آئیے ایک بار پھر’’تاریخ‘‘ بنتے ہوئے دیکھیں

نصرت جاوید  بدھ 24 اکتوبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

آج کل ماضی کے حوالے سے کچھ لوگوں پر گند اُچھال کر ہم لوگوں پر ’’تاریخ‘‘ بنانے کا بھوت سوار ہو چکا ہے۔

اصغر خان کی جانب سے 16سال پہلے دائر کردہ مقدمہ پر فیصلہ آنے کے بعد تو اس مشن میں زیادہ قوت آئی ہے۔ اسلم بیگ یا اسد درانی جیسے جرنیلوں اور ان سے رقومات وصول کرنے والے سیاستدانوں کو عبرت کی نشانیاں بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے ہم سارے ایک اہم بات بھول بیٹھے ہیں اور وہ یہ کہ پاکستان ایک ’’نظریاتی مملکت‘‘ ہوا کرتی ہے۔ ریاستیں جب ’’نظریاتی‘‘ ہو جائیں تو ان کو پاسبانوں اور پاسداروں کی شدید ضرورت ہوا کرتی ہے۔

ہمارے برادر ملک ایران میں یہ فریضہ ’’ولایت فقیہہ‘‘ اور قم کے آیت اللہ حضرات انجام دیتے ہیں۔ پاکستان میں قوم کو سیدھی راہ پر رکھنے کا فرض عسکری قیادت نے 1950ء کی دہائی سے اپنے کندھوں پر اُٹھا رکھا ہے۔ اسی مقصد کے تحت پاکستان کے پہلے آرمی چیف جنرل ایوب خان وردی پہن کر وزیر دفاع ہوتے ہوئے کابینہ کے رکن بنے۔ ان کی فیصلہ سازی کے عمل میں ایسی عجوبہ شمولیت بھی جب ہمیں صحیح راستے پر گامزن نہ کر پائی تو بالآخر انھوں نے اکتوبر 1958ء کا انقلاب برپا کیا اور اس کی طفیل ہمارے فیلڈ مارشل بن گئے۔ اپنی فیلڈ مارشلی کے بدلے انھوں نے ہمیں 1962ء کا آئین دیا اور ملک کے بھرپور اختیارات والے صدر بن گئے۔

1964ء میں قائد اعظم کی بہن جنہوں نے اپنے بھائی کی دن رات خدمت کے بعد ’’مادرِ ملت‘‘ کا خطاب پایا تھا اسی فیلڈ مارشل کے مقابلے میں صدارتی انتخاب ہاریں اور بالآخر جب ایوب خان کا مارچ 1969ء میں جانا ٹھہر گیا تو انھوں نے اپنے ہی بنائے آئین کی بڑی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے بجائے اس وقت کی قومی اسمبلی کے اسپیکر کو اقتدار کی چھڑی دینے کے، اس وقت کے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کو صدر بنوا ڈالا۔ یہ درست ہے کہ پھر پاکستان میں پہلی مرتبہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات بھی ہوئے۔ مگر ملک تو 1970ء میں ٹوٹ گیا۔ باقی ماندہ پاکستان کو ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کا ’’متفقہ آئین‘‘ دیا۔ اس آئین میں فوج کی مداخلت کو قطعی طور پر روکنے کے لیے آرٹیکل 6 متعارف کروایا گیا لیکن یہ آرٹیکل بھی جنرل ضیاء کا راستہ نہ روک سکا۔

آج پوری قوم ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان کو ’’تاریخ بنانے‘‘ پر مبارکبادیں دے رہی ہے۔ مگر ایسا کرتے ہوئے کسی کو یاد ہی نہیں آ رہا کہ بھٹو کو کو ہالہ پر پھانسی دینے کے دعوے کون کیا کرتا تھا۔ وہ کون تھا جس نے فوجی حکام کو خطوط لکھے کہ بھٹو کے ’’غیر آئینی احکامات‘‘ پر عمل نہ کیا جائے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ جنرل ضیاء تشریف لائے تو انھوں نے بڑے اہتمام سے اصغر خان کی تحریک استقلال کا ایک وفد ایران بھیجا۔ ان دنوں شہنشاہ ایران ہمارے خطے میں امریکا کا متعین کردہ پاسبان سمجھا جاتا تھا۔ تحریکِ استقلال والوں کو تہران بھیج کر جنرل ضیاء نے اس جماعت کے سرکردہ لوگوں کو یہ باور کروایا کہ اس کی نگرانی میں کرائے جانے والے ’’مثبت انتخابات‘‘ کے بعد وہی پاکستان کے جمہوری حکمران ہوں گے۔

اصغر خان صاحب کو پورے چار سال بعد 1981ء میں کہیں جا کر ہوش آئی کہ ان کے ساتھ تو پنجابی والا ’’ہتھ‘‘ ہو گیا ہے۔ انھوں نے چراغ پا ہو کر تھوڑی سی بیان بازی کی تو انھیں ایبٹ آباد میں ان ہی کے گھر ’’حفاظتی نظربندی‘‘ میں مقید کر دیا گیا اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

اصغر خان کے دائر کردہ مقدمہ پر ’’تاریخی فیصلہ‘‘ آ جانے کے بعد ہمارے فرطِ حیرت و مسرت کے مارے مفکرین اور تبصرہ نگار بڑی آسانی سے یہ بات بھول گئے ہیں کہ 1990ء سے صرف دو سال پہلے ایک اور انتخاب 1988ء میں بھی ہوا تھا۔ میں نہیں بلکہ ان دنوں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل بار ہا سینہ تان کر ٹی وی اسکرینوں پر یہ اعلان کرتے پائے جاتے ہیں کہ ان انتخابات میں بے نظیر بھٹو کو قابو میں رکھنے کے لیے انھوں نے ’’دائیں بازو‘‘ کے ووٹروں کو IJI کے پرچم تلے اکٹھا کیا۔ آج کل اسد درانی پر لعن طعن کرتے ہوئے ہم حمید گل صاحب سے یہ پوچھنے کی جرأت کیوں نہیں کر پا رہے کہ دائیں بازو کے نام نہاد ’’نظریاتی ووٹروں‘‘ کو ایک جگہ جمع کرنے کا ٹھیکہ انھوں نے کیسے اور کس بنیاد پر حاصل کیا تھا۔

IjI کے بننے سے چند ہی لمحوں قبل تک اس امر کے ٹھوس امکانات موجود تھے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو 1988ء کے انتخابات محمد خان جونیجو کی پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ کسی قسم کا اتحاد بنا کر لڑیں گی۔ یہ امکان معقول اس لیے بھی نظر آ رہا تھا کہ ضیاء الحق نے مرحوم جونیجو کی حکومت کو برطرف کیا تھا۔ اس برطرفی کی ایک اہم وجہ جونیجو حکومت کا افغانستان کے بارے میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام جنیوا سمجھوتے پر دستخط کرنا بھی تھی۔ پاکستان کے وزیر برائے امور خارجہ ہوتے ہوئے مرحوم زین نورانی نے بڑی عرق ریزی کے بعد اس معاہدے کو حتمی شکل دی تھی۔

1988ء کا انتخاب پیپلز پارٹی کے ساتھ کسی نوعیت کے اشتراک کے ساتھ لڑنے کے لیے انھوں نے مرحومہ کے ایک بہت ہی سنجیدہ اور دور اندیش معتمد پیار علی الانا صاحب سے طویل مذاکرات کیے۔ حامد ناصر چٹھہ ان مذاکرات پر خوش نہ تھے۔ جونیجو صاحب کی موجودگی میں طیش سے اُٹھ کر ہذیانی انداز میں یہ چیخنا شروع ہو جاتے کہ پیپلز پارٹی سے معاہدہ کرنے کے بعد وہ اپنے باپ کی قبر پر جانے کے قابل نہ رہیں گے۔ پھر ایک جہاز نے لاہور سے پرواز کی۔ اس جہاز میں ہماری نظریاتی سرحدوں کے ایک بڑے ہی معتبر محافظ صحافی بھی موجود تھے۔

انھوں نے چٹھہ صاحب اور جونیجو کو جمع کر کے IJI میں شامل کروا دیا۔ نتیجتاً پاکستان پیپلز پارٹی 1988ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں تھوڑی اکثریت تو حاصل کر پائی مگر اس ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔ آج کل صدر زرداری میاں منظور وٹو کے ذریعے 1988ء میں ملنے اور پھر گہرے سے گہرے ہوتے ہوئے اس نقصان کی تلافی کرنے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔ اسی مقصد کی خاطر چوہدری پرویز الٰہی کی ناز برداریاں بھی ہو رہی ہیں۔ ان سب کا نتیجہ جو نکلے سو نکلے مگر یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ 1988ء میں IJI کا قیام ہمارے ملک میں برسوں سے جاری عدم استحکام کا اصل سبب ہے۔

اس نے ہمارے معاشرے کو نام نہاد نظریاتی اور پھر آہستہ آہستہ نسلی اور لسانی حوالوں سے تقسیم در تقسیم کر دیا اور یہ تقسیم روز روز گہری اور خوفناک حد تک گمبھیر ہوتی جا رہی ہے۔ سیاسی قوتیں جب جذباتی بنیادوں پر تقسیم ہو کر انتشار کا شکار ہو جائیں تو ریاست کا کوئی تگڑا والی وارث نظر ہی نہیں آتا۔ ایک ایسا خلاء پیدا کر دیتا ہے جسے پاکستان کے دوامی ممالک ’’نظریاتی بنیادوں‘‘ کی وجہ سے پُر کرنے پر ’’مجبور‘‘ ہو جاتے ہیں۔ حمید گل کو بھول کر محض اسد درانی پر توجہ دیتے ہوئے ’’تاریخ بنانا‘‘ مجھے تو بڑا مضحکہ خیز دِکھ رہا ہے۔ مگر میرے جیسے ’’مایوسی پھیلانے والوں‘‘ کی کون سنتا ہے۔ ویسے بھی عمران خان کی صورت میں کہا جاتا ہے کہ ہماری نئی نسل کو اُمید کی کرن بالآخر نظر آ گئی ہے اور تبدیلی کے واضح امکانات بھی۔

سپریم کورٹ کی طرف سے اصغر خان کے مقدمہ پر ’’تاریخی فیصلہ‘‘ آنے کے بعد نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کو اپنی صفائیاں اور ان کی گواہیاں پیش کرنا ہوں گی جو آیندہ انتخابات میں پاکستان کے آبادی کے حوالے سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کو اب پیپلز پارٹی کے بعد نواز لیگ کے ’’قبضے‘‘ سے چھڑانے میں کافی مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں۔ پاکستان جیسی ’’نظریاتی مملکت‘‘ میں ’’مرزائوں‘‘ کے لیے نگہبانی کا حق صرف اسی صورت میں محفوظ رہتا ہے کہ جب عوام کی بھرپور شرکت سے ہنستی بستی سیاست کی گلیاں ’’سنجیاں‘‘ ہو جائیں۔ آئیے میں اور آپ مل کر ایک بار پھر ’’تاریخ‘‘ بنتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔