تو یہ ’’خبر‘‘ ہے۔ مسلمان روز مرتے ہیں یہ خبر نہیں ہاں کسی دن تھوڑی زیادہ مقدار میں غیر مسلم مارے جائیں تو یہ ’’خبر‘‘ ہے، جیسے ہی فرانس پر داعش کا حملہ ہوا تو یہ واقعہ بڑی سنسنی خیز ’’خبر‘‘ بن گیا۔

سب نے سوگ منایا، سب خوب روئے لیکن میرا کسی بھی قومی یا بین الاقوامی واقعے یا حادثے پر ہمیشہ یہ اصول رہا ہے کہ جذبات کو ایک طرف رکھتے ہوئے خالصتاً تحقیقاتی اور ٹھوس شواہد کی بنا پر چھپی ہوئی ان دیکھی باتوں کو ڈھونڈ کر گم شدہ کڑیوں سے کڑی ملا کر وہ حقائق اپنے قارئین کے سامنے رکھوں جو انہیں ڈور کا اصل سرا پکڑائیں۔ تو آئیے فرانس حملے کا بھی غیر جانبدارانہ تجزیہ کرتے ہیں۔

داعش ایک ایسی تنظیم ہے جو نام مسلمانوں کا لیتے ہیں، ان کا حلیہ بھی مسلمانوں جیسا ہے مگر ان کے تمام کام اسلام سے متنفر کرتے ہیں۔ لوگوں کے گلے کاٹنا، ان کو پانی میں ڈبو کر ہلاک کرنا، زندہ جلانا اور پھر ان سب کی ویڈیو بنا کر بیک گراؤنڈ پر قرآن پاک کی آیات اور احادیث مبارکہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم چلانا اور اسلام کو ایک مسخ شدہ شکل میں پیش کرنا ان کا وطیرہ ہے۔ کسی بھی اسلامی ملک کو ذلیل کرنا ہو، دباؤ ڈالنا ہو وہاں پر داعش نمودار ہوجاتی ہے۔

مثال کے طور پر جب کراچی کی ایک نامعلوم سیاسی جماعت کے ممبران آپریشن میں دھڑا دھڑ پکڑے جارہے تھے تو کراچی کی دیواروں پر بھی داعش نمودار ہوئی تھی۔ افغانستان میں داعش ملا عمر کے ساتھیوں پر حملے کرتی ہے تو فلسطین میں اسرائیل کے خلاف لڑنے والے حماس کے خلاف بھی داعش نظر آتی ہے۔ کشمیر میں حریت لیڈر سید علی گیلانی ریلی نکالتے ہیں تو انکی ریلی میں بھی نجانے کہاں سے داعش کے جھنڈے نظرآجاتے ہیں، حتٰی کہ سید علی گیلانی کو میڈیا پر بیان دے کر اپنی پوزیشن واضح کرنا پڑتی ہے کہ داعش کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہم ان کو گمراہ سمجھتے ہیں۔ تو سادہ سی بات یہ سمجھ آئی جدھر اسلام اور مسلمان کو بدنام کرنا ہوگا وہاں داعش نظر آئے گی۔ داعش سینکڑوں گاڑیوں کے قافلوں کے ساتھ ہالی ووڈ لیول کی پروڈکشن عراق کے کھلے صحراؤں میں کرے گی لیکن مزے کی بات دیکھیے کہ نہ کوئی ڈرون انکو نشانہ بناتا ہے اور نہ ہی کوئی امریکی جنگی جہاز ان پر بمباری کرتا ہے۔

پھر ایک دن ہوتا یہ ہے کہ داعش فرانس میں نہتے لوگوں پر اسلام کے نام پر حملہ کردیتی ہے۔ غیر مسلح بچے، بوڑھے، عورتیں مار دیئے جاتے ہیں۔ ذرا ذہن میں رکھیے گا یہ حملہ فرانس کی کسی فوجی تنصیبات پر نہیں ہوا جیسا کہ داعش کا جواز تھا کہ یہ حملہ فرانس کی شام میں بمباری کے ردعمل میں کیا گیا۔ اگر واقعی بدلہ ہی لینا تھا تو حملہ فرانس کے کسی فوجی اڈے پر ہونا چاہیئے تھا لیکن حملہ ہوا نہتے لوگوں پر اور نام استعمال ہوا اسلام کا، تعلیمات بدنام ہوئیں پیغمبر ہادی عالم صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے دوران جنگ نہتے لوگوں بچوں، عورتوں، بوڑھوں کے قتل سے منع فرمایا ہے۔ اب ذرا اس ساری بات کو روکتے ہوئے میں آپکو تقریباً 2 ماہ پیچھے لے جاتا ہوں۔ یہ اگست کا مہینہ تھا جب فرانس میں فلسطین کی وزارت خارجہ کے ممبر ’’ریاد المالکی‘‘  Riyad Al-Malki کی ملاقات فرانسیسی وزارت خارجہ کے وزیر ’’لورینٹ فیبیس‘‘ Laurent Fabius سے ہوتی ہے۔

فرانس کی طرف سے فلسطین کی حمایت میں سختی سے بیان جاری کیا جاتا ہے کہ ’’فلسطین کو یا تو جلد ازجلد عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے یا پھر اس پر اقوام متحدہ کی قرارداد لائی جائے‘‘۔  فرانس کا یہ یوٹرن اسرائیل میں خطرے کے سائرن بجا دیتا ہے کیونکہ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ کسی عیسائی اکثریت کے کٹر مغربی ملک کی طرف سے فلسطین کی حمایت میں بیان آیا ہو۔ 19 اگست 2015 کو اسرائیل کے مشہور اخبار ’’دی یروشلم پوسٹ‘‘ میں اسرائیلی صحافی HERB KEINON کی اسٹوری چھپتی ہے، جس کا عنوان ہوتا ہے کہ ’’فرانس فلسطین کو تسلیم کرنے کی بنیاد چھپا رہا ہے‘‘ اور اس آرٹیکل میں فرانس کو فلسطین کی حمایت کرنے پر نہ صرف خوب لتاڑا جاتا ہے بلکہ ڈھکے چھپے انداز میں دھمکی بھی دی جاتی ہے کہ فرانس ایسی حرکت سے دنیا کا امن خطرے میں ڈال رہا ہے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ یہ آرٹیکل اب بھی انٹرنیٹ پر’’دی یروشلم پوسٹ‘‘ کی ویب سائٹ ہر موجود ہے۔

اب فرانس، فلسطین کی حمایت کرکے جو غلطی کر بیٹھا تھا اور 2 ماہ گذرنے کے باوجود فرانس کی طرف سے اپنے بیان کی تردید نہ کئے جانے کے بعد فرانس کو سزا ملنا لازمی ہوچکا تھا۔ بس پھر کیا تھا ہمیشہ کی آزمودہ داعش فرانس میں نمودار ہوتی ہے۔ عالمی سطح پر مسلمان اور اسلام نائن الیون کے بعد والی انتہائی دفاعی پوزیشن پر چلے جاتے ہیں، کچھ مسلمان بلاوجہ فرانسیسی جھنڈوں سے اپنے منہ کالے کرکے دنیا کو یقین دلانا شروع کردیتے ہیں کہ جناب ہم دہشتگرد نہیں ہیں، دوسری طرف پورا ہندوستانی میڈیا پاکستان کے خلاف طوفان اٹھا دیتا ہے کہ پاکستان میں داعش موجود ہے جو ہندوستان میں بڑا حملہ کرنے والی ہے۔

اب اگر اس حملے کے بعد بھی فرانس نے اگر جلدی فلسطین کے معاملے پر اپنا موقف نہ بدلا تو داعش فرانس میں ایک اور ایسا حملہ کرسکتہ ہے، کیونکہ فرانس جیسے ملک کا فلسطین کی حمایت کرنا اسرائیل کو جتنا مہنگا پڑسکتا ہے، عالمی تعلقات پر اسٹڈی کرنے والے طالبعلم اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔

تو جناب یہ وہ تمام حالات اور کڑیاں ہیں جو جوڑ کر آپ کے سامنے رکھ دی ہیں، اور میری ذاتی رائے ہے کہ فرانس میں حملے کی وجہ وہی ہے جو مندرجہ بالہ بیاں کی گئی ہے، امید ہیں آپکو سمجھ آگئی ہوگی کہ داعش کی دوڑیاں کس کے ہاتھ میں ہے اور فرانس پر حملہ کیوں ہوا۔

کیا آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ فرانس پر حملہ فلسطین کی حمایت کا نتیجہ ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

عثمان فاروق

محمد عثمان فاروق

بلاگر قومی اور بین الااقوامی سیاسی اور دفاعی صورت حال پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سائنس فکشن انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ ان سے فیس بک پر usmanfarooq54 اور ٹوئیٹر پر @usmanfarooq54 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔