پیرس کے دھماکوں سے فیس بک کے دھماکوں تک

محمد ارشد قریشی  منگل 17 نومبر 2015
عوامی احتجاج کے بعد فیس بک کے بانی مارک زکر برگ نے اپنی پوسٹنگ میں کہا کہ ہم آئندہ تمام لوگوں کا ایک طرح سے خیال رکھیں گے۔

عوامی احتجاج کے بعد فیس بک کے بانی مارک زکر برگ نے اپنی پوسٹنگ میں کہا کہ ہم آئندہ تمام لوگوں کا ایک طرح سے خیال رکھیں گے۔

پیرس کے معصوم لوگوں پر 13 نومبر کی رات جو ظلم ڈھایا گیا اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، ان دھماکوں میں ہلاکتوں کے بعد میڈیا، خاص طور سوشل میڈیا میں کئی دھماکے ہونا شروع ہوگئے فیس بک نے فرانسیسی عوام سے اظہار یکجہتی کے لئے آپ کی فیس بک پکچر کو فرانس کے جھنڈے کے عکس کے ساتھ عارضی طور پر تبدیل کرنے کا ایک آپشن پیش کیا، جو ایک گھنٹے یا ایک دن یا ایک ہفتے کے لئے تھا، جو مکمل طور پر آپ کی مرضی پر منحصر تھا آپ چاہیں تو تصویر تبدیل کریں چاہیں تو نہ کریں۔ فرانس سے اظہار یکجہتی کے لئے لوگوں نے اپنی پروفائل پکچر تبدیل کرنا شروع کردی، ساتھ ہی آن لائن جنگ بھی شروع ہوگئی ڈی پی تبدیل کرنے والوں کو نہ جانے کیا کیا نہیں بولا گیا اور اسی طرح نہ تبدیل کرنے والوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

میں نے اور میرے گروپ میں تمام دوستوں نے بھی بہت سوچ و فکر کے بعد اپنی ڈی پی ایک دن کے لئے تبدیل کی، سوچ یہ تھی کہ دین اسلام کا حکم ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ دوسری سوچ یہ تھی کہ اب سوشل میڈیا پر ایسے ایسے مواد اپ لوڈ کئے جائیں گے جس سے تاثر دیا جائے گا کہ تمام دنیا کے مسلمان ان حملوں پر بہت خوش ہیں اور ایسا ہی ہوا، ایک ویڈیو تو ایسی اپ لوڈ کی گئی جو حالیہ ٹی ٹونٹی میچ میں پاکستان کی کامیابی کا سن کر لوگ خوشی سے رقص کررہے تھے۔ اس ویڈیو سے یہ ظاہر کیا گیا کہ پیرس پر حملے کی خبر سنتے ہی مسلمان خوشی میں رقص کررہے ہیں۔

اس کا ردِعمل بہت خطرناک ہوسکتا تھا، فرانس اور پورے یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ، کم از کم اسی طرح انہیں کچھ تو احساس ہوگا کہ مسلمان ان حملوں پر خوش نہیں ہیں بلکہ ہمارے ساتھ اس دکھ میں کھڑے ہیں، ساتھ ہی زہن میں وہ تمام حالات بھی تھے جو نائن الیون کے بعد مسلمانوں کو درپیش آئے تھے۔ یہی تمام باتیں مدنظر رکھتے ہوئے ہم تمام دوستوں نے بھی ایک دن کے لئے ڈی پی تبدیل کرلی اور ڈی پی کی تبدیلی کے ساتھ ہی ایسی پوسٹنگ بھی کیں، جس میں فیس بک کے اس دوہرے معیار پر شدید احتجاج کیا کہ مسلمان ممالک اور خود پاکستان میں ایسے لاتعداد واقعات میں لوگوں کی ہلاکتیں ہوئیں لیکن کبھی ہمارے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ایسا نہیں کیا گیا، نہ کبھی سیفٹی چیک شروع کیا گیا نہ ہی ڈی پی تبدیل کا آپشن دیا گیا نہ گذشتہ دنوں بیروت میں دھماکے میں ہلاکتوں پر ایسا ہوا نہ ہی شامی معصوم بچے کی ساحل سمندر پر پڑی لاش کے بعد ایسا ہوا، نہ آرمی پبلک اسکول واقعہ کے بعد ایسا ہوا۔

کتنے ہی ایسے واقعات ہوئے لیکن ان کے لئے فیس بک نے اس قسم کا کوئی اظہارِ ہمدردی کیا نہ ہی اظہار یکجہتی، تو کیا فیس بک اہل مغرب کو ہی انسان سمجھتا ہے اور باقی کسی کی جانوں کی کوئی حیثیت، کوئی اہمیت نہیں؟ ساتھ ہی ریڈیو فرانس، فرانس جرنلسٹ ایسوسی ایشن اور دوسرے کئی فرانسیسی  لوگوں کے فیس بک وال پر بھی پوسٹنگ کی کہ دیکھو ہم مسلمان ہیں اور یہ جانتے ہوئے کہ آپ کے ایک اہل وطن نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآل وسلم کے گستاخانہ خاکے بنائے، ہمارے مذہب کا مذاق اڑایا۔ ہماری دل آزاری کی لیکن اُسی نبی صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے ہمیں بتایا کہ مظلوموں کا ساتھ دینا، کسی انسان کو بے گناہ نہ مارنا کیونکہ کسی بے گناہ انسان کو مارنا پوری انسانیت کو مارنے کے برابر ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآل وسلم  پر تو ایک یہودی عورت روزآنہ گذرتے ہوئے کچرا پھینک دیتی تھی، لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے ایک دن دیکھا کہ آج ایسا نہ ہوا تو اس عورت کے گھر، اس کی خیریت دریافت کرنے پہنچ گئے جو بیمار پڑی تھی۔

اسلام میں شدت پسندی ہوتی تو صحابہ کرام سب سے پہلے اس عورت کو قتل کرتے،  ہم تمام مسلمان پُرامن لوگ ہیں تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں اور چاہتے ہیں ہمارے مذہب کا احترام  بھی کیا جائے۔ چند گنے چنے لوگوں کا حملے کے وقت اللہ اکبر کا نعرہ لگانے کا مطلب ہرگز ہرگز یہ نہیں کہ وہ تمام مسلمانوں کی ترجمانی کررہے ہیں، اس لئے ہم اس دکھ کی گھڑی میں آپ کے ساتھ ہیں، لیکن افسوس ایسے ہی کئی مظالم ہم پر بھی ڈھائے گئے لیکن آپ نے ہم سے اظہار یکجہتی نہیں کیا۔ ہمارے معصوم اسکول کے بچوں کو شہید کیا گیا، برما، کشمیر، فلسطین، شام، عراق، بیروت میں لاکھوں لوگوں کو مارا گیا مگر آپ خاموش رہے، ظلم و ستم سے تنگ مسلمان اپنے گھر بار چھوڑ کر آپ کی سرحدوں پر جمع ہوگئے مگر آپ نے ان سے نفرت انگیز رویہ رکھا، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی شان میں گستاخی کی گئی مگر آپ خاموش رہے۔ قرآن مجید جلائے گئے مگر آپ خاموش رہے، ہم بہت سے دوستوں نے تمام دن اس طرح کی پوسٹنگ کی اور تمام پوسٹنگ فیس بک کے سربراہ کے فیس بک پیج پر بھی میسیج  کرتے رہے۔

ظاہر ہے ایسا صرف ہم چند دوستوں نے ہی نہیں کیا، بلکہ دنیا سے لاکھوں لوگ اس سوچ کے تحت اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے رہے اور فیس بک کےسربراہ کو پیغامات بھیجتے رہے، فیس بک کے بانی مارک زکر برگ نے پوری دنیا سے تنقیدی پوسٹنگ اور میسیجز کےبعد فیس بک پیج پر اپنی پوسٹنگ میں کہا کہ اس سے لوگوں کی دل آزاری ہوئی کہ ہم نے باقی دنیا میں ہلاکتوں پر ایسا کیوں نہیں کیا؟ ہم آئندہ تمام لوگوں کا ایک طرح سے خیال رکھیں گے۔


Mark Zuckerberg
 Many people have rightfully asked why we turned on Safety Check for Paris but not for bombings in Beirut and other places.

Until yesterday, our policy was only to activate Safety Check for natural disasters. We just changed this and now plan to activate Safety Check for more human disasters going forward as well.

Here’s more detail on Safety Check and our policy for deploying it from the Face book Safety page:

https://www.facebook.com/fbsafety/posts/930229667014872

Thank you to everyone who has reached out with questions and concerns about this. You are right that there are many other important conflicts in the world.

We care about all people equally, and we will work hard to help people suffering in as many of these situations as we can.

اب ہوگا کیا؟ کیا وہی کچھ ہوگا جو نائن الیون کے بعد ہوا تھا؟ جو بظاہر اب تک ایسا ہی نظر آرہا ہے کہ ہوگا ایسا ہی۔ اس واقعہ کے بعد مسلمانوں کی شہریت ختم کی جائیں گی، نفرت آمیز رویہ اختیار کیا جائے، پناہ گزینوں کو نکالا جائے گا اور مزید  مسلمان پناہ گزینوں کے لئے سرحدیں بند کردی جائیں گی۔ پیرس حملے کے بعد شام پر فرانسیسی طیاروں نے بم برسانے شروع کردیئے اور کہا گیا کہ یہ حملے امریکی انٹیلیجینس رپورٹ کی بنیاد پر کئے گئے ہیں۔ یاد رہے ایسی ہی ایک انٹیلیجینس رپورٹ پر 12 سال پہلے عراق کو تباہ و برباد کردیا گیا تھا اور عراقی صدر صدام حسین، ان کے بیٹوں، اور رفقاء کو پھانسیاں دے دی گئی تھیں اور 12 سال بعد ٹونی بلئیر نے اس رپورٹ کو غلط قرار دے کرعراق میں جنگی جرائم کا اعتراف کیا تھا اورعراق پر حملے کو غلط فیصلہ کہہ کر معافی مانگی تھی۔

کیا آپ بلاگر کے طریقہ کار کی حمایت کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

محمد ارشد قریشی

محمد ارشد قریشی

ریڈیو لسننگ سے وابسطہ ہیں، اکثر ریڈیو میں لکھتے ہیں۔ شعر و شاعری اور سماجی کاموں سے دلچسپی رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔