یادگار فلموں کا خالق‘ یش چوپڑا

رئیس فاطمہ  بدھ 24 اکتوبر 2012

محمد رفیع کی آواز میں یہ گیت آج بھی لوگوں کو یاد ہے

تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا

سچ تو یہی ہے کہ انسان صرف انسان ہی بن جائے تو دنیا امن و چین کا گہوارہ بن جائے، لیکن ہم سب پیدا تو انسان ہی کے گھر میں ہوتے ہیں، لیکن پھر ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور نہ جانے کیا کیا بن جاتے ہیں۔ تمام مذہبی گروہ اپنی اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ اپنے اپنے دیوتا، اوتار اور پیغمبر رکھتے ہیں جو انھیں نیکی اور بھلائی کی تعلیم دیتے ہیں۔ دنیا کا کوئی مذہب نفرت کی تعلیم نہیں دیتا لیکن دنیا کے ہر مذہب میں کچھ ایسے تخریبی عناصر بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کی دل آزاری کرنا ضروری سمجھتے ہیں، کیونکہ ان کے خودساختہ عالموں نے انھیں کبھی گستاخانہ خاکے اور فلمیں بنانے کی راہ دِکھائی اور کبھی دیگر مسلکوں کے اکابرین پر تبرے کی تعلیم دے کر اپنے بغض کو نکالا۔ لیکن وہیں کہیں کچھ ایسے سرپھرے بھی ہوتے ہیں جو اپنے اپنے دلچسپی کے میدان میں ہمیشہ محبت کا پرچار کرتے ہیں۔

امن اور بھائی چارے کی بات کرتے ہیں لیکن یہ نہ سیاست دان ہوتے ہیں نہ حکمران، بلکہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے فنون لطیفہ کی کسی بھی شاخ سے تعلق رکھتے ہیں۔ خواہ ادب ہو، موسیقی ہو، مجسمہ سازی ہو، رقص ہو یا فلم، ان تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندی اور نفرتوں سے ہمیشہ دور رہتے ہیں۔ ان میں فلم سب سے زیادہ طاقت ور شعبہ ہے جو براہِ راست انسان کو متاثر کرتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں فلم کا شعبہ دفن ہوچکا ہے۔ ضیاء الحق کے بعد جو معاشرہ وجود میں آیا وہ گولی کا معاشرہ تھا جو اپنی پوری سفّاکی کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔

ہم علم دشمن، جمالیاتی ذوق کے قاتل اور اپنی زبان دوسروں کے منہ میں ٹھونسنے والے سماج میں پتا نہیں کیسے زندہ رہ رہے ہیں؟ کبھی ہمارے ہاں بھی فلمیں بنتی تھیں، لازوال گیت تخلیق ہوتے تھے۔ فلموں میں کسی نہ کسی سماجی مسئلے کی نشان دہی کی جاتی تھی۔ ’’خاموش رہو‘‘، ’’انسان اور آدمی‘‘، ’’انصاف اور قانون‘‘، ’’باجی‘‘، ’’سالگرہ‘‘، ’’ناگ منی‘‘، ’’موسیقار‘‘ اور ’’انسانیت‘‘ جیسی لازوال فلمیں بنی تھیں۔ رشید عطرے، نثار بزمی، خواجہ خورشید انور اور لعل محمد اقبال جیسے عظیم موسیقاروں نے ناقابلِ فراموش گیت ان معیاری فلموں کے لیے تخلیق کیے، لیکن پھر جب بھارتی فلموں پر ایک طبقے نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر پابندی لگوائی تو پھر ہماری علاقائی فلموں نے غلط روش اپنا لی ۔ پھر اسی تنگ نظری نے جاہل فلم سازوں کو مالا مال کردیا۔ وہ جب پیسہ لگاتے تھے تو کہانیاں بھی خود پر لکھواتے تھے۔

بدمعاش اب ہماری فلموں کے ہیرو تھے۔ سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کی لڑائی، ہتھیاروں کا بے جا استعمال اور کھیتوں سے ڈھائی من کی کدکڑے لگاتی ہیروئن کا اغوا اب فلموں کی اوّلین ترجیح تھی، لیکن کب تک کنویں کا مینڈک بن کے زندہ رہا جاسکتا ہے؟ نتیجہ سامنے ہے، مقابلہ نہ ہونے کی وجہ سے سنیما گھر ویران ہوگئے اور ساری مارکیٹ بھارت کے تصرف میں آگئی۔ ہمارے سنیما گھر پھر آباد ہوئے بھی تو انڈین فلموں ہی سے۔ سنیما انڈسٹری سے وابستہ ایک بڑے طبقے کے گھر کے چولھے پھر روشن ہوگئے کہ فن کی کوئی سرحد نہیں ہے، گنگناتی فضائیں، چاند کی چاندنی، سورج کی روشنی، تاروں کی چمک، آسمان کی وسعت اور مہکتے پھولوں کی خوشبو سرحدوں کی اسیر نہیں ہوتیں۔ وہ پوری کائنات کو اپنے اندر سمیٹے ہوتی ہیں۔

برصغیر کی فلمی دنیا کے حوالے سے یش چوپڑا کا نام بھی ہمیشہ اسی طرح عزت و احترام سے لیا جاتا رہے گا، جیسا کہ ان کی زندگی میں تھا۔ وہ ایک بہت بڑے فلم ساز تھے اور ان کی کمی شاید ہی کوئی پوری کرسکے، کیونکہ بھارت میں بھی فلمی دنیا پر اب انڈر ورلڈ کا راج ہے جو پیسہ لگاتے بھی ہیں اور پیسہ بناتے بھی ہیں۔ اپنی مرضی کی کہانیاں لکھوا کر عام آدمی اور ایمان دار پولیس افسران کے دل میں اپنا خوف بھی پیدا کردیتے ہیں، تاکہ وہ ان کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھا سکیں۔

یہی نہیں بلکہ فلم کی ہیروئن کا انتخاب بھی وہی کرتے ہیں، جس کو چاہا آسمان پر چڑھا دیا اور جس کو چاہا بہترین اداکارہ، اداکار، موسیقار اور بہترین فلم کا ایوارڈ دلوادیا کہ ہر جگہ ان کا سرمایہ لگا ہوتا ہے۔ انعام کسی اور کو ملتا ہے اور انعام کی رقم کسی اور کو! بالکل اسی طرح جیسے آج کل ہماری ادبی دنیا میں ہو رہا ہے۔ باقاعدہ معاہدے کے تحت کتابیں چھپتی ہیں، پھر جیوری فیصلہ کرتی ہے کہ کسے انعام دیا جائے۔ لکھنے والے اپنی اپنی تخلیقات بھیجتے ہیں، لیکن انھیں اوّل تو پڑھا بھی نہیں جاتا، دوم یہ کہ انعامات کا فیصلہ (دروغ برگردن راوی) ’’جیوری‘‘ کرتی ہے۔ بعض اوقات اپنے ہی لوگوں کو انعام دلوا دیتی ہے۔

البتہ اب یہ سارے راز ایک عرصہ سے افشا ہو رہے ہیں کہ انعام کس کو ملا؟ اور انعامی رقم کن کن معزز لوگوں کے حصّے میں آئی۔ بھارتی فلمی دنیا کی کہانیاں بھی ہماری ادبی دنیا کی کہانیاں ہیں جہاں کسی ادیب یا شاعر کو ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے اداروں کے ’’بڑے لوگوں‘‘ تک کسی نہ کسی طرح رسائی حاصل کرنی پڑتی ہے، لیکن 1980 کی دہائی تک انڈرورلڈ کا اثر فلمی دنیا پر نہ تھا۔ اسی لیے یش چوپڑا جیسے حسّاس، ہمدرد اور جینئس فلم سازوں نے کامیاب فلمیں بنائیں۔ آج بھی عوام کی اکثریت سماجی اور گھریلو فلمیں پسند کرتی ہے، جنھیں وہ اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکیں اور یش چوپڑا جی کی تمام فلمیں ایسی ہی ہوتی تھیں۔ دھول کا پھول، وقت، ترشول، دیوار، سلسلہ، کبھی کبھی، چاندنی، لمحے، دل تو پاگل ہے اور ویر زارا۔

یہ وہ یادگار فلمیں ہیں جنھیں کوئی بھی نہیں بھول سکتا۔ ان تمام فلموں میں کسی نہ کسی سماجی مسئلے کو موضوع بنایا گیا۔ ’’ویر زارا‘‘ میں سرحدوں کی تقسیم کے ساتھ جو ظلم اور نفرت محبت کرنے والوں پر روا رکھا گیا، یش چوپڑا نے اس پر ایک ایسی فلم بنا دی جس نے ہر دیکھنے والے کی آنکھیں پرنم کردیں۔ ’’سلسلہ‘‘ جب بنی تو امیتابھ اور ریکھا کا رومانس عروج پر تھا۔ وہ دونوں بنے ہی ایک دوجے کے لیے تھے لیکن امیتابھ پہلے سے شادی شدہ تھے اور لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ امیتابھ نے فلم انڈسٹری میں قدم جمانے کے لیے جیا بہادری سے شادی کی تھی جو کہ اس وقت سپراسٹار تھی۔ فلم ابھیمان بھی امیتابھ اور جیابہادری کی زندگی کے ایک اہم پہلو کی نشان دہی کرتی ہے جب وہ فلموں کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے تھے اور جیا نے ان کا ہاتھ پکڑا تھا۔

یش چوپڑا نے جتنی بھی فلمیں بنائیں ان میں تشدد کا پہلو ہوتا ہی نہیں تھا۔ مکمل طور پر گھریلو، سماجی اور رومانوی فلموں کے حوالے سے ان کا نام امر ہے۔ پاکستان میں موضوعاتی، سماجی اور گھریلو فلموں کے حوالے سے شباب کیرانوی کا نام سرفہرست ہے جو خود ناول نگار بھی تھے، ان کے ناول بھی ان ہی موضوعات کے گرد گھومتے تھے جن میں سرفہرست لڑکیوں کی بے جا آزادی اور گھر کو نظرانداز کرنا ہے، انھوں نے بڑی اچھی اچھی فلمیں بنائیں، لیکن ان کے بعد یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ کسی حد تک حسن طارق نے بھی فلموں کے ذریعے سماج کے پوشیدہ گوشوں کو بے نقاب کیا۔ لاہور میں 1932 میں پیدا ہونے والے یش چوپڑا 22 اکتوبر 2012ء کو ممبئی کے لیلاوتی اسپتال میں جان کی بازی ہار گئے اور اپنے پیچھے بے شمار پرستاروں کواداس اور غمگین کر گئے۔

امیتابھ اور شاہ رخ خان کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچانے میں یش چوپڑا ہی کی محنت اور کوشش شامل ہے۔ پچاس سال سے زاید عرصے تک فلمی دنیا میں ایک کامیاب فلم ساز کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم رکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے جب کہ فلم انڈسٹری بڑی بے وفا ہوتی ہے۔ ایک دو فلموں کے بعد لوگوں کو کسی کا نام بھی یاد نہیں رہتا، لیکن یش چوپڑا کوئی معمولی آدمی نہیں تھے، بالکل دلیپ کمار کی طرح جن کی ایک دنیا آج بھی پرستار ہے۔ یش چوپڑا نے اپنی فلم کے گیت کے ذریعے جو پیغام دیا ہے وہی آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے کہ:

تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔