مڈل کلاس حکومت کی کامیابیاں و ناکامیاں

عابد میر  جمعرات 19 نومبر 2015
khanabadosh81@gmail.com

[email protected]

اب جب کہ ہمارے متوسط طبقے کے حکمرانوں کے اہلِ خانہ نے بھی ایوانِ اقتدار سے اپنا بوریا بستر سمیٹنا شروع کر دیا ہے اور بلوچستان میں اقتدار کی تبدیلی بہ ظاہر جلد یا بدیر پایہ تکمیل کو پہنچتی نظر آ رہی ہے تو بہتر ہو گا کہ اب ایک نظر صوبے کی اس مڈل کلاس حکومت کے ڈھائی سالہ دورِ حکومت پر بھی دوڑا لی جائے۔

ایوانِ اقتدار کے باسیوں کی تبدیلی اور ناتبدیلی سے قطع نظر، یہ معاملہ یوں بھی اہم ہے کہ موجودہ حکومت کو مبینہ مری معاہدے کی رو سے روزِ اول سے ہی اپنے دورِ اقتدار کا دورانیہ معلوم تھا، اس لیے کم از کم وقت کی قلت کا جواز تو بطور حجت کام میں نہیں لایا جا سکتا۔ سفر کے آغاز سے قبل ہی جب سواری کا تعین ہو جائے، تو زادِ راہ کا حساب اسی مناسبت سے طے کرنا ہی دانش مندی کہلاتا ہے۔

ہمارے ہاں عوامی پذیرائی کے لیے یکطرفہ رائے کا اعلان عمومی رویہ ہے، مثلاً ’موجودہ حکومت ناکام ہو چکی ہے‘ یا ’حکمرانوں کے ہاتھ عوام کے خون سے رنگے ہوئے ہیں‘ جیسے ہیجان انگیز فقرے لکھ کر بیک جنبش قلم اس حکومت کے ڈھائی سالہ عہد کو رد کر کے عوامی ہمدردی کمائی جا سکتی ہے، مگر انصاف کا تقاضا ہے کہ حکومت کی کامیابیوں اور ناکامیوں ہر دو کا تذکرہ کھلے دل سے کیا جائے، چہ جائیکہ کامیابیوں کا تناسب برائے نام ہی کیوں نہ ہو۔ جب کہ ہماری متوسط حکومت کا المیہ یہ ہے کہ اس کی نمایاں ناکامیاں تو اپنی جگہ، اس کی کامیابیاں بھی اکثر حتماً ناکامی کے کنارے جا پہنچیں۔ آیئے ایک مختصر تذکرے میں اس کا احوال دیکھتے ہیں۔

گزشتہ انتخابات میں کامیابی کے تناسب سے اقلیتی جماعت ہونے، نیز دھاندلی کے تمام تر الزامات کے باوجود، نیشنل پارٹی کی حکومت کا قیام ہی ان کی اولین اور بڑی کامیابی تھا۔ تمام تر اعتراضات اور اختلافات کے باوجود ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو اس صوبے کے ایک ایسے اولین وزیر اعلیٰ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا، جن کے شجرئہ نسب میں کہیں سرداری اور نوابی کا کوئی کلنک نہ تھا۔ اس لیے ان سے وابستہ توقعات اور امیدیں بے جا نہ تھیں۔

مگر ملاحظہ ہو، مڈل کلاس حکومت کی یہی اولین کامیابی ان کی سب سے بڑی ناکامی ثابت ہوئی۔ ٹھیٹھ سرداری انداز میں، مبینہ طور پر اولین سرکاری بھرتی وزیر اعلیٰ کے خاندان سے ہوئی۔ وزیر اعلیٰ ہی کے خاندان سے وابستہ بعض افراد وزیر اعلیٰ ہاؤس کے کرتا دھرتا بن گئے۔ آنے والے دنوں میں اس خاندان نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی۔ حتیٰ کہ تربت یونیورسٹی میں تقرریوں کے معاملے پر اقربا پروری کے خلاف ان کی اپنی ہی جماعت کی طلبہ تنظیم کے ذمے دار افراد نے جب احتجاج کیا تو جنرل سیکریٹری سمیت درجنوں طلبہ کو تنظیم سے خارج کر دیا گیا۔

آنے والے دنوں میں یہی حشر ہر مخلص نقاد‘ دوست کے ساتھ ہوتا رہا۔ حاشیہ برداروں اور خوشامدیوں کے وارے نیارے ہوتے رہے۔ مخلص سیاسی کارکن دیوار سے لگا دیے گئے۔ عوامی مسائل پسِ پشت ڈال دیے گئے، یوں محض دو برسوں میں مڈل کلاسیت کا نعرہ ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ حد تو یہ ہوئی کہ لوگ بلوچستان کا تماشا بنانے والے گزشتہ دورِ حکومت کو، اس سے بدرجہ ہا بہتر قرار دینے لگے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب بلوچستان کے عوام دوبارہ اسی سرداری جماعتوں اور افراد کے آپشن کی جانب رجوع کرنے لگے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ محض ناکامی نہیں بلکہ شرمندگی میں لپٹی افسوس ناک ناکامی ہو گی۔

ہماری متوسط حکومت کی دوسری بڑی کامیابی تعلیمی شعبے میں اٹھائے جانے والے ہنگامی اقدامات تھے۔ تعلیمی ایمرجنسی سمیت، مادری زبانوں کو تعلیمی اداروں میں رائج کرنے جیسے اقدامات قابلِ تحسین تھے، مگر المیہ دیکھیے کہ یہ سب بجائے کسی ٹھوس و منظم حکمتِ عملی کے اس قدر جلد بازی اور بنا کسی ہوم ورک کے کیا گیا کہ الٹا حکومت کے لیے رسوائی کا باعث بن کر رہ گیا۔ تعلیمی ایمرجنسی تو بس نام کی حد تک رہی، نقل کے خاتمے کے نام پر جو ہلڑ مچائی گئی اس کا نتیجہ ہم نے رواں برس میٹرک اور انٹر کے امتحانی نتائج کی صورت میں دیکھ لیا۔ پچاس فی صدی نتائج نے طلبہ کا مستقبل ہی داؤ پر لگا دیا۔

نقل کے خاتمے کے لیے پرائمری کی سطح پر بنیادی اقدامات اٹھائے بغیر محض امتحانات میں اس پر پابندی کا خیال ایسے ہی ہے جیسے کہ بیماری درخت کی جڑ میں ہو اور توجہ محض اس کی شاخوں کی تراش خراش پہ صرف کی جا رہی ہو۔ اسی طرح مادری زبانوں کا معاملہ بھی محض درسی کتب کی تشکیل و اشاعت تک ہی محدود رہا۔ کتابیں تو تعلیمی اداروں میں پہنچا دی گئیں، سوال یہ تھا کہ انھیں پڑھائے کون؟ سو‘ کروڑوں روپے کی کتابیں گوداموں کی نذر ہو گئیں۔

کچھ یہی حال بھرتیوں کے معاملے میں ہوا۔ حکومت نے شفافیت برقرار رکھنے کے لیے محکمہ تعلیم میں بھرتیوں کا عمل این ٹی ایس سے مشروط کر دیا۔ حالت یہ ہے کہ مہینوں گزر گئے، کوئی شہر کوئی ضلع ایسا نہیں، جہاں این ٹی ایس میں نمایاں نمبروں سے پاس ہونے والے امیدوار میرٹ کی پامالی پہ احتجاج نہ کر رہے ہوں۔ وسیع پیمانے پر ہونے والے اس احتجاج نے حکومت اور این ٹی ایس دونوں کی کارکردگی پہ سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

تیسری بڑی کامیابی اس حکومت کا ادبی میدان سر کرنا تھا۔ ہمارے وزیر اعلیٰ کا ادبی پس منظر اس ضمن میں اہم ثابت ہوا۔ انھوں نے ادبی اداروں اور ادیبوں کو جی بھر کر نوازا۔ سرکاری و نجی اکیڈمیوں کو زبردست فنڈنگ ہوئی۔ ہمارے ملک الشعرا گل خان نصیر کی صد سالہ تقریبات وسیع پیمانے پر منائی گئیں۔ سیکڑوں کتابوں کی اشاعت ہوئی۔ کئی بیوروکریٹ دانشوروں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور کتابوں کی اشاعت کے نام پر لاکھوں روپے بٹورے۔ مگر دوسری جانب المیہ دیکھیے، اسی حکومت کے عہد میں بلوچستان میں پہلی بار کتابوں کی دکانوں پر چھاپے پڑے۔

وہ عمومی کتابیں تک ضبط ہوئیں جو کبھی ہمارے مڈل کلاس وزیر اعلیٰ کی بھی شاید پسندیدہ کتب رہی ہوں۔ حتیٰ کہ اسکولوں پر حملے ہوئے، کئی اسکولوں کو بند کر دیا گیا۔ اس فائدے کے بطن سے ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہمارے لگ بھگ سبھی لکھنے والوں نے حکومت کی کارکردگی پر گویا چپ سادھ لی۔ دانشوروں نے جائز تنقید پر بھی کوئی ردِعمل نہ دکھایا۔ سو‘ حکومت کو آئینے دکھانے والا کوئی نہ رہا۔ ’سب اچھا ہے‘ کا راگ الاپنے والوں کی گویا چاندی ہو گئی۔

چوتھی بڑی کامیابی امن و امان کے معاملات پر قابو پانا تھا۔ یہ ابھی اتنی پرانی بات نہیں، کوئٹہ میں کوئی دن ایسا نہ جاتا تھا کہ کوئی ڈاکٹر اغوا نہ ہوتا ہو، کوئی صحافی قتل نہ ہوتا ہو، کوئی وکیل، کوئی تاجر نشانے پر نہ ہو۔ مڈل کلاس حکومت نے مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی سے لے کر اغوا برائے تاوان کے معاملات پر قابو پانے میں خاصی محنت کی۔ کوئٹہ کی حد تک تو اس کے اثرات بھی دیکھے گئے، لیکن اس کے برعکس بلوچستان میں عمومی عسکری کارروائیوں کی بجائے ایسے مخصوص ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیے گئے، جنھوں نے اُس جاری تحریک کو شدید دھچکا پہنچایا، جس کے نتیجے میں ہی بہرحال ایک مڈل کلاس قوم پرست کو عنانِ اقتدار سونپی گئی تھی۔

نیشنل ایکشن پلان تو بہت بعد کی بات ہے، بلوچستان میں اس سے پہلے ہی سخت گیر مؤقف کے حامل سیاسی کارکنوں کو ٹارگٹڈ آپریشن کے ذریعے ختم کرنے کی پالیسی شروع ہو چکی تھی۔ بی ایس او آزاد کے مرکزی جنرل سیکریٹری کے قتل سے لے کر، کئی کارکنوں کا اغوا اور قتل ہماری اسی مڈل کلاس حکومت کے عہد میں ہوا۔ مکران سے لے کر، جھالاوان، قلات اور بولان میں شدید آپریشن ہوئے مگر میڈیا میں مکمل طور پر بلیک آؤٹ رہا۔ امن و امان کی صورت حال یہ ہے کہ غروبِ آفتاب کے بعد کوئٹہ سے بولان کے راستے سرکاری طور پر گزشتہ دو برس سے سفر ممنوع ہے۔

آخری بڑی کامیابی جسے خود حکومت اور ان کے اتحادی و حامی اپنی سب سے بڑی کامیابی تصور کرتے ہیں، معروف اصطلاح میں ’ناراض بلوچ رہنماؤں‘ سے بات چیت کا آغاز ہے۔ حالانکہ یہ وہ پھندہ ہے جو اس حکومت کے گلے میں پڑ کر صوبے سے مڈل کلاس سیاست کا ہی گلا گھونٹ دے گا۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ بلوچستان کے اولین غیر سردار حکمران ہونے کا ’اعزاز‘ رکھنے والا وزیر اعلیٰ، صوبے کے طاقتور ترین سرداروں کو منانے کے لیے اُتاولا ہوا جا رہا ہے۔

ان کے لیے سیاسی ’اسپیس‘ پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو اپنے وجود کے سوا کسی کو ’اسپیس‘ دینے کے قائل ہی نہیں۔ وہ سردار اور نواب جنھوں نے ہمیشہ بلوچستان میں سیاست کو سیاسی عمل کو، جمہور کو، جمہوریت کو بے توقیر کیا۔ آج انھیں سیاست کے نام پر، سیاسی عمل کے نام پر، جمہور اور جمہوریت کے نام پر توقیر دی جا رہی ہے۔ بلوچستان کی سیاست میں قبائلی سرداروں کی واپسی اور ان کا عروج، مڈل کلاس سیاست کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔ سب سے بڑی کامیابی گنی جانے والی یہ وہ ناکامی ہے جو مڈل کلاس سیاست کی تمام تر کامیابیوں پہ لکیر پھیرنے اور ملیامیٹ کرنے کو کافی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔